جادوں کا چراغ رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان سہتا رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
قسط نمبر 02
کیا حکم ہے میرے اقا جب میں نے اواز کی جانب دیکھنا شروع کیا تو میرے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی ۔۔ پورے ماحول میں ایک عجیب سی نیلے رنگ کی روشنی پھیلنا شروع ہو گئی تھی ۔۔جس نے اپنے ارد گرد بہت سی چیزوں کو لپیٹ میں لے لیا۔۔دیکھتے ہی دیکھتے وووہ روشنی ایک عورت کی روپ میں ڈھلنا شروع ہو گئی تھی ۔۔اس آواز کا محور کوئی اور نہیں بلکہ وہی نیلی روشنی sسے نکلی عورت تھی ۔۔۔ حکم ہے میرے اقا یہ جب میں نے سنی تو میں شدید حیران ہوا یہ اواز ایک عورت کی تھی جور جب میں نے اواز کا تعاقب کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک دیو ہیکل جسامت لیے ایک جنی کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی
مجھے لگا کہ پانی میں جانے کی وجہ سے شاید میں واقع ہی مر گیا ہوں اور میں اسمان پر ہوں اور یہ کوئی جن ہے جو مجھے ابھی دوزخ کے اندر لے کر جائے گا اور وہاں پر میرے پکوڑے بنائے جائیں گے میں یہی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ایا اور مجھے ٹھنڈک کا احساس ہوا کیونکہ میرے کپڑے گیلے تھے پانی میں جانے کی وجہ سے تو میری سوچ ٹوٹی اور میں نے سامنے دیکھا
یہاں میں اپ لوگوں کو ایک بات بتاتا چلوں جو بات میں نے اپنے استاد سے سیکھی تھی
میرے استاد ارمان خان وہ خود رائٹنگ کی دنیا میں ایک جانے مانے شخص ہیں ارمان صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ جو جن کی مونث ہوتی ہے اسے جنی کہا جاتا ہے تو تھینک یو ارمان صاحب کہ اپ نے میری اتنی حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے میں نے لکھنے کا حوصلہ کیا اپ ہی وہ شخص ہیں کہ اپ کی وجہ سے میں نے دوبارہ سے لکھنا شروع کیا اور اس وقت میری تین سے چار سٹوریز چل رہی ہیں تو دوبارہ چلتے ہیں سٹوری کی طرف
جب میں نے اس جنی کو دیکھا تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور میں کافی حیران اسے دیکھ رہا تھا سفید دودھ جیسا رنگ اور اس کے سنہری بال سر پہ چھوٹے چھوٹے دو سینگ بھی تھے اور اس کی انکھیں جھیل سی گہری اور خوبصورت انکھیں شاید ہی ایسی انکھیں کبھی میں نے اپنی زندگی میں دیکھی ہوں اس قدر خوبصورت انکھیں کہ انسان کا ان انکھوں میں ڈوب جانے کو دل کرے
انکھوں کے بعد اس کے بھرے بھرے سفید گال جو کشمیری سیب کی طرح ہلکے سرخ سرخ نظر ارہے تھے اگر وہ جینی نہ ہوتی تو یقینا جو میرے حالات تھے میں اس پہ جھپٹ پڑتا اور یقینا ان گالوں پہ میں اپنے دانت ضرور کاٹتا اس کے بعد اس کے ہونٹوں کو دیکھ کر تو میں اور بھی حیران ہوا اس قدر خوبصورت اور تراشے ہوئے لب تھے اس کے شہد سے بھرے لب اور ان کے اوپر سرخ رنگ کی لپسٹک لگی ہوئی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کا دل ان ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لینے کا چاہے سراہی دار گردن کے نیچے ایک تباہی خیز منظر ہمارا منتظر تھا جب میں نے دیکھا تو اس کے جسم پر قمیض نہیں برا کی طرح کا ایک عجیب سا ڈریس تھا جیسا ڈریس اکثر عربی خواتین پرانے وقتوں کی پہنا کرتی تھی جس میں سے اس کے ممی بہت واضح نظر ارہے تھے