Passion of lust -07- ہوس کا جنون

Passion of lust -- ہوس کا جنون

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،

ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں  ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ  سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا،  اور پھر ۔۔۔۔۔

چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس کا جنون قسط -- 07

اس کی برا کے سٹرپ نظر آ رہے تھے، کالے رنگ کے سٹرپ اس کے گورے بدن پر جچ رہے تھے۔ اس نے برتن دھوئے اور چلی گئی۔ میں پیچھے سے اس کی گانڈ دیکھنے لگا۔ بیٹھ کر جب وہ اٹھی تو اس کی قمیض اس کی گانڈ کے اوپر ہی ٹک گئی جس کی وجہ سے اس کی گانڈ صاف نظر آ رہی تھی۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر گرمی چڑھنے لگی۔ میں اس کی گانڈ کو گھورتا رہا جب تک وہ کچن میں نہ چلی گئی۔

میں نے کپڑے تبدیل کیے اور ناشتہ کر کے کالج کے لیے نکل گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ثوبیہ آج چھٹی پر ہے، اس کا مطلب آج بس میں کوئی مزہ نہیں ہو گا۔ پھر میرے ذہن میں ثمینہ آ گئی۔ مجھے شرمندگی سی ہونے لگی کہ میں کس طرف چل نکلا ہوں۔ ثوبیہ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اپنی ہی بہن۔۔ مجھے عجیب سی شرم محسوس ہونے لگی۔ میں نے پکا ارادہ کیا کہ آج کے بعد ثمینہ کو بری نظر سے نہیں دیکھوں گا۔

یہی سوچتے سوچتے میں بس سٹاپ پر پہنچ گیا۔ بس آئی تو میں بس پر سوار ہو گیا۔ روز کی طرح آج بھی بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ بس کا کنڈیکٹر بس میں چڑھتے اترتے بہت سی عورتوں کو ہاتھ پھیرتے رہتے تھے۔ یہ منظر کئی بار میری نظروں سے بھی گزرا تھا۔ پہلے تو مجھے یہ برا لگتا تھا لیکن اب میں بھی اس لسٹ میں شامل ہو گیا تھا۔ میں بس کے اندر پہنچ کر ایک سیٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ بس میں لڑکیاں اور عورتیں بھی تھیں۔ بس میں اکثر لوگ لڑکیوں اور عورتوں کے مَموں اور گانڈ پر ہاتھ پھیر دیتے تھے۔ کچھ عورتیں بول پڑتیں، کچھ چپ رہ جاتیں یا مزہ لیتی۔

پھر ثوبیہ کا سٹاپ آ گیا۔۔ 2 لڑکیاں بس پر سوار ہوئیں۔ وہ عائزہ اور عالیہ تھیں۔ عالیہ نے کافی ٹائیٹ سوٹ پہن رکھا تھا جس سے اس کا فِگر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ بس پر سوار ہوئی تو کافی لوگوں کی نظریں اس کے جسم کے نشیب و فراز کا جائزہ لے رہی تھیں۔ کنڈیکٹر نے بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اس کی گانڈ پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ کر دھکیلا۔

 “جلدی کرو باجی ۔۔”

یہی کام اس نے عائزہ کے ساتھ بھی دہرایا۔۔ یہ دیکھ کر میرا خون تو کھولا لیکن میں چپ رہا۔ وہ دونوں اوپر چڑھ کر دروازے کے پاس ہی کھڑی ہو گئیں۔ عالیہ نے جب نظر گھمائی تو اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر سمائل آ گئی۔ اس نے اشارے سے ہیلو کہا۔

پھر سواریوں سے ٹکراتی میری طرف بڑھی،  عائزہ بھی اس کے پیچھے تھی۔ عالیہ میرے پاس آ کر سامنے والی سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی اور مجھ سے باتیں کرنے لگی۔

میری نظریں بار بار اس کے جسم کا جائزہ لینے لگتیں۔ اس نے سر پر دوپٹہ لیا ہوا تھا جو سر سے سرک کر نیچے آ گیا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے بس کی چھت سے لگا ہینڈل پکڑا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کا ایک مَما پورا اور دوسرا آدھا نظر آرہا تھا۔ اس کے مَمے  34 سائز کے ہوں گے۔۔ اس کے نیچے چھوٹی، پتلی سی، بل کھاتی، وی شیپ قمیض سے اس کی نیول (دُھنی) کی جھلک صاف نظر آ رہی تھی۔ نیچے اس نے ٹائیٹ پاجامہ پہن رکھا تھا۔۔ کبھی اس کی قمیض اِدھر اُدھر ہوتی تو اس کے پٹوں کا نظارہ بھی مل جاتا۔۔ جو گول اور مناسب سائز میں تھے۔ سالی کا فِگر انڈین ایکٹریسز کی طرح تھا جس کو وہ دکھانا بھی جانتی تھی۔ وہ میری باتوں پر ہنستی رہی پھر اس نے ایک سوال پوچھا۔

