کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانس ، سسپنس اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک محبت بھری کہانی، ۔۔ جذبہ وابستگی ۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی محبت بھری کہانی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
جذبہ وابستگی قسط نمبر - 15
اخلیش: ایسا مال ہمارے پاس کتنا ہے؟
راگھَو: صرف ایک، اور وہ بھی آپ نیتا صاحب کو پرسوں کے لیے وعدہ کر چکے ہیں۔
اخلیش کے چہرے پر فکر کا تاثر اور گہرا ہونے لگا۔
راگھَو: میرے پاس ایک تجویز ہے حکم! آپ اجازت دیں تو بتاؤں۔
اخلیش نے ہاں میں سر ہلایا۔
راگھَو: جب تک ہمیں ڈی ایس پی کے پاس بھیجنے کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل پاتی، تب تک ہم مال کو جس راستے سے شہر میں لاتے ہیں، اگر اس راستے سے نہ لے کر مادھوپور سے لائیں تو۔
اخلیش: ایسا نہیں ہو سکتا، تو جانتا ہے۔ وہاں کی باگ ڈور ابھی بھی راجہ صاحب کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کی نظر سے چھپاکر یہ سب کرنا ناممکن ہے۔ تم نہیں جانتے ان کی پہنچ کہاں تک ہے۔ یہ ممکن نہیں۔
راگھَو: میں جانتا ہوں حکم! لیکن جنہیں طاقت سے ہرایا نہیں جا سکتا، انہیں دوستی سے تو پھسلایا جا سکتا ہے نا۔ میں نے سنا ہے راجہ صاحب بھی بہت رنگین قسم کا انسان ہے۔ آپ تھوڑی کوشش کریں گے تو کام بن سکتا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں؟
راگھَو کی بات سنتے ہی اخلیش کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ ماتھے کی لکیریں اب سیدھی ہو چکی تھیں۔ آنکھیں چمک رہی تھیں اور ہونٹوں پر ایک بھیانک قاتِل مسکراہٹ تھی۔
دوسری طرف دو کان جو چھپ کر ہال میں ہو رہی ساری باتوں کو سن رہے تھے، ان میں جیسے ہی مادھوپور کا نام پڑا، تو شیلا بُری طرح سے چونک گئی۔ اس کے منہ سے ایک آہ نکلی، ایک خوف کی آہ۔
مادھوپور۔
راج بھی ان امیرزادوں میں سے ایک تھا جو اخلیش کے جال میں پوری طرح سے پھنس چکا تھا۔ڈرگز کا تو نہیں، لیکن لڑکیوں کا اسے بہت شوق تھا۔ جب شیلا کو اخلیش نے باہر بھیجنا شروع کیا تھا، تب وہ بہت روتی تھی۔ پہلے تو صرف اخلیش اس کا فائدہ اٹھاتا۔ کچھ دنوں تک اسے یہی بتایا گیا تھا کہ وہ اخلیش کی بیوی ہے۔ لیکن جب اسے اور لوگوں کے پاس بھیجنا شروع کیا تو سب لوگ اس کے جسم کو نوچ کھاتے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ انسان ہی نہیں، ایک سیکس کی مشین ہے جس کا لوگ استعمال کرتے ہیں۔
لیکن راج سے جب وہ پہلی رات ملی، تو اس کی پہلی ہی نظر میں راج بھا گیا تھا۔ راج ہی وہ پہلا انسان تھا جس نے اس سے کھانے کے لیے پوچھا۔ کوئی زبردستی نہیں کی۔ اس کے لیے یہی بہت بڑی بات تھی۔ اُس دن سے اس کے دل میں راج کا چہرہ اُتر گیا۔ راج کی ہر فرمائش وہ پوری کرتی۔ راج کو تو بس یہی چاہیے تھا، کہ کوئی اس سے بغیر کوئی سوال کیے اس کی ہر بات مان لے۔
اسی لیے شیلا اس کی پسندیدہ بن گئی۔ جب کوئی اور لڑکی نہیں ملتی، تو وہ شیلا کو بلاتا۔ شیلا بھی بھاگ بھاگ کر جاتی۔ راج منہ مانگا پیسہ بھی دیتا، اس لیے کوئی پرابلم نہیں ہوتی۔ لیکن شیلا کے لیے اس کا کشش جسمانی تھا۔ اپنے دل تک نہیں پہنچنے دیا راج نے کسی کو،لیکن شیلا تو اس سے پیار کر بیٹھی تھی۔ رات کو جب راج کا دل بھر جاتا اور وہ چین کی نیند سوتا، شیلا گھنٹوں جاگ کر اپنے ‘صاحب’ کو نِہارتی۔ انجانے میں وہ راج کی دیوانی بن چکی تھی۔
اسی لیے جب راگھَو کے منہ سے اس نے مادھوپور کا نام سنا تو وہ ڈر سے سہم گئی۔ ان کچھ سالوں میں اسے اتنا تو پتہ چل چکا تھا کہ اخلیش کتنا گھٹیا آدمی ہے۔ اس کی نظر پڑتے ہی پھول بھی مرجھا جاتا ہے۔ شیلا جانتی تھی کہ راج کا گھر مادھوپور میں ہے۔ وہ وہاں کا راجکمار ہے۔ اور راجہ صاحب اس کا باپ ہے۔ اتنا ہی کافی تھا اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑانے کے لیے۔ ایک ہی جھٹکے میں کئی سوال اُبھرنے لگے۔ اگر اخلیش کی نظر مادھوپور پر ہے تو کیا وہ اس کے صاحب کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچائے گا؟ یہ سب سوچتے سوچتے وہ زیادہ دیر کھڑی نہیں رہ پائی اور دھم سے بستر پر گر گئی۔
تھوڑی دیر بعد اس کا ہاتھ جھٹ سے اس کے پرس میں سے اس کا فون نکال کر راج کو ڈائل کرنے لگا۔ لیکن یہ اس سے نہیں ہو پایا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اخلیش کو پتہ نہ چل جائے تو وہ اس کا ساتھ ساتھ راج کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ اس نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور من ہی من کچھ ایک فیصلہ کیا۔ اس کا چہرہ پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا۔
ٹرنگ ٹرنگ ٹرنگ۔
راجہ صاحب: ہیلو۔
ریسیپشنسٹ:سر، کوئی مسٹر اخلیش سنگھ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ان کا کنسٹرکشن کا بزنس ہے اور وہ اسی سلسلے میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔
راجہ صاحب: کیا ان کے پاس اپائنٹمنٹ ہے؟
ریسیپشنسٹ: جی نہیں سر۔
راجہ صاحب: انہیں کہو اب ہم مصروف ہیں۔ نہیں مل سکتا۔ انہیں لنچ کے بعد کی اپائنٹمنٹ دے دو۔
ریسیپشنسٹ: اوکے سر۔
ریسیپشنسٹ (اخلیش کی طرف مُنہ کرکے): سوری سر، ابھی نہیں مل سکتے، انہیں آپ کو دو بجے کا اپائنٹمنٹ دیا ہے۔ آپ تب آکر مل سکتے ہیں ۔
اخلیش غصے میں پیچھے مُڑ گیا اور دانتوں کو پیستے ہوئے اپنے دل میں گندی گندھی گالیاں بک رہا تھا۔ آج اس کا پہناوا شریفوں جیسا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا بڑا بیٹا دیپک بھی آیا تھا۔
دیپک کو اس کے باپ کا گندا دماغ وراثت میں ملا تھا۔ اس نے صرف 22 سال کی عمر میں ہی اپنے باپ کے ہر غلط دھندے میں اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا تھا۔ وہ جیسے اخلیش کی ہی پرچھائی تھا۔ بس اپنی ماں سے اسے ایک اچھا چہرہ اور گورا رنگ ملا تھا۔
باپ کے چہرے پر پریشانی، بیٹے نے جھٹ سے بھانپ لیا۔
دیپک: کیا ہوا پیتا جی؟
اخلیش: کچھ نہیں بیٹا، سب امیروں کی چالاکیاں ہے۔
دوپہر 2 بجے۔
اخلیش: نمستے راجہ صاحب۔
مہندر جی: نمستے۔ بیٹھیے۔ ہمیں پتہ چلا آپ ہم سے ملنا چاہ رہے تھے۔ کیا کام ہے؟
اخلیش (سامنے کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے): جی، میرا کنسٹرکشن کا ایک چھوٹا سا بزنس ہے۔ اسی کے حوالے سے میں آپ کے پاس ایک پیشکش لے کر آیا تھا۔
مہندر جی: ہم سن رہے ہیں۔
اخلیش: مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اپنے گاؤں میں ایک اور فیکٹری ڈال رہے ہیں۔ اور اس بار آپ یہ کنٹریکٹ کسی اور کو دے رہے ہیں۔
مہندر جی: ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے۔
اخلیش: بس میں اسی لیئے حاضر ہوا تھا کہ آپ ہمیں ایک بار موقع دیں۔
مہندر جی: وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن آپ کو ہمارے ساتھ کام کرنے میں اتنی دلچسپی کیسے ہو گئی کہ آپ شہر سے یہاں تک آ گئے؟ جہاں تک ہمیں پتا چلا ہے، شہر کے نمبر ون بلڈرز میں سے آپ ایک ہیں۔ شہر میں آپ کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ پھر مدھوپور میں آنے کا آپ نے کیسے سوچا؟ اور یہاں پروجیکٹ اتنا بڑا بھی نہیں ہے۔ آپ کے پاس تو اس سے بھی بڑے بڑے پروجیکٹس ہوں گے۔
راجہ صاحب نے اپنی پیٹھ سیدھی کی اور اپنی گہری نگاہوں سے اخلیش کو دیکھا۔
اخلیش نے اپنے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا: آپ ہمیں شرمندہ کر رہے ہیں راجہ صاحب۔ اب اتنا بڑا کاروبار بھی نہیں ہے ہمارا کہ ہمیں آپ کے پروجیکٹ میں دلچسپی نہ ہو۔ میرا تو سالوں سے خواب رہا ہے آپ کے ساتھ کام کرنے کا۔ آپ جیسے بڑے نام کے ساتھ جڑ کر میرے کاروبار کو فائدہ ہی ہوگا۔
اگلی قسط بہت جلد ۔۔مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں