Passionate Commitment–18–جذبہ وابستگی قسط نمبر

جذبہ وابستگی ۔ محبت کی کہانی۔۔

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے  رومانس ، سسپنس اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک  محبت بھری کہانی، ۔۔ جذبہ وابستگی ۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی محبت بھری کہانی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جذبہ وابستگی قسط نمبر - 18

راجہ صاحب نے بیٹھے بیٹھے ہی اس کی پتلی ساڑھی کو اس کے بدن سے الگ کر دیا۔ راجہ صاحب کا سخت لنڈ شیلا کو اب پریشان کر رہا تھا۔ وہ اپنے چوتڑوں کو اس پر ایڈجسٹ کرنے لگی۔ اس کی اس حرکت سے راجہ صاحب کا ہوش اڑ گیا۔ ان سے اور صبر نہ ہوا۔ شیلا کو اپنی گود میں اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔ اس کے معصوم چہرے پر بکھرے بال، ابھری چھاتیاں، سنگِ مرمر سا تراشا ہوا اس کا بدن کالے رنگ کے بلاؤز اور پیٹی کوٹ میں چمک رہا تھا۔ وہ نشے میں مچلنے لگی۔ راجہ صاحب اس کی ان قاتل اداؤں سے پوری طرح زخمی ہو چکے تھے۔ ان سے اب اپنی ہوس  سنبھالی نہ گئی۔ انہوں نے ایک جھٹکے میں اپنے کپڑے اتارے اور شیلا پر چڑھ گئے، اور اپنے لنڈ کو شیلا کے پیٹ پر رگڑنے لگے۔ 

شیلا کو جسم پر جیسے ہی لنڈ کا احساس  ہوا، وہ سہم سی اٹھی۔ اپنی نشیلی آدھ کھلی آنکھوں سے جب اس نے راجہ صاحب کی طرف دیکھا تو اسے لگا کہ راج اس کے سامنے ہے۔ 

شیلا نے اپنی نشیلی آواز میں کہا: “اتنی دور کیوں کھڑے ہو صاحب؟ میرے پاس آؤ، مجھے پیار کرو، مجھے پاگل کر دو۔” 

وہ اپنی بانہیں پھیلا کر راجہ صاحب کو اپنی طرف بلانے لگی۔ راجہ صاحب اس ادا کے قائل ہو گئے اور پاگلوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ کچھ ہی دیر میں وہ ننگی راجہ صاحب کے نیچے لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے پورے بدن پر راجہ صاحب کے دانتوں کے نشان پڑ چکے تھے۔ راجہ صاحب نے اس کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کا منہ اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ شیلا کو لگا کہ راج اس سے فرمائش کر رہا ہے۔ وہ پاگلوں کی طرح ان کے لنڈ کو منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔ 

تھوڑی دیر بعد راجہ صاحب نے بڑی بے دردی سے اپنا لنڈ اس کی پھدی میں گھسا دیا۔ شیلا کو تو مستی چڑھ چکی تھی۔ اس کے خیالوں میں صرف راج کا چہرہ تھا۔ اس کی مستی بھری آہوں سے راجہ صاحب کو اپنے لنڈ پر فخر ہونے لگا۔ انہوں نے اس عمر میں بھی ایک کمسن لڑکی کی آہیں نکلوا دی تھیں۔ 

دیر رات تک راجہ صاحب اسے ہر طرح سے استعمال کرتے رہے۔ کچھ دیر میں جب شیلا کا نشہ اترا تو اس کی آہوں میں ایک عجیب سا درد بھر گیا۔ لیکن راجہ صاحب کو تو اس کے جسم کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جب آخر کار راجہ صاحب نے تھک کر اسے چھوڑا تووہ  بے سُدھ ہو چکے تھے اور کچھ ہی دیر میں سو گئے۔

شیلا ان کے پاس سے اٹھی اور دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی باتھ روم میں آ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی خاموشی چھائی تھی۔ جب اس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو آج کی رات کا پورا واقعہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ وہ بھاگ کر شاور کے نیچے گئی اور پانی چلا دیا۔ وہ اپنے جسم کو اس طرح رگڑنے لگی جیسے وہ بہت گندا ہو چکا ہو۔ لیکن گندی تو آج اس کی روح ہو گئی تھی۔ اس احساس کے ساتھ ہی وہ نیچے گر گئی اور اس کا درد آنسوؤں کی شکل میں بہنے لگا۔ 

اس کی گھٹی ہوئی آہوں میں جو درد تھا، اسے بیان کرنا شاید الفاظ میں ممکن نہ ہو۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے راج کو دھوکہ دیا ہو۔ آج اسے خود سے ایسی گھن آنے لگی تھی جیسے اسے پہلی بار بے آبرو ہونے پر محسوس ہوا تھا۔

رات کا نشہ ایسا چھایا کہ راجہ صاحب کے خاص دوستوں میں اخلیش کا نام شامل ہو گیا۔ بہت ہی جلد فیکٹری کا کام شروع ہو گیا۔ دیپک اور راگھو مدھوپور آ گئے کام کی نگرانی کے لیے۔ سب کی نظروں سے چھپ کر مدھوپور کے بلند سورج کو اخلیش نامی شیطان  نے گرہن لگانا شروع کر دیا۔ 

