Lust–50–ہوس قسط نمبر

ہوس

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی سٹوری ۔۔ہوس ۔۔

نامساعد حالات میں جینے والے نوجوان کی کہانی۔ بے لگام جذبوں اور معاشرے کی ننگی سچائیاں۔   نیا سیکسی سلسلہ وار ناول

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس قسط نمبر - 50

میں نے البم دکھا دیئے اور کہا کہ جو پسند ہو اس کا نمبر لکھوادیں، کل تک مل جائے گا۔

انھوں نے چار پانچ منتخب کیے اور چلی گئیں۔ ایڈوانس کے سو روپے لے کر میں نے نمبر نوٹ کر لیے۔

میں کام سمیٹ کر نکلا اور بازار چلا گیا۔ مجھے میکلور ڈروڈ جانا تھا۔ کام بڑھنے کی وجہ سے مجھے ایک موٹر سائیکل کی اشد ضرورت تھی۔ اس لیے میں نے موٹر سائیکل خریدنا ضروری سمجھا۔

گھوم پھر کر ڈھونڈنے سے ایک وے سی سی موٹر سائیکل مجھے میں ہزار میں مل گئی۔

تھا۔ ان مہینوں کی کل بچت یا تو یہ میں ہزار تھے یاد کان میں لگا سرمایہ تھا۔

کون سوچ سکتا تھا کہ سولہ سترہ سال کا ایک بچہ اتنی کامیابی سے قحبہ خانہ چلا سکتا ہے۔

پچاس کا آرڈر ایک ہی دن میں پورا کر کے دے دیا تو اس نے ہمیں پانچ سو کا آرڈر کا دو سو کا کپڑا دے دیا۔ باقی پانجاموں کا کپڑا ہم نے بازار سے پتا کر وایا تو وہ ہمیں ۵۴۰۰ میں پڑا ، پچاس روپے رکشے کے لگ گئے اور ایک آدھ پائجامے کا کپڑا بھی زائد نکلا۔

یوں ہم نے جو سوچا تھا کہ فی پائجامے پر ۲۰ روپے خرچ ہوں گے وہاں خود سے کپڑا لینے پر ۱۸- ۵ روپے لگ گئے۔ ڈیڑھ روپیہ یہاں سے بھی بچ گیا۔ دھاگے بھی پندرہ سو میں اکٹھے خرید لیے گئے۔ چار ہزار میں ایک نئے مشین بھی خرید نا پڑی تاکہ ماسی چھیمو اپنی سلائی الگ الگ کر سکے۔ اس کمائی میں پٹرول کا خرچ بھی ایک روپیہ فی پانجامہ شامل کیا گیا کیونکہ آنے جانے میں بھی پیسے لگتے تھے۔

شمائلہ اگلے دن سے آنے لگ گئی۔ میں نے دوسرے دن شام میں اسے اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ شبانہ کے کمرے میں آگئی۔ میں نے اسے دو نئے برا، ایک پینٹی اور ہیر ریمونگ کریم کے دو ٹیوب دیں اور کہا: یہ چیزیں لے جاؤ اور کل سے ذرا بہتر حلیے میں

آیا کرو۔ نہا دھو کر صاف ستھری حالت میں آنا۔

اس نے خاموشی سے شاپر تھام لیا۔ اس کا ایک بھائی اسے لینے آیا یہ شاید وہی تھا جو کسی ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ وہ یہی دیکھنے آیا ہو گا کہ بہن کسی جگہ سے سو روپے روزانہ کے کما کر لا رہی ہے۔ اس نے ہماری دکان دیکھی اور وہ گھر یلو قسم کی فیکٹری جیسی جگہ دیکھی جہاں تین مشینوں پر دھڑا دھڑا پائجامے سے جارہے تھے ۔ وہ خاصا مطمئن ہو گیا۔

دو چار دن تو اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے ، مجھے فلیٹ پر جانے کا تو دور سر کھانے کی فرصت نہ ملی۔

میں ایک شام کاؤنٹر پر ہی کھڑ ا تھا کہ فرزانہ آگئی۔ اس نے ایک دو کریمیں اور لوشن خریدے، راز داری سے دھیمی آواز میں بولی : وہ کام اس بار تو بنا نہیں ہے۔

میں بولا : چلو کوئی بات نہیں باجی ۔ اگلی بار سہی۔ اس بار تم تب بتانا جب ایام قریب ہوں۔ ان دنوں میں چانس بڑھ جاتے ہیں۔

وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی: ہائے ہائے۔۔ تجھے کتنا پیتا ہے ایسی گندی باتوں کا۔۔

میں بولا : او اس میں گندی بات کونسی ہے۔ یہ تو ایک قدرتی بات ہے اور تم کونسا کنواری کلی ہو جس کا ایسی باتوں سے اخلاق خراب ہو جائے گا۔ شادی شدہ اور شوہر والی ہو ، یہ تو روز مرہ کی باتیں ہیں جو تم عورتیں ہر ملاقات اور بیٹھک میں پورے محلے کے متعلق کرتی ہو۔

