Perishing legend king-04-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس سے بھرپور ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

قسط نمبر 04

” ارے ارے ۔۔۔اٹھاؤ ۔۔۔اٹھاؤ “
” جلدی۔۔۔ جلدی”

 “کار والا مادرچود بھاگ گیا ” “اٹھواؤ  بھائی  لوگ ۔”

 اور وہاں موجود لوگ فوراََ  ہی ویر كے پاس آکے اسے اٹھانے لگے۔۔۔ بنا بارش کی پرواہ کیے۔

اگراس کے پریوار والے ہوتے تو کیا وہ اسے اِس وقت اٹھاتے ؟

شاید ہاں ؟ یا شاید نہیں ! ؟
” ارے اسے تو بہت زیادہ چوٹ آئی ہے ، خون بہہ رہا ہے کافی ، جلدی ایمبولینس کو کال کرو کوئی  “

وہاں کھڑے ایک آدمی نے چلایا تو اگلے نے فوراََ ہی 108 ڈائل کرتے ہوئے ایمبولینس بولوا لی ۔

ابھی وہ لوگ اختیاط سے ویر کو اٹھا  ہی رہے تھے کہ اتنے میں اسی موڑ سے ایک اور کار آئی پر بھیڑ كے کارن اس کار کو رکنا پڑا ۔

کار والے نے جب ہارن ماری تو اسے اتنی گالیاں پڑی کہ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی رکنا پڑا ۔

“دھتتتت بہن چود ! ! اس کی ماں کی آنکھ ۔۔۔۔ ” کار والے نے اسٹرینگ پہ زور سے ہاتھ مارتے ہوئے چلایا ۔

دوسرا آدمی :

اب کچھ نہیں ہو سکتا . . . کار گھما لو۔

پہلا آدمی :

باس کو پتہ چلا تو وہ ہماری گردن نہ اڑا   دے۔

 دوسرا آدمی :

میں باس کو سمجھا دونگا ۔۔۔ تم کار گھما لو۔
پہلا آدمی :

ٹھیک ہے۔

اور وہ کار  ریورس کرکے وہاں سے نکل گئے۔

ادھر لوگ ویر کو اٹھا كے ایک شاپ كے نیچے لٹا كے اس کی چوٹوں پر رومال یا کپڑا باندھ كے جیسے تیسے خون روکنے کی کوشش کر رہے تھے ۔

کچھ دیر میں ہی ایمبولینس آئی اور ویر کو لے کے اسپتال کی طرف چلی گئی۔

ویر كے گھر میں۔۔۔سبھی لوگ اِس وقت  منورتھ كے کمرے میں موجود تھے۔

منورتھ اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا تو وہی باقی سبھی کھڑے ہوئے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔

 منورتھ :

آج تک پراساد کا ایسا آپمان ہمارے گھر میں کسی نے بھی نہیں کیا ۔

پرانجال :

دادا جی ! ویر کو واقعی ایسا نہیں کرنا تھا۔

کاویہ :

پر ۔۔۔  دادا جی ! وہ تو ۔۔۔ انہوں نے جان بوجھ كے نہیں کیا ہوگا۔

پرانجال: 

 کاویہ ؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟  پہلی بار  مانتا ہوں کہ اس کا پیر پھسل گیا  اور وہ  گلدستہ  ٹوٹ گیا  پر دوسری بار بھی ؟

پرانجال کی بات سن کر بے چاری  کاویہ  کچھ بحث ہی نہ کر پائی اور سَر جھکا لی۔

سُمترا : 

جیٹھ جی ۔۔۔ آپ کو ایسے ۔۔۔ ویر کو گھر سے نہیں نکالنا تھا ۔

بریجیش :

میں نے جو بھی کیا ہے بہت سوچ سمجھ كے کیا ہے ۔میں یہ قدم پہلے ہی اٹھانے والا تھا پر ہمیشہ پاپا جی كے کارن رک جاتا تھا ۔لیکن آج تو اس نے حد ہی پار کر دی ۔