پہلے پہل 7-10 دن تو سب کچھ نارمل چلا۔ شہر سے جو سامان کنسٹرکشن کے لیے لایا جاتا، اس میں بھی کوئی غلط کام نہیں ہوتا تھا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں دیپک نے راجہ صاحب کا دل جیت لیا۔ اتنی کم عمر میں کاروبار کی باریک سمجھ بوجھ  اور چہرے پر سجائی ہوئی بناؤٹی شرافت۔ وہ راجہ صاحب کا وفادار خاص بندہ  بن گیا تھا۔ بڑی چالاکی سے اس نے اپنے ٹرکوں کی چیکنگ رکوا دی تھی۔ راجہ صاحب کا رغب  سب پر چھایا ہوا تھا۔ پولیس بھی انہی کا کہا مانتی تھی۔ اور اسی کی وجہ سے  ان کی ناک کے نیچے اخلیش کا نیا ڈیرا مدھوپور بن گیا۔ دیپک نے بتا دیا تھا کہ آس پاس کی اور کئی جگہوں پر ان کے پروجیکٹس چل رہے ہیں۔ شہر سے گاڑیوں میں کنسٹرکشن کا سامان آتا اور جب ٹرک واپس جاتے تو ان میں کبھی لڑکیاں ہوتیں جنہیں ڈرگ دے کر سلا دیا جاتا، یا پھر سیمنٹ کی خالی بوریوں میں پیسہ یا ڈرگس کے پیکٹ ہوتے۔ 

ان سب کی دیکھ بھال راگھو کرتا تھا۔ مدھوپور کے آس پاس کے گاؤں سے لڑکیوں کو خریدا جاتا تھا۔ مدھوپور بھلے ہی ایک ماڈرن گاؤں تھا، لیکن آس پاس کا علاقہ کچھ ایسا بھی تھا جہاں اب تک بجلی بھی نہیں پہنچی تھی۔ تعلیم تو دور کی بات ہے۔ ان لوگوں کے لیےاپنی لڑکیوں کی شادی کرنا  اب بھی ایک بوجھ ہی تھا۔ ایسی ہی جگہ کی تاک میں رہتے ہیں راگھو جیسے لوگ۔ اگر کوئی آدمی آ کر کہتا کہ ہمیں آپ کی بیٹی سے شادی کرنی ہے اور ہمیں جہیز نہیں چاہیے، غریب باپ بغیر کسی جانچ پڑتال کے اپنی بیٹی خوشی خوشی دے دیتا۔ مدھوپور کے ساتھ دوستی کے وجہ سے  اب ان گاڑیوں میں ڈرگس دوسرے شہروں تک پہنچانا بہت آسان ہو گیا تھا۔ راجہ صاحب کے زیر سایہ  اخلیش اور  پھلنے پھولنے لگا۔ 

راجہ صاحب کے دیپک پر اندھے بھروسے کی وجہ سے انہوں نے اپنا ہی گیسٹ ہاؤس اس کے رہنے کے لیے کھول دیا۔ وہ راگھو کے ساتھ وہاں رہنے لگا۔ ایک دن کچھ کام سے دیپک صبح صبح راجہ صاحب سے ملنے ان کے گھر پہنچا۔ کچھ دیر ہال میں بیٹھنے کے بعد ایک نوکر نے اسے راجہ صاحب کا کمرہ دکھا دیا۔ وہ سر جھکائے سیڑھیوں سے اوپر جانے لگا۔ کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہی اسے کسی کے کھلکھلانے کی آواز آئی اور ساتھ میں پائل کی جھنکار۔ کچھ ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ کوریڈور سے دو ایک جیسی نظرآنے  والی لڑکیاں ایک دوسرے کا پیچھا کرتی ہوئی بھاگتی آ رہی ہیں۔ اس کی نگاہ جیسے ہی ان پر پڑی، وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ سامنے جو لڑکی بھاگتی آ رہی تھی، وہ سفید سوٹ میں تھی۔ اس کا تراشا ہوا بدن سفید رنگ میں خوب جچ رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب آتی گئی، اس کی نگاہ پیچھے والی لڑکی پر پڑی۔ بینگنی رنگ کی کرتی اور لیگنگز میں وہ لڑکی تھوڑے غصے میں بھاگ رہی تھی۔ دونوں کے بھاگنے کی وجہ سے دونوں کا پورا جسم مچل  رہا تھا۔ صبح صبح ایسا نظارہ دیکھ کر دیپک پہلے تو چونکا، لیکن تھوڑی دیر میں اس کا مزہ لینے لگا۔ 

تھوڑی دیر میں دونوں سیڑھیوں سے اترنے لگیں۔ سفید سوٹ میں سُکریتی پیچھے دیکھتے ہوئے  بھاگ رہی تھی اور ہنس رہی تھی۔ 

سُکریتی: “اب تجھے یہ کبھی نہیں ملے گا۔ اب یہ میرا ہے۔” 

اگلی قسط بہت جلد ۔۔مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page