کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی طرف سے سٹوری “جادوں کا چراغ” رومانس اور سسپنس سے بھرپور کہانی ہے۔جادو کا چراغ ایک ایسےلڑکے کی کہانی ہے کہ جس کی نہ گھر میں عزت ہوتی ہے اور نہ باہر۔ وہ ایک کمزور اور لاچار لڑکا تھا ۔ ہر کسی کی لعنطان سہتا رہتا تھا۔ کسی کی مدد بھی کی یا اُس کا کام بھی کیا تو بھی لوگ ، دھتکار دیتے تھے۔ آخر مجبور اور تنگ آکر اُس نے خودکشی کا ارادہ کیا۔ اور تب ہی اُس کی قسمت جاگ گئی۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
قسط نمبر 10
میں سچ میں نہیں جانتا تھا کہ میں وہاں سے زندہ لوٹ پاؤں گا بھی یا نہیں ۔۔۔کیونکہ انسانی مسئلے حل کرنے میں اور جنات کے مسئلے حل کرنے میں زمین اسمان کا فرق ہونے والا تھا۔۔ یہ چیز میں سمجھ چکا تھا کیونکہ جب ازرا اپنے پورے جوبن میں مجھ پہ حملہ کر رہی تھی تو میں کس قدر ڈر گیا تھا اور کس قدر خوف میں اگیا تھا یہ میں سب صرف میں ہی جان سسکتا ہوں ۔۔ اس وقت جنی میرے ساتھ نہ ہوتی تو شاید میں اسی دن مر چکا ہوتا۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ چاچا شفیق نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا جس سے میری سوچ کا دائرہ ٹوٹا ۔۔میں نے ان کی طرف سوالیاں نظروں سے دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا
چاچا شفیق :۔ برخودار جا تو رہے ہو لیکن یہ تو بتاؤ کہ تمہارے گھر والوں کو ہم کیا کہیں گے کہ تم کہاں جا رہے ہو ۔۔
میں ۔: چاچا جان یہ تو اب اپ جانیں اور اپ کا کام اپ بڑے ہیں اور ایک طرح سے میرے باپ بھی ہیں ۔۔۔کیونکہ اپ نے اپنا ہاتھ جب سے میرے سر پہ رکھا ہے میری بہت سی پریشانیاں ختم ہوگئی ۔۔۔اس لیے اس مسئلے کا حل بھی اپ ڈھونڈ لیں ۔۔
میری بات سن کر چاچا شفیق زور سے ٹھکا لگا کر ہنسنا شروع ہو گئے چند لمحے ہنستے رہنے کے بعد انہوں نے میرے کاندھے پر تھاپی دیتے ہوئے کہا
چاچا شفیق ۔: شانی بیٹا تم اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار ہو ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں ۔۔
اس کے ساتھ ہی وہ گھر کے دروازے کی طرف گئے اور ڈرائیور کو اواز دی کہ جلدی سے گاڑی نکالو ۔۔۔کچھ دیر بعد گاڑی میرے گھر کی طرف روانہ تھی ۔۔میں چاچا کے ساتھ پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا ۔۔لیکن میری سوچیں بالکل میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی میں اج تحیہ کر چکا تھا کہ اپنے گھر والوں کو اخری دفعہ دیکھ رہا ہوں ۔۔۔میرا دل بجھا ہوا تھا میرے احساس میرے جذبات سب ختم ہو چکے تھے۔۔ میں اپنی موت کو دعوت دے چکا تھا میں جانتا تھا کہ بہت مشکل ہے کہ میں دوبارہ اپنے گھر والوں سے ملوں لیکن جنی کے ساتھ جانا بھی ضروری تھا ۔۔۔کیونکہ اسی کی وجہ سے ان پچھلے پانچ چھ دنوں میں جو مجھے عزت جو مجھے رتبہ جو مجھے وقار ملا تھا وہ بیان سسے باہر ہے مجھے اپنے گھر والوں کا پیار ملا تھا جس کے لیے میں ساری زندگی ترستا رہا تھا یہ سب صرف اور صرف میری جنی کی وجہ سے ہوا تھا۔۔ وہ میرے لیے اتنا کچھ کر رہی تھی اب میرا بھی فرض بنتا تھا کہ میں اس کے لیے وہ کروں جو وہ مجھ سے چاہتی ہے اور میں نے اپنے سارے وسوسوں کو ترک کرتے ہوئے اپنی زندگی کو داؤ پہ لگاتے ہوئے اس کے ساتھ جانا مناسب سمجھا لیکن اس وقت مجھے اپنی دسویں کی کتاب میں مرزا غالب کی غزل کا ایک شعر بڑی شدت سے یاد ا رہا تھا اور اج میں صحیح معنی میں اس شیر کی تشریح کر پا رہا تھا شعر کچھ یوں تھا
