کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانس ، سسپنس اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی ایک محبت بھری کہانی، ۔۔ جذبہ وابستگی ۔۔ یہ کہانی ایک عام سی لڑکی کی محبت بھری کہانی ہے۔ جسے قسمت نے اپنا راجکمار تو دیا مگر وہ راجکمار ویسا نہیں تھا جیسا اسے چاہیے تھا۔ مگر اس لڑکی نے اپنے پیار سے اسے اپنا بنایا۔ ایک جانور سے انسان بنایا۔جو بھی درد اسے قسمت سے ملا تھا، ان سب کو اس لڑکی نے اس کے دل سے باہر نکال کر اس میں اپنا پیار ہی پیار بھر دیا۔ اپنے مقدر سے لڑ کر ہر مشکل کو اپنے پیار سے ہرایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
جذبہ وابستگی قسط نمبر - 22
اس نے جھٹ سے ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیا اور ڈرتے ہوئے کہا
دیپک: “کُ… کُ… کچھ بھی تو نہیں۔”
آکریتی: “اب آپ مجھ سے جھوٹ بھی بولنے لگے ہیں؟”
دیپک: “سوری۔”
آکریتی ابھی بھی اسے غصے میں گھور رہی تھی۔ دیپک کو لگا کہ آج تو آسمان کی طرح آکریتی بھی اس پر بہت برسے گی۔ اس نے چپ رہنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی اور سر جھکا کر کھڑا رہا۔ اسے ایسا کرتا دیکھ کر آکریتی کو اس پر بہت پیار آیا۔ اس کا چہرہ کسی بچے کی طرح لگ رہا تھا جو اپنی ماں سے ڈر کر سہم گیا ہو۔ آکریتی کی ہنسی چھوٹ گئی اور اس نے آگے بڑھ کر دیپک کے گالوں کو چوم لیا۔ دیپک نے جھٹ سے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ شرما رہی تھی۔ دیپک اسے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک زور کی بجلی کڑکی۔ آکریتی ڈر کے اس سے لپٹ گئی۔ اس کا ایک ہاتھ دیپک کے سینے پر تھا اور دوسرا اس نے دیپک کی گردن پر لپیٹ دیا۔ اس کی ایک مٹھی میں دیپک کی ٹی شرٹ بیچ رکھی تھی تو دوسرے سے کالر۔ ڈرنے کی وجہ سے اس کی سانسیں تیز تھیں۔ اس کا چہرہ دیپک کی گردن کے پاس تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ آکریتی نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ایک اور کڑکتی بجلی کے ساتھ آکریتی نے دیپک کو اور زور سے کس کے پکڑ لیا۔ اب اس کے ناخن دیپک کی گردن پر چبھ رہے تھے۔ اس نے اس کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کا پورا جسم دیپک کے جسم کو چھو رہا تھا۔ دیپک پھر سے اپنا ہوش کھونے لگا تھا۔
اچانک آسمان نے اپنے سارے نل کھول دیے۔ بارش اپنے پورے شباب پر تھی۔ بارش کی بوندوں نے جیسے ہی آکریتی کو چھوا، وہ دیپک سے الگ ہوئی اور بارش میں بھیگنے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ پھیلا کر اپنے چاروں طرف گھومنے لگی۔ کبھی بارش میں اچھلتی تو کبھی بارش کی بوندیں دیپک کی طرف پھینکتی۔ اسے ایسا کرتا دیکھ کر دیپک اسے ایک ٹک دیکھتا رہا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک پتھر کے پیچھے لے گیا، جہاں ایک غار سی بنی ہوئی تھی۔
آکریتی: “ہمیں جانے دیجیے۔ ہمیں بھیگنا ہے۔”
دیپک: “نہیں، کوئی ضرورت نہیں۔ آپ بیمار پڑ جائیں گی۔”
یہ کہہ کر دیپک نے اسے اپنے ساتھ زمین پر بٹھا لیا۔ لیکن آکریتی اٹھ کر جانے لگی۔
آکریتی: “نہیں، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں جانے دیجیے۔”
دیپک: “نہیں۔ میں آپ کو نہیں جانے دوں گا۔”
ایسا کہتے ہوئے اس نے آکریتی کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ وہ اب بھی کسمسا رہی تھی، چھوڑنے کو کہہ رہی تھی۔ لیکن دیپک نے اس کی ایک نہ سنی اور بانہوں میں جکڑ لیا۔ تھوڑی دیر میں دونوں کے جسموں میں شعلہ بھڑکنے لگا۔ ایک تو پہلا پیار، 21 سال کی جوانی، اور صنم کا بھیگا بدن جب اتنا قریب ہو تو دور رہنا ناممکن سا لگنے لگتا ہے۔