اگر دیکھا جائے تو وہ کپڑے صرف اس کی نپس کو چھپا رہے تھے جبکہ اس کا پورے منہ میں ننگے تھے اور کیا ہی سفید رنگ تھا کہ اس کے مموں کے اندر سے اس کے جسم کی خون کی رگیں تقوازیں نظر ارہی تھیں جس نے میری شلوار میں اس قدر حرف چل مچا دی کہ میں اس سکتے کی حالت میں بھی میرا لنڈ ایک ڈنڈے کی طرح کھڑا تھا جو میں بھی بسی کی حالت میں اسے کبھی چھوتا کبھی چھوڑتا اس کے بعد جب میری نیچے نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کیا ہی خوبصورت پتلی کمر اور اس پتلی کمر میں بھی سامنے سے نہ کے برابر اس کا پیٹ تھا اور اس کی پیٹ میں ایک رنگ ڈلی ہوئی تھی اور اس رنگ میں ایک موتی تھا اور اس موتی کو دیکھ کے میرا دل کیا کہ کاش یہ مجھے میسر ہوتی تو میں اس موتی کو ساری رات چومتا اور اس کی ناف میں ساری رات زبان مارتا تب بھی میرا دل اس سے نہ بھرتا وہ تھی ہی اس قدر خوبصورت کہ اس کے بارے میں جتنا لکھا جائے اتنا ہی کم اور جب اس سے نیچے میری نظر گئی تو کیا ہی خوبصورت اس کہ کولے تھے جو اپنے اپ میں قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے اور نیچے اس کا جسم نہ تھا وہاں سے صرف ایک نیلی روشنی نکل رہی تھی جو اس گلدان تک جا رہی تھی جو گلدان میں نے ڈر کے پھینک دیا تھا جب اس میں سے نیلی روشنی نکلنا شروع ہوئی تھی
جنہیں مجھے اس قدر حیران پریشان دیکھ کر میرے قریب ائی اور جب وہ میرے قریب ائی تو میں ڈر کے مارے کانپنے لگا کیونکہ وہ تھی تو ایک جن ہی
جنی : اپ ہیں میرے اقا میرے پچھلے اقا کے حساب سے تو اپ بڑے چھوٹے نظر اتے ہیں وہ تو ایک بہت بڑا ادمی تھا لیکن اپ تو ایک بچے نظر ا رہے ہیں ہاں وہ تھوڑا کالا تھا لیکن اب گورے چٹے اور پپو سے بچے ہیں
جنی کی بات سن کے میں حیران ہوا اور میں نے اس سے مخاطب کیا اور اس سے کہا کہ تم ہو کون اور تم کیوں ہو یہاں پہ اور تم مجھے کھا تو نہیں جاؤ گی میری بات سن کر وہ زور سے ہنسی اور اس نے مجھے کہا
جنی : نہیں نہیں اپ تو میرے اقا ہیں پورے5000 سال کے بعد میں اس بوتل میں سے نکل پائی ہوں اگر اپ کو ہی کھا جاؤں گی تو میرا نام اقا رہے گا اور نہ میرا کوئی وجود اپ کو کیسے کھاؤں بلکہ اب تو اپ کی حفاظت بھی میری ہی ذمہ داری ہے اپ کا اپ کیوں ایسی باتیں کرتے ہیں
مجھے اس کی عبارت کو سن کر ایک اور حیرت کا جھٹکا لگا اور میرا بالکل اس پر یقین کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اس سے ایک اور سوال کیا کیا واقعی ممکن ہے کہ تم پانچ ہزار سال تک ایک بوتل میں رہی ہو
جنی : بالکل ممکن ہے میں اپ کے سامنے زندہ مثال ہوں اپ ہی میرے نئے مالک ہیں اپ ہی میرے اقا ہیں میں اپ کی غلام ہوں میں اپ کی تابعدار ہوں جو اپ کہیں گے وہ میں کروں گی
جنی یہ بات کرتے ہوئے مزید اگے بڑھی تو میرا رونٹے کھڑے ہو گئے اور میں نے اس سے کہا کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم میرے جتنی ہو جاؤ تم ایک انسان کی شکل لے لو تاکہ جب ہم بات کریں تو اس پاس کے لوگوں کو شک نہ ہوں کہ کیا ہو رہا ہے یہاں
جنی : جو حکم میرے اقا