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں اتی
میں اپنی موت کی طرف جاتا ہوا بڑا بے چین اپنے گھر کے سامنے کب پہنچا مجھے سمجھ ہی نہ ائی یہ کچھ منٹوں کا سفر کس طرح ختم ہوا میں نہیں جانتا تھا اور چاچا شفیق میرے پریشانی میں دیکھتے ہوئے پریشان ہوئے اور انہوں نے گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہی میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور مجھے مخاطب کیا
چاچا شفیق ۔ کیا بات ہے شانی بیٹا میں کب سے دیکھ رہا ہوں کہ تم کافی پریشان ہو اگر کوئی پریشانی والی بات ہے تو تم مجھ سے اپنی پریشانی شیئر کر سکتے ہو تم شاید ابھی تک جانتے نہیں لیکن میں بہت سی پریشانیاں بیٹھے بیٹھے بھی حل کر دوں گا تم میرے بیٹے ہو میں نے تمہیں بیٹا کہا ہے تمہاری پریشانی میری پریشانی ہے
اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں ان کے لیے عزت اور بڑھ گئی کیونکہ انہوں نے میری پریشانی کو جانچ لیا تھا وہی شخص اپ کی پریشانی جانچ سکتا ہے جس کا اپ سے دل کا رشتہ ہوتا ہے جو اپ سے خلوص کی محبت کرتا ہے اور مجھے جانے میں دی نہ لگی کہ چاچا شفیق نے صرف مجھے منہ سے نہیں بلکہ دل سے اپنا بیٹا مانا تھا اور یہ میرے لیے بہت ہی خوش قسمتی کی بات تھی میں نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس پر ایک چھوٹا سا بوسہ دیا اور ان سے کہا
میں ۔ نہیں چچا جان ایسی کوئی بات نہیں ہے اگر مجھے کوئی پریشانی ہوئی تو میں اپنے ابو کے پاس جانے سے پہلے اپ کے پاس ہی اؤں گا کیونکہ اپ نے مجھے اس وقت سنبھالا جس وقت میں اس دنیا میں تنہا تھا
چاچا شفیق ۔ بچے تمہارے تنہائی کے دن اب ختم ہوئے اب تمہارے سر پہ میرا ہاتھ ہے اور جس کے سر پہ میرا ہاتھ ہوتا ہے وہ نہ ڈرتا ہے نہ گھبراتا ہے کیونکہ اس کی ہر تکلیف اور پریشانی کو اس تک پہنچنے سے پہلے شفیق کا سامنا کرنا پڑتا ہے
میں نے مسکرا کے ان کی طرف دیکھا اور گاڑی سے اتر گیا اور وہ بھی میرے پیچھے پیچھے گاڑی سے اتر ائے ہم اہستہ اہستہ چلتے ہوئے گھر کے اندر پہنچے تو گھر میں افراتفری کا ماحول تھا سارے بھاگ دوڑ رہے تھے اپنے سامان کی پیکنگ کر رہے تھے اور سارا سامان خرد برد بکھرا ہوا تھا کچھ سامان کے کاٹن صحن میں بھی پڑے ہوئے تھے اور ہر طرف گند ہی گند بکھرا ہوا ہے اسی بیچ میں چاچا شفیق نے سب کو اواز دے کر بلایا
چاچا شفیق ۔سارے بچے جلدی سے باہر ا جاؤ میں تم لوگوں کے لیے ایک خوشخبری لایا ہوں
کچا کی بات سنتے ہی سارے گھر والے جلدی سے باہر اگیا اور سب حیران تھے کہ ایک دفعہ پھر میں ان کے ساتھ کھڑا تھا اور چاچا شفیق میرے کاندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے بڑے پروقار انداز میں کھڑے تھے اور انہوں نے اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا
چاچا شفیق ۔ ایسا ہے بچوں کہ اپ کو سب کو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ شانی اب میرا بچہ ہے تو اس کی ٹریننگ ضروری ہے میں اس کو ٹریننگ کرنے کے لیے اج ہی کسی دوسرے شہر بھیج رہا ہوں تو میں چاہتا ہوں کہ اپ سب شانی سے رخصت لیں تاکہ میں اسے تین مہینے کے لیے دوسرے شہر بھیج سکوں تاکہ یہ وہاں پر اپنی تعلیم اور تربیت پوری کرے اور اس کے بعد ا کر میرا بزنس سنبھالے
چاچا شفیق کی بات سنتے ہی سارے گھر والوں کے منہ حیرت سے کھل گئے کہ یہ کیا ہو گیا شانی تین مہینے کے لیے ہم سے دور جا رہا ہے خاص طور پہ میری چاہت میرا پیار میری انم مجھے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس سے چاچا کی باتوں پہ یقین ہی نہ ا رہا ہو اور چاچا نے بھی یہ چیز نوٹ کر لی کہ سارے گھر والے مجھے بڑی حیرانی سے اور چاچا کو بھی بڑی حیرانی سے دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے بہت کو مزید بڑھاتے ہوئے کہا
چاچا شفیق ۔ دیکھو بچوں بات یہ ہے کہ کاروبار سنبھالنا کسی ایرے غیر نہ تو خیرے کا کام نہیں ہوتا کاروبار میں بہت اونچ نیچ اتی ہے میں چاہتا ہوں کہ جیسے میرا بڑا بیٹا طارق کاروباری سارے داؤ پیج سمجھتا ہے اسی طرح میرا چھوٹا بیٹا شانی بھی سارے داؤ پیچ اور کاروباری سارے طریقے سمجھے تاکہ جس طرح طارق کی وجہ سے میرا بزنس دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے اسی طرح شانی کی بدولت دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب شانی کی ایک مناسب تربیت اور اس سے مناسب طریقے سے سمجھایا جائے اسے پڑھایا جائے اور یہ اتنا قابل ہے کہ یہ چیزیں جلدی سیکھ لے گا اس کے لیے میں اسے تین مہینے اپنے سے دور رکھوں گا اور ان تین مہینوں میں یہ اپ سے دور بھی رہے گا تاکہ اس کی تربیت میں کوئی کمی نہ ائے اور یہ سب کچھ اچھے سے سیکھے اگر اپ لوگوں کو اس پر کوئی اعتراض ہے تو اپ لوگ مجھے ابھی بتا سکتے ہیں
چاچا شفیق کے احسانات اور ان کا بڑا پن دیکھ کر میرے گھر والوں کو کیا اعتراض ہونا تھا انہیں مجھ سے ابھی تازہ تازہ ہی تو محبت ہوئی تھی اس لیے وہ میری جدائی ارام سے برداشت کر سکتے تھے ہاں اگر کوئی بہت غمگین نظر ا رہا تھا تو وہ تھی میری جان انم میری بڑی بہن میری محبت میری چاہت میرے گرم بستر میں میری گرم ساتھی
ابو ۔ نہیں نہیں بھائی جان ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے اپ کا حکم ہمارے سر انکھوں پر لیکن کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ شانی دو تین دن بعد چلا جائے یہ ساری پیکنگ میں اکیلا کیسے کروں گا اور بچیاں تو اب سامان اٹھانے سے رہیں
ابو کی بات سن کر چاچا شفیق زور سے کھلکھلا کر ہنسے اور انہوں نے ابو سے کہا
چاچا شفیق ۔ یار کمال کرتے ہو تمہیں کس نے کہا کہ سامان تم نے اٹھانا ہے سامان اٹھانے کے لیے گاڑی اور مزدور ابھی اتے ہی ہوں گے میں گھر سے نکلتے ہی تاریخ کو بتا چکا تھا اور طارق نے ضرور اس کا کوئی نہ کوئی انتظام کر دیا ہوگا میں ابھی طارق کو فون کر کے بھی پوچھ لیتا ہوں مزدور سامان اٹھائیں گے صرف تم نے انہیں بتانا ہے وہاں پہ مزدور ہی سامان بھی اتاریں گے اور تمہیں کسی سامان کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے تم صرف اپنا سامان پیک کرو اور صرف تم نے انہیں سپروائز کرنا ہے باقی کام سارا مزدور کریں گے اور ان کی پیسوں کی فکر بھی تم نے نہیں کرنی وہ طارق انہیں پہلے ہی دے دے گا
چاچا شفیق کی بات سن کر ابو کے چہرے پہ ائی ہوئی خوشی کسی سے چھپی نہ رہی کیونکہ ابو ایک کام چور ادمی تھے وہ شراب اور جوئے میں وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے تھے انہیں کبھی بھی کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی یہی وہ وجہ تھی کہ جس کی وجہ سے میری ماں کو دوسروں کو اگے ٹانگیں پھیلانی پڑی اور میری بہنیں اپنے جسم کی نمائش کرتے ہوئے اکثر نظر اتی تھیں ان کا قصور اس لیے بھی نہیں تھا کہ گھر چلانے کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑنا تھا اپنی تنگدستی کی وجہ سے میری بہنیں اچھا پڑھ نہ سکیں جس کی وجہ سے وہ کوئی کام کرنے سے تو رہیں اور امی بھی اتنی پڑھی لکھی نہیں تھی کہ کوئی نوکری کر پاتی اس لیے جن کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ جسم بچھاؤ اور پیسے کماؤ وہی کام میری امی کر رہی تھی میری بہنیں اس سے مختلف تھیں انہوں نے کچھ ٹھر کی لڑکے ڈھونڈے ہوئے تھے جو ان کے خرچے پورے کرتے تھے اور بہنیں انہیں اپنا جسم دکھا کر ان سے پیسے ہٹ لیا کرتی تھی
ان سب کے بیچ میں میری نظر انم پر گئی تو اس کی انکھوں میں مجھے واضح نمی نظر ائی اس کی انکھوں میں نمی دیکھ کے میرے بھی ضبط کے سارے باندھ ٹوٹ گئے اور ایک انسو کا موٹا قطرہ میری انکھ سے ہوتا ہوا میری گال تک ایا جونم سے چھپا نہ رہ سکا اور اس نے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مجھے اشارہ کیا اور میں چپ چاپ کمرے میں چلا گیا
باقی سب اپنے کاموں میں مصروف تھے اور امی اور ابو چاچا شفیق کے ساتھ باتوں میں اس لیے میرے اور انم کے نہ ہونے کا انہوں نے کوئی نوٹس نہ لیا
میں جیسے ہی کمرے میں پہنچا تو انم دیوار کی طرف منہ کیے ہوئے رو رہی تھی اس کے رونے کا اندازہ اس کی ہلتی کمر سے مجھے ہوا کہ اس وقت ہو نہ ہو میری بہن زار و قطار رو رہی ہے میں اس کے قریب گیا اور اس کے دونوں کندھوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنی طرف موڑا اور بے ساختہ میری انکھوں سے بھی زار و قطار انسو بہنا شروع ہو گئے انم نے جب مجھے اس طرح روتے دیکھا تو اس مجھے اپنے گلے سے لگایا اور اپنے کومل ہاتھوں کو میرے سر کے بالوں میں پھرتے ہوئے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا
انعم ۔ حوصلہ رکھو میری جان مجھے یقین ہے کہ یہ دین مہینے کا سفر بہت جلدی کٹ جائے گا تم بہت جلدی دوبارہ میرے پاس ہو گے ابھی تو میں نے تمہیں پایا ہے اب میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی یہ دوریاں کچھ پل کی ہیں یہ جلدی ختم ہو جائیں گی اور تم دوبارہ سے میرے پاس ہو گیا اور میں تمہیں اتنا پیار دوں گی کہ تم اپنی زندگی کی ساری کڑواہٹیں پریشانیاں تکلیفیں بھول جاؤ گے تم نے بس حوصلہ نہیں ہارنا یہ تین مہینے تمہارے امتحان کے مہینے ہیں ان تین مہینوں میں تم نے اپنے اپ کو ثابت کرنا ہے
انم نہ جانے کیا کیا کہتی جا رہی تھی اور میں بغیر کچھ سونے روتا جا رہا تھا میں تکلیف میں تھا میری تکلیف کوئی نہیں جانتا تھا میری تکلیف یہ تھی کہ شاید اج میں اخری دفعہ انم سے گلے مل رہا ہوں شاید میں دوبارہ کبھی بھی اس دنیا میں قدم نہ رکھ سکوں میں کمزور سا لڑکا جنات کا مقابلہ کیسے کروں گا میں نہیں جانتا تھا میں ٹوٹا ہوا تھا بس بکھرنے کی دیر تھی لیکن انم کی باتیں مجھے بکھرنے نہیں دے رہی تھی نہ جانے ان سارے معاملات میں میری جنتی کہاں تھی اس کی طرف سے ابھی تک کوئی بھی حوصلے کی بات میرے کو سنائی نہیں دی شاید اس کے حوصلے کی باتوں سے ہی میں کچھ حوصلہ کر پاتا لیکن میں عجیب شش و پنج میں تھا حامی بھی بھر چکا تھا جانا بھی ضروری تھا لیکن مرنے سے ڈر تو ہر کسی کو لگتا ہے اور میری عمر اس وقت ہی ہی کیا محض 14 15 سال ابھی تو میں ٹھیک سے جیا بھی نہیں تھا ابھی تو زندگی شروع ہوئی تھی میری اپنی تکلیفوں کو ابھی تو ختم کیا تھا میں نے اتنا جذباتی اور اتنا ٹوٹا ہوا میں نے اپنے اپ کو ان دنوں میں بھی محسوس نہیں کیا تھا جن دنوں میں گھر والوں کا رویہ میرے ساتھ برا ہوتا تھا
جب رو رو کر میری ہچکیاں شروع ہوئیں تو انم نے میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور پھر شروع ہوئی چمیوں کی برسات وہ کبھی میرے ماتھے پہ کبھی میرے گال کبھی میرے ناک کبھی میرے ہونٹ ہر جگہ پپیاں کرتی جا رہی تھی وہ مجھے ایسے چوم رہی تھی جیسے ایک ماں اپنے بچے کو بچھڑ جانے کے بعد دوبارہ مل جانے پر چومتی ہے اور اس کی حرکت نے مجھے میرے سارے غم ساری تکلیفیں بھلا دیں اور میں نے اس سے کس کے اپنی باہوں میں لیا اور اپنے ایک ہاتھ کو اس کی گردن پہ لے جا کر اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے جنونیا کے ساتھ اسے کس کرنا شروع کر دیا یہ جنونی کس اس قدر سخت تھی کہ کس وقت انم کے ہونٹوں سے خون نکل کر میرے منہ میں ایا اور مجھے خون کا ذائقہ اپنے حلق اور زبان میں محسوس ہوا تو میں نے یہ کس توڑی اور جب دیکھا تو انم کے نیچے ہونٹ کو میں اپنے دانت سے زخمی کر چکا تھا اور انم میری طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سہاگ رات کے پاس بیوی اپنے شوہر کو شرماتے ہوئے دیکھ رہی ہوتی ہے
انم نیم اپنے ہاتھوں کی مٹھی بنائی اور میرے سینے پر مکا مارتے ہوئے مجھ سے کہا
انعم ۔ کتنے ظالم ہو تم بدتمیز انسان اپنی بہن کا خون تک پی کے
میں نے اس کی بات کو سن کر اپنی انگلی کو اگے بڑھایا اور اس کے ہونٹ سے نکلتے ہوئے خون کو اپنی انگلی پہ لیا اور اسے دوبارہ اپنی زبان سے چاٹا اور مسکراتے ہوئے انم سے کہا
میں ۔ میں تو سمجھا تھا کہ میری بہن کا نچلا پانی ہی نمکین ہے نہیں میری تو بہن کا خون بھی نمکین ہے
انم میری بات سن کر شرماتی ہوئی میرے سینے سے لپٹ گئی اور اس نے مجھ سے کان میں اہستہ سے کہا
انعم۔ میری جان جلدی انا کہ تمہاری یہ بیوی تمہاری منتظر رہے گی
میرا نام کے ساتھ گلے لگا ہوا تھا کہ تبھی میری نظر میز پر پڑی اور میں نے وہ چیز اٹھا لی اور انم کی طرف بڑھا دی یہ وہی لفافہ تھا جو مجھے چاچا شفیق نے دیا تھا اور جس میں 10 لاکھ روپے تھے
میں نے انم سے کہا
میں۔ اسے کھولو اور دیکھو اس میں کیا ہے
جب ہم نے اس نے اس میں ہاتھ مارا تو اس میں سے بہت سارے پیسے نکلے جسے دیکھ کیے انم کی انکھیں ایک دم چندیا گئیں اور اس نے مجھ سے پوچھا
انعم ۔ اتنے سارے پیسے کیوں اور یہ کس کے ہیں
میں ۔ یہ پیسے ہمارے ہی پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں یہ پیسے اپنے پاس رکھو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو میری ماں میرے باپ اور میری بہنوں کو کسی کے اگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوگی ان تین مہینوں میں تم نے اس گھر کا بیٹا اور بیٹی دونوں بن کے ان کو سہارا دینا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم بہت اچھے سے ہمارے گھر والوں کو سنبھالو گی ان پیسوں کو استعمال کرنا اور اگر اور پیسوں کی ضرورت ہوئی تو بلا جھجک چاچا شفیق سے کہہ دینا میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ جب تک بھی میں نہ اؤں میرے گھر والوں کی ذمہ داریوں پر ہوگی
انم کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ائی اور یہ مسکراہٹ ایسی تھی کہ جس میں فخر اور غرور تھا
انم ۔ میرا بھائی کب اتنا بڑا ہو جائے گا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں اتنے اچھے سے سنبھال پائے گا یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کاش یہ سب کچھ پہلے ہی ہو جاتا تو ہمیں اپنی عزتوں کو یوں نے لام نہ کرنا پڑتا لیکن چلو دیر ائے درست ائے
یہ کہنے کے ساتھ ہی میں نے انم کو ایک الودائی جب بھی اور ایک الودائی بوسہ دیا اور اس کے بعد میں نکل ایا اور نکلنے کے ساتھ ہی چاچا شفیق وہاں بیٹھے میرا ہی انتظار کر رہے تھے میں نے ان سے کہا
میں۔ چاچا جان اب ہمیں چلنا چاہیے کافی دیر ہو چکی ہے
اس کے بعد میں باری باری اپنے سب گھر والوں سے ملا اور اپنی بہنوں اور اپنے ماں باپ سے ملنے کے بعد میں بجھے ہوئے دل کے ساتھ باہر نکلا اور دوبارہ سے ا کر گاڑی میں بیٹھ گیا اور دوبارہ سے میری انکھوں سے انسو برسنا شروع ہو گئے چاچا شفیق نے مجھے روتا ہوا دیکھا تو اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور میرے بالوں کو بڑے پیار سے سہلاتے ہوئے مجھ سے کہا
چاچا شفیق ۔ ہوتا ہے بچے جب میں بھی پہلی دفعہ اپنے گھر والوں سے بچھڑ رہا تھا مشکل وقت میں ہیرے پیدا ہوا کرتے ہیں اگر تم یہ مشکل وقت کاٹ لیتے ہو تم یہ سختیاں یہ پریشانیاں جھیل لیتے ہو تو یقین جانو میرے بچے کل کو کل کو اس دنیا میں کوئی مشکل وقت میں لیے گئے مشکل فیصلے انسان کو کوئلے سے ہیرا بناتے ہیں اور اج تم کوئلے سے ہیرا بننے کے سفر پر جا رہے ہو پریشان ہونا واجب ہے لیکن اپنی پریشانیوں سے ڈرنا بزدل ہونا یہ کمزور انسان کی نشانی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تم کمزور اور بزدل انسان بنو میں چاہتا ہوں کہ تم طاقتور اور مضبوط انسان بنو تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اندھی تم سے ٹکرانے سے پہلے کم از کم 10 دفعہ سوچے کہ وہ کس طوفان سے ٹکرانے جا رہا ہے ۔