کچھ ہی دیر میں دونوں نے ایک دوسرے کو چومنا شروع کر دیا۔ اور ایسے کسنگ شروع ہوئی دونوں میں کہ جو ٹوٹ ہی نہیں رہی تھی۔ ساتھ ہی دونوں نے ایک دوسرے کے پورے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ اس کسنگ کی مدہوشی میں دونوں خود کو سنبھال نہ پائے اور دیپک پیچھے کی طرف گر گیا۔ اب آکریتی دیپک کے اوپر تھی۔ دونوں کی تیز دھڑکنیں اور گرم سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ دیپک نے ہاتھ بڑھا کر قمیض کے پیچھے بندھی ڈوری کھول دی۔ آکریتی کے ابھار اب اس کی آنکھوں کے سامنے اور زیادہ نمایا ہو چکے تھے۔ دیپک پلٹا اور آکریتی اب اس کے نیچے تھی۔ دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں کی آنکھوں میں ہوس صاف جھلکنے لگی۔ ایک اور کڑکتی بجلی کے ساتھ آکریتی دیپک کے سینے سے لپٹ گئی اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔
اوراس کے بعد کیا بچا تھا، باہر جو طوفان چل رہا تھا، اس سے بھی بھیانک ایک طوفان اندر اٹھنے لگا۔ دونوں نے جلدی جلدی ایک دوسرے کے کپڑے اتارے اور پیار کے اس آدِم کھیل کو انجام دینے لگے۔ پیار کے اس طوفان میں آج وہ سب کچھ ہوگیا جو شاید۔۔۔ شاید۔۔۔ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
آکریتی اپنی سکوٹی پر واپس لوٹ رہی تھی۔ طوفان اب تھم چکا تھا۔ بارش کی وجہ سے آج ہواؤں میں کچھ ٹھنڈک بڑھ چکی تھی۔ جب سَرسَراتی ہوائیں اس کے جسم کو چھو رہی تھیں، اس کا جسم سہما رہا تھا۔ ابھی ابھی اس نے اپنی زندگی کا پہلا ملن کیا تھا۔ جسم میں درد تو تھا، لیکن وہ میٹھا درد تھا۔ دیپک کی یاد ہی اب کافی تھی اسے شرم سے پانی پانی کرنے کے لیے۔ لیکن جب وہ گھر پہنچی تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔ اس کے پیروں تلے زمین سرک گئی۔
جب آکریتی گھر پہنچی تو وہاں سُکریتی اور دیپک کی شادی کی بات چل رہی تھی۔ ہال میں گھر کے سبھی لوگ بیٹھے تھے۔ سب کے چہروں پر خوشی صاف جھلک رہی تھی۔ سب بہت خوش تھے۔ سب ایک دوسرے کا منہ میٹھا کر رہے تھے۔
مہندر جی: “اخلیش جی، پر آپ ایک بار دیپک سے تو پوچھ لیتے۔”
اخلیش: “اس میں پوچھنا کیا ہے راجہ صاحب؟ میری پسند ہی میرے بیٹے کی پسند ہے۔ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالے گا۔”
مہندر جی: “پھر بھی۔”
اخلیش: “آپ ان سب کی فکر نہ کیجیے۔ آپ پنڈت جی سے کہہ کر مہورت نکلوائیں۔”
چاچی جی: “ٹھیک ہے۔ ایک بار آپ دیپک سے بھی بات کر لیجیے۔ میں کل پنڈت جی کو بلا لاتی ہوں۔”
بات ایسی تھی کہ جب دو بہنوں کے رشتے میں فرق آیا تو سُکریتی بہت اکیلی پڑ گئی۔ ایک تو بہن کی بے رخی، اوپر سے دیپک کے لیے اٹھتا پیار کا احساس ۔ بیچاری اپنے آپ میں گھٹ رہی تھی۔ اور اس کی یہ حالت اس کی ماں کی اوجھل نگاہوں سے نہ چھپ سکی۔ ایک دن رات کو جب وہ پانی لینے اٹھی تو انہوں نے سُکریتی کے کمرے سے کچھ آواز سنی۔ قریب گئی تو دیکھا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سُکریتی بری طرح رو رہی تھی اور کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ تکیے میں اپنا منہ دبا کر سسکیوں کی آواز کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ لائٹ جلتے ہی وہ چونک کر اٹھ بیٹھی۔ اس کی آنکھیں سُوج کر لال ہو چکی تھیں۔ کاجل آنکھوں سے بہہ کر گالوں پر کالے دھبے پڑ چکے تھے۔ جب میرا دیوی نے اسے اس حالت میں دیکھا تو ان کا دل کانپ اٹھا۔ انہوں نے اپنی بچی کو سینے سے لگا لیا۔
ماں کو قریب پا کر سُکریتی بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب میرا دیوی نے اس کے ماتھے کو سہلاتے ہوئے اس کی وجہ پوچھی تو سُکریتی سے اور چھپایا نہ گیا۔ اپنے دل کی ساری باتیں اپنی ماں سے بانٹ لیں۔ میرا دیوی سے اپنی بچی کا یہ دکھ نہ دیکھا گیا۔ اگلے ہی دن انہوں نے اپنے شوہر سے دیپک سے شادی کی بات چھیڑی۔ گھر کے بڑوں کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ دیپک کا جادو سب پر چھایا ہوا تھا۔ بس اور کیا تھا۔ اخلیش سے بات کرتے ہی وہ تو اچھل پڑا۔ اس کے لیے یہ بات تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہونے والی بات تھی۔ اب راجہ صاحب کی جائیداد کا ایک حصہ اس کی جھولی میں بھی گرنے والا تھا۔ اس نے جھٹ سے ہاں بول دی۔
اگلی قسط بہت جلد ۔۔مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں