جادوں کا چراغ رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان سہتا رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔
-
Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –225–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025
قسط نمبر 03
درد اور کرب کو برداشت کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کے مجھے اپنی گانڈ پر شدید جلن اور درد کا احساس ہوا اور کمرے میں ایک اواز گونجی چٹاخ ۔۔۔۔۔۔۔
شیرے نے اپنے بھاری بھرکم ہاتھ سے میرے کولوں پر ایک زور دار چماٹ رسید کی تھی۔۔ جس سے میرے درد اور کرب میں مزید اضافہ ہو گیا تھا اور میں تڑپ رہا تھا
میں نے روتے ہوئے اس سے کہا کہ شیرے بھائی پلیز مجھے ماریں تو مت جو اپ کہیں گے میں کر رہا ہوں ۔۔
میری بات سن کر اسے مزید غصہ ایا اور اس نے میری گاند پر پانچ چھ اور تھپڑ رسید کر دیں جس سے میرے درد میں مزید اضافہ ہو گیا اور وہ بولا
شیرا : چپ گانڈو بہن چود میرے اگے زبان چلاتا ہے
میں نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا اور دوبارہ سے اپنا منہ گدے میں چھپا کر رونا شروع ہو گیا اب منظر تبدیل ہو چکا تھا اب وہ مجھے مار نہیں رہا تھا لیکن وہ میری گاند کو مسلسل زور زور سے مسل رہا تھا جس سے مجھے اور زیادہ تکلیف ہو رہی تھی وہ میری گاند کی پہاڑیوں کو بار بار الگ کرتا اور اپنی انگوٹھے سے میری گاند کے سوراخ پر مساج کرتا میری گاند کی پہاڑیوں کو کھول کر وہ میری گاند پر جھکا اور میری گاند کو چاٹتا ہوا کہنے لگا
شیرا : شانی کیا کمال کی گانڈ ہے تو نے تو اپنی بہن انم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اپنی ماں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اج سے تو ہی میرا چھوکرا ہے جب بھی بلاؤں گا چپ چاپ ا جانا اتنے پیسے دوں گا کہ تجھے کسی کے اگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی
میں کچھ نہ بولا اور اپنی بے بسی اور اپنی لاچاری پر چپ چاپ روتا رہا
اس نے مزید میری گاند کو کھولا میری گانڈ کی دونوں پہاڑیوں کو الگ کیا اور اپنے منہ سے تھوک کا ایک بڑا سا گولا پھینکا اور اپنا لنڈ میری چھوٹی سی سوراخ پر رگڑتے ہوئے اہستہ اہستہ اندر کرنے لگامیں بھی اپنے پرانے درد بھی ٹھیک سے بھول نہیں پایا تھا کہ مجھے ایک نئے درد کا احساس ہوا یہ درد اس سارے تشدد سے جو پہلے مجھ پہ ہو چکا تھا بہت الگ تھا میں نے محسوس کیا کہ ایک گرم سریا میرے جسم کے اندر گھسایا جا رہا ہے اور مجھے اپنا جسم پھٹتا ہوا محسوس ہوا میں چیخ بھی نہیں پا رہا تھا کیونکہ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کا زور میرے سر پر دیا ہوا تھا جس سے میرا منہ مزید گدھے میں دھنس گیا تھا شدید درد اور کرب کی حالت میں میں ہل بھی نہیں پا رہا تھا میری عمر اس وقت محض 13 سال تھی اور وہ ایک ہٹا کٹا دیو ہیکل جسامت کا ادمی اپنے پورے زور سے میری عزت لوٹ رہا تھا جب وہ اپنا پورا لنڈ میرے اندر گھسا چکا تو اس نے اپنا سارا لنڈ باہر