Passion of lust -04- ہوس کا جنون

Passion of lust -- ہوس کا جنون

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،

ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں  ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ  سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا،  اور پھر ۔۔۔۔۔

چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس کا جنون قسط -- 04

میرے ذہن میں بار بار ثوبیہ کو چودنے کا خیال آ رہا تھا۔ میری نظر بار بار اس کے مَموں پر جم رہی تھی۔ ثوبیہ جب گھونٹ لے کر گلاس ٹیبل پر رکھتی تو اس کے مَموں میں حرکت پیدا ہوتی جو مجھے بہت بہت ہاٹ کر رہی تھی۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی اس کے مَمے پکڑ کر کھینچوں، مروڑوں، چوس چوس کر ان کا حلیہ بگاڑ دوں۔ اس کے ہونٹ بھی بہت سیکسی تھے… جو رس سے بھرے ہوئے تھے۔ جب وہ جوس کا گھونٹ لینے کے بعد ہونٹوں پر زبان پھیرتی تو میرے ہونٹ خشک ہونے لگتے۔

میں اسے گھورے جا رہا تھا کہ اچانک میرے دوسرے پاؤں پر کسی نے پاؤں رکھ دیا۔ میں نے سامنے دیکھا تو عالیہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ وہ اسی کا پاؤں تھا، یہ اسی کی شرارت تھی۔ لیکن ابھی تو میرے ذہن میں ثوبیہ کا بھوت سوار تھا۔ کچھ دیر تو ایسے ہی چلتا رہا… ہم سب اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے۔ پھر عالیہ اور عائزہ کھڑی ہو کر بولیں، “ہمیں بازار میں کام ہے کچھ دیر لگے گی، آپ لوگ باتیں کرو۔” اور وہ دونوں چلی گئیں۔

 میری تو مانو چاندی ہو گئی،  میں خوشی سے کھل اٹھا اور ثوبیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگا۔

میں: “ثوبیہ تم اتنی پیاری ہو میں تمہیں ہمیشہ پیار کروں گا۔”

ثوبیہ: “اچھا۔۔ یہ تو ابھی پتہ چلے گا کہ کتنا پیار کرتے ہو، ویسے کہتے ہیں کہ سارے لڑکے جسم کے دیوانے ہوتے ہیں۔”

میں: “نہیں۔۔ تم مجھے سچ میں دل سے اچھی لگتی ہو۔”

ثوبیہ: “اچھا تو بس میں کیا کر رہے تھے پیچھے سے؟ میری تو جان نکال دی تھی۔”

میں: “وہ تو بس پیار کر رہا تھا۔”

میری اس بات پر وہ ہنسنے لگی تو اس کے ہنسنے سے اس کے مَمے ہلنے لگے۔ ثوبیہ کے جسم سے انتہائی اچھی سمیل آ رہی تھی جو مجھے پاگل کر رہی تھی۔ ثوبیہ کچھ بولنے لگی تب تک میری برداشت جواب دے گئی۔ میں نے اس کے چہرے کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے اس کے ہونٹ بند کر دیے۔ میں اس کے نیچے والے ہونٹ کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ کیا کمال کے ہونٹ تھے، مکھن کی طرح نرم، رسیلے۔۔ میرے سارے جسم میں نشہ چھانے لگا۔ میں نے اس کے ہونٹ کے ساتھ اس کی زبان بھی چوسنے لگا۔ ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر دوسرے ہاتھ سے اس کا مَما پکڑ لیا۔ جیسے ہی میں نے اس کا مَما پکڑا اس کا جسم ایک دفعہ کانپ گیا،  اور اس نے میری زبان کو اپنی زبان کے زور سے دبایا اور ایک گہرا چوسا لگایا۔ اس کی اس حرکت نے میرے جسم میں آگ لگا دی۔

میرا لن لوہے کے راڈ کی طرح سخت ہو گیا اور میں اور زور سے اس کی زبان چوسنے لگا۔ اس کے مَمے بہت بڑے تھے۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں اس کے مَمے پکڑ لیے اور انہیں زور زور سے دبانے لگا،  اتنے نرم مَمے جیسے روئی  کے گالے ہو اور مکمل ٹائٹ اکڑے ہوئے۔ پھر میں نے اس کا ایک مَما دونوں ہاتھوں میں لے لیا، اس کا ایک مَما میرے دونوں ہاتھوں میں نہیں سما رہا تھا۔ اتنے گرم مَمے اور شہد جیسے میٹھے ہونٹ مجھے پاگل کر رہے تھے۔ ثوبیہ بھی اپنی چھاتی آگے کر کے مَمے دبائے جانے کا مزہ لے رہی تھی۔

میں نے ہونٹ چوستے چوستے اس کی ٹھوڑی منہ میں لے لی اور اسے چوستا ہوا گلے تک آ گیا۔ اس کے گلے پر ہونٹ رکھ کر سمیل کرنے لگا۔ کمال کی خوشبو تھی جیسے گلاب نچوڑ کر گلے پر رکھ دیا ہو،  میں نے اس کے گلے سے رومال ہٹایا تو

اُففففففف توبہ۔۔ سکن کا نظارہ میرے سامنے تھا۔ اس کے انتہائی گورے چٹے مَموں کا اوپری حصہ نظر آ رہا تھا۔

 دونوں ابھاروں کے درمیان لکیر سی بن رہی تھی۔ اس کے مَموں کا کچھ حصہ بلیک گاؤن میں سے غضبناک طریقے سے جھانک رہا تھا۔ میں نے گاؤن نیچے کھینچ کر اس کے مَمے تھوڑے اور ننگے کر دیے۔ سنگ مرمر کی طرح شفاف، ترشے ہوئے، گوشت سے بھرپور مَمے کمال کا نظارہ دے رہے تھے۔ میں نے فوراً اپنے ہونٹ مَموں کے ننگے حصے پر رکھ دیے اور ان کا نایاب رس حلق سے اتارنے لگا۔ میں انہیں کبھی زور سے چوسنے لگتا تو کبھی دبانے تو کبھی کاٹنے لگتا،  اس کے مَموں کا رس مجھ میں وحشت پیدا کر رہا تھا۔

ثوبیہ کی آنکھیں بند تھیں،  وہ بھی ان رنگین لمحوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس کا مرمریں بدن پتہ نہیں کب سے پیاسا تھا، اور آج ہم دونوں ایک دوسرے کی پیاس بجھا رہے تھے۔ میری وحشت زیادہ ہونے لگی،  میں نے گاؤن کو گلے سے پکڑ کر زور سے نیچے کھینچا مگر گاؤن نے اتنے بڑے مَموں کو پار کر کے نیچے جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے گاؤن اور قمیض کا گلے کا حصہ اکٹھا پکڑ کر نیچے جھٹکا دیا اور اس کے ساتھ ہی گاؤن اور گلے کا تھوڑا سا حصہ گلے سے پھٹ گیا،  اور اس کے دونوں مَمے برا کے اندر سے زور مار کر باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔

واؤ۔۔ کیا کمال کا سیکسی نظارہ تھا! میرا لن پھٹنے پر آیا ہوا تھا اور ہونٹ خشک ہو گئے۔

 اس کے مَمے میری سوچ سے بھی زیادہ سڈول اور نفیس تھے اور سکن کلر کی برا میں بہت ہاٹ لگ رہے تھے۔ ایسے اکڑے ہوئے تھے کہ ابھی برا پھاڑ کر باہر آ جائیں گے،  میں نے گاؤن کو پھاڑا تو مستی میں ڈوبی ثوبیہ نے آنکھیں کھولیں،  وہ جلدی سے سیدھی ہو گئی

ثوبیہ کہنے لگی، “یہ کیا کر دیا پاگلا!”

میں (شرمندہ ہوتے ہوئے): “سوری، پتہ ہی نہیں چلا تمہارے خمار  میں گیا تھا، دماغ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اوریہ ہوگیا۔”

ثوبیہ: “دیکھو عامر، تم مجھے اچھے لگتے ہو لیکن ہم حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تم نے جو کرنا ہے کپڑوں کے اوپر سے کر لو لیکن اندر سے نہیں۔”

میں: “اندر سے کیوں نہیں میری جان؟”

ثوبیہ: “بس میں شادی سے پہلے ایسا کچھ نہیں کروں گی” (اور اپنا گاؤن سیٹ کرنے لگی) “اب میں گھر جا کر کیا کہوں گی کہ کیسے پھٹا یہ؟”

میں: (میں نے سوچا کوئی بات نہیں، جلدی  میں کھیر کھانے سے منہ بھی جل سکتا ہے، ابھی پہلی ڈیٹ ہے چلو کوئی بات نہیں اس کا رس تو میں چوس کر رہوں گا اور پھدی بھی مار کر رہوں گا) “ٹھیک ہے ڈارلنگ کوئی بات نہیں ، جیسے تم چاہو میری جان ویسے ہی ہوگا۔”

میں نے اسے پھر سے گلے لگا لیا، ابھی تک ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے گلے پر میں کس کر کے پھر بولا، “تم جیسے کہو گی  میں ویسا کروں گا۔” پھر میں نے اسے کھڑا ہونے کا کہا۔

ثوبیہ: “کھڑی کیوں ہوں؟”

میں: “میں تمہیں کھڑا ہو کر گلے لگانا چاہتا ہوں۔”

ثوبیہ (ہنس کر): “تو بیٹھ کر گلے لگا لو نا۔”

یہ کہہ کر وہ سیکسی انداز میں بال جھٹکنے لگی۔ اس کے مَمے ابھی تک اوپر سے نظر آ رہے تھے اور میرے لن کو اکسا رہے تھے۔ مجھے وہ اتنی پیاری لگی کہ میں نے اسے بانہوں میں بھر کر اٹھا لیا اور زور سے جھپی ڈال لی۔ اس کے سیکسی مَمے میرے سینے میں گھسنے لگے۔ ان کی نرمی مجھے گرم کر رہی تھی۔ میرا اکڑا ہوا گرم لن اس کی ناف پر لگنے لگا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page