Passion of lust -30- ہوس کا جنون

Passion of lust -- ہوس کا جنون

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی کہانی۔۔ہوس کا جنون۔۔ منڈہ سرگودھا کے قلم سے رومانس، سسپنس ، فنٹسی اورجنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر،

ایک لڑکے کی کہانی جس کا شوق ایکسرسائز اور پہلوانی تھی، لڑکیوں  ، عورتوں میں اُس کو کوئی انٹرسٹ نہیں تھا، لیکن جب اُس کو ایک لڑکی ٹکرائی تو وہ  سب کچھ بھول گیا، اور ہوس کے جنون میں وہ رشتوں کی پہچان بھی فراموش کربیٹا۔ جب اُس کو ہوش آیا تو وہ بہت کچھ ہوچکا تھا،  اور پھر ۔۔۔۔۔

چلو پڑھتے ہیں کہانی۔ اس کو کہانی سمجھ کر ہی پڑھیں یہ ایک ہندی سٹوری کو بہترین انداز میں اردو میں صرف تفریح کے لیئے تحریر کی گئی ہے۔

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ہوس کا جنون قسط -- 30

ثمرہ: (روتے ہوئے) “پلیز نہ بتانا! آپ جو کہو گے میں کروں گی! پلیزززز!”

میں: (ترس کھا کر) “اچھا ٹھیک ہے! چلو کھڑی ہو جاؤ اور بتاؤ کیا کر سکتی ہو میرے لیے؟”

ثمرہ: (سہم کر) “آپ جو کہو! آپ بھی کر لو میرے ساتھ مگر مت بتانا!”

میں: “میں کیا کر لوں؟”

اس نے سر جھکا لیا اور چپ رہی۔

میں: (غصے سے) “بتاؤ کیا کر لوں میں؟”

ثمرہ: “آپ بھی میری لے لو!”

اس کا انداز اتنا پیارا تھا کہ میں نے اس کا ایک گال چوم لیا۔

ان ساری باتوں میں عادی ایک بار بھی نہیں بولا۔

میں: (عادی سے) “پیار کرتے ہو اس سے۔؟”

عادی نے ہاں میں سر ہلایا تو مجھے غصہ آ گیا۔

میں: “اگر پیار کرتا ہے سالے تو ابھی تک بولا کیوں نہیں! وہ سب لٹانے پر تیار ہے اور تو بولا نہیں! دفع ہو جا اور آج کے بعد ادھر دکھائی دیا تو گانڈ پھاڑ دوں گا۔!”

عادی فوراً چھو منتر ہو گیا۔ اگر وہ اس لڑکی کو پیار کرتا ہوتا تو میں ثمرہ کو ضرور چھوڑ دیتا مگر ایسے لڑکے بس پھدی کی تلاش میں ہوتے ہیں، پھدی ماری اور چلتے بنے۔ اسی لیئے  عادی بھی بھاگ گیا۔

ثمرہ وہ پھل تھا جو ابھی صحیح سے پکا بھی نہیں تھا۔ میں اسے غور سے دیکھنے لگا، وہ سر جھکائے کھڑی تھی، اس کے جسم پر بس قمیض تھی۔۔۔ میں اب آرام سے مستی کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میں نے نیچے جھک کر اس کے ہونٹ پر کِس کیا اور تھوڑا سا ہونٹ چوسا اور پیچھے ہٹ گیا، میں اسے ننگی دیکھنا چاہتا تھا۔

میں: “چلو قمیض اتارو!”

ثمرہ نے قمیض اتار دی۔

اففففف! کیا جسم تھا سالی کا۔۔۔ پیٹ چھوٹا سا، درمیانی سائز کے ممے جو اس کی پتلی کمر پر کافی بھاری لگ رہے تھے اور چھوٹی سی پھدی! پھدی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس نے ابھی زیادہ لَن نہیں لیے۔ میں نے اسے پکڑ کر گھما دیا، اففففف! اس کا پتلا سا جسم کمال شیپ کا تھا۔ چھوٹی سی گول گانڈ جو پتلی کمر کے نیچے بہت بھلی لگ رہی تھی۔۔۔ میرا لَن بہت ٹائٹ ہو چکا تھا، اسے اب ایک سوراخ کی ضرورت تھی، لَن میں آگ لگی تھی۔ ایک ننگی کلی میرے سامنے کھڑی تھی۔ گاؤں میں جو لڑکیاں زیادہ کام کاج کرتی ہوں ان کے ممے بہت زبردست ہوتے ہیں۔۔۔ اٹھنا بیٹھنا، چارہ کاٹنا وغیرہ مختلف کام کرنے سے جسم پر فالتو چربی نہیں چڑھتی جس سے ان کا جسم بنا رہتا ہے۔ زیادہ تر لڑکیوں کی چھاتی اور گانڈ بڑی ہوتی ہیں کیونکہ ان کو خالص غذا ملتی ہے جیسے دودھ، مکھن وغیرہ جس سے ان کا نسوانی حسن بغیر جسم بنائے ہی فل گروتھ میں آ جاتا ہے۔ بس جو لڑکیاں کام تھوڑا کرتی ہوں یا سارا دن فارغ ہوتی ہوں وہ تھوڑی موٹی ہوتی ہیں۔۔۔ ثمرہ کا جسم بھی ایک دم کرارا تھا، میں نے اسے سیدھا کیا اور جھپی  ڈال کر اس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا، ثمرہ بھی گرم ہونے لگی، میرا لَن اس کے پیٹ میں کھپ رہا تھا۔

ثمرہ: “جلدی کرو! میں لیٹ ہو رہی ہوں نہیں تو گھر سے مار پڑے گی! پلیز۔۔۔!”

میں: “بچو! سالی! اس سے چدواتے ہوئے نہیں خیال آیا تھا گھر کا؟”

ثمرہ: “ویسے تو آپ گاؤں میں بڑے شریف مشہور ہیں پھر آج۔۔۔؟”

میں: (ہنس کر) “بس تمہیں ننگا دیکھ کر موڈ خراب ہو گیا ورنہ میں نے تو کبھی ایسا نہیں کیا!”

ثمرہ: “میری ایک کزن دوسرے محلے میں رہتی ہے، وہ آپ پر بہت مرتی ہے مگر آپ نے  کبھی اسے لفٹ ہی نہیں کروائی!”

میں: “اچھا! کون ہے وہ مجھے نہیں پتہ؟”

ثمرہ: “وہ کچھ دیر پہلے یہاں سے گئی ہے، شاید آپ نے دیکھی ہو، ریڈ کلر کے کپڑے پہنے تھے اس نے!”

میں سوچنے لگا ریڈ کپڑوں والی کون تھی، ویسے تو کافی ساری عورتیں گزری تھیں۔

میں: “کیا اسے پتہ ہے تم ادھر کیا کر رہی ہو؟”

وہ چپ رہی، میں نے پھر پوچھا “مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں نہیں بتاؤں گا تمہارے بارے میں کسی کو بھی!”

ثمرہ: “پرامس!”

میں: “پکا پرامس۔۔۔!”

ثمرہ: (ہنس کر) “ویسے تو آپ مجھے بھی اچھے لگتے ہو!”

سالی بہت بے شرم تھی، اتنی جلدی فری ہو رہی تھی، میں سوچنے لگا “لڑکی میں بہت آگ ہے، عامر پٹاخا ہے پٹاخا!”

ثمرہ: “ہاں! میری کزن کو سب پتہ ہے کہ میں عادی سے چدواتی ہوں، اسے آج جلدی تھی ورنہ وہ باہر کھڑی ہو کر دھیان رکھتی ہے!”