نکالا اور پھر سے اپنے منہ میں تھوک کا ایک بڑا سا گولا جمع کیا اور اسے میری گاند پر پھینک کر لنڈ اس پہ مسلنے لگا اور ایک ہی جھٹکے میں دوبارہ سے اپنا پورا لینڈ میرے اندر ڈال دیا میں جو بھی ٹھیک سے راحت کا سانس لے بھی نہیں پایا تھا ایک دفعہ پھر شدید درد سے تڑپ اٹھا اور پھر شروع ہوا کرب کا کھیل اور اس کے دھکوں میں شدید رفتاری اتی گئی اور وہ میری کمر کو نوچتا کبھی میرے بال کھینچتا کبھی میرے کولو پر تھپڑیں رسید کرتا تیز جھٹکے لگاتا گیا یہ کھیل مزید کوئی دس منٹ چلا اور وہ میری گاند میں ہی فارغ ہو کر بیڈ پر میرے ساتھ لیٹا لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اس نے میرے مردہ وجود کو اپنے اوپر کھینچ کر میرے ساتھ ایک زوردار جھپی ڈال کر میرے ہونٹوں اور گالوں پر بوسوں کی برسات کردی
جب اس کی سانسیں کچھ بحال ہوئیں تو اس نے مجھے پرے دھکیلتے ہوئے کہا
شیرا: جاؤ دفع ہو جاؤ رنڈی کی اولاد اور جب بھی دوبارہ بلاؤں چپ چاپ ا جانا
قیامت کا سما تھا میرے اوپر کس تکلیف سے اٹھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے ہیں کپڑے پہننے کے بعد میں اپنے مردہ وجود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے گھر پہنچا جب اپنے گھر پہنچا تو گھر میں کوئی بھی موجود نہ تھا اما صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی جب انہوں نے میری حالت کو دیکھا تو وہ تھوڑا پریشان ہوئی لیکن پھر بھی انہوں نے سخت لہجے میں مجھ سے پوچھا
اماں : کہاں تھے تو اور یہ کیا حالت بنا لی ہے تو نے اپنی کہا منہ کا لا کر ا کے ایا ہے
دو میٹھے پیار کے سننے کے لیے میرے کان ترس گئے تھے لیکن پھر بھی ماں تو ماں ہوتی ہے میں سینے سے جا لگا اور زار و قطار رونے لگا اور امی کو سارا واقعہ بتانے لگا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے مجھے لگا تھا کہ امی مجھ پہ ترس کھائیں گی مجھے پیار کریں گی لیکن اس کے برعکس کچھ اور ہی ہوا جب میں ساری رام کہانی اپنی امی کو بتا چکا تو انہوں نے کہا
اماں : ہائے بے غیرت غلیظ انسان دفع ہو جا پتہ نہیں کہاں سے منہ کالا کرا کرایا ہے اور الزام لگا رہا ہے شیرے صاحب پر وہ تو ایک نیک صفت انسان ہیں ان جیسا تو نیک انسان اس پوری کالونی میں کوئی نہیں ہے اور تو پتہ نہیں کہاں کہاں منہ کالا کرا کر اتا رہا ہے
اماں کے منہ سے یہ جملے سننے کی دیر تھی کہ میرے اندر جو ایک احساس تھا وہ بھی اج مر گیا اور وہ احساس ہمدردی کا تھا کہ اس دنیا میں کوئی کسی کا ہمدرد نہیں ہے یہاں تک کہ میری اپنی بھی میرے ہمدرد نہیں ہے میں نے نہیں اسی وقت اپنے انسو صاف کیے اور اپنا مردہ وجود گھسیٹتا ہوا کسی طریقے سے واش روم گیا اور اپنے اپ کو اچھے سے مل مل کر دھویا اور چپ چاپ جا کر اپنی جگہ پر لیٹ گیا شدید درد اور کرب کی حالت میں مجھ سے لیٹا بھی نہیں جا رہا تھا وہ رات میری زندگی کی سب سے طویل ترین رات تھی کیونکہ مجھے کسی بھی کروٹ سکون نہیں ارہا تھا شدید درد اور کرب کی حالت میں نہ مجھ سے لیٹا جا رہا تھا نہ بیٹھا جا رہا تھا اور اس میں بھی سب سے زیادہ پریشانی کی بات میری گاند سے اٹھتی ہوئی ٹیسیں تھی جس میں اس نے بے دردی سے اپنا بڑھا لنڈ گھسایا تھا مجھے سونے نہیں دے رہی تھی اور اسی دن میں نے اپنے اپ سے عہد کیا تھا کہ میں ایک نہ ایک دن ضرور اپنی اس تذلیل کا بدلہ لوں گا تب میں نہیں جانتا تھا کہ وہ بدلہ کیسا ہوگا اور کیسے لوں گا