اور دیکھتے ہی دیکھتے جمی کا وجود چھوٹا ہونا شروع ہو گیا اور وہ ایک خوبصورت لڑکی کے روپ میں اگئی اور اب اس کے نیچے دھواں نہیں تھا اس کے نیچے خوبصورت پتلی پتلی ٹانگیں تھی جن کو جالی کی شلوار میں ڈھانپا گیا تھا شلوار کہنا بھی غلط ہوگا ایک انڈرویئر اور اس کے اوپر جالی جو صرف اس کے مخصوص اعضا کو چھپا رہی تھی باقی اس کی رانی پورے اب و تاب کے ساتھ اپنا جوبن بکھیرے ہوئے تھی اس نے اپنا روپ بدلا اور وہ پھر سے مجھ سے مخاطب ہوئی اور اس نے مجھے کہا
جنی : اب ٹھیک ہے میرے اقا اپ نے مجھے اپنا پہلا حکم دیا مجھے بہت اچھا لگا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اپ مان رہے ہیں کہ میں اپ کی غلام ہوں میں اپ کی نوکر ہوں اور ایک اور بات اقا میں اپ کو بتانا چاہتی ہوں اپ اس بوتل کے مالک ہیں اور اس بوتل سے نکلی ہوئی جنی اپ کی غلام ہیں صرف اپ ہی اس دنیا کے واحد وہ شخص ہوں گے جو مجھے دیکھ پائیں گے اپ کے علاوہ نہ کوئی مجھے دیکھ سکتا ہے نہ کوئی مجھے محسوس کر سکتا ہے
اس کی باتیں سن کے مجھے خوشی ہوئی کہ یہ دنیا کی ایک واحد شخصیت ہے جو مجھے اقا کہہ کر بلا رہی ہے اور شاید ہی یہ دنیا کی پہلی شخصیت بھی ہو جو مجھ سے اتنے پیار اور ادب سے پیش ا رہی تھی نہیں تو اپ سب پہلے پڑھ ہی چکے ہیں کہ میرے ساتھ اس زمانے میں کیا کیا سلوک ہوتے رہے ہیں
میں اس سے مزید مخاطب ہوا میں نے کہا ہاں اب ٹھیک ہے اب تم سے بات کی جا سکتی ہے جو ایک چیز اس کے جسم میں بہت خوبصورت ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ اب اس کے سر سے سینگ غائب ہو چکے تھے اور اب وہ جننی کی جگہ مکمل ایک عورت کے روپ میں موجود تھی اور اس کا بھرپور جوبن دے کر میرا لنڈ میری شلوار میں تنا ہوا تھا میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے چلو مان لیتے ہیں کہ تم جن ہو اور تم پانچ ہزار سال سے اس بوتل میں رہی ہو لیکن مجھے تم پر یقین نہیں ہے کہ تم کوئی کام کر بھی سکتی ہو یا نہیں
جنی : اپ حکم کریں اور اپ کے ہر حکم کی تعمیل ہوگی اگر میں اپ کا حکم پورا نہ کر پائی تو اپ تلوار سے میرا سر قلم کر دیجئے گا
میں زور سے ہنسا اور میں نے کہا کہ اج تک لنڈ پکڑنے کے علاوہ میں نے دنیا میں اور کوئی ہتھیار نہیں پکڑا اور میری بات سن کر جنی بھی مسکرا دی
اور جب وہ مسکرائی تو اس کے سفید موتیوں جیسے دانت مجھے بہت دلکش لگے اور میں نے مزید اس سے بات کرتے ہوئے کہا چلو ٹھیک ہے ازماتے ہیں تو میں بھی یہ تم دیکھ رہی ہو کہ میرے گھٹنوں پر چوٹ کے نشان ہیں جن کی وجہ سے اس وقت میں شدید درد کی حالت میں ہوں اگر تم واقعی ہی کارامد ہو یا جن ہوں تو چلو تمہارا پہلا ٹیسٹ یہ ہے کہ میرے گھٹنوں کی چوٹ کو ٹھیک کرو
جنی : جو حکم میرے اقا
اس کا یہ کہنا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے ایک سبز رنگ کی روشنی نکلی اور اس روشنی نے میرے گھٹنوں کو لپیٹ لیا مجھے اپنے جسم میں عجیب سی حرارت محسوس ہونے لگی وہ احساس محسوس ہونے لگا جو میں نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا اور تین سے پانچ سیکنڈ کے وقت کے بعد ہی جب اس روشنی کا اثر ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے گھٹنوں پر نہ ہی کوئی خون کا نشان تھا اور نہ ہی کوئی چوٹ اور نہ ہی اب مجھے کوئی درد محسوس ہو رہی تھی اور حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا اور میری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جو ہم کہانیوں میں پڑھتے ائے تھے اج وہ میری زندگی میں ہو رہا تھا
