Perishing legend king-104-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 104

اور وہ چیز تھی۔۔۔۔


دانش کی سائیکل۔

وہ   مارچ   کا مہینہ  تھا  ۔

جب ٹھنڈ کا موسم جا رہا تھا اور گرمیوں کا موسم آنا شروع ہو چکا تھا۔ میں اپنی ماں کی گود میں سررکھ كے لیٹا ہوا تھا۔


بڑے ہی پیار سے وہ اپنا ایک پاؤں جھولا رہی تھی تاکہ مجھے نیند جلدی آ جائے، پر آج جیسے مجھے نیند آ ہی نہیں رہی تھی۔

 
میں اور ماں گھر كے اندر ہی نیچے زمین پر چٹائی بچائے بیٹھے تھے ۔ یا  یوں کہو ، کہ ماں بیٹھی تھی اور میں لیٹا ہوا تھا۔ گھر کہنا بھی غلط ہوگا۔ ایک چھوٹا سا حصہ تھا چاردیواروں کا جس میں اوپر سے سٹیل چادر کی چھت تھی اور دروازے كے نام پہ بس ایک ٹوٹا پوٹا لکڑی کا دروازہ۔


آپی ! ؟


میرے پکارنے پر میری آپی نے مجھے جھکتے ہوئے دیکھا اور بولی ،


تو ابھی تک سویا نہیں
شیمی ؟


نہیں آپی ! مجھے نیند ہی نہیں آرہی ہے


اچھا ؟ اور کیوں نہیں آ رہی ہے میرے بیٹے کو نیند ؟

آپی ! میں یہ سوچ رہا تھا ، کل ہمارے گھر وہ 3-4 پولیس والے کیوں آئے تھے ؟

 
میرا  یہ سوال کرتے ہی میں نے دیکھا کہ آپی كے چہرے پر اگلے ہی پل پریشانی آ گئی اور وہ کسی سوچ میں پڑ گئی۔


آپی؟؟ ؟


ہ ،ہ، ہوہ ؟ ؟ کچھ نہیں بیٹا۔ تو اپنے کھیل کود اور پڑھائی پر دھیان دیا کر سمجھا ؟


آپی نے تھوڑا اونچی آواز میں بولا تو میں چھپ  ہو گیا۔ اسکول تو نام کا ہی تھا۔ ہم سبھی بچے جاتے، ٹیچر آتا یا نہیں آتا بات ایک ہی تھی۔صرف انہی كے اوپر دھیان زیادہ دیتے تھے ٹیچر جن کے باپ كے پاس پیسہ زیادہ ہوتا تھا۔


میرے بابا تو بڑی مشکل سے میری اسکول فیس دے پاتے تھے۔ ابھی میں بابا كے ہی بارے میں سوچ رہا تھا کہ اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا اور بابا اندر آ گئے۔

 بابا ! “


میں اٹھا اور بابا سے لپٹ گیا۔


ہا ہا ہا ہا ~ میرا  بیٹا ! ! آج تیرے لیے تحفہ لایا ہوں۔ وہی جس کے بارے میں تو روز ڈیمانڈ کیا کرتا تھا  اور ہمیں پریشان کرتا تھا۔

 
میں نے بابا کو حیران کن نظروں سے دیکھا تو انہوں نے مجھے تھوڑا دور کرتے ہوئے اپنے پیچھے سے ایک جھولا نکالا  اور اسے جیسے ہی کھولا تو میری آنکھیں حیرانی اور خوشی دونوں كے مارے پھیلتی  چلی گئیں۔


” 
یییہ یہ تو۔۔۔۔۔


ہا ہا ہا ہا ~ یہ رہا تمہارا تحفہ  ”

 

” میرا تحفہ ؟۔۔۔۔۔۔۔۔


میں چلاتے ہوئے اس پر جھپٹا۔ اور کیوں نہیں جھپٹتا ؟  میرے سامنے ایک ہاکی اسٹک موجود تھی۔


روز میں میدان میں کھیلنے جاتا تھا۔ وہاں ہم سبھی ہاکی کھیلتے تھے۔ کچھ لوگوں كے پاس ہاکی اسٹک تھی تو کچھ بس لکڑیوں سے اپنا کام چالاتے تھے۔