چاچا شفیق کی باتیں سن کر مجھے حوصلہ ہوا ان کی باتیں میرے اندر طاقت پیدا کرتی تھی ان کا ہاتھ میرے کاندھے پر ہونا مجھے ہمت دلاتا تھا اور وہی ہمت میرے اندر جا چکی تھی اور گاڑی کا سفر کب ختم ہوا اور ہم ریلوے اسٹیشن پر پہنچے اس کا مجھے علم ہی نہ ہوا اب میں کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ جب وہ رو لیتا ہے تو اسے اپنے دکھ اور تکلیفیں کم محسوس ہونے شروع ہو جاتی ہیں اس لیے مرد زیادہ تر ہارٹ اٹیک سے مرتے ہیں کیونکہ وہ روتے نہیں ہیں میرا ماننا یہ ہے بے شک ہم مرد ہیں لیکن مشکل حالات میں ہمیں تھوڑا سا اپ کی زندگی میں کم از کم کوئی ایک دوست ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے کندھے پر سر رکھ کے اپ رو سکیںاگر ابھی اس پہ لکھنا شروع کروں تو کافی لمبا چلا جائے گا اس لیے ان باتوں کو ترک کر کے دوبارہ اتے ہیں اپنی کہانی کی طرف ۔
ہم جیسے ہی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ریلوے کا ایک بڑا افسر مجھے اپنی طرف اتا دکھائی دیا اپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ میرے پاس تو جنی ہے میں ایک چٹکی بجا کر بھی وہاں پر پہنچ سکتا ہوں لیکن ہر کام کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے جو کہ اگے اپ کو پتہ چلے گا کہ میں چٹکی بجا کر وہاں پر کیوں نہیں پہنچ سکتا تھا اس خطرے کی اگاہی میری جنی مجھے پہلے ہی دے چکی تھی جو اگے جا کے اپ پڑھیں گے خیر بات کو چھوٹا کرتے ہوئے وہ افسر تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا اور وہ جیسے ہی ہمارے قریب پہنچا اس نے بہت ادب کے ساتھ جھکتے ہوئے چاچا شفیق کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور انہیں چوما اور ان سے بڑی تمیز اور ادب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا
ریلوے افیسر ۔ سر مجھے طارق صاحب نے پہلے ہی فون کر دیا تھا اور انہوں نے اپ کے انے کا بتا دیا تھا اس لیے میں نے تمام تر معاملات پہلے ہی ٹھیک کر دیے ہیں یہ لیجئے اپ کی ٹکٹ بوگی نمبر دو میں کیبن نمبر چار اپ کا ہو گا جس میں صرف اپ اکیلے ہی سفر کریں گے
چاچا شفیق نے اس کے کاندھے کو تھپتھپاتے ہوئے اسے جواب دیا
چاچا شفیق ۔ شاباش برخوردار ہمیں تم سے یہی امید تھی اس لیے پہلے ہی ہم نے طارق کو کہہ دیا تھا کہ انور کو فون کر دو وہ تمام تر معاملات خود ہی ٹھیک کر دے گا ہمیں وہاں پر انتظار نہیں کرنا پڑے گا تم تو جانتے ہو ہمارے پاکستان کے حالات ایک ٹکٹ لینے کے لیے بھی کتنی کتنی دیر ہمیں لائن میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اور وہاں پہ سہولت بھی ایسی کہ جس کو انسان برداشت نہ کر پائے میں تو اپنے بیٹے کو کہہ رہا تھا کہ ٹرین سے جانے کے بجائے وہ جہاز سے جائیں لیکن اس سے ٹرین کا ہی سفر مناسب لگا اس لیے میں نے طارق سے تمہیں فون کروایا
