جذبہ وابستگی ۔ محبت کی کہانی۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
جذبہ وابستگی قسط نمبر 03
یش کی عمر اس وقت 23 سال تھی۔ 21 سال کی عمر میں بی بی اے پاس کرنے کے بعد ہی اس نے بزنس جوائن کر لیا تھا۔ آفس کے سارے لوگ اس کے برتاؤ اور کام سے بہت خوش تھے۔ یش میں اپنے پتا کی طرح محنت، ہمت اور تیز دماغ کا وراثت تھا، مگر اس کا دل بالکل اپنی ماں جیسا تھا۔ ہر سنڈے وہ گاؤں کے اناتھ یشرم جاتا، وہاں کے بچوں سے ملتا، ان کے ساتھ خوب مستی کرتا، ان کے ساتھ اسے سکون ملتا۔ اسے لگتا جیسے وہ سب اس کے اپنے ہیں، آخر ان سب کے پاس بھی تو ماں باپ نہیں ہیں۔
ایک طرف اس کا ایک پاؤں ترقی کی منزل پر تھا دوسرا پاؤں زمین پر۔ بہت کم وقت میں اس نے اپنے بزنس کو بہت بڑا کر لیا۔ اس نے تھوڑے ہی دنوں میں جے پور کو اپنے بزنس کا مین برانچ بنا دیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو دھیرے دھیرے وہاں سے کام سکھاتا رہا تاکہ اس کا بھائی تھوڑا سدھر جائے، مگر وہ کہاں بدلنے والا تھا۔یش کو اپنا گاؤں بہت پسند تھا۔ وہ شہر میں بھلے ہی پورا دن کام کرتا لیکن رات کو وہ مادھوپور لوٹ آتا۔ اسے ڈرائیو کرنا بہت پسند تھا۔ تقریباً ہفتے کے چار دن اسے شہر جانا پڑتا، مگر وہاں سے خود ہی ڈرائیو کرکے لوٹتا تھا۔
شیکھاوت خاندان میں ایک رواج تھا۔ ان کے گھر میں لڑکوں کی شادی بہت جلدی کروا دی جاتی تھی۔ تبھی تو مہندر جی کی عمر صرف 44 تھی اور سورندر جی کی 42۔ اسی رواج کے چلتے میرا دیوی یش کی شادی کی جلدی کرنے لگی۔ انہوں نے آس پاس چاروں طرف خبر دوڑا دی کہ وہ یش کے لیے لڑکی دیکھ رہے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں کئی ساری لڑکیوں کے رشتے آنے لگے۔
ان میں سے میرا دیوی نے پاس کے ہی ایک گاؤں سے ایک لڑکی کو چنا اور اگلے سنڈے ان کے گھر جاکر ملنے کا پروگرام بنایا۔ مگر یش کو یہ سب باتیں بڑی ہی عجیب لگ رہی تھیں۔ وہ اس وقت اس شادی کے لیے تیار نہیں تھا۔ وہ اپنی زندگی کو اپنے بھائی بہنوں اور گاؤں والوں کی بھلائی کے لیے وقف کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس وقت شادی کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں تھا، مگر اپنی چچی کی بات کو نہیں ٹال سکتا تھا۔ اس لیے اس نے من میں ٹھان لیا کہ وہ جس سے بھی ملے گا، اپنی دل کی بات اسے صاف صاف کہے گا۔ اگر وہ مان گئی تو یہ شادی ہوگی، نہیں تو نہیں۔
اپنے بڑے بھیا کے رشتہ کی بات سن کر ادیتی سنڈے کو گھر واپس آئی تھی۔ یش اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا، تبھی ادیتی چہکتے ہوئے اس کے کمرے میں آئی اور یش کو چڑھانے لگی۔ یش اپنی اُلجھنوں میں ایسا کھویا ہوا تھا، اسے اس کے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔
ادیتی: کیا بات ہے بھیا؟ کہاں کھوئے ہو؟
یش: ارے تو کب آئی؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔
ادیتی: اچھا جی؟ بھابھی کے آنے سے پہلے ہی آپ نے ہمیں اگنور کرنا شروع کر دیا؟ وہ آئے گی تو ہمارا پتہ تو کٹ ہی جائے گا۔
یہ بول کر ادیتی زور سے ہنسنے لگی۔
یش نے جھوٹا غصہ دکھاتے ہوئے اس کا کان پکڑ لیا۔
ادیتی: آہ! بھیا، درد ہوتا ہے، چھوڑو نا۔
یش: بڑی ہو گئی ہے، پھر بھی بچپنا نہیں گیا تیرا۔
ادیتی (رونی سی ہو کر بولی): سچ بتاؤ بھیا، آپ ہمیں بھول تو نہیں جاؤ گے نا؟
یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھاری ہونے لگی تھی۔ یش کو اس کی حالت سمجھتے دیر نہیں لگی۔ یش نے ادیتی کو سینے سے لگا لیا۔
یش: نہیں، رے پاگل۔ تم لوگ تو میرے لیے جان سے بھی زیادہ پیارے ہو، خاص کر کے تم میری گڑیا رانی۔
یش کے بہلانے سے ادیتی مان گئی اور گھر کے سبھی لوگ لڑکی دیکھنے چلے گئے۔
جس لڑکی کو وہ دیکھنے جا رہے تھے اس کا نام تھا پونم۔ وہ ادیتی کی عمر کی ہی تھی یعنی کہ اس کی عمر بس 19 سال تھی۔ وہ کسی بڑے گھر کی بیٹی نہیں تھی۔ اس کے پاپا مادھوپور کے اسٹیشن ماسٹر تھے اور ماں ہاؤس وائف۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو بڑے نازوں سے پالا تھا۔ وہ ابھی کالج میں تھی۔ وہ اور پڑھنا چاہتی تھی، مگر اتنے بڑے گھر سے اس کا رشتہ ہو رہا تھا اس لیے اس کے ماں باپ نے اسے ایموشنلی اس شادی کے لیے تیار کر لیا تھا۔ اپنے ماں باپ کے لیے اس نے اپنی پڑھنے کی خواہش کو قربان کر دیا۔
شام کے 5:30 بجے وہ لوگ پونم کے گھر پہنچے۔ یش کو پونم کے ماں باپ کی سادگی صاف نظر آئی۔ میرا دیوی بھی ان سے اچھے سے بات کر رہی تھیں۔ بس ایک ادیتی ہی تھوڑی اُکڑی اُکڑی تھی۔ اسے یہ خیال کھائے جا رہا تھا کہ کہیں بھیا کو لڑکی پسند آ گئی اور شادی ہو گئی تو کہیں بھیا کو ان سے دور نہ لے جائے۔
کچھ دیر بعد پونم کی بڑی بہن اسے لے کر آئی۔ یش نے جب اسے دیکھا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ کچھ دیر کے لیے اس کی ساری اُلجھنیں، اس کے سارے سوال دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک پل کے لیے جیسے اس کی نظر بس پونم پر ہی ٹک گئی۔ اسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہیں اور بات چیت ہو رہی ہے۔ وہ بس پونم کو دیکھتا رہا، جیسے کہ اس کی نظروں کو سالوں سے اسی چہرے کو دیکھنے کی پیاس تھی۔ اسے محسوس ہوا جیسے پونم سے اس کے دل کا کوئی پرانا تار جڑا ہوا ہے۔
پونم نے اس دن ایک پنک کلر کی کانجیورم ساڑی پہنی تھی، ہاتھوں میں پنک کلر کی چوڑیاں، آنکھوں میں کاجل اور آئی لائنر جو اس کی کالی جھیل جیسی گہری آنکھوں کا نشہ اور بھی زیادہ بڑھا رہا تھا۔ اس کے پاؤں کی پائل اس کی دھیمی چال کے ساتھ چھن چھن بج رہی تھی۔ گلابی ساڑی میں اس کا گورا رنگ چاند کی چاندنی کے سامنے بھی پھیکا لگ رہا تھا۔ اس کے بھرے ہوئے گالوں پر شرم نے بھی اپنی لالی خوب بکھیر رکھی تھی۔ وہ سر جھکائے شرماتے ہوئے ہرن کی چال میں یش کی طرف بڑھ کر یش کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرنےلگی۔ اس کے اُبھرے ہونٹوں پر گلابی لپسٹک کا جادو ایسا تھا کہ کوئی بھی انہیں اپنے ہونٹوں سے چھونا چاہے گا۔ اس کے کالے لمبے بال جو کمر تک تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے چہرے کو کوئی نظر نہ لگائے، اس لیے اس کے چہرے کے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔
اس کے سینے کے اُبھار پنک بلاؤز میں کسے ہوئے تھے، اس کی پتلی کمر اس کی ہر چال کے ساتھ بل کھا رہی تھی۔ چلنے کے ساتھ ساتھ جب اس کی ساڑی ہٹ رہی تھی تو اس کی ناف دکھ رہی تھی۔ مگر یش کی اس کے چہرے سے نظر ہٹے تب تو وہ باقی کچھ دیکھے۔ جب کوئی چہرہ دل میں اترنے لگے، تب سمجھ جانا چاہیے کہ پیار ہونے لگا ہے۔ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کے جسم کے بدلے آپ کے چہرے میں جھانکنے لگے، سمجھ لو پیار ہونے لگا ہے۔
ادیتی نے جب اس کی حالت دیکھی تو اسے ہلکی سی کہنی ماری تو اسے تھوڑا ہوش آیا۔ تب تک پونم سب کو چائے سرو کر رہی تھی۔ جب وہ یش کے سامنے آکر چائے سرو کر رہی تھی، ان کی آنکھیں ایک پل کے لیے ٹکرائیں اور یش کو ایسا لگا جیسے اس کے دل پر ایک بجلی سی گری۔ چائے دیتے وقت ان کے ہاتھ ٹکرائے تو یش کے جسم میں جھنجھناہٹ دوڑ گئی۔ اس کے کومل ہاتھ مکھن کی طرح جیسے اس کی رگوں کے اندر گھلتے جا رہے تھے۔ وہی پونم اور بھی زیادہ شرما گئی۔ ادیتی چپ چاپ یہ سب دیکھے جا رہی تھی۔
میرا دیوی نے اب پونم کو بات کرنے کے لیے پاس بلایا۔ ان سے بات کرتے وقت پونم کے چہرے پر ایک ہلکی سی پیاری سی مسکان تھی جو یش کے دل میں ایک میٹھا سا درد گھول رہی تھی۔ چائے پیتے وقت یش چور نظروں سے اسے ہی دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بات کرنے کے بعد میرا جی نے کہہ دیا کہ انہیں لڑکی پسند ہے۔ سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیونکہ سب کو ہی پہلی نظر میں پونم پسند آگئئ تھی۔
میرا دیوی نے اس کے بعد یش سے پوچھا کہ اُسے پونم کیسی لگی؟، اُنہیں کیا پتہ تھا کہ یش کے دل پہ پونم نے کیا وار کیا تھا۔ اُس کا دل ہاں بولنے کو تڑپ رہا تھا۔ لیکن اُسی وقت ادیتی نے کہنی کے پاس سے اُس کی شرٹ کو پکڑلیا اور دُکھی نظروں سے یش کو دیکھنے لگی۔ اُس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی یش کو اُس کی ساری اُلجھن یاد آگئی ، اسی لیئے اُس نے وہ کہہ دیا کہ سب کے سوالیا نظروں سے اُسے دیکھنے لگے۔
یش۔ میں کچھ کہنے سے پہلے پونم جی سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Passionate Commitment–15–جذبہ وابستگی قسط نمبر
May 27, 2025 -
Passionate Commitment–14–جذبہ وابستگی قسط نمبر
May 27, 2025 -
Passionate Commitment–13–جذبہ وابستگی قسط نمبر
May 27, 2025 -
Passionate Commitment–12–جذبہ وابستگی قسط نمبر
May 26, 2025 -
Passionate Commitment–11–جذبہ وابستگی قسط نمبر
May 26, 2025 -
Passionate Commitment–10–جذبہ وابستگی قسط نمبر
March 12, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