پھر نہ جانے رات کا وہ کون سا پہر تھا کہ میں سو گیا
تو یہ تھا دوستوں وہ واقعہ جس واقعے کی وجہ سے شانی اور جنی دونوں ہی شدید غصے میں تھے اب چلتے ہیں دوبارہ سے موجودہ حالات کی طرف
میں شیر کو دیکھ کے غصے سے کانپ رہا تھا کہ جنی مجھ سے مخاطب ہوئی اور اس نے میرے کان میں کہا
جنی : میرے اقا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جیسا یہ کہتا ہے ویسے کرتے جائیں اور پھر دیکھیں کہ ہم اپ کا بدلہ ایسا لیں گے کہ یہ سوچ بھی نہیں پائے گا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ائندہ کسی بچے کی طرف انکھ اٹھانا تو دور یہ اس کے خلاف بات بھی نہیں کر پائے گا
کیونکہ میں جننی کے کارنامے جان چکا تھا میں اسے دیکھ چکا تھا اس لیے میں نے اس کی بات پر اندھا اعتبار کیا اور چپ چاپ اگے چلتا گیا اور وہی ہوا جیسا کہ میں نے سوچا تھا جیسے ہی میں شیر کے قریب پہنچا اس نے موٹر سائیکل روک دی اور میری طرف غصے سے دیکھتا ہوا بولا
شیرا : کہاں گم ہے بے گانڈو چل بیت موٹر سائیکل پر جگہ پر جانا ہے بہت دن ہوئے تیری گند مارے ہوئے اج دوبارہ سے تیری گاند مارنے کا موڈ ہے بیٹھ
میں چپ چاپ اس کے پیچھے بیٹھ گیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگے کیا ہونے والا ہے جنی نے میرے کان میں کچھ باتیں کہیں جو میں نے اسی طرح شیر کے اگے پیش کر دی
شیر بھائی اپ نے اس دن کے بعد بلایا ہی نہیں میں انتظار کرتا رہا مجھے تو اپ کے خود بہت طلب ہو رہی تھی دو تین دفعہ اپ کے اڈے پر بھی ایا لیکن اپ وہاں پر نہیں ملے یہ باتیں میں اس سے چپک کر رہا تھا جس سے اسے بھی یہ احساس ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس نے میرا بدلہ رویہ دیکھا تو وہ بھی خوشگوار موڈ میں بولا
شیرا : ارے واہ اج سورج کہاں سے نکلا ہے کہ تو میرے ساتھ اتنا چپک رہا ہے چل اچھا ہی ہے کہ مرضی سے کرائے گا تو مزہ بھی ائے گا ویسے یار بات تو تیری صحیح ہے میں ڈیرے پہ کم ہی ہوتا ہوں اج کل بڑے کام زیادہ پکڑے ہیں کاموں میں مصروف رہتا ہوں
میں نے پھر اس کو وہی باتیں کہیں جو جینے نے مجھے کہا تھا میں نے اس سے کہا کہ شیرا بھائی اج تو پھر پکا پروگرام کرتے ہیں میرے پاس رات گزارنے کا موقع ہے اور اپ پوری رات میرے ساتھ گزار سکتے ہیں لیکن اس کی ایک شرط ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ اڈے پہ صرف ہم دونوں ہوں گے اور اس کے علاوہ اور کوئی نہیں میں نہیں چاہتا کہ اپ کے لونڈے بھی میرے پہ ہاتھ صاف کریں میں اپ کا چھوکرا ہوں اور اپ کا ہی بن کے رہنا چاہتا ہوں