انور ۔ یہ تو اپ کی کرم نوازی ہے کہ اپ کا ہاتھ ہمارے سر پر ہے اب جب بھی چاہیں میں اپ کے لیے حاضر ہوں اور ابھی بھی میں نے ان کے لیے وہ کیبن چنا ہے جس کیبن میں ہمارے وی ائی پیز ہوتے ہیں اور یہ بھی ہمارے لیے وی ائی پی ہیں کیونکہ یہ اپ کے صاحبزادے ہیں
چاچا شفیق ۔ شاباش انور ہمیں تم سے یہی امید تھی تم ہمیں کبھی مایوس نہیں کرتے
ان دونوں کی باتیں جا رہی تھیں لیکن تب ہی میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جس کی شکل تھوڑی الگ سی معلوم ہوئی اس میں کشش اس قدر تھی کہ میں اپنے اپ اس کی طرف کھینچا جا رہا تھا مجھے اس کے جسم کی گرمی دور سے ہی محسوس ہو رہی تھی اس کی انکھوں کی چمک اس کے جسم کی گرمی اس کے بالوں کی لمبائی اس کے گورا رنگ یہ سب کچھ غیر معمولی نہیں تھا اس لڑکی میں ضرور کوئی بات تھی جو بات میں سمجھ نہیں پا رہا تھا میں نے جنہی کو مخاطب کرنے کا سوچا اور اسی وقت چاچا شفیق اور انور کے بیچ کی تمام باتیں ختم ہوئیں اور میں نے اپنا ارادہ ترک کیا اور چاچا شفیق کے ساتھ چلتا ہوا ریلوے اسٹیشن کے اندر اگیا ٹرین نکلنے میں ابھی تک 10 منٹ باقی تھے چاچا صفیق میرے ساتھ بینچ پر بیٹھ گئے اور وہ اپنی زندگی کے پرانے واقعات جس وقت انہوں نے اپنا گھر چھوڑا تھا میرے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیا اور یہ وقت کیسے گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا ٹرین میں 10 منٹ رہتے تھے لیکن ٹرین 25 منٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے 35 منٹ کا وقت باتوں کے بیچ میں کیسے کٹ گیا مجھے اس چیز کا ذرا بھی علم نہ ہوا اور ٹرین نے ا کر سیٹی بجائے تو چاچا شفیق نے میرے کاندھے کو تھپتھپایا اور مجھے زور سے گلے ملے اور انہوں نے میرا ماتھا چ*** اور اخر میں مجھے الوداع کر دیا میں نہیں جانتا تھا کہ کیا واقعی میں کوئلے سے ہیرا بن پاؤں گا یا نہیں کیا میری زندگی کے اخری کچھ گھنٹے رہ گئے ہیں کیا میں زندہ لوٹوں گا بھی یا نہیں کیا میں سچ میں جنات کی لڑائی میں حصہ لے بھی پاؤں گا یا نہیں ایک انسان ہوتے ہوئے جنات سے لڑنا ایک بہت بڑی بات تھی مجھے ابھی سے ہی اپنے جسم سے روح نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور تبھی میرے کان میں ایک جانی پہچانی اواز گونجی جس نے میری روح میں کپکپی طاری کر دی ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
مزید اقساط کے لیئے کلک کریں.
-
Magical Lamp – 19- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 18- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 17- جادو کا چراغ
January 26, 2025 -
Magical Lamp – 16- جادو کا چراغ
January 13, 2025 -
Magical Lamp – 15- جادو کا چراغ
January 12, 2025 -
Magical Lamp – 14- جادو کا چراغ
January 12, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