آخر اس کمینی کی کوکھ سے جو پیدا ہوا ہے ، ایسا ہی ہونا تھا ۔۔۔ میرا تو ایک بھی گُڈ نہیں ہے اس میں ۔

منورتھ :

وہ جیسا بھی ہے اِس پریوار کا حصہ ہے۔  اسے جاکے واپس لے آؤ۔ ابھی زیادہ دور نہیں گیا ہوگا ۔

بریجیش :

بالکل بھی نہیں پاپا جی۔۔۔ میں نے آپ کو پہلے بھی بول كے رکھا ہے۔ کہ جس دن یہ اپنی حد پار کرے گا اسی دن میں اسے گھر سے نکال دونگا۔ اور آج یہی ہوا ہے ۔  اب میں اسے اِس گھر میں گھسنے تک نہیں دونگا ۔ آپ اپنا فیصلہ سنائیے پاپا جی۔

منورتھ :

تو تم لوگ اسے واپس نہیں لاؤگے ؟
بریجیش :

بالکل بھی نہیں ۔

منورتھ :

تو پھر میرا بھی یہی فیصلہ ہے۔ زمین اور جائیداد کس کو ملے گی یہ بھی تب ہی طے ہوگا جب پریوار کا ہر ایک  ممبر گھر میں موجود ہوگا۔

بریجیش :

پاپا جی ! ؟ ؟

ویویک :

دادا جی ! ؟ یہ آپ۔۔۔ ! ؟؟؟؟

منورتھ كے فیصلے سے مانو سب کو ایک جھٹکا سا لگا ۔۔۔ جس پل كے لیے وہ سبھی بےقرار تھے کہ آخر کس کو زمین اور جائیداد دی جائیگی  وہ پل تو آیا  ہی نہیں۔۔۔ اُلٹا اب جب تک گھر میں ویر نہیں آ جاتا تب تک فیصلہ ٹال چکا تھا۔

منورتھ كے پاس ڈھیر ساری زمین تھی جس کی قیمت کروڑوں میں تھی اور  جائیداد بھی۔۔۔ اور یہ سب کچھ گھر كے اسی ممبر کو ملنے والا تھا جو منورتھ کی آنکھوں میں اس کے لیے سہی تھا۔

اس کے 2 پیٹرول پمپ بھی رہے جو اس نے اپنے بیٹوں کو دے دیئے تھے ۔ ایک پیٹرول پمپ کا مالک جہاں بریجیش تھا تو وہی دوسرے کا مالک کرونیش۔

کرونیش نے دماغ سے پیسہ کماتے ہوئے اپنے  بیٹے ویویک کےاوپر لگایا اور آج ویویک کی خود کی ایک آٹوموبائلز کی کمپنی تھی۔۔۔ اس کا  بزنس زور و شورسے چل رہا تھا۔

کرونیش کی بڑی بیٹی آروحی اور چھوٹی بیٹی کاویہ ، ویر كے ہی کالج میں تھیں  اور وہ دونوں بھی بی-ٹیک کر رہی تھیں۔ جہاں آروحی اور ویر کی برانچ سیم تھے۔ وہیں کاویہ سی ایس برانچ سے بےلانگ کرتی تھی۔

پرانجال بھی سیم کالج میں تھا  پر وہ  بی -کام کر رہا تھا۔۔۔اس کی بِلڈنگ الگ تھی پر ساری بلڈنگز ساتھ میں ہی تھیں ، جس کارن وہ بریک كے ٹائم آروحی اور کاویہ سے ملنے جاتا رہتا تھا۔