روز میں بابا کو اِس بارے میں بتاتا تھا اور وہ میری بات سن کے سر ہلا دیتے تھے۔ پر مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ میری بات کو ایسے ہی پُورا کر دینگے۔آج میں بہت خوش تھا۔ کتنی چمک رہی تھی میری ہاکی اسٹک۔ کل جب میں اپنے دوستوں کو دکھاؤنگا تو کتنا جلیں گے سبھی۔


ویسے تو اگر آپ اچھا کھیلو۔ تو ملکی سطح پر کھیلنے کا بھی موقع دیا جاتا تھا۔ پر یہ موقع صرف 18 عمر سے اوپر والوں كے لیے تھا۔ اور مجھے 18 کا ہونے میں ابھی 5 سال باقی تھے۔


اتنا خرچہ ؟ کیوں ؟ ؟ ؟ آپ جانتے ہیں ہم ویسے ہی کتنی پریشانی میں ہے پھر بھی ؟


آپی نے حیران کن نظروں سے بابا کو دیکھتے ہوئے کہا۔


ارے ٹھیک ہے اب۔ کب سے لگا ہوا تھا وہ ۔۔۔ کبھی کبھی چلتا ہے


کبھی کبھی ؟؟ ؟  ارے گھر کی حالت کا بھی تو دھیان رکھیے۔

میں سب دھیان رکھ رہا ہوں میری بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔ تم ہی بتاؤ۔ کیا میں نے تم لوگوں كے علاوہ کبھی  کسی اور بارے میں سوچا ہے ؟


اب، اب آپ ایسا بولینگے تو میں کیا ہی مزاحمت کر پاؤں گی ؟


ہاہاہا ~ تم چنتا مت کرو۔ سب سہی ہو جائیگا  “


نا جانے آپی بابا کیا بات کر رہے تھے مگر میں اتنا تو جانتا تھا کہ ہمارے گھرکی مالی حالت بہت کمزور تھی۔


آپی !!!! تمہاری کیا خواہش ہے؟


میں نے اپنی ہاکی کو رکھتے ہوئے پوچھا۔ تو آپی مسکرائی اور بغل میں رکھے ایک چھوٹے سے لکڑی كے بنے مندر کو دیکھنے لگی۔

 

“میری خواہش؟؟؟ میری خواہش  تو بس یہی ہے کہ تو ایک بہت بڑا آدمی بنے اور یہ جو مندر  ہے  نا۔ میں اسے پوری چاندی کا بنوانا چاہتی ہوں۔ پر وہ تبھی ممکن ہوگا جب تو بڑا آدمی بنے گا سمجھا ؟


ہممم ! “


جا  اب سو  جا  “


نا چاہتے ہوئے بھی ،  مجھے لیٹنا پڑا۔  پر نیند تو آج جیسے میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں کروٹ لے کے لیٹا ہوا تھا کافی دیر سے اور اسلئے شاید آپی بابا کو لگا کہ میں سو گیا ہوں۔


اور وہ باتیں کرنے لگے۔۔ پر میں جاگ رہا تھا ۔اور اسی وجہ  سے مجھے کئی ساری باتیں پتہ چلی جو ویسے مجھے کبھی نہیں پتہ تھی۔

آج آپ کو اتنا مہنگا تحفہ لانے کی کیا ضرورت تھی  واقعی

تم ابھی بھی اس کے پیچھے لگی ہو۔ ارے بچہ ہے اور وہ میں نے اپنی جمع  پونجی سے لیا ہے اس کے لیے

 
اگر کوئی کتاب لاکے دیتے تو بھی کوئی بات ہوتی

 
کھیل سے بھی آدمی بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ اورشیمی کو  کھیل میں دلچسپی بھی ہے تو ہمیں تو اسے اس طرف سے بھی سپورٹ   دینا  ہی چاہیے نا ؟


آپ کے سامنے میری ایک نہیں چلتی۔۔۔ اچھا وہ ۔۔۔ پھر کیا ہوا؟ ہماری زمین کا ؟مجھے بہت فکر ہو رہی ہے۔اگر وہ ہمارے ہاتھ سے گئی ، تو کیا ہوگا ہمارا ؟

ہممم ! اس کمینے نے دھوکے سے ہماری زمین كے کاغذات چوری  کروائے ہیں۔ اور اب ہمیں کیسے بھی کرکے انہیں واپس لینا ہے

 
وہی پوچھ رہی ہوں آپ سے۔ کل پولیس والے بھی آئے تھے۔ کتنی دھمکیاں دیکر گئے ہمیں۔سب اوپر سے ملے ہوئے ہیں۔۔۔ اوپر سے مجھے تو ان پولیس والوں كے ارادے بھی بالکل ٹھیک نہیں لگ رہے

کیا کہتی ہو ؟؟؟ کیا کل انہوں نے۔۔۔۔ ؟ “


“ہممم ! آپ نے شاید غور نہیں کیا۔ پر وہ سبھی میرے جسم کو گندی نظر سے دیکھ رہے تھے

ان حرام كے پِیلوں کی تو میں۔۔۔۔۔”


شانت ! شیمی اٹھ جائیگا ! “

ہممم ! مجھے اب وہ قدم اٹھانا ہی پڑیگا

 ؟؟؟؟ ؟


بھولو مت کہ میں اس کے ہی گھر میں کام کرتا  ہوں۔ مجھے پتہ ہے اس نے کاغذات کہاں رکھے ہونگے۔بس ایک بار ہاتھ آ جائے

 

 ” چوری؟ ؟ ؟


چوری نہیں ہے یہ ۔۔۔ یہ ہمارا اپنا حق ہے بیگم!یہ تو ہماری زمین ہے۔ اس نانا جٹ کو اگر وہاں بِلڈنگ بنوانی ہے تو بنوائے۔ پر ہماری کھیتی کی زمین کو چھوڑ كے بنوائے اور ہم اپنا حق لے کے رہینگے۔ بھلے ہی مجھے اس کے گھر سے اپنے کاغذات کیوں نہ لینے پڑے ”

 

“مگر ۔۔۔ مگر اگر اس نانا جٹ کو پتہ چلا  تو


پتہ چلا بھی تو کیا ؟ کم سے کم ہمارے پاس۔۔۔کچہری میں دکھانے كے لیے کاغذات تو رہینگے

 
کچہری اگر ہمیں تحفظ دے بھی  مگر اس کے بَعْد کیا ؟ وہ حرامی ناناجٹ کچھ بھی کر سکتا ہے۔اگر ہمارے  شیمی کو کچھ ہوگیا  تو؟؟ ؟


بالکل نہیں ! تم کل ایک کام کرنا ۔۔۔ شیمی کو میدان کھیلنے بھیج دینا۔۔۔ جیسے ہی میں کاغذ لے کے آؤنگا ہم سیدھے دوسرے تھانے چلیں گے اور کچہری بھی جائینگے۔ وکیل کو دینے كے لیے ہے پیسہ ہمارے پاس۔۔۔ بس ہمیں جلد سے جلد سب کچھ کرنا  ہوگا۔ اِس سے پہلے کہ وہ نانا جٹ  ہمارے وکیل کو خرید  پائے ”

 

” کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ ہم کامیاب ہونگے ؟


خدا كے گھر دیر ہے،  اندھیر  نہیں !


ہممم ! اور۔۔۔۔ہمارا سبزی اور پھل کا  کاروبار تو اچھا ہے ہی پر آپ کے موچی كے کاروبار کا کیا ہوا ؟


آج اچھی کمائی ہوئی۔ وہ جن کی حویلی ہے نا ؟ سنگھ صاحب کی ؟ وہ آج مجھے حویلی میں  بلوائے تھے  “

کیا ؟

 
ہاں ! ہاہاہا ~ ارے ان کے جوتے باہر کنٹری سے آئے ہیں اور تم جانتی ہی ہو کہ جوتوں کا مجھے کتنا شوق ہے۔ میں نے جوتے كے بارے میں اتنا سب کچھ بتایا انہیں کہ وہ خوش ہو گئے اور میری اچھی خاصی  کمائی ہوگئی۔ “

 

” چلیے ! یہ تو بڑی ہی اچھی بات ہے  “

آپی ، بابا کچھ دیر یوں  بات کرکے سوگئے تھے۔ مگر ان کی باتیں میرے دماغ میں ہی رات بھر گھومتی رہی۔


اگلی صبح وہی ہوا۔۔۔ آپی نے ناشتے میں مجھے روٹی دی اور بس آم کا اچار۔ میں تھوڑا بہت کھایا اور تب تک سورج سرکو چڑھنے پر تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page