Perishing legend king-03-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس سے بھرپور ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

قسط نمبر 03

ویر كے دادا جی ، منورتھ اس پر کسی حد تک بھروسہ کرتے تھے۔ کیونکہ جتنی بھی شکایات وہ سنتے آ رہے تھے، انہوں نے آج تک ویر کو کبھی اپنی آنکھوں سے کوئی غلط کام کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اور آج یہ پہلی بار نہیں تھا جب پرانجال كے منہ سے انہوں نے ویر کی گھٹنا كے بارے میں سنا تھا۔

یہ تو سالوں سے چلا آ رہا تھا۔ کوئی نا کوئی آکے منورتھ كے سامنے ویر كے کرتوتوں کی شکایت کرتا تھا اور ویر صرف سَر جھکائے کھڑا رہتا تھا۔ ویر فریاد کیا کرتا تھا مگر اس کے پاس اپنی بات کو سہی ثابت کرنے کا کوئی پروف نہیں رہتا تھا۔ اور اس لیے اب اس نے بحث کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔

آج بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ویر كے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اپنی بےگناہی ثابت کرنے کا۔ اور کیا کہتا وہ ؟ کون اس کی باتوں کا یقین کرتا ؟

پچھلے کئی سالوں سے جو امیج اس کی گھر میں بنی ہوئی تھی، اس کے چلتے تو کوئی اس پر رحم بھی نہیں کھاتا تھا۔

جب ویر اپنے ہاتھوں میں وہ گلدستہ لیتے ہوئے آگے بڑھا تبھی اچانک سے پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ بری طرح سامنے کی طرف جا گرا۔

گلدستہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گول گھومتے ہوئے ایک تیز شور کرتے ہوئے نیچے جا گرا اور ایک ہی جھٹکے میں وہ خوبصورت گلدستہ ڈھیر سارے ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ ” آ ں ں ں، ” وہاں بیٹھی عورتیں اور لڑکیوں كے منہ سے کچھ ایسی ہی حیرانی بھری آواز نکلی۔ اور پھر ایک شانتی سی چھا گئی۔

سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ۔سبھی ویر کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے مانو اس نے کسی کا خون کر دیا  ہو۔

دیکھے بھی کیوں نااا ، آخر وہ  گلدستہ اتنا  قیمتی جوتھا۔۔۔ منورتھ کو شروع سے ہی  پودے اور گلدستوں کا بہت شوق تھا،  یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر میں ایک الگ سے گارڈن بھی تھا۔

اِس وقت ویر کی حالت خراب تھی ۔ اس نے خود اپنے دادا جی كے لیے ایک گلدستہ چن كے رکھا ہوا تھا جسے وہ بعد میں انہیں دینے والا تھا ۔ اِس گلدستے كے سامنے اس کا گلدستہ  توکچھ بھی نہیں تھا۔ مگر اب کیا ؟ اب تو وہ گلدستہ اس کے ہاتھوں ٹوٹ چکا تھا۔

بس ! بریجیش جو اپنا غصہ پہلے ہی بڑی مشکل سے کنٹرول کیے ہوئے تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چلِایا۔

 بریجیش :

حرام خور ! تجھے پتہ ہے وہ تحفہ کتنا مہنگا تھا ؟
اپنے ڈیڈ کی گرجتے آواز سن کر ایک بار پھر وہ لرز اٹھا۔۔۔ بریجیش ایسے آگ بگولا ہوکے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا ۔

منورتھ : 

بریجیشششش
بریجیش :

پاپا جی ۔۔۔ آپ ۔۔۔ آپ جانتے ہیں یہ تحفہ کتنے کا تھا ؟ یہ 3 لاکھ کا تھا۔ میں نے خود امپورٹ کروایا تھا  اِسے چائنہ سے آپ کے لیے ۔۔۔ اور اِس بیوقوف نے۔۔۔
گلدستےکی قیمت سنتے ہی وہاں کھڑے لوگوں کو جیسے ایک بڑا جھٹکا  لگا ۔ 3 لاکھ ان سب کے سامنے یوں برباد ہوکے بکھر ے جو پڑے ہوئے تھے۔