عالیہ: “کل جب ہم کیبن سے باہر گئے تھے تو کیا کرتے رہے ثوبیہ کے ساتھ؟ بڑی تعریف کر رہی تھی تمہاری۔۔”

میں: “کچھ نہیں، بس باتیں۔۔”

عالیہ (آنکھیں نکال کر): “اچھا۔۔ بچو مجھے پتہ ہے جو باتیں کر رہے تھے۔ کل خوب مستی کی پھر۔۔” (اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا)

میں نے دل میں سوچا، عامر بیٹا یہ آم بھی تیری گود میں گرنے والا ہے، تم آم چوسنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

میں: “ہاں شاید کچھ مستیاں بھی کی۔”

عالیہ: “اوہ، میری فرینڈ ہی تمہیں اچھی لگتی ہے بس؟” (یہ کہتے ہوئے اس نے میرے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا)

اس کے اور میرے جسم میں کچھ انچ کا فاصلہ تھا۔۔ اس کے بال اڑتے ہوئے میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے۔ سین رومینٹک ہونے لگا۔۔ بچی خود چل کر پاس آ رہی تھی۔ آخر میں بھی باڈی بلڈر تھا۔۔ گورا چٹا رنگ، لمبے بال ۔۔ لڑکیاں  فدا تو ہوں گی ہی۔ پہلے میں اگنور کر دیتا تھا لیکن اب تو مزے کرنا چاہتا تھا۔

میں نے سوچا اس کو ہی پہل کرنے دیتا ہوں، وہ پھر بولی

عالیہ: “میں نے کچھ پوچھا ہے؟”

میں: “ہاں وہی اچھی لگتی ہے۔”

عالیہ (مصنوعی غصے سے): “میں اچھی نہیں لگتی کیا؟” (یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے مَموں کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو یہ اچھے نہیں لگتے)

میں: “ہاں تم بھی بہت ہا۔۔ پیاری ہو۔” (میرے منہ سے ہاٹ نکلنے لگا تھا لیکن وہ سمجھ گئی کہ میں اس کے مَموں کو دیکھ رہا تھا)

عالیہ: “نظروں پر قابو رکھیے گا انار ابھی کچے ہیں۔۔” (اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے مَمے اور باہر نکال دیے)

میں: “مجھے تو پکے ہوئے لگ رہے ہیں تمہارے انار۔” (اس کے مَموں کو دیکھ کر)

میری بات سن کر وہ ہنس پڑی، سالی بڑی چالو چیز تھی۔ ابھی سے کھلتی جا رہی تھی۔

عالیہ: “اچھا یہ بتاؤ تم نے کل ہی کل میں ثوبیہ کے تربوز تو نہیں پی لیے؟” (یہ کہتے ہوئے وہ تھوڑی آگے ہو گئی)

میں: “پیا تھا باہر سے۔”

عالیہ: “اوہ! تو تربوز کے لیے ترس رہا ہے بچہ۔۔ کبھی آم پر دھیان نہیں گیا کیا جو چوسنے میں بھی زیادہ مزہ دیتا ہے اور پکڑ میں بھی آسانی سے آ جاتا ہے؟”

اس کی ذومعنی باتیں سن کر مجھے مستی چڑھ رہی تھی۔

میں: “اگر کبھی موقع ملا تو ضرور چوسوں گا۔”

یہ بات کہتے ہوئے میرا لن کھڑا ہو گیا تھا۔ عالیہ جو میرے پاس کھڑی تھی میرا لن اس کی ران سے ٹکریں   مارنے لگا۔

عالیہ: “موقع تو کبھی بھی مل سکتا ہے صاحب اور ہاں کچھ لوگ اپنے سانپوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں” (یہ بات اس نے نیچے میرے لن کو گھورتے ہوئے کہی جو کھڑا جھٹکے کھا رہا تھا)

میں: “جب بین اتنی خوبصورت ہو گی تو سانپ تو باہر آئے گا ہی۔”

عالیہ (آنکھ مار کر): “لیکن بین تو ابھی بچی ہی نہیں۔”

مجھے اس کا انداز اتنا پیارا لگا کہ دل کیا ابھی سالی کو پکڑ کر چود دوں۔

میں: (میں نے اس کے ہونٹوں پہ سانس چھوڑتے ہوئے کہا) “سانپ دودھ پینے کے لیے بھی باہر آ جاتے ہیں۔”

میرا کھڑا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان گھس چکا تھا۔

عالیہ (میرے لن کو اپنی ٹانگوں میں دبا کر): “بابو! دھیان رکھنا کہیں سانپ پٹاری میں نہ گھس جائے۔”

مجھے بہت مزہ آ رہا تھا، اس کی ٹانگوں کا لمس مجھے پاگل بنا رہا تھا۔۔ اوپر اس کی تندور کی طرح گرم پھدی تھی جس کی ہیٹ میرے لن کو گرما رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page