Perishing legend king-135-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 135

اوپر سے رات كے 11 بج رہے تھے۔ ٹریفک تھا . . . پر اتنا نہیں۔

*وروم وروم وروم۔۔۔۔۔ و روووومممم *
اپنی بائک کو ریس دے کر۔۔۔۔

ویر نے اگلے ہی پل اپنی بائیک لیموزین  كے تھوڑا پیچھے لگا دی۔

گاڑی کی کھڑکی مکمل طور پر مبہم تھی۔ اندر کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔

‘ویٹ ! ! ! دس اِز الیگل ‘ (‘رکو!!!’ یہ غیر قانونی ہے)’

ونڈو ٹنٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چیزوں کو بالکل مبہم رکھنا غیر قانونی ہے اور اگر پولیس اسے دیکھتی ہے تو وہ اس پر اسے  پکا پکڑے گی۔

یہ چیز ویر جانتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود۔۔۔اس لیموزین میں۔۔۔ کھڑکیوں کے رنگ سیاہ تھے۔ اندر کا نام و نشان تک نہ تھا۔

اور ویر کے اندر کا خوف کھڑکی کے مبہم رنگوں کی  وجہ سے اسےپریشان کرتا  رہا۔

گاڑی ویران سڑک پر رواں دواں تھی۔ ویر کا جسم بگڑ رہا تھا۔ اسے لگا کہ گاڑی کے اندر بیٹھے شخص کو شاید اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

 لیکن اس کا مشن گاڑی کو روکنا تھا۔

جب لیموزین ایک انجان سے سنسان اندھیرے راستے میں گھسی تو اگلے ہی پل ویر نے بائیک کو ریس دیا۔

*وروووومممم *
اور وہ کار كے آگے آیا اور کچھ ہی دوری پر اس نے۔۔۔۔۔

سکریییچچ چ چ چ چ چ  چ چ چ چ*

اور اچانک ویر نےمضبوط بریک لگائی لیکن موٹر سائیکل کا پچھلا پہیہ تھوڑا سا پھسل گیا اور موٹر سائیکل کو سڑک کے بیچ میں  آدھی کھڑی کردی۔

گاڑی والے ڈرائیور نے بھی  اچانک اپنے سامنے آئے ہوئے شخص کو دیکھااور اچانک گاڑی کو روکنا  پڑی۔

اور کچھ دیر تک شدید سا  ماحول بن گیا۔

ویر کی باز جیسی نظریں گاڑی پر  جمی ہوئی تھی۔ بھلے ہی اسے کچھ دِکھائی نہیں دے رہا تھا پر۔۔۔پر  وہ پوری طرح سے چوکنا تھا۔
اور ایک  شدید ماحول بن گیا وہاں۔۔۔

رات كے اندھیرے میں . . . چاند کی روشنی پوری طرح سے برقرار تھی جسکے چلتے وہ روشنی گاڑی  کی ونڈوز پر ریفلکٹ ہو رہی تھیں۔۔۔اور ویر کو جس بات کا ڈر تھا۔ اگلے پل وہی ہوا ۔

* کِلک *
دروازہ کھلا۔۔۔ اور اندر سے۔۔۔۔

قریب 8 سے 10 لوگ باہر نکلے۔ سبھی کالی شرٹ اور کالی جینز پہنے ہوئے تھے۔
ان کو دیکھ  کر ویر اگلے ہی پل چوکنا ہو گیا ۔ کیا ان کے ارادے نیک تھے  یا . . . ! ؟ ؟ ؟

ووووشششش *
اگلے ہی لمحے۔۔۔ایک لکڑی اسٹک اس کی طرف اڑتی ہوئی آئی اور ۔۔۔

* ڈوووج*

اپنا سرسائڈ کرکے اس نے خود کو بچا لیا۔

اور جو ڈاؤبٹ ویر کو تھا  وہ  دور ہو چکا تھا۔ وہ اس کے خیرخواہ تو قطعی نہیں تھے۔

پری: گیٹ ریڈی ٹو فائٹ ! ! ! !

