Magical Lamp – 09- جادو کا چراغ

جادو کا چراغ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے سٹوری “جادوں کا چراغ”   رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان  سہتا  رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے  تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔

قسط نمبر 09

جب میں صحن میں پہنچا تو سب سے پہلے میری نظر شفیق چاچا پر پڑی اور اس کے ساتھ ہی ان کا بیٹا طارق بھی موجود تھا اور ہمارے گھر کے برامدے میں میرے گھر کے تمام افراد کھڑے ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے اور انہیں یہی لگ رہا تھا کہ ابھی ان دونوں میں سے کوئی ائے گا اور میرا گریبان پکڑ لے گا لیکن جو ہوا وہ ان کی خلاف ہے توقع تھا انہوں نے کبھی ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ کوئی یہ بھی کر سکتا ہے جیسے ہی میں برامدہ پار کر کے صحن میں داخل ہوا تو چاچا شفیق اپنی کرسی سے کھڑے ہو گئے اور بڑے ہی والہانہ انداز میں انہوں نے مجھے مخاطب کیا

چاچا شفیق ۔ اگیا میرا پتر میں کب سے تمہارا ہی انتظار کرا تھا شانی پتر بہت انتظار کرواتے ہو

چاچا شفیق کے منہ سے پتر لفظ سن کر میرے سارے گھر والے منہ کھولے حیرانگی سے ہمیں دیکھ رہے تھے انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیوںاتنی بڑی شخصیت کا مالک کتنا امیر ادمی ہمارے غریب سے بچے کو بیٹا کہہ کر بلا رہا ہے اور اس سے اتنے پیار سے مل رہا ہے

میں اہستہ اہستہ چلتا ہوا چاچا شفیق کے پاس پہنچا اور انہوں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرا ماتھا چوما  جب وہ مجھے گلے سے لگا چکے تو ان کا بیٹا طارق بھی اگے بڑھا اور اس نے مجھے گلے سے لگایا اور میرے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا

طارق ۔ بڑا انتظار کروایا چھوٹے بھائی ہم کب سے تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں ابا تو تمہارے بغیر اج دفتر جانا ہی نہیں چاہتے تھے

انہیں گردن گھما کر دیکھا تو سارے گھر والے پریشانی کے عالم میں منہ کھولے ہمیں دیکھ رہے تھے وہ اس قدر حیران تھے کہ میں ان کی حیرانی پر اندر ہی اندر مسکرا رہا تھا اور میرے تاثرات چاچا شفیق سے چھپے نہ رہ سکے اور انہوں نے میرے گھر والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

چاچا شفیق ۔ اپ سب ہمیں اتنی حیرانی سے دیکھ رہے ہیں میں سمجھ سکتا ہوں کہ اپ لوگ ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس لڑکے کے ساتھ ہمارا کیا رشتہ ہے اور میں اس سے بیٹا کیونکہ کہہ رہا ہوں تو میں اپ کی پریشانی کو حل کر دیتا ہوں اپ سارے ایسے کھڑے نہ رہیں یہاں ا کے چارپائی پہ بیٹھے ہیں تو میں اپ کو ساری بات بتاتا ہوں

 

چاچا شفیق کی بات سن کر میری تینوں بہنیں میری ماں اور میرا باپ وہاں ان کے قریب ائے اور چارپائی پر بیٹھ گئے اور چاچا شفیق کی طرف اپنی نظریں گامزن کیے ہوئے تھے کہ اب چاچا شفیق انہیں کچھ بتائے تاکہ ان کی حیرت کم ہو

 

چاچا شفیق ۔ اپ لوگ اس بات سے اشنا ہیں یا نہیں اشنا میں نہیں جانتا میں بہت عرصے سے بیمار تھا اور اتنا بیمار تھا کہ میں اپنے بستر سے اٹھ بھی نہیں پا رہا تھا انہی دنوں میں یہ بچہ روز میرے پاس اتا اور میری خدمت کرتا میری ٹانگیں دباتا مجھے کھانا کھلاتا مجھے پانی پلاتا اور میرے بہت سے ضروری کام کرتا تھا اس بچے نے میرے  کمزور اور برے دنوں میں میرا بیٹا بن کر مجھے سنبھالا تھا اور اج جب میں بالکل تندرست ہو گیا ہوں اور دوبارہ سے اپنے پیروں پر چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا ہوں تو اب میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں اس کو اس کے کمزور دنوں میں اور مشکل دنوں میں سنبھالوں اور اس لیے میں اسے بیٹا کہتا ہوں کیونکہ اس نے بیٹا ہونے کا فرض نبھایا تھا