شیرا میری بات سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے اپنا ایک ہاتھ موٹرسائیکل کے سٹیرنگ سے اٹھا کر میری ران پر رکھا اور اس پہ ایک چٹکی کاٹتے ہوئے بولا
:شیرا : واہ میری جان یہ کی نا تو نے میرے مطلب کی بات چل اج پوری رات تیری گاند کا بھرتا بناؤں گا اج پوری رات تجھے چودوں گا تجھے چوموں گا تجھے چاٹوں گا اج تجھے اصلی جنت کے مزے کرواؤں گا
ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہم اس کے ڈیرے پر پہنچ گئے اور ڈیرے پہ پہنچتے ہی شیر نے مجھے کہا کہ تو اپنا منہ ڈھانپ لے اور میں نے ایسا ہی کیا جیب سے رومال نکالا اور اس سے اپنا منہ ڈھانپ لیا جیسے کہ ہم ڈیرے میں ائے تو شیرا زوردار اواز میں اپنے لڑکوں سے بولا
شیرا : اوئے بغیر تو سارے دفعہ ہو جاؤ اج میرے ساتھ مہمان ائے ہیں میں ڈیرے پہ اکیلا رہوں گا اور کوئی بھی صبح تک یہاں پہ مجھے بھٹکتا ہوا نظر نہ ائے تو اج اس کے ساتھ ساتھ اس کی بھی گاند ماروں گا
شہر کا اتنا کہنا تھا کہ وہاں سے ایک دم بڑا سا ہجوم اتل پتل ہونے شروع ہو گیا اور وہ سارے اہستہ اہستہ باہر کو چلے گئے اور اب ڈیرے میں میں جنی اور شیرا اکیلے رہ گئے اور جینی نے میرے کان میں کہا
جنی : مبارک ہو میرے اقا اپ کا ادھے سے زیادہ کام تو ہو گیا
جن کی بات سن کر میرے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی اور ہم اندر کی جانب بڑھ گئے اندر کمرے میں پہنچ کر مجھے شیرے نے کہا
شیرا : ہاں تو میری جان اب بتا کیا موڈ ہے تیرا
میں نے ایک دفعہ پھر اپنے کان میں جننی کی اواز سنی اور وہی سب کچھ کرنے لگا میں نے کہا اپ دیکھتے جاؤ اب ہوتا کیا کیا ہے یہ کہہ کر میں سیدھا سی ڈی پلیئر کے پاس گیا اور سی ڈی پلیئر میں ایک گانا لگا کر اواز پوری کھول دی
اور اس کے بعد میں دروازے کی طرف بڑھا اور دروازے کی کنڈی لگائی اور وہیں دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر میں نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیا میں اہستہ اہستہ اپنے کپڑے اتارتا جا رہا تھا اور جب میں نے اپنی شلوار اتاری تو میں حیران ہوا کیونکہ میرا اتنا بڑا لنڈ تو کبھی نہیں تھا تبھی جنی نے میرے کان میں کہا
جنی : میرے اقا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب اپ کے جسم پر میرا اختیار ہے اور اپ کے جسم میں جو بھی تبدیلی اپ دیکھ رہے ہو وہ میری ہی کی ہوئی ہے بے فکر ہو کر اس کے قریب جائیں
میں جننی کی بات سن کر ننگا اس کے قریب گیا مجھے کپڑا اتارتا دیکھ کر شیرے نے بھی فٹافٹ اپنے کپڑے اتار دیے تھے اور جب شیرے کی نظر میرے لنڈ پر پڑی تو وہ بھی دیکھ کر حیران ہوا کہ اس کا لنڈ تو مجھ سے بھی بڑا ہے
ابھی میں اس کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ میں نے اپنے کان میں پھر سے جنی کی اواز سنی
جنی : میرے اقا اپنے جسم کا کنٹرول مجھے دے دیں تاکہ میں اس انسان کا وہ حشر کروں جو کوئی بھی نہ برداشت کر پائے
اور میں حیران ہوا کہ مجھ سے زیادہ غصے میں تو اس وقت میری جنی تھی اور میں نے اس کے دل کی مراد پوری کر دی اور اپنا سارا کنٹرول اس کو دے دیا
