Passionate Commitment–16–جذبہ وابستگی قسط نمبر

جذبہ وابستگی ۔ محبت کی کہانی۔۔

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ، سسپنس اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  محبت بھری کہانی، ۔۔ جذبہ وابستگی ۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی محبت بھری کہانی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جذبہ وابستگی قسط نمبر - 16

مہندر جی: لیکن ہمیں کیا فائدہ ہوگا اخلیش جی؟ ہم تو یہ کام کسی سے بھی کروائیں گے تو اچھا ہی ہوگا۔ کسی میں اتنی ہمت تو ہے نہیں کہ ہمارا کام خراب کرے۔ اور شہر سے یہاں کا کام آپ کیسے سنبھالیں گے، ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہا۔ کنسٹرکشن کا سارا سامان بھی آپ کو شہر سے لانا ہوگا۔ اس میں تو آپ کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ 

اخلیش: اس کی فکر آپ نہ کریں راجہ صاحب۔ آپ کے گاؤں کے پاس ہی ہمارے دو اور پروجیکٹس چل رہے ہیں۔ سامان تو ویسے بھی آ رہا ہے، تھوڑا اور دور آ جائے گا۔ اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ اور رہا سوال کام دیکھنے کا، تو میں اپنے بیٹے کو مدھوپور بھیج دوں گا۔ وہ وہیں  رہ کر ساری چیزوں کی دیکھ بھال کرے گا۔ 

اخلیش کی بات سن کر راجہ صاحب کچھ سوچنے لگے۔ اخلیش نے ان کے چہرے کے تاثرات پڑھتے ہوئے کہا: ہم آپ کے تفریح کا بھی بندوبست کر سکتے ہیں راجہ صاحب۔ اور ساتھ ہی ایک شراب کی بوتل ان کے ٹیبل پر رکھ دی۔ راجہ صاحب نے جب نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ان کے ہونٹوں پر ایک ترچھی مسکراہٹ آ گئی۔ اخلیش بھی ان کی طرف دیکھ کر ایک ہلکی ہنسی ہنس رہا تھا۔ مہندر جی نے ہاتھ بڑھا کر بوتل لی اور اس پر تاریخ دیکھی۔ 

راجہ صاحب: 22/08/1982۔ واہ، یہ تو ایک کلاسیکل چیز  ہے۔ لگتا ہے آپ کو بھی ان چیزوں کا بہت شوق ہے۔ 

اخلیش: نہیں نہیں۔ (اس نے اپنے دونوں کان پکڑ لیے اور زبان باہر نکال لی) میں تو ان سب چیزوں سے دور ہی رہتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں، ہمارے کاروبار میں سب سے بناکر چلنا پڑتا ہے۔ بس اسی لیے ان سب چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے لیے ایک اور بندوبست بھی کر سکتا ہوں۔ 

مہندر جی نے بوتل سے نگاہیں اٹھا کر اخلیش کو دیکھا تو اس کی مسکراہٹ اور گہری ہو چکی تھی۔ 

اخلیش: آپ چاہیں تو اس شراب کے ساتھ شباب کا بھی انتظام کر سکتا ہوں۔ 

راجہ صاحب: آپ کے پاس ایسا بندوبست بھی ہے؟ 

اخلیش: جی، کیا کریں، کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا کہتے ہیں؟ کروں کچھ انتظام؟ 

راجہ صاحب: ٹھیک ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیئے گا۔ آپ کی قسمت کا فیصلہ اب ہم رات کو ہی کریں گے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟ 

اخلیش: آپ کو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں سب سمجھ گیا۔ ٹھیک ہے تو اب میں چلتا ہوں۔

 (اس نے ہاتھ جوڑے، ایک کمینی سی مسکراہٹ دی اور کیبن سے باہر نکل گیا۔) 

٭٭٭٭٭٭٭٭

جے پور کا بہت ہی پوش علاقہ۔ چاروں طرف صرف بڑے بڑے بنگلے۔ کسی بنگلے میں سے تیز میوزک سنائی دے رہا تھا تو کوئی بند پڑا ہواتھا۔ سڑک بھی بہت صاف ستھری تھی۔ ہر بنگلے کے باہر واچ مین تھا۔ اچانک اخلیش کی گاڑی ایک بڑے سے بنگلے کے باہر رکی۔ لیکن آج اس میں سے اخلیش نہیں، شیلا اتری۔ اس بنگلے کے باہر ایک آدمی بٹلر کی وردی میں کھڑا تھا۔ جیسے ہی شیلا گاڑی سے اتری،