میرے سارے گھر والے مجھے حیرانی سے تک رہے تھے انہیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں کسی کی اتنی خدمت بھی کر سکتا ہوں وہ تو مجھے ایک اوارہ اور عباس سمجھتے تھے اور بالکل ٹھیک سمجھتے تھے چاچا شفیق میرے ہی کہنے پر اس طرح کی کہانی گھڑ رہے تھے کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے گھر والوں کو یہ پتہ چلے کہ میرے پاس ایک جننی ہیں جس سے میں کچھ بھی کروا سکتا ہوں

اس کے بعد چاچا شفیق نے مجھے مخاطب کیا اور مجھ سے کہا

چاچا شفیق ۔ شانی پتر اج سے تم لوگ یہاں پر نہیں رو گے تمہارے باپ کے پاس اتنا پیسہ ہونے کا کیا فائدہ ہے میں اج ہی تمہارے لیے سامنے والی سوسائٹی میں ایک مکان کا انتظام کرتا ہوں تم تمہاری بہنیں اور تمہارے ماں باپ اج سے وہاں رہیں گے

چاچا شفیق کی بات سن کر میرے ابو فورا سے بولے

ابو ۔ دیکھیں جناب ہم غریب لوگ ہیں ہم اپنا کھانا پینا ہی بڑی مشکل سے کرتے ہیں اب اس میں ہم اتنے بڑے مکان میں رہیں گے تو اس کا کرایہ ہم کیسے برداشت کر پائیں گے

ابو کی بات سن کر چاچا شفیق کہہ کہا لگا کر ہنسے اور انہوں نے

چاچا شفیق ۔ یہ اپ سے کس نے کہہ دیا کہ اپ غریب ہیں اپ شاید نہیں جانتے کہ میں اپنے کاروبار کا 20 پرسنٹ حصہ شانی کے نام کر چکا ہوں

چاچا شفیق کے منہ سے یہ بات نکلی ہی تھی کہ میرے سارے گھر والوں کے منہ ایسے کھل گئے جیسے انہوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو اور میں اس وقت فخر سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ان سب کے تاثرات دیکھ رہا تھا زندگی میں پہلی دفعہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ اور بہنوں کے لیے باعث فخر ہوا تھا

چاچا شفیق ۔ اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں اس بچے نے میری جتنی خدمت کی ہے اس بچے نے میرے لیے جو جو کیا ہے اور میرے خاندان کے لیے جو کیا ہے اس کے بدلے میں 20 پرسنٹ کچھ بھی نہیں جب یہ کام سیکھ جائے گا میرے بڑے بیٹے طارق کے ساتھ تو 20 پرسنٹ سے یہ بڑھ جائے گا اور اس کا ہمارے کاروبار میں حصہ بھی زیادہ ہو جائے گا یہ بہت ہونہار اور قابل لڑکا ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ میرے ساتھ رہے اور کام سیکھیں اپ کا گھر  میرے گھر سے اتنا دور ہوگا تو کام سیکھنا اس کے لیے مشکل ہوگا اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اپ لوگ جلد از جلد ہمارے گھر کے ساتھ والے مکان میں شفٹ ہو جائیں جو میں پہلے ہی شانی کے نام کر چکا ہوں تاکہ اس سے اپنے بھائی طارق کے ساتھ کام سیکھنے میں اور کام پر انے جانے میں کوئی دقت پیش نہ ائے

یہ بات کرتے ہی طارق اور شفیق چاچا اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے جانے کی اجازت چاہی اور میں گھر کے باہر تک انہیں چھوڑ کر ایا

جب میں واپس گھر میں داخل ہوا تو تمام گھر والے خوش تھے اور وہ چہک رہے تھے میری ماں نے مجھے گلے لگایا اور میرا ماتھا چوما  اور مجھے ڈھیروں دعائیں دینے لگی میرے باپ کے چہرے پر فخر اور اپنے لیے پسندیدگی دیکھ کر بھی مجھے بہت راحت ملی

ان سب کے علاوہ کوئی تھا جو مجھے اس قدر پیار سے دیکھ رہا تھا کہ اس کے پیار سے دیکھنے کی تاب میں نہ لا پایا اور شرماتا ہوا چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا اس کے بعد میری تینوں بہنیں میرے کمرے میں ائیں انعم ریا اور نیہا 

ریا اور نہا تو میرے گلے ملیں اور مجھے مبارکباد دی اور یہ کہتے ہوئے میرے کمرے سے چلی گئی کہ انہیں بہت زیادہ کام ہیں انہوں نے اپنی پیکنگ کرنی ہے

اب کمرے میں بچے دو جسم لیکن ایک جان میں نہیں جانتا تھا کہ انعم مجھ سے اتنا ہی پیار کرتی ہے یا نہیں کرتی جتنا میں اسے کرتا ہوں شہوت سے شروع ہوا رشتہ اس قدر پیار میں بدل جائے گا یہ میں کبھی گماں بھی نہیں کر پایا تھا اس کا پیار ہی میرے لیے سب کچھ تھا وہ میرے جسم کی میری روح کی مالک بن چکی تھی اور میں بھی اس سے انتہا سے بڑھ کر پیار کرنے لگ گیا تھا میری سوچ میں بھی کبھی یہ نہیں آیا  تھا کہ میں کسی کو اس قدر ٹوٹ کر چاہ سکتا ہوں میں اپنے ہی خیالوں میں گم تھا جب انم میرے قریب ائی اور میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور میرے ماتھے کو اپنے لبوں سے چھوا اور اس پر اپنے پیار کی نشانی چھوڑی اور مجھے بہت ہی نازک اور پیار بھرے طریقے سے گلے لگاتے ہوئے میرے سر کو اپنے کاندھے پر رکھا اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے میرے کان میں اہستہ سے کہا

انعم ۔ مجھے تم سے یہی امید تھی کہ تم ہمارے دن بدل دو گے اور تم نے میری امیدوں کو پورا کر کے اج مجھے پوری طرح سے جیت لیا ہے میں خوش ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ رشتہ قائم کیا کیونکہ تم ایک سمجھدار قابل اور نہایت ہی بہادر لڑکے ہو جس نے اکیلے ہی ہمارے دن پلٹ دیے ہیں میں چاہتی تھی کہ میں تمہیں کچھ ایسا تحفہ دوں جو تمہیں ہمیشہ یاد رہے اج کا دن ہم سب کے لیے بہت بڑا دن ہے لیکن کیا کروں میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے صرف ایک ہی چیز ہے میرے پاس جو میں تمہارے نام کر چکی ہوں اور وہ ہے میری روح جو اب سے لے کر ہمیشہ تک صرف اور صرف تمہاری ہی رہے گی اور میں چاہتی ہوں کہ تم بھی میری روح کی میرے جسم کی ہمیشہ ایسے ہی قدر کرنا جیسے تم اب کرتے ہو

میں نے انعم کہ کاندھے سے سر ہٹایا اور اس کا چہرہ بہت ہی پیار سے اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں کی طرف جھکاتا چلا گیا اور کچھ ہی دیر میں ہم دونوں کے ہونٹ اپس میں مل چکے تھے میں اس کے نیچے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لے کر بہت ہی پیار سے اور ناز سے چوس رہا تھا اور وہ میرے اتلے ہونٹ کو بہت ہی پیار سے چوس رہی تھی ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کی کمر پر ایسے سفر طے کر رہے تھے جو سفر کبھی ختم نہ ہونے والا تھا میرے ہاتھ انعم کی گردن پر ائے اور میری قس میں شدت اتی جا رہی تھی کہ کمرے کی طرف میں نے کسی کے قدموں کی اہٹ سنی اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے کس کو توڑا اور تھوڑا سا پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا اور تب ہی کمرے میں امی داخل ہوئیں

امی۔ انعم جلدی سے سامان پیک کرو تمہارا باپ گاڑی لینے چلا گیا ہے

سامان کیا تھا ہمارے گھر میں کچھ چارپائیاں ایک دو کالین اور کچھ بستر اور کچھ برتن ہم کیونکہ نہایت کے غریب گھرانہ تعلق رکھتے تھے ہمارے پاس زیادہ سامان نہیں تھا بس ٹوٹا پھوٹا کچھ فرنیچر تھا اسے فرنیچر کہنا بھی ٹھیک نہ ہوگا بس لکڑی کے کچھ ٹکڑے

انعم اپنا گلابی چہرہ لیے میری طرف دیکھے بنا ہی امی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی اور میں بستر پر بیٹھا ہی تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ کمرے میں کھڑکی کی جانب سے ایک نیلی روشنی ائی اور میرے کاندھے کی طرف چلی گئی میں اسے اپنا وہم ہی سمجھ رہا تھا لیکن تبہی میرے کان میں جنی کی گھبرائی ہوئی  اواز گونجی

 

جنی ۔ میرے اقا ہمیں فورا میرے ابائی علاقے میں جانا ہوگا میرا قبیلہ بہت مشکل میں ہے اور میں اس وقت انہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی مجھے اپ کی ضرورت ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اپ میرے ساتھ وہاں چلیں

 

جنی کی بات سن کر میں حیران ہو گیا کہ اب میں کیا کروں میں اسے یہاں پر تنہا بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا کیونکہ اس نے میرے ہر سکھ دکھ میں میرا ساتھ دیا تھا میرے پریشانی میں ہمیشہ میرے ساتھ کھڑی رہتی تھی بلکہ اج میں جو کچھ ہی بھی تھا سب کچھ اسی جنی کی بدولت تھا اس لیے میں نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور اس سے پوچھا

 

میں۔  ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ ہمیں وہاں پر کتنا وقت رکنا ہوگا

 

جنی ۔ میرے اقا میں نہیں جانتی کہ ہمیں وہاں پر کتنا وقت لگ سکتا ہے شاید کچھ پل شاید ایک دن شاید ایک سال یا شاید پھر پانچ سال کیونکہ ہم اس وقت حالات جنگ میں ہیں اور جنگ میں میں اپنے ادھے سے زیادہ قبیلہ کھوچکو ہوں اس لیے مجھے نہیں علم کہ ہمیں وہاں پر حالات ٹھیک کرنے میں کتنا وقت لگے گا

 

میں ۔ لیکن ہم گھر کیا بتائیں گے انہیں کیا کہہ کر جائیں گے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور یہ مجھے جانے دیں گے بھی یا نہیں

 

جنی ۔ میرے اقا اس کا سب سے اسان حل چاچا شفیق ہے اپ چاچا شفیق سے بات کریں اور انہیں بتائیں کہ کسی ضروری کام کی وجہ سے اپ کو جانا پڑ رہا ہے اور گھر والوں کو یہ کہہ دیں کہ چاچا شفیق نہیں مجھے ٹریننگ پر بھیجا ہے کہ میں اچھے سے کام سیکھ سکوں اور چاچا شفیق کو سچ بتائیں کہ میں کسی غریب کسی مظلوم کی مدد کرنے کے لیے جا رہا ہوں

 

جننی کی بات مجھے صحیح لگی اور میں نے بالکل یہی کرنے کا فیصلہ کیا میں نے فورا اپنے کپڑے بدلے اور اپنا رخ چاچا شفیق کے گھر کی طرف کر دیا ابھی میں ان کی گلی میں ہی انٹر ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ گھر سے باہر کافی رش لگا ہوا ہے اور سب لوگ ان کی بیٹنگ کی طرف جا رہے ہیں مجھے اس لگا کہ لوگ چاچا شفیق کی عیادت کے لیے جا رہے ہوں گے لیکن جب میں گھر میں داخل ہوا تو وہاں پر میں نے الگ ہی ماحول پایا