پھر میں جیسے ہی شیر کے قریب پہنچا تو شیر نے میرے بازو کو پکڑا لیکن وہ مجھے کھینچ نہ پایا اور وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا
شیرا : بڑی طاقت ہے میں تجھ میں میرے ساتھ زور ازمائی کرنا چاہتا ہے تو تیری یہ خواہش بھی میں پوری کر دوں گا
اس کا اتنا کہنا تھا کہ میں نے اس کے ہاتھ کو زور سے کھینچا اور اس دفعہ شیرہ خود میرے قدموں میں ا کر گرا وہ ننگا میرے قدموں میں اسی طرح بیٹھا تھا جس طرح کبھی میں اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور اسی وقت میں نے اس کے منہ پر دو چانٹے رسید کیے اور وہ ہکا بکا مجھے دیکھتا رہ گیا یہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور میں نے اس کے بالوں کو زور سے کھینچا اور اسے کہا
میں اب وہ پرانا شانی نہیں کہ جس کی تو زبردستی لے لے گا اب حالات بدل چکے ہیں شیراہ اب یہاں کا ڈون میں ہوں میں ہوں یہاں کا بدمعاش اور اگر تجھ میں ہمت ہے تو اٹھ کے دکھا
ایک چیز جو میری خلاف توقع تھی وہ یہ تھی کہ شیرا بالکل ہیلپ بھی نہیں پا رہا تھا میرے سے تھپڑ کھانے کے باوجود بھی اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اور اسی طرح حیرانی سے صرف میری طرف دیکھتا رہا دیکھتے ہی دیکھتے اس کے منہ سے خون بہنا شروع ہو چکا تھا
پھر میں نے اس کی پینٹ سے بیلٹ نکالا اور اس وقت تک مارتا رہا جب تک کہ وہ بے سد نہ ہو گیا اور پھر میں بیٹھا اس کے ہوش میں انے کا انتظار کرتا رہا اسے تقریبا ایک گھنٹے بعد ہوش ائی اور وہ درد کی تاب نہ لاتے ہوئے دوبارہ سے بے ہوش ہو گیا یہ زور میرا نہیں تھا یہ طاقت میری نہیں تھی کیونکہ اس وقت میرے جسم کا کنٹرول میری جننی کے پاس تھا اس لیے میں اپنے اپ کو بہت طاقتور سمجھ رہا تھا میری اپنی طاقت مجھ سے سنبھالی ہی نہیں جا رہی تھی
اس دفعہ میں نے اس کے منہ پر پانی پھینکا اور وہ ہوش میں ایا اور میرے اگے ہاتھ جوڑتا ہوا مجھ سے اپنے کیے کی معافیاں مانگنے لگا اس کی بے ہوشی میں میں اپنے کپڑے پہن چکا تھا اور جینی میرے جسم سے نکل چکی تھی اور اس نے میرے کان میں پھر سے کہا
جنی : میرے اقا اپ کی جیب میں ایک جڑی بوٹی ہے وہ زبردستی اس کو کھلائیں اور اس سے پانی پلائیں
جننی کی بات سن کر جیسا اس نے کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا اسے وہ جڑی بوٹی کھلائی اور پانی پلا دیا پانی پیتے ہی اس کے جسم میں عجیب سی ہلچل سی ہونی شروع ہو گئی اور وہ مجھ سے بولا
شیرا : شانی تو نے کیا کیا ہے میرے ساتھ میرے جسم میں یہ کیا بے چینی ہے مجھے اپنا جسم ٹھنڈا پڑتا محسوس ہو رہا ہے کیا میں مرنے والا ہوں
جو بات مجھے جینی نے بتائی وہ سن کر میرے 14 طبق روشن ہوں گے کہ کیا ایسا بھی کچھ ہو سکتا ہے لیکن پھر میں اپنے ہی اپ پہ ہنسنے لگا کہ جن کی نظر میں سب کچھ ہو سکتا ہے
اور میں نے شیر کی بات سن کر اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا
نہیں تو مرے گا نہیں لیکن اب سے تو میرا غلام رہے گا میں تجھے جو بولوں گا تو وہ کرے گا کیونکہ اس وقت میرے پاس تیری ایک انوکھی چیز ہے جو میں تجھے تبھی دوں گا جب مجھے تیری وفاداری کا یقین ا جائے گا
اس کا جسم نیلا پڑتا جا رہا تھا اور اہستہ اہستہ وہ نیلا رنگ گہرا ہوتا ہوا جسم کے ایک حصے کی طرف جا رہا تھا اور وہ حصہ اور کچھ نہیں اس کا لنڈ تھا اہستہ اہستہ پورا جسم اپنی نارمل رنگت میں اگیا لیکن اس کا لنڈ ابھی بھی نیلے رنگ کا ہی تھا
اس نے جب یہ چیز محسوس کی تو اس نے فورا اپنا ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھا اور وہ چیخا اور بولا
شیرا : شانی یہ تو نے میرے ساتھ کیا کر دیا ہے مجھے یہاں پر کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا شانی یہ تو نے مجھے کیا کیا تو نے مجھے کیا کھلایا ہے شانی
میں زور سے ہنسا اور اس کے قریب گیا اور اس کے بالوں کو اپنی مٹھی میں کھینچتا ہوا اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور اس سے کہا شیرا اج سے تو میرا غلام ہے میں جو کہوں گا تو وہ کرے گا اور تجھے وہ ہر حال میں کرنا ہوگا نہیں تو تو اپنی یہ مردانہ طاقت کبھی دوبارہ نہیں پائے گا یہ میں نے کیسے کیا یہ کیوں ہوا ان باتوں کو سوچ کر تو اپنا ذہن ہی خراب کرے گا ان باتوں کو چھوڑو اور جو میں نے کہا ہے وہ سن اج کے بعد سے تو صرف اور صرف میرا غلام ہے اس وقت تک جب تک کہ تو اپنی وفاداری ثابت نہیں کرے گا یہ تیرا لنڈ صرف اور صرف موتنے کے کام ائے گا اور کسی اور چیز کے نہیں
اس کو اتنا کہہ کر اسی حالت میں چھوڑتا ہوا میں گودام سے نکلا اور دوبارہ سے پلٹا کہا کہ شیرا اب میں تیرے گھر جاؤں گا اور اسی طرح کی ایک جڑی بوٹی میں تیری بیوی کو بھی دوں گا جس سے اس کی سیکس کی طلب بڑھے گی اور جب وہ سیکس مانگے گی تو تو نے میرے پاس انا ہے تیری بیوی کی پیاس میں بجھاؤں گا اور یہ میرا بدلہ ہوگا تو تجھ سے
شیرا روتا گڑگڑاتا تیزی سے ایا اور اس نے میرے پاؤں پکڑے اور مجھ سے معافی مانگی لیکن میں اس وقت رحم کرنے کے بالکل بھی موڈ میں نہیں تھا کیونکہ رحم والا احساس میرے وجود سے بہت پہلے ہی ختم ہو چکا تھا
میں نے گودام سے نکلتے ہوئے شیر کو ایک لات رسید کی جس سے وہ سیدھا دوبارہ گودام کے اندر چلا گیا اور میں نے گودام کو باہر سے کنڈی لگا دی
کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اب جب میں اس کے گھر جاؤں تو وہ اس بیچ میں رکاوٹ پیدا کریں
میں جینی کے ساتھ اپنے اگلے مشن پر روانہ تھا اور راستہ مجھے بخوبی پتہ تھا کیونکہ شیرہ ایک جانی مانی شخصیت تھی ہماری کالونی کی میں اس کے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ مجھے اپنے کان میں جنی کی اواز ائی
جنی: میرے اقا اب اپ اپنی سامنے کی جیب میں ہاتھ ڈالیں اور وہاں پر ایک جڑی بوٹی ہوگی اسے نکالیں
جیسا جنی نے کہا تھا میں نے ویسا ہی کیا اور اس جڑی بوٹی کو دیکھا تو وہ ایک عجیب سی قسم کا پھول تھا ایسا پھول جو میں نے اج تک اپنی زندگی میں نہ کبھی دیکھا تھا نہ کبھی ٹی وی میں نہ کبھی کسی کتاب میں میں نے جنی سے پوچھا کہ یہ کیا کام کرے گی تو جن ہی نے میرے سوال کا جواب اس کراتے ہوئے دیا