میں خوشی سے اچھلا اور اپنی درد ختم ہونے پر مجھے شدید خوشی ہو رہی تھی اور میں ہنس رہا تھا اور خوش تھا کیونکہ اج میرے پاس دنیا کی وہ طاقت تھی کہ میرے ساتھ جو جو ظلم ہوئے تھے میں اس اس کو اپنے قدموں پر جھکا سکتا تھا ابھی میری خوشی جاری ہی تھی کہ میرے پیٹ میں گڑ گڑ کی اواز ائی تو مجھے محسوس ہوا کہ ارے شانی بیٹا تم تو صبح سے بھوکے ہو
میں نے جینی سے کہا جنی کیا تم میرے یہاں پر کھانا لا سکتی ہو
جنی : کیا کھائیں گے میرے اقا حکم کیجئے
میں نے کہا کچھ بھی جس سے میں اپنا پیٹ بھر سکوں ایسا کرو میرا دال چاول کھانے کا موڈ ہے کیا وہ مجھے مل سکتے ہیں غریب ادمی کی سوچ ہمیشہ دال چاول پر ہی ختم ہو جاتی ہے میں بھول رہا تھا کہ میرے پاس دنیا کی وہ طاقت ہے کہ اس وقت میں کچھ بھی کھانا چاہتا تو وہ مجھے مل جاتی لیکن ابھی تک مجھے ان سب باتوں کی عادت نہ تھی میری بات سن کر جینی نے کہا
جنی : جو حکم میرے اقا
اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ہاتھوں سے پھر سے ایک سبز روشنی نکلی اور میرے سامنے گرم گرم دال چاولوں کی ایک پلیٹ حاضر ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ اس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا اور اس کی خوشبو نے میری بھوک میں مزید اضافہ کر دیا
میں نے اپنے ذہن سے سارے خیالات کو ترک کیا اور اپنے کھانے کے ساتھ انصاف کرنے لگا اصل عزیز کھانا میں نے اپنی زندگی میں نہیں کھایا تھا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں نے چینی سے کہا کہ جنی چلو چلتے ہیں ابھی گھر جانا چاہیے وقت کافی زیادہ ہو چکا ہے اور جنی چپ چاپ میرے ساتھ چلنے لگی ابھی ہم دو ہی گلیاں گزرے تھے کہ میں نے سوچا کہ ابا اس وقت شراب پی کر ایا ہوگا اور ابے کو اماں نے سب کچھ بتا دیا ہوگا رب مجھے ابے سے مار کھانی پڑے گی دماغ میں یہ خیال اتے ہی میں نے گھر کی طرف جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور میں نے راستہ بدل لیا اور اپنے اس دوست کی طرف جانے لگا جو میرے سکھ دکھ کا ایک اکلوتا اور واحد ساتھی تھا
ابھی ہم نے دو ہی گلیاں پارکنگ تھیں کہ سامنے سے مجھے شیرہ موٹر سائیکل پر اتا ہوا دکھائی دیا
اور اس کو دیکھتے ہی میرا جسم غصے سے تھر تھر کانپنے لگا اور غصہ میری رگوں میں خون کی شکل میں ابلنے لگا اور اس کو دیکھ کر میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں اس کو یہیں قتل کر دوں میری یہ حالت جب جن نے دیکھی تو اس نے مزید اپنے جسم کو چھوٹا کر لیا اور وہ مزید چھوٹی ہوتی چلی گئی اور ا کر میرے کندھے پر بیٹھی اور اس نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے میری انکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئی اور جو جو واقعات میرے ساتھ ہوئے تھے وہ سب میری انکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے شروع ہو گئے جو اذیتیں میں نے صحیح تھی جو درد میں نے اٹھائے تھے وہ مجھے اپنے جسم میں ایک دفعہ پھر محسوس ہونے لگے
جنی نے اپنی انکھیں کھولی اور اس نے اپنا ہاتھ میرے سر سے اٹھایا تو میرے انکھیں بھی خود بخود کھل گئیں اور میری انکھیں اس وقت نم تھی کیونکہ جو اذیتیں اور جو درد میں سہ چکا تھا وہ ناقابل برداشت تھے
اپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیا ہوا تھا یا سٹوری تو وہاں تک پہنچی ہی نہیں تو اگر اپ جاننا چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا تو اس کے لیے اپ کو ایک سال پیچھے جانا پڑے گا تو چلتے ہیں اسی دن پر جس دن کا یہ واقعہ ہے کہ اس دن اصل میں ہوا کیا تھا
ایک سال پہلے
یہ بھی عام دنوں کی طرح ایک عام دن تھا لیکن اس دن میں خاص بات یہ تھی کہ اج گرمی اپنے عام معمول سے بہت زیادہ تھی میں ہمیشہ کی طرح اپنی ماں اور بہنوں کی جاسوسی کرتا ہوا چھت پر کھڑا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ میری بہنیں کسی اباش لڑکے کے سامنے ڈپٹہ اتار رہی ہیں اور میری ماں اندر اج ایک نئے مرد کے ساتھ لیٹی اپنی ٹانگیں پھیلائے اہیں بھر رہی تھی گرمی برداشت سے باہر تھی اور میں گرمی برداشت نہ کر پایا تو میں نے سوچا کہ ان کا تو حال ہی یہی ہے چلو چلتے ہیں اور ٹوکن کی گیم پہ جا کر کچھ دیر وہاں پر وقت گزارتے ہیں تب تک سکول کی چھٹی کا ٹائم بھی ہو جائے گا اور واپس گھر ا جاؤں گا میں یہ سوچ گھر سے نکلا اور اہستہ اہستہ چلتا ہوا دو گلیاں گزرا ہی تھا کہ سامنے سے مجھے شیرا اپنی موٹر سائیکل پر اتا ہوا نظر ایا اور اس نے اپنی موٹر سائیکل کو میرے پاس روکا اور مجھے ایک غلیظ گالی دیتے ہوئے کہا
شیرا : ہاں اوئے گشتی کے بچے کہاں جا رہا ہے تیری ماں کی پھدی تو بڑی لذیذ ہے اسی پھدی میں سے تو نکلا ہے یقینا تو بھی بڑا نمکین ہوگا کہاں جا رہا ہے بے تو
میں جانتا تھا کہ شیر اس علاقے کا ایک غنڈا ہے اور اس نے بہت سارے بچوں اور بچیوں کا ریپ بھی کیا ہوا ہے لیکن سیاسی شخصیات کا ہاتھ ہونے کی وجہ سے کوئی اسے کچھ نہیں کہتا تھا یہاں تک کہ پولیس بھی اس سے ڈرتی تھی اس لیے کسی کی کیا مجال کہ کوئی اسے کچھ کہے
مہینے ڈرتے ڈرتے کہا شیرا بھائی میں دکان پر جا رہا ہوں گیم کھیلنے میں نے یہ کہا ہی تھا کہ اس نے مجھے اپنے قریب کھینچا اور پینٹ میں سے میرے کولوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں زور سے مسئلہ اور تکلیف سے میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور اس نے مجھے کہا چل بیٹھ موٹرسائیکل پر تیرے ساتھ کام ہے
میں نہ چاہتا ہوں ابھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور وہ مجھے اپنے ڈیرے کی طرف لے گیا جب میں ڈیرے پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں پر اور کوئی موجود نہ تھا وہ مجھے اندر لے گیا اور اس نے مجھے کہا کہ چل اپنے کپڑے اتار اس کا یہ کہنا تھا کہ میرے جسم میں سے جان نکل گئی
جب میں۔ کچھ دیر اپنی جگہ سے نہ ہلا تو اس کی انکھوں میں خون اتر ایا اور اس نے اپنی پینٹ کا بیلٹ نکالا اور میری طرف گھمایا جو میری کمر پر ا کر لگا اور میری درد کے مارے چیخ نکل گئی اور اس نے مزید کہا کہ سیدھی طرح سے کرتا ہے یا اور ماروں میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی شرٹ اور پینٹ دونوں اتار دی اور اس کے سامنے الف ننگا ہو کر کھڑا ہو گیا اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اہستہ اہستہ اپنے کپڑے بھی اتارنا شروع کر دیا اور وہ میرے پاس ایا اور میرے بالوں میں انگلیاں پھرتے ہوئے اپنے خرد رحات کو میرے نازک سے چہرے پر لایا اور اس کو رگڑتا ہوا اپنے انگوٹھے سے میرے ہونٹوں کو مسئلہ اور مجھے پھر ایک دفعہ شدید تکلیف کا احساس ہوا اور اس نے اہستہ سے جھک کر میرے گال پر اپنے دانتوں سے کاٹا اور میرے کان میں کہا کہ واہ اپنی ماں کی طرح ہی خوبصورت جسم ہے تیرا کب سے کہہ رہا ہوں تیری ماں کو کہ تیری بڑی بہن انم کو لے ا میرے بستر پر مانتی ہی نہیں ہے بولتی ہے ابھی بچی ہے بچی کہاں اس کہ بڑے بڑے تھن نظر نہیں اتے تم لوگوں کو اور باہر کو نکلی ہوئی گاند