وہ چپ ہو گئی اور بولی: اچھا چل اب جب ہو گا تو میں بتاؤں گی۔

میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ چلی گئی تو مجھے بھی یاد آیا کہ ثوبیہ سے ڈیٹ فکس تھی مگر دکان کے کام کی وجہ سے وہ وقت ہی نکل گیا تھا۔ میں نے شبانہ کے سکول سے لوٹ آنے پر دکان اس کے حوالے کی اور خود موٹر سائیکل لے کر فلیٹ کی طرف گیا۔ مجھے اکیڈمی کے پاس ہی تینوں شیطان ایک ساتھ ہی مل گئے۔ فرہاد ، کامران اور عادل شبانہ کے ریپ کے بعد آج ایک ساتھ دکھے تھے۔ اس بات کو دو مہینے ہو گئے تھے ، سواب وہ واقعہ ان کے لیے خوف کی علامت نہیں رہا تھا۔ میں ان میں سے دو کو تو بعد میں بھی فیض یاب کر چکا تھا مگر عادل کے ساتھ یہ میرا دوسراٹا کر اتھا۔

وہ مجھے روک کر بولے: یار ! کدھر ہوتا ہے پورا ایک ہفتہ ہو گیا ہے تجھے ڈھونڈتے ہوئے۔ وہ مکان بھی بدل لیا تو نے اور نئے فلیٹ پر بھی تالا تھا۔ میں بولا : بس ایک جگہ نوکری کا سلسلہ چلا ہوا ہے تو وہاں ٹائم سے آنا جانا پڑتا ہے۔

کامران بولا : یار ! یہ عادل کہہ رہا ہے کہ کسی بچی کا انتظام کر۔

میں بولا : بچی کا انتظام تو ہو جائے گا مگر تم لوگ جانتے ہو کہ بچی چودنا آسان ہے بعد کی پریشانیاں بڑی مشکل ہوتی ہیں۔

عادل بولا : جانتے ہیں یار ، مگر یہ بھی پتا ہے کہ تو سب سنبھال سکتا ہے۔

میں بولا : خیر ، بولو۔۔ کیا چاہیے۔

عادل بولا : نادیہ کو بلوالے۔

نادیہ یعنی شبانہ میں بولا : نہیں یار ۔۔ اب وہ نہیں ماننے کی ، پچھلی بار بھی تم لوگوں نے اس کا گینگ ریپ کیا اور وہ مجھے اس دن سے دھمکیاں دیتی ہے کہ پولیس کو بتادے گی۔ میں نے اسے یہ تو نہیں بتایا کہ اسے چودا تم لوگوں نے ہے مگر ظاہر ہے اسے شک تو ہوا ہے کہ ایک سے زیادہ لوگوں نے یہ کام کیا ہو گا۔

فراد بولا: اچھایا کچھ تو کر بہن چود پھدی کامنہ دیکھے مینوں ہو گئے ہیں۔

میں جب بھی اس کے منہ سے پھدی کا لفظ سنتا تھا مجھے اس کی بہن نیلو فر کی پھدی یاد آجاتی تھی۔

میں نے گہری سانس لی اور بولا : اوکے ۔۔ کس ٹائپ کی کا انتظام کروں ؟

کامران بولا: کوئی پیاری سی چھوٹی بچی لے آ۔ اٹھارہ انیس سال کی۔۔

میں بولا : تا کہ تم لوگ اس بچی کی پھاڑ دو اور میں ٹانکے لگواتا پھروں۔

اس پر عادل بولا : چل پھر کوئی لڑکی لے آ، نادیہ ٹائپ ہی ہو جائے جو لن سہہ سکے ہمارے۔

میں بولا : مگر تم تین بندوں سے چدوائے گی کون؟

فرہاد بولا : تو ہم پہلے کی طرح اس کا ریپ کر دیں گے۔

ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں آیا کہ کیوں نہ میں فریحہ کاریپ ان سے کروا دون، پھر سوچا کہ اس میں رسک ہے کیونکہ فریحہ فرہاد کی پڑوسن اور بچپن کی جاننے والی ہے۔ اس کا ان کے گھر خوب آنا جانا ہے، یہ بات کھل گئی تو معاملہ گڑ بڑ ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی یہ بات کھلی کہ فریحہ کا ریپ نیلو فر نے کروایا ہے تو یہ بھی کھل جائے گی میں نے اور کامران نے نیلوفر کو بھی چودا ہوا ہے۔ بات سے بات نکل کر سنگین مسلئہ پیدا کر سکتی ہے۔

بالاخر میں نے شمائلہ کو چدوانے کا ارادہ بنالیا۔

میں بولا : ٹھیک ہے کل شام میں پانچ بجے تم لوگ میرے فلیٹ پر پہنچ جانا، وہاں میں اپنی ایک کزن کو بہلا پھسلا کر لاؤں گا، آگے تم سنبھال لینا۔ مگر یادر ہے کہ لڑکی زخمی یا گھائل نہ ہونے پائے ورنہ بات چھپی نہیں رہے گی اور معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید کہانیوں کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page