جنی : میرے اقا یہ اس عورت کے جسم کی گرمی کو اس قدر بڑھا دے گی کہ وہ ایک دن بھی سیکس کے بغیر نہیں رہ پائے گی اور جس وقت اس کی گرمی بڑھے گی تو شیرا اسے اپ کے پاس لائے گا اور اس وقت شیرے کو سامنے بٹھا کر اس کی بیوی کو چودنا ہی اصلی بدلہ ہو گا
انہی باتوں کے بیچ میں اس کے گھر کے سامنے پہنچا اور میں نے اس کے دروازے کو کھٹکھٹایا
تو کچھ دیر بعد اندر سے ایک اواز ائی کون ہے
میں نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ میں ہوں شانی اسلم شرابی کا بیٹا
اس نے بند دروازے سے ہی پوچھا کیا تکلیف ہے جو اتنی رات کو دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو
میں نے اسے جواب دیا کہ شیر بھائی نے اپ کے لیے کچھ بھیجا ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہ جا کے اپنی بھابی نگینہ کے ہاتھ میں خود دینا
میرا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ نگینہ نے فورا دروازہ کھولا وہ دروازہ کھولتے ہی اس نے کہا نگینہ ۔ ہاں بولو کیا بھیجا ہے شیرا نے میرے لیے
دروازہ کھلتے ہی جو نظارہ میں نے دیکھا وہ اس نے میرے 14 طبق روشن کر دیے کیونکہ نگینہ ایک عورت نہیں ایک ائٹم بم تھی بھرا ہوا جسم اور اس کے اوپر سرخ رنگ کی نیٹ کی نائٹی پہنی ہوئی تھی اس نے میں سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ این ائی ٹی جسم چھپانے کے لیے ہے یہاں دکھانے کے لیے اور اس میں بھی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ اس کی جسم پر ایک بھی بال نہیں تھا اتنا چکنا اور گورا جسم دیکھ کر میرے اندر ایک دفعہ پھر سے شہوت نے سر اٹھانا شروع کر دیا اور میرے لنڈ ایک دفعہ پھر سے میری شلوار میں تمبو بن کر کھڑا ہو گیا
میرا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ نگینہ کا غصہ ساتویں اسمان پر چلا گیا اور اس نے میرا گریبان پکڑتے ہوئے وہ جڑی بوٹی میرے منہ پہ پھینکی اور کہا
نگینہ ۔ کیوں بے میں کیوں کھاؤں یہ مجھے تو یہ بھی ٹھیک سے نہیں پتہ کہ تجھے شیرے نے بھیجا بھی ہے یا نہیں اور یہ جڑی بوٹی کیا کام کرے گی مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کیا پتہ اسے کھا کے میں مر جاؤں تو کیا چاہتا ہے میں مر جاؤں
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ اس کے جسم کے ارد گرد ایک نلی سی روشنی مجھے نظر انا شروع ہوئی اور میں سمجھ گیا کہ واقع ہی یہ میری جنی کا کمال ہے جیسے ہی نیلی روشنی نے اس کو ڈھانپا تو اس کا رویہ ایک دم بدل گیا اور وہ اپنے گھٹنوں کے بل ہو گئی اور اس نے ہاں جوڑتے ہوئے مجھ سے کہا کیا حکم ہے میرے لیے اقا
میں اس وقت سمجھ گیا کہ یہ نگینہ نہیں بلکہ اس کے جسم میں میری جنی ہے جو اسے یہ کروا رہی ہے تو میں نے اسے وہ جڑی بوٹی اٹھا کر دی اور اس سے کہا کہ یہ جڑی بوٹی کھا لو
