Obsessed for the Occultist -01- سفلی عامل کی دیوانی

Obsessed for the Occultist -- سفلی عامل کی دیوانی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی مکمل  کم اقساط کی بہترین کہانی ۔۔سفلی عامل کی دیوانی ۔جنسی جذبات اور جنسی کھیل کی  بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔سفلی علوم کے ماہر کے ہاتھوں میں کھیلنے والی لڑکی کی کہانی ،ساس  کی روز روز کی باتوں اور شوہر کی  اناپرستی ، اور معاشرے کے سامنے شرمندگی سے بچنے والی لڑکی کی کہانی   جس نے بچہ پانے کے لئیے اپنا پیار اور شوہر  کو اپنی خوشی اور رضامندی سے گنواہ دیا۔ اور پہلے شوہر کی موجودگی میں ہی سفلی عامل  سے جنسی جذبات کی تسکین کروانے لگی اور اُس کو اپنا دوسرا اور پکا شوہر بنالیا۔

۔ کہانی کے روایت کے مطابق نام مقام چینج ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Obsessed for the Occultist -01- سفلی عامل کی دیوانی

حیدرآباد کے مشہور چوڑی بازار کے قریب اک چھوٹی سی فیملی رہا کرتی تھی۔ اس فیملی میں  کل چار افراد تھے جن میں گھر کے سربراہ اشرف صاحب ان کی وائف جمیلہ بیگم اور اک صاحبزادہ ساجد ، اور ساجد کی وائف  صباء رہتے تھے۔ اشرف صاحب نے اپنی زندگی کی پچپن بہاریں دیکھ لیں تھیں۔اور اب اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی کی طرف گامزن تھے اس ہی طرح ان کی وائف جمیلہ لگ بگ پینتالیس سال کی ھو چکی تھیں ان کے ہاں صرف ایک ہی اولاد تھی وہ بھی ساجد ۔ اشرف صاحب کی وائف ساجد کی شادی کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی  جلدباز تھیں ، جبکہ اشرف صاحب اور ساجد یہ چاہتے تھے کہ پہلے کوئی نوکری کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا جائے پھر شادی کی جائے ۔ساجد کو اپنی تعلیم مکمل کئیے ہوئے تین سال مکمل ہو چکے تھے اب وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا ۔ اشرف صاحب کے کہنے پر اسے اک جاب آفر ملی یہ اسسٹنٹ منیجر کی جاب تھی کراچی سے حبیب بینک کی شاخ میں ۔ ساجد نے والد کے کہنے پر اُس جاب کے لئیے آپلائی کیا اور مقررہ تاریخ پر  انٹرویو دے دیا کچھ ہی دنوں میں ساجد کو بینک میں جاب مل گئی اور ساجد والد اور والدہ کی اجازت سے کراچی شہر میں اپنی خالہ کے ہاں آکر رہنے لگا۔ خالہ کے صرف دو بیٹے تھے حماد اور یوسف یہ دونوں ابھی چھوٹے تھے حماد تیرہ سال کا اور یوسف ابھی دس سال کا تھا ۔خالہ کے پاس رہنے سے خالہ کو بھی فائدہ ہوا ، کہ ان کو حماد اور یوسف کے لئیے اک ٹیچر مل گیا تھا جو رات کو جاب پر سے آنے کے بعد ان کو پڑھانے لگا تھا ۔ ساجد کو ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ ساجد کی والدہ مسز اشرف نے پھر ساجد کی شادی کا شور مچانا شروع کر دیا ۔ جب یہ شور ساجد کی خالہ کے کان میں پڑا تو انہوں نے زمہ داری لی کہ وہ کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر بتائیں گی اور ساجد کی شادی کروائیں گی ساجد اپنے کام میں خوب محنت کرنے میں لگا تھا ۔اک دن ساجد کی والدہ اور والد ساجد سے ملنے اپنی چھوٹی بہن کے گھر آئے تو ساجد کی خالہ نے اک لڑکی ان کو دیکھائی جو ان کےہمسائے میں تھیں تھیں۔ جس کا نام صباء تھا ۔ شکل صورت کی ایسی تھی کہ دیکھنے والا اک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ  لازمی دیکھے مطلب یہ کہ وہ بہت خوبصورت ، گوری رنگت بڑی آنکھیں بھرے بھرے گال اور کالی چمکدار آنکھیں گول فیس کی مالک تھی۔جسم بھی بھرا بھرا اور اک دم فٹ تھا کہیں سے کوئی بھی بھدا پن نہیں تھا ڈارک ریڈ کلر کے لمبے سلکی بال۔اور تقریباً ساجد ہی کے قد کر برابر ساڑھے پانچ فٹ کی تھی ۔ ساجد کی والدہ کو پہلی ہی نظر میں وہ لڑکی صباء بہت پسند آئی۔ ساجد کے والد اور والدہ جاتے جاتے ساجد کی منگنی بھی کر گئے اور اگلے سال فروری کے مہینے کی شادی کی تاریخ مقرر کر گئے ۔ساجد کی منگنی کی کیا ھوئی جیسے ساجد کی لاٹری نکل آئی ھو ساجد کی پرفارمینس کو دیکھتے ھوئے آفیسرز نے ساجد کو اسسٹنٹ منیجر سے منیجر کی پرموشن دے دی ساجد کی برانچ بھی چینج ھو گئی تھی جس کی وجہ سے ساجد کو برانچ کے قریب گھر رینٹ پر لینا پڑا تھا ۔ساجد اپنے والد اور والدہ کو حیدرآباد سے کراچی لے آیا تھا ۔ اور گاؤں والے گھر کو رینٹ پر دے دیا گیا تھا جس کے کرایے کے ساتھ کچھ پیسے اوپر لگا کر یہاں کے مکان کا کرایہ ادا کر دیا جاتا تھا ۔ پھر جلد ھی بینک نے ساجد کو گاڑی اور مکان بھی دے دیا ۔زندگی اور آسان اور آرام دے ہونے لگی اس ہی طرح چلتے چلتے شادی کے دن قریب آنے لگے اور فروری کی بائیس تاریخ کو ساجد اور ہما کی شادی ہوئی گئی۔ صباء پری کی طرح سی لگ رہی تھی ۔اور ساجد بھی کیسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا۔