کرونیش کو اپنے بیٹے بیٹیوں کی کوئی چنتا نہیں تھی ۔

پر بریجیش کا ایسا نہیں تھا ۔۔۔ بریجیش کو بھی ایک پیٹرول پمپ دیا گیا تھا  منورتھ  طرف سے۔ اس نے بھی دماغ سے اپنی ایک لگژری ہوٹال کھولوائی تھی جو شہر میں کافی مشہور تھی۔۔۔ جہاں وہ  پیٹرول پمپ سنبھالتا تھا تو وہی اس کی ہوٹال اس کی دوسری بیوی شویتا سنبھالتی تھی ۔

شویتا كے ہی ساتھ اس کی بیٹی ، بھومیکا بھی اس کا ساتھ دیتی تھی۔

اور آج یہی فیصلہ لیا جانے والا تھا کہ کس کو زمین اور جائیداد ملے گی۔

پر سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا ۔

منورتھ :

میرا فیصلہ صاف ہے ۔۔۔جاؤ  اور مجھے اکیلا چھوڑ دو  ابھی۔

ویویک :

پر دادا جی۔۔۔۔۔۔

منورتھ :

میں نے کہا نااااا  جاؤ ۔۔۔ اور بریجیش۔ اگر تم ویر کو واپس نہیں لانے والے تو مجھے اس کے بارے میں ہر چیز بتاؤ ۔  کہ اِس وقت کہاں ہے  وہ ۔ کس کے گھر ٹھہر رہا ہے؟  وہ میرا پوتا ہے۔

میں جاننا چاہتا ہوں وہ سہی سلامت ہے یا نہیں ؟

بریجیش :

ٹھیک ۔۔۔۔

اور گھر كے مکھیاااا (سربراہ) کی آواز سن کرسبھی بےمن سے وہاں سے نکل گئے۔
ادھر کمرے میں آتے ہی ویویک  پرانجال پہ ٹوٹ پڑا۔

ویویک :

چھوٹے یہ کیا کر دیا  تونے ؟ یہ داؤ تو  اُلٹا  ہی پڑ گیا ۔۔۔  دادا جی نے تو فیصلہ ہی ٹال  دیا ۔ اب جب تک وہ ویر نہیں آ جاتا تب تک دادا جی کوئی فیصلہ نہیں سُنائیں گے۔
پرانجال :

بھئیا ! اب مجھے کیا پتہ تھا ایسا ہو جائیگا ؟
میں نے تو یہی سوچا تھا آج ویر کو دادا جی کی نظروں میں گرا دونگا تو دادا جی اس کا نام لینگے ہی نہیں ۔۔۔ پر مجھے نہیں پتہ تھا تاؤجی اسے گھر سے باہر ہی نکال دینگے ۔

راگنی :

میں نے کہا تھا یہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔

پرانجال :

آپ لوگ ٹینشن مت لو۔ ہم لوگ کیسے بھی کرکے دادا جی کو منا لینگے اور وہ جلد ہی فیصلہ لے لینگے۔ فی الحال ایک مصیبت تو گئی۔

ویویک :

ہممم ! ! پر چھوٹے تونے وہ سب کیا کیسے ؟
ویویک كے سوال کرنے پر پرانجال نے مسکراتے ہوئے جیب سے کچھ نکالا اور ان دونوں کو دکھایا ۔

پرانجال:

 ہا ہا ہا ! بھئیا ! سارا کمال اس کا ہے۔
ویویک  ( حیرانی میں ) :

یہ تو ۔۔۔  یہ تو ۔۔۔  یہ تو ٹف آئل ہے چھوٹے ۔

پرانجال :

ہا ہا ہا ! ہاں بھئیا !آپ کے  ہی یہاں سے لایا ہو۔

ٹف آئل ایک ایسا سلپری آئل جسے آٹوموباآئل میں یوز کیا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ آٹو موبائل كے لیے بلکہ یہ اپنی سلیپنیس كے لیے بھی جانا جاتا ہے۔

پرانجال :

یہ میں نے فلور پر ڈال دیا تھا  اور میں ویر کو وہیں سے لے گیا جہاں یہ آئل میں نے ڈالا تھا ۔  بس ! پھر کیا تھا ، اس کا گیلا جوتا  جیسے ہی اُس پہ پڑا ، ویر پھسلا اورگلدستہ سیدھا نیچے ۔۔۔ ہاہاہا!