بیٹھک میں اس وقت عذرا ایک گدی پر بیٹھی تھی اور وہ لوگوں کے دکھ سن رہی تھی اور اپنے علم سے ان کا علاج بھی کر رہی تھی یہ دیکھ کر مجھے نہایت ہی خوشی ہوئی کہ عذرا ایک قابل اور ایک اچھی عورت بننے میں کامیاب ہوئی اور اس نے تمام تر بری عادتوں کو دور کیا اور اب وہ لوگوں کی سچے دل سے مدد کر رہی تھی

میں نے اپنا رخ چاچا شفیق کے کمرے کی طرف کیا اور ان کے سامنے بیٹھ کر انہیں اپنی ساری رام کہانی سنا دی اور ان سے التجاہی نظروں سے مدد طلب کی

 

چاچا شفیق ۔ فکر نہ کرو شانی پتر یہاں پر میں سنبھال لوں گا لیکن کوشش کرنا کہ جلدی اؤ کیونکہ یہاں پر میں زیادہ عرصہ تمہارے ماں باپ کو نہیں روک پاؤں گا کچھ وقت کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن پانچ سال بہت لمبا عرصہ ہے

کبھی میرے کان میں جنی کی اواز گونجی اور اس نے کہا

جنی ۔ میرے اقا ایک بات تو میں اپ کو بتانا بھول ہی گئی کہ وہاں کا وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے یہاں کی دنیا کے حساب سے وہاں پر گزارے ہوئے پانچ سال یہاں پر دو مہینوں کی حیثیت کے برابر ہوں گے یا شاید اس سے بھی کم تو اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم تین مہینے سے پہلے ہی ا جائیں گے

جن کی بات سن کر میرے دل کو ایک انجانی سی خوشی ملی کہ اب مجھے اپنے گھر والوں سے زیادہ عرصہ دور نہیں رہنا پڑے گا گھر والوں سے تو دور رہ بھی لیتا لیکن میری جان میری روح کی مالک میری محبت میری بہن انم سے میں زیادہ عرصہ دور نہیں رہ پاتا اس لیے خوشی اپنے اندر سموئے ہوئے میں نے چاچا شفیق کی طرف اپنا چہرہ پھیرا اور ان سے کہا

میں ۔ چاچا مجھے پانچ سال کا نہیں بس تین مہینے کا وقت چاہیے میں تین مہینے میں وہاں پر جاؤں گا اور ان لوگوں کے مسائل حل کروں گا اور اس کے بعد میں دوبارہ سے اپنی زندگی میں لوٹ اؤں گا

میری بات سن کر چاچا شفیق کے چہرے پر بھی ایک اطمینان کی جھلک نظر ائی اور وہ مجھ سے بولے

 

چاچا شفیق ۔ ہاں اب دیکھو نا یہ ہوئی بات اب تو میں تین مہینے کے لیے انہیں کسی بھی طرح سے روک پاؤں گا اب کوئی مسئلہ نہیں ہے میرے لیے ایسا کرو تم بیٹھو میں ابھی اتا ہوں

 

مجھے وہاں بیٹھے کچھ ہی پل ہوئے تھے کہ چاچا شفیق واپس ائے اور ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا وہ لفافہ انہوں نے مجھے تھمایا اور کہا

 

چاچا شفیق ۔ یلو بیٹا یہ سفر میں اور وہاں پر تمہارے کام ائیں گے

میں نے بڑی حیرت سے ان کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ لفافے کے اندر ڈالا اور جو چیز لفافے میں تھی اسے باہر نکالا تو میری انکھیں چندی ا گئیں کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی بھی اتنے پیسے ایک ساتھ نہیں دیکھے تھے وہ ایک ایک ہزار کے نوٹوں کی دس گڈیاں تھی مطلب 10 لاکھ روپے چاچا شفیق نے مجھے دیے تھے میرے سفر کے لیے میں دل ہی دل میں ہنسا چاچا شفیق کی معصومیت پر اب میں انہیں کیا بتاتا کہ میں جنات کے علاقے میں جا رہا ہوں جہاں پر مجھے پیسوں کی نہیں صرف ان کی دعاؤں کی ضرورت ہوگی کہ میں وہاں سے زندہ لوٹ کر ا سکوں۔۔۔۔

جاری ہے

مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page