میں: “اور تو کیا وہ بھی عادی کو دیتی ہے؟”

ثمرہ: “نہیں اس کا کوئی نہیں ہے، بہت شرماتی ہے بس آنکھ مٹکا کرتی ہے یار!”

میں نے اس کی برا کی ہک کھولی اور بوبس ننگے کر دیے۔ اس کے بوبس اکڑے ہوئے تھے، میں نے اپنے ہونٹ اس کے مموں پر گاڑ دیے اور زور زور سے چوسنے لگا۔ اففففف! کیا مزہ تھا! اس کے جسم سے ہلکی ہلکی پسینے کی بو آ رہی تھی جو بری لگنے کے بجائے میرے جذبات کو مزید گرم کر رہی تھی۔ میں اسے دیوانہ وار چوس رہا تھا، کبھی ممے کبھی شولڈر۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا لَن پکڑ لیا، میں نے ابھی شلوار پہنی ہوئی تھی۔

ثمرہ: “اففف! کتنا بڑا ہے تمہارا! اتنا تو کھوتے (donkey) کا ہوتا ہے!” پھر ہنستے ہوئے بولی  “اس کو موٹا کرنے کی بھی کوئی ورزش کرتے تھے کیا۔۔۔؟”

میں: “نہیں یہ تمہیں دیکھ کر اتنا بڑا ہو گیا ہے!”

وہ زور زور سے لَن کھینچنے لگی، مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔

وہ مستی سے ہل ہل کر ممے چسوا رہی تھی اور لَن کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ پھر اس نے میری شلوار کا ازار بند کھینچا اور شلوار نیچے جا گری، لَن اچھلنے لگا۔ اس نے جھٹ سے قمیض سائیڈ پر کی اور لَن کو پکڑ کے گھورنے لگی۔۔۔ شاید اس نے پہلی بار بڑا لَن دیکھا تھا۔۔۔ عادی کا لَن کمزور سا تھا، اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

ثمرہ: “یہ اتنا بڑا میرے اندر ڈالو گے کیا تم؟ توبہ! میں نہیں دوں گی تمہیں! میری پھدی تو پھٹ جائے گی!”

وہ ڈر کر بولی مگر اس نے لَن نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ اسے ہاتھ سے دبا رہی تھی، اس کے نرم ہاتھوں کا لمس لَن کو سکون دے رہا تھا۔

میں: “جب بچہ اتنی چھوٹی سی پھدی سے باہر آ سکتا ہے تو یہ لَن کیا چیز ہے! بس ایک بار درد ہو گا!”

ثمرہ: “نہ بابا نہ! جب عادی نے پہلی بار پھدی میں لَن پھیرا تھا تو پورا ہفتہ درد ہوئی تھی! یہ تو ڈبل ہے! تم اوپر اوپر پھیر لو یا پھر میں گانڈ سے تمہارا لَن رگڑ دیتی ہوں!”

میں: (چونک کر) “تو کیا عادی تمہاری گانڈ بھی مارتا تھا؟”

ثمرہ: “نہیں! سوراخ میں نہیں ڈالتا تھا، جب پھدی میں درد ہوتا یا پیریڈ ہوتے تو وہ مجھے گھوڑی بنا لیتا اور میری گانڈ کی دراڑ میں لَن پھنسا کر خوب رگڑتا اور کہتا کہ اسے بہت مزہ آتا ہے، اس سے درد بھی نہیں ہوتا تھا اور مزہ بھی آتا تھا!”

میں: “تمہیں بھی مزہ آتا تھا؟”

ثمرہ: “ہاں آتا تھا تھوڑا مگر جب لَن سلپ ہو کر پھدی پر لگتا تو زیادہ مزہ آتا، جیسے ہی لَن پھدی پر لگتا میں رک جاتی اور لَن کو کچھ دیر پھدی پر دباتی رہتی اور پھر اس کی منی نکل جاتی اور میری پھدی بھی گیلی ہو جاتی تھی!”

میں: “ہمم!”

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page