Perishing legend king-132-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 132

شام کو مقررہ وقت پر ویر اور شریا کی ملاقات ہوئی۔ دونوں نے فلم کا لطف اٹھایا اور اب کھانے کا وقت تھا۔

آل ریڈی 7:30 بج چکے تھے اور شریا کو جلد ہی گھر لوٹنا تھا اسلئے اس نے جلدی ہی ڈنر کرنے کا مشورہ کیا۔

گھر پر صرف نندنی اور جوہی ہی تھے اور شریا نہیں چاہتی تھی کہ وہ یہاں اکیلے لیٹ نائٹ تک انجوائے کرتی پھیرے۔

شریا : اممم . . . تمہارے اور دیدی كے بیچ کچھ جھگڑا ہوا کیا ! ؟

ویرہ-ہوہ ! ؟ ننناہی،،،نہیں تو ! ؟ ایسا کیوں لگا آپ کو ؟

شریا : وہ . . . کل جب تم چلے گئے تھے گھر سے تو۔۔۔۔میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ ویر کہاں گیا۔

ویر : تو ! ؟

شریا : تو اس نے۔۔۔ تھوڑا سخت لہجے میں کہا۔ میرا مطلب ہے کہ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے سختی سے کہا۔۔۔ کیونکہ میں اسے جانتی تھی۔ میں اس کے غصے سے واقف ہوں۔ اس نے کہا۔۔۔ وہ اپنے گھر چلا گیا۔ اپنی  بھابھی کے گھر۔

ویر (کندھے اچکائے ) : آئی سی !

شریا : میں نے پھر پوچھا تھا کہ۔۔۔اچانک کیوں چلا گیا ! ؟ کچھ کھا كے کیوں نہیں گیا ! ؟ تو پھرسے اسی ٹون میں انہوں نے مجھے جواب دیا کہ. . . چلا گیا ! جب اس کا من ہو گا تو آئے گا خود۔۔۔ میں کون ہوتی ہو روکنے والی ۔۔۔ اپنی من مانی تو شروع سے کرتا آیا ہے  وہ۔

ویر : شی سیڈ دس ! ؟ (اس نے  یہ کہا؟)

شریاہاں ! اسلئے میں نے پوچھا تم سے ۔۔۔کل کچھ۔۔۔
ویر ( اسمائیلز ) : نو ! نتھنگ ہیپنڈ !(نہیں کچھ بھی نہیں ہوا)

شریااوکے! شاید مایوسی کو لیکر انہوں نے وہ سب کچھ کہا  ہو۔ آئی نو کہ۔۔۔ شی از کلئیرلی ان ہیپی بیکاز یو  ڈیسائیڈٹو لیو دی ہاؤس بٹ۔۔۔(میں جانتی ہوں کہ وہ واضح طور پر ناخوش ہے کیونکہ آپ نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن)۔۔۔ وہ ہمیشہ تمہارا بھلا ہی چاہیں گی ویر۔۔۔ یو نو اٹ رائٹ!؟( تم یہ ٹھیک جانتے ہو!؟)

ویر ( اسمائیلز ) : آف کورس!

ویر کا پازیٹیو ریسپونس دیکھ کر ، شریا كے چہرے پر جو فکر تھی وہ غائب ہو گئی اور ایک راحت بھری مسکراہٹ بکھر گئی۔

اگلے ہی پل اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کی ہتھیلی ویر کی انگلیوں پر رینگتی ہوئی چڑھنے لگی۔

دھیرے سے اس نے ویر پر ہاتھ رکھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ویر نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو شریا کی ہتھیلی پر ٹکا ہوا تھا اور پھر اس کے چہرے کی طرف۔ ہتھیلیوں کا ایک دوسرے کا لمس ان کے دونوں جسموں پر ایک الگ جھنجھلاہٹ کا احساس پیدا کر رہا تھا۔

شریا : ویر . . . !