صباء کو  ایک خوبصورت سے کمرے میں بیٹھایا گیا جو پھول کلیوں سے سجا ہوا تھا ۔ ۔ صباء کی  سیج پر گلاب اور گیندے کے پھولوں کی پتیاں بچھائی گئیں تھیں ۔ تقریباً رات کے ایک بجے وہ  اور اُس کا شوہر اکیلے ہو گئے ۔ ۔ ۔ شادی والے مہمان بھی سو چکے تھے اور کچھ اپنی مصروفیت میں تھے ۔ ۔ ساجد اُس کے پاس آیا اور اُس کا  گھونگٹ اٹھایا ۔ ۔ ۔ اور بولا ۔ ۔ واہ ۔ ۔ جس طرح سنا تھا تم تو اس سے کئی گنا زیادہ خوبصورت ہو ۔

 اس کی  اپنے ہی شوہر سے پہلی ملاقات تھی ۔ ۔ صباء کا  دل ڈرا ہوا تھا ۔ ۔ مگر شوہر کی خوش مزاجی نے اُس کا  حوصلہ بڑھایا ۔ ۔ ۔ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور پھر ساجد  نے اپنی شیروانی اتار دی ۔  اس کے بعد اپنی قمیض اتاری ۔ ۔ بنیان میں اس کا جسم بہت خوبصورت لگ رہا تھا ۔ ۔ سینے کے بال اور چھاتی ک چوڑائی صباء کو  بہت اچھی لگی ۔ ۔ ساجد  باتھ روم گیا اور واپسی پہ شارٹ نکر پہن کر صباء کے  پاس بیٹھ گیا ۔ ۔ ۔

صباء  سوچ رہی تھی آج اُس کی  خیر نہیں ۔ ۔اُسے اپنی سہیلیوں کی باتیں یاد آنے لگیں ۔ ۔ جب وہ سکول میں چپکے چپکے گندی باتیں کرتی تھی اور آج وہ سب حقیقت ہونے والا تھا ۔

ساجد اُس کے قریب ہوا ۔ ۔ اُس  کے سر سے شادی والا ڈوپٹہ ہٹایا ۔ ۔ ۔ اور اُس کے  گالوں پہ ہاتھ پھیرنے لگا ۔

 اس کا ہاتھ لگتے ہی صباء کے  بدن میں بجلی سی دوڑنے لگی ۔ ۔ کیونکہ زندگی میں پہلی بار کوئی مرد ہاتھ لگا رہا تھا ۔  ۔

 ساجد اُس کے  ساتھ لیٹ گیا اور اُسے  اپنے بازو پہ سر رکھنے کو کہا ۔ ۔ صباء ساجد  کے بازو پہ سر رکھ کر لیٹ گئی ۔ ۔ ۔ تو ساجد نے اُس کے  گال پہ کس کر لی ۔ ۔ ۔ صباء کی  سانس گرم ہو گئی اور اُس  نے ہلکی سی آہ بھری ۔ ۔ ۔ ۔ آآآآآہ ۔ ۔ ۔ ساجد نے اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر اُس کی  ٹانگوں کے اوپر رکھ دی اور دوسرے ہاتھ سے صباء کے  مموں کو دبانا شروع کیا ۔

 افففففففف صباء  تو جیسے پاگل سی ہونے لگی ۔ ۔ ۔ ساجد نے اپنے ہونٹ صباء کے  ہونٹوں پہ رکھے اور چوسنا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ وہ جیسے جیسے صباء کے  ہونٹ چوستا گیا ۔ ۔ صباء کے  بدن کی گرمی تیز ہوتی گئی ۔ ۔ ۔ دوسری طرف اسکا اکڑا ہوا لن صباء کی  ران کے ساتھ مس ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ جو کسی گرم لوہے کی  طرح تھا ۔

صباء  ۔ ۔ ۔ تم بہت خوبصورت اور پیاری  ہو ۔ ۔ ۔ساجد نے مدہوشی میں کہا۔

صباء نے مسکرا کر آنکھیں  بند کر لیں ۔ ۔ ۔

جاری ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سفلی عامل کی دیوانی ۔۔ کی اگلی  یا  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page