Passion of lust -26- ہوس کا جنون

Passion of lust -- ہوس کا جنون

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،

ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں  ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ  سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا،  اور پھر ۔۔۔۔۔

چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس کا جنون قسط -- 26

ثمینہ: “جلدی کرو نا بھیا! دیکھو کتنی گرمی ہے

وہ اپنی قمیض گلے سے پکڑ کر ہلانے لگی، میرا سانس رکنے لگا۔۔۔ اس کے ممے ہلتے ہوئے دیکھ کر میرے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگیں۔۔۔ میں نے کھانا چھوڑا اور اس کے مموں کو دیکھتے ہوئے بولا “ہاں بتاؤ میری بہن کیا کرنا ہے!” (میں بغیر شرمائے اس کے مموں کو دیکھ رہا تھا)

ثمینہ: “کھانا تو کھا لو۔۔۔ بس اتنا سا ہی کھانا تھا؟”

میں: “ہاں بس۔”

اب اسے کیا پتہ تھا کہ میرا اصل کھانا تو اس کی قمیض میں چھپا ہوا ہے۔۔۔ ثمینہ میرے سامنے سے اٹھتے ہوئے بولی۔۔۔

ثمینہ: “پہلے کمرے میں سے سامان باہر نکالنا ہے پھر پنکھے صاف کرتے ہیں اور چھت سے جالے اتارنے ہیں۔”

جب وہ روم سے گئی تو اس کی شلوار اس کی گانڈ کی پھانکوں میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔ وہ کولہے مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی۔

 میں نے دل میں سوچا “مان یا نہ مان عامر! یہ لڑکی تجھ سے چدوانا چاہتی ہے!”

 پھر وہ روم میں آئی اور ہم سامان باہر نکالنے لگے۔ جب وہ سامان اٹھانے کے لیے جھکتی تو اپنے آدھے مموں کے درشن کروا دیتی۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔ میرا لَن فل ٹائٹ تھا اور ٹراؤزر سے صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔ وہ بار بار میرے لَن کو چور نظروں سے دیکھتی اور میں اسے لَن دکھانے کے لیے اچھل اچھل کر چلتا، جس سے میرا لَن ہلنے لگتا۔۔۔ اور اس کی آنکھیں سرخ ہونے لگتیں۔ وہ بھی میرے آگے سے گزرتی ہوئی کئی بار میرے لَن سے ٹچ ہوئی اور یوں اگنور کرتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔ پھر وہ الماری سے ایک کتاب اتارنے لگی مگر اس کا ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا۔۔۔ میں اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ وہ بولی۔

ثمینہ: “عامر! یہ بک اتارو!”

میں سمجھ گیا کہ وہ لَن کو گانڈ پر محسوس کرنا چاہتی ہے۔۔۔ میں آگے ہوا تو میرا لَن سیدھا اس کی نرم گانڈ سے جا ٹکرایا۔۔۔ گانڈ کا لمس جذبات کو مزید گرم کرنے لگا۔۔۔ افففف! کیا نرم گانڈ تھی!

میں کچھ دیر کے لیے رک گیا۔ ثمینہ بھی کچھ نہ بولی، آگ برابر کی لگی ہوئی تھی۔۔۔ دونوں میں سے کوئی بھی پہل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ممے اور گانڈ دکھا کر مجھے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی تھی اور میں بھی اسے لَن کے درشن کروا رہا تھا۔ وہ بھی بہانے سے لَن ادھر ادھر ٹچ کروا رہی تھی اور میں بھی مستی میں چیز اٹھاتے کبھی اس سے ٹکرا جاتا اور کبھی اس کے مموں کو گھورتا مگر اب ہم دونوں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میرا لَن اس کی گانڈ میں لگا ہوا تھا اور ہم دونوں چپ کھڑے تھے۔ پھر وہ گانڈ پیچھے دباتی ہوئی بولی۔

ثمینہ: “جلدی کرو نا عامر!”

لَن پر لگنے والی گانڈ کا مزہ چھوڑ کے پیچھے ہٹنے کودل  نہیں  چاہ  رہا تھا۔۔۔ میں نے بک پکڑی اور اس کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ مجھے پیچھے ہٹاتے ہوئے باہر چلی گئی۔ اب سارا روم خالی تھا۔ پھر وہ ٹیبل پکڑ کے اندر آ گئی اور بولی۔

ثمینہ: “عامر! تم ٹیبل کو پکڑ کر رکھو میں پنکھا صاف کرتی ہوں۔”

میں نے ٹیبل پکڑا اور وہ میرے ساتھ اپنا جسم رگڑتے ہوئے ٹیبل پر چڑھ کے بیٹھ گئی۔ اس نے میری طرف گانڈ کی ہوئی تھی۔۔۔ بیٹھنے سے اس کی گانڈ اور زیادہ بڑی لگنے لگی۔ پھر اس نے بیٹھے بیٹھے میری طرف منہ کیا اور میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیے، اس کے تنے ہوئے ممے میرے منہ کے عین سامنے تھے۔ کھلے گلے سے آدھے سے زیادہ ممے نظر آ رہے تھے۔۔۔ اس کے جسم سے پسینے کی ہلکی ہلکی سمیل آ رہی تھی جو مجھے سیکس پر اکسا رہی تھی۔۔۔ میرا دل کیا ابھی اس کا مَمّہ منہ میں ڈال لوں۔

ثمینہ: “میں کھڑی ہونے لگی ہوں اب سنبھال کے رکھنا۔۔۔”

میں: “اوکے میری پیاری بہنا!”