ویر : ہممم ! ؟

شریای-یوو نو ۔۔۔۔

ویر : ؟؟ ؟

شریا : تھینک یو ! لائک . . .ریلی . . . تھینک یو !
ویر : کس لیے ! ؟

شریا : فور کمنگ اِن ٹو اور لائیوز۔۔۔( ہماری زندگی میں آنے کے لیے…)

ویر ( سرپرائزڈ ) : ؟؟ ؟

شریا : یو ڈونٹ نو۔۔۔بٹ ۔ ( تم نہیں جانتے۔۔۔

لیکن۔۔) آپ کی آمد کے بعد سے۔۔۔کیا آپ نے دیکھا ہے کہ ہماری زندگیوں میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں؟ اور یہ بھی اچھی تبدیلیاں ہیں۔۔۔آپ آگئے۔۔۔ دیدی نے بہت خوشی محسوس کی۔ اس نے پریشان ہونے میں کم اور اپنے خاندان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کیا۔ جوہی کو اس کے نئے ماموں ملے۔کتنا کھلا کھلا رہتا تھا اس کا چہرہ ہمیشہ ۔۔۔ان دونوں کو ہی جیسے ایک اچھا دوست مل گیا تھا ۔

ویر : اور آپ کو ! ؟

جیسے ہی ویر نے یہ پوچھا، شریا کا جسم لرز اٹھا اور اس نے ویر کے چہرے سے آنکھیں ہٹا دیں۔ شاید… یہ شرم تھی!

اور بالکل . . . اگلے ہی پل اس کے گال گلابی ہونا شروع ہو گئے۔ دھیرے سے اس نے اوپر نگاہیں کرکےویر کو دیکھا اور ہولے سے بڑبڑائی۔

شریا: (چہرے پر سرخی مائل ہوتے ہوئے) مم،،، مجھے بھی بہت کچھ ملا،  نیا دوست، یا کہوں . . . بہت خاص دوست . . . ! ؟

ویر ( اسمائیلز ) : سیم ہیئر!

شریا : یو . . .

ویر : ؟؟ ؟

شریا : یو شُڈ کم بیک۔۔۔ رائٹ ! ؟(تمہیں واپس آنا چاہیئے۔۔۔ٹھیک ہے؟)  ویر۔۔۔ دیدی۔۔۔وی آل نو کہ۔۔۔ (ہم سب جاننتے ہیں کہ) دہرو  کو واپس لانا امپوسیبل ہے ۔ تمہارے گھر پر نہ رہنے سے ایسا نہیں ہوگا کہ دیدی کی بچت بڑھ جائیں گی اور وہ 50 لاکھ جوڑ لینگی۔ آئی ہیٹ ٹو سے اٹ بٹ اٹس امپوسیبل فار  ہر، سو۔۔۔ (مجھے یہ کہنے سے نفرت ہے لیکن اس کے لیے یہ ناممکن ہے۔ تو)۔۔۔ ہم خوشیوں کے ساتھ کیو بھید بھاؤ کرے!؟ تم۔۔۔ تمہارے گھر میں ہونے سے رونق بڑھ گئی تھیں ویر۔۔۔ شی ریلی مسیز یو۔
آئی کین ٹیل۔۔۔ جوہی بھی ۔ تو تم پھرسے آؤ گے تو  ایٹلسٹ . . . ایٹلیسٹ دیدی پھرسے خوش تو رہنے لگیں گی ؟ کچھ خوشیاں تو رہینگی ۔۔۔ کم سے کم انہیں اکثر مسکراتا ہوا تو دیکھ پاؤں گی میں ۔۔۔آئی نو کہ تم یہ کر سکتے ہو . . . ویر ! ؟ یو ول کم رائٹ ! ؟ ر-رائٹ؟

شریا تھوڑا بےچین ہونے لگی۔ اس کا یوں ڈسپیریٹ ہونا ایک اشارہ تھا۔

اشارہ کہ ویر كے آنے سے نندنی کی زندگی میں کتنا کچھ بدلاؤ آیا تھا۔

اور ایک اشارہ یہ بھی کہ . . . شریا اپنی بہن نندنی سے کتنا پیار کرتی ہے۔

ویر : یہ . . . پوسیبل نہیں ہے شریا جی . . .
مگر اس کےجواب نے جیسے شریا كے دِل کو توڑ كے رکھ دیا ۔

شریاکککیوں؟ ؟ ؟آخر ! تم اپنی بھابھی كے گھر ہی تو رہ رہے ہو نا ؟ یو کین کم بیک دین رائٹ ؟ نتھنگ ول چینج ایٹ آل . . . ہم سبھی واپس سے جیسے پہلے گھر میں مستی کرکے ایک ساتھ رہ رہے تھے ویسے ہی پھرسے۔۔۔

شریا کس حد تک اپنے بتائے گئے ان دنوں كے بارے میں سوچا کرتی تھی یہ آج اس کی باتوں سے صاف جھلک رہا تھا ۔ وہ واقعی یادگار دنوں میں سے تھے۔۔۔پر شاید اسے ایک غلط فہمی بھی ہو چکی تھی۔ یا وہ ایک پنجرے میں تھی اور یہ بھول گئی تھی کہ اس پنجرےكے باہر بھی بہت بَڑی دُنیا ہے۔

اور ویر کے منہ سے نکلے اگلے چند الفاظ اس کی جعلی دنیا کو تباہ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
ویر : ریئلیٹی میں آئیےشریا جی ! (حقیقت کی طرف آئیں شریا جی!) حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انتظار کرنے کے لیے کبھی بھی وقت نہیں رُکتا۔ نندنی میڈم۔۔۔ آج نہیں تو کل۔۔۔ان کی طلاق کا فیصلہ آ جائے گا۔۔۔ دہرو ملتا ہے یا نہیں۔۔۔ یہ تو وقت بتائے گا۔۔۔ سب کچھ بدل رہا ہے۔ بدلنا مقدر ہے۔

شریا : میں،میں نہیں چاہتی۔۔۔ شریا خاموش ہوگئی، اس کا نچلا ہونٹ بھینچ گیا اور اس کی آنکھیں نم ہو چلی۔

وہ اس سب پر  پردہ  ڈال کر اپنی دنیا میں رہنا چاہتی تھی۔ جہاں اسے امید تھی۔ کہ ایک دن ویر پھر آئے گا، پھر وہ دن اسی طرح نندنی کے فلیٹ میں گزاریں گے۔ اور شاید۔۔۔ کچھ اور!؟ وہ اپنے ذہن میں وہی کھانا  پکا رہی تھی۔

اور تب ہی اسے احساس ہوا کہ گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آنے والا ہے۔ ظاہر ہے ایسا ہی ہوا۔۔۔وہ اپنے آنسوں نہیں روک سکی۔

ویر : وی شُڈ گو  ناؤ۔۔۔ نندنی میم اور جوہی اکیلے ہیں گھر پہ۔۔۔ اور آپ کو جانا ہے جلدی رائٹ ! ؟

شریا نے صرف سر ہلایا  اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ ڈیٹ شاید اتنی خوشی سے نہ گزری ہو لیکن۔۔۔

شریا خوش تھی ۔۔۔اس کے اور ویر كے بیچ ایسے کوئی بھی گلے شکوے نہیں تھے۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو کافی اچھی طرح سے انڈر اسٹیند کرنے لگے تھے اب۔
جانے سے پہلے شریا نے اسے ایک بار پھر دیکھا ۔ وہ دونوں ہی سوسائٹی كے ٹھیک باہر موجود تھے۔

شریا : تھینکس فور گیونگ میں پارٹی (مجھے پارٹی دینے کاشکریہ)

وہ مسکرائی۔۔۔
ویر ( اسمائیلز ) : اس میں کیسا تھینکس ! ؟ دوست کو پارٹی مانگنے کا پُورا حق ہے۔

شریا ( اسمائیلز ) : رائٹ !
ویر : . . . .

شریا : امممم . . . .
ویر : ؟؟ ؟

شریا : تو ! ؟ تو کب مل رہے ہیں ہم نیکسٹ ! ؟
ویر : جب آپ اور میں دونوں ہی فری رہے ! ؟ رممبر ! ؟ یو آر ناؤ این ایمپلوئے۔اب جاب لگ چکی ہے آپ کی۔

شریا : یا ! ! ! اوکے دین۔۔۔میں تمہیں بتا دونگی۔ جب بھی میں فری رہونگی ۔ وی ، وی ول ہینگ آؤٹ ٹوگیدر۔

ویر : شیور !
شریا : تم نے۔۔۔! ؟ تم نے میری دی ہوئی  کیرنگ بھی لگا لی ! ؟ ؟ آئی  ایم ریلی ہیپی !
ویر ( اسمائیلز ) : آف کورس !

شریا : اوکے بائے!

ویر : بائے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page