اس کا رویہ ایک طرف اور اس کے الفاظ میری روح کو چھنی کر رہے تھے اور میری انکھوں سے انسو جاری ہو گئے اور اس نے مجھے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کیا جب میں نیچے نہ ہوا تو اس نے میرے منہ پر ایک زوردار چانٹا مارا اور مجھے گالی دیتے ہوئے کہا
شیرا : بہن چود اگلی دفعہ بیلٹ سے ماروں گا جو کہتا ہوں کر
میں چپ چاپ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا کیونکہ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اخر پورا ایک سال ہو گیا تھا مجھے اپنی ماں اور بہنوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے کالے بدصورت سے لنڈ کو پہلے میرے گالوں پہ رگڑا اور اس کے بعد اس کو میرے ماتھے پہ اور اہستہ اہستہ وہ لنڈ میرے ناک کے پاس لایا اور اس سے اس قسم کی گھٹیا بو ا رہی تھی کہ میں نے بہت مشکل سے اپنی الٹی روکی پھر اس نے اپنے لنڈ کو میرے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کیا اور میرے کان کو زور سے کھینچتے ہوئے بولا منہ کھول حرامی میں نے منہ کھولا اس نے میرے کان کو اتنی زور سے کھینچا کہ اس میں سے خون نکلنا شروع ہوا تو میں چیخا اور جب میں چیخا تو اس کی وجہ سے میرا منہ کھلا اور اس نے اپنا کالا لنڈ میرے منہ میں گھسا دیا
میری انکھوں سے انسو جاری تھے اور اس نیم اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کے بالوں کو پکڑا اور میرے منہ کو چودنا شروع کر دیا اس کا لنڈ مجھے اپنی حلق میں محسوس ہوا اور مجھے لگا کہ شاید میں ابھی مر جاؤں گا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ میں اس اذیت کو بھی برداشت کر گیا اور ایک دفعہ بچ گیا
شیرا : بالکل اناڑی ہے بیتو لنڈ بھی چوسنا نہیں اتا گانڈو تجھے چل جا بستر پر الٹا لیٹ جا کتا
میں بغیر کوئی چون چراں کیے جا کے بستر پر الٹا لیٹ گیا میں اس وقت شدید درد اور کرب کی حالت میں تھا میری انکھوں سے انسو جاری تھے مجھے اپنے گلے میں شدید درد محسوس ہو رہی تھی اور میرے کان سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور میری انکھوں سے مسلسل انسو بھی جاری تھے مجھے اپنی قسمت پر اور اپنے حالات پر اس وقت شدید رونا ا رہا تھا لیکن جیسا میں نے کہا کہ غریب ہمیشہ امیروں کے دباؤ میں ا جاتا ہے اج وہ میری زندگی پر بھی واقعہ ہو گیا تھا۔۔۔۔
جاری ہے
مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.
-
Magical Lamp – 19- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 18- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 17- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 16- جادو کا چراغ
January 13, 2025 -
Magical Lamp – 15- جادو کا چراغ
January 12, 2025 -
Magical Lamp – 14- جادو کا چراغ
January 12, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