سب سے زیادہ حالت تو ویر کی خراب تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرے توکیا۔
بریجیش سے اب رہا نہ گیا ، وہ ویسےہی کئی سالوں سے ویر سے پریشان تھا ۔ویر اس کی ہر امیدوں پر پانی پھیر دیتا تھا۔

ویر کی طرف تیز قدموں كے ساتھ جاتے ہوئے وہ اسے ایک زوردار تھپڑ مارنے ہی والا تھا ۔

منورتھ : 

بریجیشششش
بریجیش :

پر پاپا جی۔۔۔۔

منورتھ :

آج میرا جنم دن ہے۔اور میرے جنم دن كے دن تم ایسا سلوک کروگے تو مطلب ہی کیا ۔۔۔جو ہوا اسے ایک غلطی مان كے آگے بڑھو۔ گلدستہ کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو، وہ تو اب ٹوٹ چکا ہے۔ اب اس کے پیچھے رونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ رہی بات پیسوں کی تو اس کے پیسے میں دے دونگا۔

بریجیش :

یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہو پاپا جی ؟ آپکا جنم دن ہے ۔ میں بھلا آپ سے پیسے کیوں لونگا ؟

منورتھ کی بات سنکر بریجیش نے اپنے ہاتھ روک لیے پر اس کا غصہ ابھی تک کم نہیں ہوا تھا ۔

پرانجال :

دادا جی ، میں نے ویر سے کہا تھا باہر ہی کہ اپنے شوز اُتار دے کیوں کے بارش سے گیلے ہو چکے ہیں۔۔۔پر ویر نے میری سنی ہی نہیں ۔بولا کہ نوکرانی تو گھر میں لگی ہی ہے ، وہ کس کام آئینگی ؟

پرانجل کی بات سن کر سبھی کی نظریں ویر كے پیروں پر گئی جو گیلے جوتے پہنا ہوا تھا اور فرش کو گندا کر رہا تھا۔

یہ دیکھ کر  بریجیش اور غصہ ہو گیا ۔ تبھی ویر کی سٹیپ موم شویتا اٹھ کھڑی ہوئی۔
شویتا :

ویر دن بدن لاپرواہ ہوتا جا رہا ہے۔

پرانجال :

ویر ! اپنے جوتے اتارو ، ادھر آؤ یہ سلیپرز پہن لو اور اب غلطی ہو گئی تو ہو گئی۔  یہ دیکھو بھگوان کا پراساد رکھا ہوا ہے۔ دادا جی کو یہ پراساد دو اور ان سے معافی مانگ لو۔
پرانجال  نےاسے ہاتھ سےپکڑ كے اس کے جوتے اتروائے اور اسے وہیں دادا جی كے پاس رکھےسلیپرز کو پہنا دیتا ہے۔ پرانجال نے وہی ٹیبل پہ رکھے ہوئے دہی شکر جو کہ بھگوان کو چڑھایا گیا تھا اسے کٹوری میں لاکے ویر کو تھما دیا ۔

پرانجال :

جاؤ ویر ! دادا جی کو پراساد دو اور معافی مانگو ۔

ویر بےچارا بہت زیادہ سہم گیا تھا آج۔ کیونکہ آج اس کی زندگی کا سب سے منحوس اور برا دن تھا۔

ویر نے پراساد کی کٹوری ہاتھ میں تھامی اور وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ پھرسے اس کا پیر نجانے کیسے پھسلا اور پراساد کی کٹوری اس کے ہاتھ سے نکل کر سیدھے اس کے دادا جی کی طرف جا گری۔اور سارا کا  سارا پراساد اس کے دادا جی كے کپڑوں پر جا گرا ۔

بس پھر کیا تھا ! بریجیش کا جو غصہ ابھی اپنی لیمِٹ پر تھا ، وہ کراس ہو گیا ۔ وہ آگے بڑھا اور ۔۔۔۔۔

چٹخ۔۔۔چٹخ۔۔۔چٹخ۔۔۔تھپڑوں کی جھاڑ لگا دی ویر كے گالوں پر رسید رسید كے مارتے گیا ۔

تھپڑوں کی گونج سے کاویہ سہمتی ہوئی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اسے واقعی ویر پہ ترس آ رہا تھا۔

آروحی بھی نظریں اٹھاتی ہوئی سامنے ہو رہے سین کو دیکھ رہی تھی۔ وہی  پرانجال  اور  ویویک خوشی سے پھولے نہیں سماں رہے تھے۔

ویویک ( کھسمساتے ہوئے ) :

یہی ہے وہ گرینڈ شو۔۔۔ہاہاہاہا !
راگنی :

اُوہو ! تو تم اس کی بات کر رہے تھے۔ مگر۔۔۔۔پر یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا ؟
ویویک : 

ہممم ! زیادہ کہاں۔۔۔ یہ تو ابھی بھی کم ہے۔

 راگنی :

اور یہ آئیڈیا کس کا تھا ؟

ویویک ( اسمائیلز ) :

چھوٹے کا ۔۔۔۔

راگنی ( حیرانی میں)   :

پرانجال کا ؟ ؟ ؟ دیور جی کچھ زیادہ ہی چَتُر ہو رہے ہیں آج کل ۔۔۔

ادھر تھپڑوں سے ویر كے گال لال ہو چلے تھے ۔

بریجیش ( غصے میں ) :

تو جانتا ہے آج تونے کیا کیا ہے ؟ ؟؟ حرام خور ! ! ! وہ پراساد ہمارے کل کی دیوی کا تھا۔ اور تونے اسے زمین پہ گرا دیا ؟ اور وہ بھی پاپا جی كے اوپر ؟ نئے کپڑے بھی خراب کر دیئے تونے ان کے ۔۔۔ 3 لاکھ كے تحفے کا چھونا لگا دیا ۔۔۔ روز روز تیرے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہی ہے ۔بیٹا نہیں پنوتی ہے تُو ۔۔۔ میں کہتا ہو نکل جا ۔ نکل جا اسی وقت گھر سے۔اور آئیندہ سے اِس گھر میں قدم بھی مت رکھنا۔

یہ کہتے ہوئے بریجیش اس کو ہاتھوں سے پکڑ كر گھسیٹ كے باہر لے گیا اور زور سے دھکا دیتے ہوئے اسے دروازے كے باہر پھینک دیا۔

گھر میں موجود سبھی لوگ دروازے کی طرف تیز قدموں كے ساتھ آئے سوائے منورتھ كے ۔۔۔

آج تک دیوی كے پراساد کا ایسا آپمان ان کے گھر میں کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔۔۔ منورتھ خود ابھی اِس وقت بہت غصے اور دکھ میں تھ ۔ اسی وجہ اس نے بریجیش کو بھی اِس بار نہیں ٹوکا۔

اور وہ وہی بیٹھا ہوا چُپ چاپ اپنے ہی من میں دیوی سے شمع مانگنے لگا۔

بریجیش :

نکل جا ! نکل جا اِس گھر سے ۔۔۔ آج سے تیرا  اور میرا کوئی سمبندھ نہیں۔ مر گیا آج سے تو میرے لیے ۔۔۔میرا کوئی بیٹا نہیں ہے ۔ خبردار اگرتونے اِس گھر میں دوبارہ قدم بھی رکھا تو ۔۔۔

ویر کانپتےہوئے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ، یہ پل بھر میں کیا سے کیا ہو گیا ۔ آج کیوں اس کے ساتھ یہ سب ہوا ؟

ویر کی سوتیلی ماں، شویتا سامنے كے نظارے کو بڑی ہی خوشی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کےمن کی مراد پوری جو ہو گئی تھی۔۔۔ اب اس کی بیٹی ہی  جائیداد کی واحد مالکن بنےگی۔
یہی سوچتے ہوئے وہ اپنی بیٹی کی طرف مُڑی تو دیکھا کہ اس کی بیٹی ، بھومیکا كے چہرے پر کوئی ایکسپریشن نہیں تھے ۔ اور یہ جان کر شویتا کو خوشی ہوئی ۔ کہ اس کی بیٹی كے من میں بھی ویر كے لیے کوئی کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔

ویر كے آنکھوں سے آنسوؤں لگاتار بہے جا رہے تھے۔۔۔پر وہ کچھ نہیں بولا۔

وہ چُپ چاپ اُٹھا اور باہر کی طرف چل دیا ۔ اس نے اپنے جیب میں سے گاڑی کی چابی نکالی اور وہ گاڑی آن کرنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے بریجیش کی آواز آئی ۔

بریجیش :

یہ گاڑی تیری نہیں ہے۔ اور ویر چابی کو گاڑی میں لگے ہی چھوڑ کر گھر سے باہر نکل آیا ۔

اس نے ایک جھلک پیچھے مڑ كے دیکھا۔شویتا اور بھومیکا اسے بنا کوئی  ہمدردی كے دیکھ رہی تھی۔ بریجیش کی آنکھوں میں بھیانک غصہ نظر آ رہا تھا۔ وہیں اس کے کرونیش چاچا بھی اسے بنا کوئی ہمدردی كے دیکھ رہے تھے ۔

اس کی سُمترا  چاچی تھوڑا  فکرمند  ضرور دِکھ رہی تھی۔

ویویک اور پرانجال كے چہروں پر ہلکی خوشی نظر آ رہی تھیں۔ راگنی اور  آروحی بھی جیسے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔۔۔ جب اس کی نظر کاویہ پر گئی تو کاویہ نے سہمتے ہوئے سَر جھکا لیا ۔

بس ! اس کے بعد ویر پلٹ كے گھر سے دور جانے لگا۔۔۔ گھر كے سکیورٹی گارڈز بھی ویر کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

اچانک بادل گرجے اور بارش پھرسی شروع ہو گئی ۔ مگر ویر  نہ رکا ۔۔۔  اور کچھ ہی پلوں میں وہ اپنے گھروالوں کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

اِس وقت ویر کو بارش اچھی لگ رہی تھی۔ اسے اپنی لگ رہی تھی۔ جب اجے سے مار کھاتے وقت وہ گھر لوٹ رہا تھا تب بھی بارش نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ اور ابھی جہاں اس کے گھر والوں نے اسے گھر سے نکال كے اسے اکیلا چھوڑ دیا ۔ تب بھی بارش اس کا ساتھ دے رہی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ موسم بھی یو ں رو  رہا تھا ۔۔۔ویر بنا کوئی آواز کیے روتے روتے بس چلتا جا رہا تھا۔

اس نے اپنے سینے پر لٹکا لاکٹ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔ ایک بڑا ہی پیارا سا لاکٹ تھا ، ایکدم الگ ٹائپ کا۔

اسے بھینچتے ہوئے ویر كے آنسوں اور  تیزی سے بہنے لگے۔۔۔ یہ وہ پیندانت تھا جو اس کی سگی ماں نے اسے پہنایا تھا۔
ویر کو اپنی  سگی  ماں كے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔۔۔ بس اتنا پتہ تھا کہ اس  ماں نے اسے جنم دیا ہے۔

جب بھی وہ بریجیش سے اپنی ماں كے بارے میں پوچھتا تھا  تو بریجیش بس ایک ہی بات بولتا  ” نام مت لو اس کمینی عورت کا 
اس کی ماں کا نام تھا بھوانا۔۔۔ ویر كے جنم كے ایک سال بعد ہی دونوں كے بیچ طلاق ہوگئی اور بھوانا گھر سے چلی گئی تھی۔

کہا ں گئی وہ ، کس حال میں ہوگی ابھی ،  زندہ بھی ہے یا نہیں اس کی ماں۔۔۔ اسے کچھ نہیں پتہ تھا۔۔۔ یہاں تک کہ اس کی
ماں کا نام بھی اس کے دادا جی نے اسے بتایا تھا۔ نہ ہی اس عورت کو لیکر گھر میں چرچا ہوتی تھی نہ ہی کوئی اس کے بارے میں کوئی ٹاپک چھیڑتا تھا۔

ویر کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کی ماں کیسی دکھتی تھی۔ کوئی بھی فوٹو البم نہیں تھا ، اس کی ماں سے جڑی کوئی بھی چیز نہیں تھی گھر میں۔

بارش كے کارن سڑکوں پر ابھی گاڑیاں بھی کم چلتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اسے نہیں پتہ تھا  وہ کہا ں جا رہا ہے۔  جب تک اس کے پیر چل رہے تھے وہ بس چلتا جا رہا تھا ۔۔۔ اسے اپنی سگی  ماں کی یاد آنے لگی۔۔۔ اگر وہ یہاں ہوتی ابھی تو اس کی ماں اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ؟ کیا اسے پیار دیتی ؟ یا پھر بریجیش کی ہی طرح وہ بھی ؟

پانی سے بھیگا ہوا  ویر مین روڈ پر آ چکا تھا ، ابھی وہ موڑنے ہی والا تھا کہ ایکدم سے ایک کار موڑ سے آئی اور ویر نے پلٹ كے کار کو دیکھا۔پر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔کار کا اگلا حصہ اس کی پسلی سے ٹکرایا اور ٹھوکر ہوتے ہی  وہ زور سے جاتے ہوئے دور گر پڑا ۔

” اوہ ہ ہ  ! نو ۔۔۔ ” کار میں بیٹھے ایک آدمی كے منہ سے نکلا۔

کار کو جھٹکا لگتے ہی پیچھے بیٹھی ایک لڑکی فوراََ ہی آگے کی سیٹ سے جا ٹکرائی،
” آہ ہ ہ ہ  !!!

آدمی :

میڈم آپ ٹھیک تو ہے ناااا ؟

لڑکی ( سَر ملتے ہوئے ) :

ہاں !میں۔۔۔ میں ٹھیک ہو۔پھر جیسے ہی اس لڑکی نے سامنے دیکھا تو اس کی مانو سانسیں ہی اٹک گئی۔۔۔ سامنے ایک لڑکا زمین پر پڑا  ہوا تھا اور اسے سمجھنے میں دیر نا لگی کہ ابھی ابھی اس کی کار کس سے  ٹکرائی تھی۔

وہ لڑکا وہاں بارش میں کار سے ٹکرا کےپڑا بھیگ رہا تھا ۔

لڑکی ( گھبراتی ہوئی ) :

یہ ۔۔۔ یہ۔۔۔

آدمی :

ان سب کا  وقت نہیں ہے میڈم ۔ہمیں جلد ہی نکلنا ہوگا ۔

اور اتنا بول کروہ آدمی فوراََ ہی گاڑی آگے بڑھانے لگتا ہے۔

لڑکی( چلاتی ہوئی ) :

یہ کیا بول رہے ہو آپ ؟ نہیں ۔۔۔ ہم ایسے اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔

آدمی :

میڈم ! بات کو سمجھیئے  . . . اِس وقت ہمارا یہاں سے نکلنا بہت ضروری ہے۔

اور اس نے کار  روانہ کرکے آگے بڑھا دی۔

 لڑکی پیچھے مُڑ کرونڈو سے اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی، اس کا نچلا ہونٹ  دانتوں  تلے زور سے دبا ہوا تھا کہ مانو خون ہی نکل آئے، آنکھوں میں ہلکے آنسوں بھی آ چکے تھے۔

” آئی  ایم سوری ۔۔۔ ” اس نے من میں کہا۔ اور وہ کار پلک جھپکتے ہی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

ادھر ایکسڈینٹ دیکھ کر آس پاس كے جو بھی لوگ  دکان كے نیچے بارش سے بچنے كے لیے کھڑے ہوئے تھے وہ دوڑتے ہوئے آئے اور ویر کو اٹھانے لگے۔

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page