راگنی :

پر وہ پراساد کا کیا ؟

پرانجال:

 بھابی ! وہ بھی اس کا  ہی کمال ہے ۔میں نے سلیپرز كے نیچے بھی اسے لگا كے رکھا ہوا تھا۔

راگنی  ( اسمائیلز ) :

واہ ! مان گئے تمہیں بھی ۔۔۔ پر وہ چوٹ کا کیا جو ویر کو پہلے سے ہی لگی ہوئی تھی ؟

پرانجال :

وہ بھی میرے کہنے پر ہوا تھا  بھابی ۔ میرے کئی چیلو ں میں سے ایک ہے  وہ  اجے۔ میں نے اس کو کہہ كے رکھا تھا کہ آج پہلا دن ہے تو کوئی بھی بہانہ بنا كے آج جم كے ٹھکائی کر دینا  اس ویر کی ۔۔۔ اور اس نے یہی کیا۔۔۔  ہا ہا ہا ہا !

ویویک :

پر چھوٹے ، وہ آئل زمین پر نظر کیوں نہیں آیا ؟

پرانجال :

کیسے آئیگا بھئیا ؟ میں نے اسے کارپیٹ كے ایکدم بغل سے گرایا تھا ۔۔۔ ہاہاہا

 اور اس کے ساتھ ہی ویویک بھی  ہنسنے لگا۔ راگنی مسکراتے ہوئے دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔جہاں یہ جشن منا رہے تھے تو وہی کوئی اور تھا جو اِس وقت اپنی سانسو ں سے لڑ رہا تھا ۔

*************

نرس :

اس کی حالت بہت کریٹیکل ہے ڈاکٹر۔
ڈاکٹر :

آئی نو ۔۔۔ ہم سے جو بن پڑیگا ہم کرینگے۔
نرس :

جی ! بٹ اس کی فیملی ۔۔۔  ؟  اس کا موبائل تو کام ہی نہیں کر رہا ہے ۔

ڈاکٹر :

میں نے وارڈ بوائے کو بولا ہے وہ اس کے فون کی سم اپنے فون میں ڈال کے اس کے گھر والوں کو کال کرے گا۔

نرس :

ہمممم !!!!!

اور ویر کا ٹریٹمنٹ شروع ہو چکا تھا۔
وارڈ بوائے نے جب ویر کی سم ڈال كے بریجیش کو کال کیا تو بریجیش نے یہ سوچ كے کال نہیں اٹھایا کہ ضرور ویر نے پیسے  مانگنے كے لیے فون کیا ہو گا اور غصے میں اس نے اپنا فون ہی بند کر دیا ۔

وارڈ بوائے نے جب سُمترا کو کال کیا تو کال لگ ہی نہیں رہا تھا۔  کیسے لگتا؟ پرانجال نے اپنی ماں كے فون میں ویر کا نمبر بلاک جو کركے رکھا تھا ۔

پھر اس نے آخِری نمبر جو کہ کاویہ  کا تھا اسے کال کیا ۔

ادھر اِس وقت کاویہ آروحی  اور پرانجال  كے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی ۔نمبر دیکھتے ہی کاویہ سوچ میں پڑ گئی ۔

 ویر بھئیا مجھے کیوں کال کر رہے ہے ؟ ؟ فون اٹھا لوں  یا نہیں؟ ٹھیک ہے اٹھا لیتی ہو’
پر اس سے پہلے کہ وہ فون اٹھا پاتی، پرانجال نے اس کا فون چھین لیا۔

پرانجال :

ذرا دیکھو تو۔۔۔ویر اب ہماری کاویہ کو فون لگا رہا ہے۔۔۔ کیوں کاویہ ؟

کاویہ :