 وہ آدمی پاس آیا اور بولا: گڈ ایوننگ میم، پلیز کم ان۔ 

شیلا کو اتنی عزت کی عادت نہیں تھی۔ وہ ایک دم کے لیے چونک گئی اور اس آدمی کے پیچھے چلنے لگی۔ بنگلے کے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس دھندے میں اخلیش نے اسے کئی بار کئی رئیل اسٹیٹ کے گھروں میں بھیجا تھا، لیکن اتنا خوبصورت گھر اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔

اسے ایسا لگا جیسے یہ کوئی راج محل ہو۔ اس کا دھیان بٹلر کی آواز سے ٹوٹا۔

“ادھر سے، میم۔”

شیلا اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی سیڑھیوں سے اوپر جانے لگی اور چاروں طرف دیکھنے لگی۔ کچھ دیر بعد اسے ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ شاید یہ اس خوبصورت گھر کا سب سے خوبصورت کمرہ تھا۔ چاروں طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ ایک بڑا سا بستر، جس پر گلاب کی پتیاں بچھی ہوئی تھیں۔ بڑا سا شیشے کا جھومر، ایک طرف کھانے کی میز اور دوسری طرف ایک شاندار سا باتھ روم۔ ایک پل کے لیے شیلا کو لگا کہ وہ کسی جنت میں ہے۔ 

بٹلر:سر کچھ ہی دیر میں آنے والے ہیں۔ آپ تب تک انتظار کیجیے۔ یہاں آپ کی ضرورت کا سارا سامان موجود ہے۔ اگر آپ کو کچھ اور چاہیے تو مجھے بلا لیجیے گا۔ 

شیلا نے ہاں میں سر ہلایا اور بٹلر چلا گیا۔ شیلا بڑے غور سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ سامنے اسے ایک کھڑکی نظر آئی۔ وہ وہاں جا کر کھڑی ہو گئی اور وہاں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ اتنی محو تھی کہ گیٹ سے اندر آتی گاڑی بھی اسے نظر نہ آئی۔ اس کا دھیان تب ٹوٹا جب اسے پیچھے سے کسی نے کہا۔

 تم کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھو۔ 

ایک پل کے لیے وہ بری طرح چونک گئی۔ اسے لگا کہ یہ راج کی آواز تھی، لیکن تھوڑی بھاری۔ ایک ہی لمحے میں اس کے دماغ میں ہزاروں سوالات اٹھنے لگے۔ اگر پیچھے راج ہے تو اس نے اسے یہاں کیوں بلایا؟ اپنے اپارٹمنٹ میں کیوں نہیں؟ وہ رہ نہ سکی اور ایک جھٹکے سے پیچھے مڑی۔ اس نے سامنے جو دیکھا، اس سے اس کا سر گھومنے لگا۔ اس کے پاؤں زمین میں دھنسنے لگے۔

 یہ راجہ صاحب تھے۔

ان کی نیلی آنکھیں، ہلکے بھورے بال، لمبا قد، گورا رنگ اور چہرے کی ساخت دیکھ کر ایک پل کے لیے اسے لگا کہ وہ راج کو ہی دیکھ رہی ہے۔ کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد اسے پتا چلا کہ یہ راج نہیں، اس کا باپ ہے۔ 

جیسے ہی اسے یہ سمجھ آیا، اس کے پاؤں تلے کی زمین لرز گئی۔ یہ اس کی کیسی قسمت تھی؟ جس انسان سے وہ اتنا پیار کرتی تھی، آج اسے اس کے باپ کے پاس بھیجا گیا تھا، اس کے ساتھ سونے کے لیے۔ بھلے ہی وہ ایک بازاری عورت تھی، لیکن تھی تو عورت ہی۔ آج اس کے جذبات کو ایسی چوٹ لگی تھی کہ اس کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ لیکن اسے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے رکھنی تھی۔ یہ زہر بھی اسے ہنستے ہوئے پینا تھا۔

اگلی قسط بہت جلد ۔۔مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page