نگینہ نے جسٹ ہی وہ جڑی بوٹی کھائی ویسے ہی اس کے گرد سے نیلی روشنی غائب ہو گئی اور نگینہ زمین پر منہ کے بل گرتے گرتے بچی اور اس نے مجھ سے پوچھا
نگینہ ۔ اوئے لڑکے تو نے کیا کیا میرے ساتھ
میں اس کی طرف دیکھا اور مسکراتا ہوا وہاں سے اگے نکل گیا وہ پیچھے سے مجھے چیختی رہی بلاتی رہی لیکن میں نے اس کی اوازوں کی طرف دھیان نہ دیتے ہوئے اگے اپنا سفر جاری رکھا اور چلتے چلتے ہیں میں اپنے گھر کی طرف مڑ گیا
گھر کی طرف جاتے ہوئے میں نے اپنی جینی کو مخاطب کیا اور اس سے پوچھا میں نے کہا جنی ایک بات بتاؤ کیا جو تبدیلیاں میں نے اپنے جسم میں شیر کے گودام پہ دیکھی تھی کیا وہ ابھی ہمیشہ کے لیے ایسی ہی رہیں گی جنی کا جواب سن کر میں انتہائی خوش ہوا کیونکہ اس نے جو کہا وہ میرے لیے کسی رحمت سے کم نہیں تھا اس نے کہا
جنی ۔ جی میرے اقا میں سمجھ سکتی ہوں کہ اپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں بالکل اپ کلنڈ اسی سائز کا رہے گا جو اپ نے وہاں دیکھا تھا کیونکہ جن کا اقا ہونے کے بھی کچھ فائدے ہیں اور وہ فائدے میں پورے اپ کو دوں گی
جنی کی بات سن کر میں نے دوبارہ اس سے مخاطب کیا اور کہا جنی لیکن ایک چیز جو میں نے اپنے جسم میں اور تبدیلی محسوس کی وہ یہ ہے کہ اب مجھے شہوت پہلے سے کچھ زیادہ ا رہی ہے اس کے جواب میں جینی نے مجھ سے کہا
جنی۔ کیونکہ اپ کا بے شک اس وقت اپ کا جسم ایک چھوٹے لڑکے جیسا ہے لیکن اپ کی عقل اپ کا دماغ اور اپ کے احساسات اب ایک جوان اور بھرپور مرد کے ہیں اور اسی مرد کی طاقت اپ کے اندر ہے جس سے اپ کی شفقت بھی بڑھ گئی ہے اور اب اپ کسی کے ساتھ بھی بھرپور سیکس کر پائیں گے اور سب سے بڑھ کر اپ جس کے ساتھ سیکس کریں گے تو کبھی اپ کو بھول نہیں پائے گی
اس کی باتیں سن کے میں بہت خوش ہوا کیونکہ ایک ایسی چیز تھی جو میں بچپن سے دیکھتا ا رہا تھا کرنا چاہتا تھا لیکن کر نہیں پاتا تھا اب میں وہ سب چیزیں کر پاؤں گا تو یہ میرے لیے ایک انتہائی خوبصورت اور خوش ائن بات تھی
میں گھر پہنچا تو اس وقت رات کے ایک بج رہے تھے تو میں نے دروازہ کھٹکھٹانا مناسب نہیں سمجھا اور دیوار پھلانگ کر اندر جانے لگا میں اندر پہنچا تو دیکھا کہ سب سو رہے تھے
میں اپنی بہنوں کے کمرے کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ انم ایک باریک سی کھلے گلے کی قمیض پہنے سو رہی تھی اور جب میں نے دیکھا تو وہ شہوت جو نگینہ نے جگائی تھی اس نے ایک دفعہ پھر اپنا سر اٹھایا اور قدم خود بخود ان کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
جاری ہے
مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.
-
Magical Lamp – 19- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 18- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 17- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 16- جادو کا چراغ
January 13, 2025 -
Magical Lamp – 15- جادو کا چراغ
January 12, 2025 -
Magical Lamp – 14- جادو کا چراغ
January 12, 2025

Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