فون دیجیئے بھئیا ۔

پرانجال :

نہیں ! ضرور اب اپنی  پیاری  بہن  سے پیسے مانگنے كے لیے فون کر رہا ہو گا ۔ کیونکہ باہر اب اسے پیسوں کی ضرورت تو پڑے گی ہی۔

اور اس نے فوراََ ہی فون کاٹ كے اس کا نمبر ہی بلاک کر دیا۔

پرانجال :

اب تمہیں  ڈسٹربنس نہیں ہو گا  بہن  ہاہاہا !
کاویہ :

ہمممم ؟

پرانجال :

اچھا وہ سب چھوڑو ، چلو ہم سب پیزا مانگواتے ہیں۔
کاویہ :

میرا من نہیں ہے بھئیا آپ ہی کھاؤ ۔آج ویر بھئیا كے ساتھ اتنا سب کچھ ہو گیا اور آپ کو پیزا کی پڑی ہے ؟

پرانجال :

ارے یہ کیا بات ہوئی یار۔۔۔ کاویہ تم اب بھی اسے اپنا بھائی مانتی ہو ؟ وہ بھائی کہنے لائق نہیں ہے کاویہ۔۔۔خیر چھوڑو آروحی دیدی آپ تو کھاؤ گی ناااا ؟

آروحی :

نہیں !
پرانجال :

ٹھیک ہے تو میں ہی منگوا لیتا ہو۔
اور وہ  وہاں  سے چلا جاتا ہے۔

کاویہ اپنا فون لیے سوچتی رہتی ہے کہ آخر ویر نے اسے کیوں کال لگایا ہو گا۔ وہ سوچتی ہے کہ اگلی بار اگر فون آیا تو وہ ضرور اٹھائےگی ۔پر اسے کیا پتہ تھا کہ پرانجال نے ویر کا نمبر ہی بلاک کر دیا تھا ۔

ادھر اسپتال میں ایک وارڈ میں ایک لڑکی اپنی ماں كے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔

لڑکی :

ماں ! اب میں چلتی ہو ۔۔۔ تم دھیان رکھنا ٹھیک !
عورت :

ہاں بیٹا ! مجھے کیا ۔۔۔ تمہارے پاپا تو  رہینگے ہی  ناا  میرے ساتھ۔ اب تم جاؤ ۔  رات ہو رہی ہے بیٹا ۔۔۔ اور پھر ، جوہی اکیلی پڑوس میں زیادہ  دیر نہیں رہ پائےگی۔جا بیٹا۔۔۔
لڑکی :

جی ماں ! چلتی ہوں۔۔۔تم دھیان رکھنا اپنا۔

ہاں اور اگر کوئی بھی دیکت ہو تو ۔۔۔

عورت :

ارے بابا ! ہاں ! پتہ ہے مجھے ۔۔۔ جا اب تو
لڑکی :

ٹھیک !
اور لڑکی اپنی ماں كے وارڈ سے باہر نکل آتی ہے۔

ابھی وہ آگے بڑھ كے نکلنے ہی والی تھی کہ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں كے بغل والے وارڈ كے باہر ڈاکٹر اور وارڈ بوائے كے بیچ بحث ہو رہی تھی جسے دیکھ کروہ رک گئی۔
ڈاکٹر :

دیکھو کیسے بھی کرکے اس کے پریوار والوں کو انفارم کرو ۔۔۔ کیسے بھی کرکے۔۔۔
وارڈ بوائے :

ارے سر ! کسی نے فون ہی نہیں اٹھایا۔
ڈاکٹر :

ہاں تو لگاتے رہو ۔۔۔ نہیں تو پھر پولیس کو انفارم کرو ۔ کیوں کے اس کے شریر پہ مار پیٹ كے بھی نشان ہے۔

ان دونوں کی بحث چل رہی تھی کہ تبھی وہ لڑکی گگیاکر آگے بڑھی اور اس نے وارڈ میں جھانک كے دیکھا ، جب اس نے پیشنٹ کا چہرہ دیکھا تو ایکدم ہی چونک کر گئی اور اس کے منہ سے تیز آوازمیں نکلا، ” ویرررر !؟؟؟ “
ڈاکٹر ( پلٹتے ہوئے ) :

آپ ؟ آپ جانتی ہے اسے ؟

لڑکی :

ہو ؟  میں ۔۔۔ ہاں ! وہ میرا  اسٹوڈنٹ ہے۔  میں اسے پچھلے ایک سال سے جانتی ہو ۔

ڈاکٹر :

بھگوان کا شکر ہے چلو کوئی تو ملا۔

آپ کا  نام ؟

لڑکی : 

نندنی ۔
ڈاکٹر :

اوکے تو نندنی جی۔

آپ ادھر آئیں ذرا میرے ساتھ۔

کچھ دیر بعد ۔۔۔۔

نندنی ویر كے کالج میں میتھس پڑھاتی  تھی ۔ اور اِس سال وہ ویر کی ہی کلاس کی کلاس ٹیچر تھی۔

وہ ویر کو جانتی ہی تھی۔۔۔ بھلے ہی ویر پڑھنے میں ہوشیار نہیں تھا پر ویر سب سے شانت بچا تھا اس کی کلاس میں۔ اور ہو بھی کیوں نااا ؟ اس کے دوست ہی نہیں تھے۔
آج نندنی اپنی ماں جنہیں کل ہی اچانک مائنر ہارٹ اٹیک آ گیا تھا۔ انہیں ہی دیکھنے كے لیے اسپتال میں آئی ہوئی تھی۔ پر اتفاق سے اسے ویر بھی یہی مل گیا ۔

ویر كے لیے ساری کاغذی کام نندنی نے کیا اور یہاں تک کہ اپنے پتِا جی سے نندنی نے ویر كے لیے میڈیکل فیس بھی ایڈوانس میں کچھ جمع کروانے کو کہہ دیا۔

 سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ نندنی کو خود سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔ اور اِس وقت وہ وارڈ كے دروازے کی ونڈو گلاس سے  جھانکتی ہوئی ویر کو دیکھ رہی تھی اور سوچ میں پڑی ہوئی تھی۔

’ یہ اچانک ۔۔۔ یہ ویر حادثے میں کیسے ؟ اور اس کے ماں باپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہے ؟ کیسے ماں باپ ہے ؟ مجھے کل جاکے ان سے بات کرنی پڑےگی  ’
نندنی یہ سوچ کر اسپتال سے نکل گئی ۔

پر اس کے جاتےہی  ویر کی حالت بگڑنا شروع ہو گئی تھی۔

نرس :

ڈاکٹر ۔۔۔۔

ڈاکٹر :

آئی نو ۔۔۔۔

 بیپ۔۔۔ بیپ۔۔۔ بیپ۔۔۔

 اس کی ہارٹ بیٹ بالکل بند ہونے کی موڑپر آ چکی تھی۔

کہ تبھی اچانک سے ایسا کچھ ہوا جس کے چلتے اس کی ہارٹ بیٹ واپس سے نارمل ہو گئی۔

ڈاکٹر : 

افففف ۔۔۔۔ ہیز آؤٹ آف ڈنگر ناؤ
اور کچھ دیر بعد ہی ڈاکٹرز اور نرس ویر کی حالت اسٹیبل روپ میں چھوڑ كے باہر آگئے ۔

پر کسی کو نہیں پتہ تھا۔۔۔کہ جب اس کی سانسیں جانے ہی والی تھی۔تب اس کے اندر ایک آواز گونجی تھی۔ جو کسی کو سنائی نہیں دی تھی ۔

اور وہ آواز كے بول تھے۔

( سسٹم ہیز بِین ایکٹیویٹڈ )

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد پیش کی جائے گی

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page