اور تھوڑا سا منہ آگے کر دیا۔ جب وہ اٹھنے لگی تو اس کے مموں کی نوک میرے ہونٹوں سے رگڑ کھاتی ہوئی اوپر اٹھ گئی، میرا لَن جھٹکے مارنے لگا۔ ثمینہ کے تنے ہوئے نپلز نے میرے لہو میں آگ لگا دی تھی۔ ثمینہ کھڑی ہو گئی، اس کی قمیض میرے منہ سے ٹکرا رہی تھی۔۔۔ ثمینہ پنکھے کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے لگی۔ اس کا سارا جسم سیکسی انداز میں تھرکنے لگا مگر کھلی قمیض کی وجہ سے ممے صاف نظر نہیں آ رہے تھے۔

اچانک میرے ذہن میں آئیڈیا آیا کہ اگر میں بیٹھ جاؤں تو ثمینہ کی کھلی قمیض سے اس کے ممے ضرور دیکھ لوں گا۔۔۔ میں نیچے چوکڑی مار کے بیٹھ گیا اور ٹیبل کو بیٹھے ہوئے پکڑ لیا۔ ثمینہ اپنے کام میں مصروف تھی اور میں اپنے کام میں۔ میری خواہش پوری ہو رہی تھی، کھلی قمیض سے ثمینہ کا سارا پیٹ اور ممے صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔ دن کی روشنی میں اس کا جسم دیکھنے کا کچھ الگ ہی مزہ تھا۔ میرا جسم تڑپنے لگا، ثمینہ کے ننگے ممے سامنے تھے۔ کبھی قمیض زیادہ ہلتی تو نپل بھی نظر آ جاتے۔ میں کافی دیر اس نظارے کا مزہ لیتا رہا۔

ثمینہ: “عامر! میں اترنے لگی ہوں، زور سے پکڑنا۔۔۔”

میں: “اوکے! بیٹھ کے آرام سے اترو!”

جیسے ہی وہ نیچے بیٹھی اس کی باہر کو نکلی ہوئی چوڑی گانڈ میری ناک کے بالکل سامنے آ گئی۔۔۔

ثمینہ: “زور سے پکڑنا۔۔۔”

یہ کہتے ہوئے اس نے گانڈ کو ہلکا سا میرے منہ پر دبایا اور پھر ایک ٹانگ نیچے کی اور اپنا پاؤں میری ران کے پاس رکھ دیا۔ وہ جان بوجھ کر ایسے اتر رہی تھی تا کہ اپنی گانڈ میرے منہ پر دبائے۔ اس کی شلوار سے کمال سیکسی سمیل آ رہی تھی پھر اس نے ایک پاؤں پر وزن ڈالتے ہوئے دوسرا پاؤں دوسری ران کے پاس رکھ دیا اور میرا منہ اپنی گانڈ میں دبوچ لیا اور بولی۔

ثمینہ: “چلو اب چھوڑ کر پیچھے ہٹ جاؤ!”

مگر گانڈ کو ایسے دبایا جیسے منہ میں گانڈ لینا چاہتی ہو۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے ہٹ گیا، میرا لَن تڑپ رہا تھا۔ پھر اس نے جھاڑو پکڑا اور بولی۔

ثمینہ: “چلو اب جالے اتارنے ہیں۔”

اور پھر سے ٹیبل پر چڑھ گئی۔ اب ٹیبل بار بار ادھر ادھر کرنا پڑ رہا تھا۔۔۔ میں اس کے جسم کے مزے لے رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔

میں: “ثمینہ یار! ٹیبل ہر منٹ بعد ادھر ادھر کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔ میں تمہیں اٹھاتا ہوں اور تم ساری چھت صاف کر لو۔۔۔”

ثمینہ: (آنکھیں دکھاتے ہوئے) “اتنی دیر اٹھا لو گے۔۔۔!”

میں: “اپنے بھائی کی طاقت دیکھی نہیں کیا!” (اور لَن کو ایسے آگے کیا جیسے طاقت نہیں لَن کے بارے میں بول رہا ہوں)

ثمینہ: (ہنس کر لَن کو گھورتے ہوئے) “ہاں طاقت تو کافی نظر آ رہی ہے! چلو پھر اٹھاؤ!”

ثمینہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔۔ وہ بھی میرے جسم کا لمس چاہتی تھی۔ وہ بالکل میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ میرا لَن اس کی پھدی اور ناف کے درمیان ٹکرا رہا تھا۔۔۔ میں نے جھٹ سے ثمینہ کو اپنی باہوں میں لے لیا۔۔۔ یہ ایک کمپلیٹ جھپی تھی!

میں مزے میں ڈوب گیا، کچھ دیر کے لیے ہم دونوں ارد گرد سے غافل ہو گئے۔ صرف سانسوں کی آواز آ رہی تھی، اس کے نرم ممے، سڈول پیٹ میرے جسم کو انتہا درجہ کا مزہ دے رہا تھا۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page