Passion of lust -22- ہوس کا جنون

Passion of lust -- ہوس کا جنون

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،

ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں  ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ  سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا،  اور پھر ۔۔۔۔۔

چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس کا جنون قسط -- 22

میں نے جھٹکا لیا اور لَن پچکاریاں مارنے لگا۔ ثوبی نے مجھے پھدی دیے بغیر ہی فارغ کر دیا تھا۔ میرا لَن نرم پڑ گیا۔ ثوبی کی پھدی میں ابھی آگ لگی ہوئی تھی… پھر وہ لَن ٹھنڈا کیسے ہونے دیتی تھی! ثوبی نیچے ہوئی اور اپنے ممے میرے منہ کے سامنے لے آئی، ثوبی کے بھرپور ممے قہر برسا رہے تھے۔ ثوبی نے جھک کر اپنے ممے میرے منہ پر مارنے لگی۔ افف! کیا مزہ تھا اتنے نرم ممے… میرا ممے چوسنے کا دل ہونے لگا۔ میں نے منہ کھولا اور ثوبی نے پورے زور سے اپنا مما میرے منہ میں ٹھونس دیا۔میں  مما چوسنے لگا، ثوبی نے پھر سے پھدی کو لَن پر رگڑا، ممے چھڑوائے اور لَن پر پڑنے والی پھدی کی رگڑ سے لَن پھر سے راکٹ کی طرح تیار ہو گیا۔ ثوبی سیدھی ہوئی اور لَن کھڑا دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

اس نے لَن کو مٹھی میں پکڑا اور لَن کی مٹھ مار کر سختی چیک کرنے لگی۔ اس نے لَن منہ میں لے کر چوسا، مٹھ مارا اور تھائیز کی سائیڈ میں پاؤں رکھ کر بیٹھ گئی۔ ثوبی نے اپنی پھدی اور گانڈ تھوڑی سی اوپر اٹھائی پھر لَن کو پھدی پر سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ لَن پھدی میں اتارنے لگی۔

اس کے چوتڑوں کے درمیان پھدی بہت دلکش نظارہ دے رہی تھی… لَن پھدی کی گہرائی میں اترتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ثوبی نے پورا لَن پھدی میں اتار لیا اور گھٹنے زمین پر لگا دیے۔ پھر اس نے لَن تھوڑا سا باہر نکالا اور دوبارہ پھدی میں لے لیا۔ پھر وہ اچھل اچھل کے لَن پر گرنے لگی۔ ہوا میں ہلتے ہوئے اس کے ممے غضب ڈھا رہے تھے… وہ ایسے جوش سے لَن پر اچھل  رہی تھی جیسے لَن کے ساتھ مجھے پھدی میں گھسا لے گی۔ اس کا وحشیانہ انداز مجھے مست کر رہا تھا۔ پھر ثوبی میرے اوپر آئی اور میرے شولڈر پکڑ کے مجھے بٹھا دیا۔ اس کے چوتڑ میری تھائیز پر تھے اور لَن پورا پھدی میں گھسا ہوا تھا۔ میری ٹانگیں زمین پر بچھی ہوئی تھیں۔ ثوبی نے مجھے جھپی ڈال لی اور پھر گانڈ ہلا ہلا کے مجھ پر پمپنگ  کرنے لگی۔

کچھ دیر بعد اس کی حرکت تیز ہو گئی، اس نے اپنے لپس میرے لپس میں گاڑھ دیے اور زور کا جھٹکا مار کر پانی چھوڑنے لگی… ثوبی تو فارغ  ہو گئی مگر میں ابھی گرم تھا۔ پھدی سے نکلنے والے پانی نے مجھے اور آگ لگا دی تھی۔

میں نے ثوبی کو گھوڑی بننے کو کہا، ثوبی گھوڑی بن گئی اس کی لال سیب جیسی گانڈ میرے سامنے تھی اور اس کے نیچے پھدی نظر آ رہی تھی۔ میں نے لَن کو پھدی پر سیٹ کیا اور زور دار جھٹکے سے اندر ڈال دیا اور اس کے ممے پکڑ کر زور سے چدائی کرنے لگا۔

ثوبی پھر سے گرم ہو گئی اس کے نرم چوتڑ میری تھائیز پر لگتے اور لَن پیٹ تک چلاجاتا، بہت مزہ آ رہا تھا۔ پھر میں نے ثوبی کو کھڑا کیا اور اس کا ایک پاؤں حوض کی دیوار پر رکھ دیا۔ اب ثوبی کی پھدی لَن کے سامنے تھی۔ میں نے سارا لَن پھدی میں ٹھونس دیا۔

 کیا مزے کی چدائی تھی! ثوبی نے میرے ذہن سے سب لڑکیاں نکال دی تھیں۔ یہ بھی خیال نہیں تھا کہ سامنے برا اور شلوار میں کھڑی عائزہ میری چدائی دیکھ رہی ہے اس کا کیا حال ہو گا! میں ثوبی کو جھٹکے پر جھٹکا مارتا رہا اور پھر میرا لَن سگنل دینے لگا۔ میں نے جوش میں ثوبی کو اٹھا لیا اور تابڑتوڑ  جھٹکے مارے اور پھر کچھ ہی گھسوں کے بعد میرا لَن ٹیوب کی طرح ثوبی کی پھدی کو سیراب کرنے لگا۔ ثوبی بھی میری مستی کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور پانی چھوڑنے لگی۔ ہم دونوں پسینے میں بھیگ گئے تھے اور مارے تھکاوٹ کے کانپ رہے تھے۔ اس زور دار چدائی سے ہم دونوں کے جسم درد کر رہے تھے۔

 میں نے عائزہ کی طرف دیکھا تو اس نے ایک مما برا سے نکال کے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور اسے رگڑ رگڑ کر لال ٹماٹر بنایا ہوا تھا…یہ  نظارہ بہت ہاٹ تھا لیکن ابھی کچھ خاص نہیں لگ رہا تھا… عائزہ کا دوسرا ہاتھ پھدی پر تھا اور وہ آنکھیں پھاڑے ہمیں گھور رہی تھی۔ اسے احساس بھی نہیں تھا کہ چدائی مکمل ہو چکی ہے… ثوبی اسے دیکھ کے ہنسنے لگی۔

ثوبی: “کیسے آگ لگی ہوئی ہے سالی کو!”

پھر اس نے ہنستے ہوئے عائزہ کو پکارا اور وہ جیسے ہوش میں آ گئی اور مسکراتے ہوئے بولی “کیا ہے؟”

اس کے اس انداز پر ہم دونوں ہنسنے لگے۔ اسے یہ یادہی  نہیں رہا تھا کہ اس کا دلکش  مما ننگا ہے۔

ثوبی: “یہ اپنا واٹر میلن تو اندر ڈال لے کہیں اسے دیکھ کر میرے عامر کا لَن کا پھر سے کھڑا نہ ہو جائے۔”

عائزہ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور اس نے جلدی سے ممے برا میں کر لیا مگر برا سیٹ نہ ہوا اور نپل ننگا رہ گیا۔ پھر عائزہ نے زور سے نپل کو دبایا اور پورا مما چھپا دیا مگر آدھے تو اب بھی ننگے تھے۔ بلیک برا میں چکنا بدن بہت سیکسی نظر آ رہا تھا اور اس کی حرکات دیکھ کر سچ میں لَن پھر سے کھڑا ہونے لگا… ثوبی نے لَن ہلتے دیکھا تو اسے پکڑ کر بولی۔

ثوبی: “اب موڈ نہ بناؤ! جلدی سے نہاؤ! پھر گھر کو نکلو تم۔۔اب تک  بہت ہو گیا ہے۔”

پھر نہا کر میں نے کپڑے پہنے۔ تب تک ثوبی اور عائزہ بھی کپڑے پہن چکی تھیں۔ پھر میں نے ثوبی کو جھپی ڈالی اور ان کو گڈبائے  کہہ کر گھر کی طرف چل دیا۔وہ دونوں  بھی اپنے گاؤں کی طرف جانے لگیں۔ ثوبی کی اس چدائی نے سچ میں میرا جوس نکال دیا تھا۔ ایسی مست چدائی کر کے میں تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ گاؤں پہنچ کر میں نے سب سے بڑا جوس کا ڈبہ لیا اور پینے لگا۔ پھر میری انرجی کچھ بحال ہوئی تو گھر کی طرف جانے لگا۔ گھر پہنچتے ہی میں اپنے روم کی طرف چل دیا۔ راستے میں ثمینہ سامنے آئی۔

ثمینہ: “کہاں تھے نواب صاحب آج؟”

میں: “کہیں نہیں بس دوستوں سے ملنے گیا تھا ساتھ والے گاؤں میں اسٹڈی کے سلسلے میں۔”

ثمینہ: “اتنی دوپہر میں کون سی اسٹڈی ہوتی ہے بھیا؟” (ثمینہ نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا)

میں: “کیوں؟ دوپہر میں دماغ کی بتی  نہیں جلتی کیا؟”

پھر وہ چلی گئی اور میں اپنے روم میں جا کر لیٹ گیا، جاتے ہی مجھے نیند آ گئی۔ اتنی زیادہ چدائی کے بعد میں دیر تک سوتا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اندھیرا چھا گیا تھا، میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اٹھ کے شاور لیا اور کپڑے پہن کر صحن میں بیٹھ گیا۔

 ثمینہ میرے لیے دودھ لے کر آئی… اس نے دوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا… اپنے ممے آگے دکھاتے ہوئے جھک کر گلاس میرے ہاتھ میں کر دیا

“یہ لو بھیا دودھ پی لو۔”

 ایک لمحے کو ایسے لگا جیسے اپنے دودھ پینے کو کہہ رہی ہو۔ میں نے اس کے بوبس کی طرف دیکھا اور دودھ لے لیا۔

میں: “آج تو دودھ بہت گرم لگ رہا ہے۔”

ثمینہ: “گرم دودھ صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے نا بھیا! اور چاہیے تو بتا دینا۔”

پھر وہ اپنی گانڈ مٹکاتی ہوئی چلی گئی،امی  کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page