’ ییاااااا ! ’

وہ سبھی بنا رکے آگے بڑھے۔۔۔

ایک قدم۔۔۔دو قدم۔۔۔اور پھر تو سیدھا دوڑ ہی  لگا  دی  ان سبھی نے۔۔۔

سبھی كے ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا۔  بھلے ہی گن نہیں تھی پر ہنگامہ  خیز ہتھیارضرور تھے۔ لکڑی کا بیٹ ہو یا ہاکی ہو یا  اسٹک ہو ۔۔۔ سب کے ہاتھ میں ایک نہ ایک چیز تھی،

( ہیئر ہی کمز . . . )

” ہاااا ~ ” آدمی چیلاتے ہوئے غصے میں آیا اور اس نے فوراََ ہی ویر كے سرپہ اپنا بیٹ گھمایا۔
*
ووشششش * ’ 

حمپپپپ . . . ! ’ ڈوج/چکما*

مگر… وہ حملہ ویر ایک طرف جھک گیا اور اسے چکما دے دیا۔

اس کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے كے لیے ویر نے اگلے ہی پل اپنے سر كے بغل سے گزرے اس کے ہاتھ سے اس بیٹ کو تھاما اور دوسرے ہاتھ سے مٹھی بنائی اور اس کی پشت کی مٹھی اس کے گال پر ماری۔۔۔

. . . ” ششششڑکہ ! ! “

وہ لڑکھڑا كے پیچھے ہوا پر تب تک ویر اپنا کام کر چکا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں بیٹ آ چکا تھا۔

” مارو  سالے  کو . . . “

ایک چلایا اور آگے آیا۔۔۔۔

وووووووشششش *
سوییسسشہح * * وحووسشہ *

* ڈوج * * ڈوج*

 * ڈیفففف *
اس نے تِین وار کیے پر تینوں وار میں سے۔۔۔ ویر نے دو کو آسانی سے  خالی ہی جانے دیئے اور تیسری کو پوری طرح سے چکما  دیا۔ بولے تو وار کا نشانہ ہی بَدَل دیا۔ جس وجہ سے اس بندے کی ہاکی اسٹک اس کے اپنے ساتھی کو جا كے لگ گئی۔

اور ان دونوں میں خود کی لڑائی شروع ہوگئی۔

ایک اور آدمی آگے بڑھا . . .جو مکمل دیوانے کی طرح لگ رہا تھا۔ وہ چھڑی کو ادھر اُدھر گماتا ہوا  روڈ پر آرہا تھا۔ اور لوہے کی سلاخ کو قریب آتے دیکھ کر ویر کی آنکھیں یکدم چوکنا  ہو گئیں۔

اس نے اگلے ہی لمحے پیچھے کی طرف پلٹایا۔۔۔ماری۔۔۔

اور پھر لگاتار تین لاتوں کے حملے۔۔۔ یہ قلابازیاں اور یہ حرکتیں خود بخود آ رہی تھیں۔

وجہ مارشل آرٹ کی بنیادی مہارت تھی۔

جہاں وہ آدمی ویر کو دیکھ کرسرپرائزڈ تھے۔ وہیں ویر خود سرپرائزڈ تھا اپنے ان حرکتوں کو لیکر۔۔۔

بیٹ تو اس نے کب کا پھینک دیا تھا ۔ان کے لیے۔۔۔آج اس کی لات اور مکے ہی کافی تھے۔

اس نے ایک مارشیل آرْٹ سٹنس کو ہولڈ کیا اور اپنے ہاتھوں کو اشارہ کرکے انہیں بلایا۔
ویر : اب آؤ۔۔۔۔۔ کتے کے بچے۔۔۔

اس کے بعد تو ۔۔۔ اس سنسان راستے پر بس ان آدمیوں کی کراہیں ہی گونجنے لگیں۔۔۔
ایک ایک کرکے ویر نے اِس بار جنگجو کی طرح لڑائی کی۔

ایک ساتھ نہیں الجھا  سب سے۔ اس نے ان کو دور لے جا کر 2 سے 3۔۔۔  تو کہیں 3 سے 4 لوگوں سے فائٹ کی۔

اِس بار وہ پہلے سے کہیں  زیادہ  پرجوش اور پراعتماد تھا ۔ اپنی غلطی کو دہرانا نہیں چاہتا تھا۔

آخری آدمی سے بھیڑتے وقت۔۔۔ اچانک ہی اسے پتہ نہیں کیا ہوا کہ۔۔۔ اس نے اس آدمی کے حملوں کو آسانی سے چکما دیا اور پھر اس کا ہاتھ عجیب طریقے سے کھل گیا۔اور جاکے ٹھیک اس آدمی كے سینے سے ایک انچ کی دوری پر رکا۔  بس ایک لمحے کے لیے۔۔۔۔ ایک لمحے كے لیے اس کی وہ کھلی ہتھیلی آدمی كے سینے سے ایک انچ کی دوری پر رکی۔
اور اگلے ہی پل ۔۔۔۔۔۔۔

اس کے منہ سے اپنے آپ کچھ الفاظ نکلے۔
ون انچ پونچھ . . . “

اور نیکسٹ مومنٹ ہی . . . اس کی کھلی ہتھیلی ایک مکے میں تبدیل ہوئی اور۔۔۔

 . . . * پووووووووووووو وووو *

وہ آدمی اتنی تیزی سے اچلتے ہوئے ہوا میں اُڑ  کرپیچھے گرا  اور اتنی دور گرا کہ ویر کی خود کی آنکھیں حیرانی كے مارے پھٹی  کی پھٹی رہ گئیں۔

پری: ریمبو اٹ . . . ماسٹر ! ! ! ہیل یہ ! ! ! دیٹ واز سو گڈ . . . . یس ! اٹس ہیئر . . . ون انچ پونچھ! ! ! (یہ ریمبو… ماسٹر!!! ہاں بالکل!!! یہ بہت اچھا تھا… ہاں! یہ یہاں ہے…ایک انچ کا پنچ!!!)

‘ہہہاں!؟؟  لعنت ہو…!’

بس باقی رہ گیا تھا ۔۔۔تو ویرجو حیرانی سے وہاں کھڑا تھا، ابھی تک اپنی مٹھی پکڑے ہوئے تھا اور باقی آدمی… جو سڑک پر کراہتے ہوئے پڑے تھے۔

ویر نے خوش ہوتے ہوئے ایک راحت کی سانس لی۔۔۔

مگر ۔۔۔۔۔

* کلیپ * * کلیپ * * کلیپ *

اپنے جسٹ پیچھے سے یہ آواز سن کر اس کا شریر کانپ اٹھا۔

اچانک آئی ان تالیوں کی آواز جیسے اس سنسان سڑک میں گونجنے لگی اور ویر كے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کچھ لمحوں كے بعد ہی تالیوں کی گونج تھم گئی اور سب کچھ شانت پڑ گیا۔

ایکدم خاموشی سی۔۔۔۔

اور پھر ویر دھیرے دھیرے پلٹا۔۔۔۔

اس نے سامنے دیکھا اور جیسے ہی اس کی نظریں سامنے ہوئی۔۔۔۔

اس کی آنکھیں پھر سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
اس لیموزین سے ایک شخص نکل كے باہر آیا تھا۔

پھولوں کی قمیض، بلیزر، پتلون، سیاہ رسمی جوتے اور بس اس کے علاوہ ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا۔ ویر اس شخص سے نہ کبھی ملا تھا نہ اسے کبھی دیکھا تھا۔  لیکن اس کے سامنے کھڑا یہ شخص ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں پر ویر کو اسے دیکھ كے ہی خطرے کی گھنٹی سنائی دے رہی تھی۔

کچھ گڑبڑ ضرور تھی۔۔۔

ویر کو ایسا محسوس ہوا جیسے اِس وقت اس کو یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔

یہ وہی شخص تھا ۔۔۔ہاں  وہی شخص۔۔۔۔

جسے ویر نے اس دن سہانا كے ساتھ ہوٹل میں دیکھا تھا۔

اس لفٹ میں۔۔۔ بالکل ! ! ! !

ویر کی میموری  تیز تھی۔ اسے بخوبی یاد تھا کہ یہ وہی انسان تھا جو اس دن لفٹ میں تھا۔ آخر کیسے ویر اسے بھول سکتا تھا ! ؟

وہ پھولوں والی قمیض۔۔۔ اس آدمی کے لباس کے بارے میں سب سے زیادہ دلکش چیز اور متوجہ کرنے والی تھی۔  جسے کوئی بھی  ایک نظر میں آسانی سے بھول ہی نہ پائے۔

پر سب سے بڑا سوال تھا ۔ وہ آخر یہاں کر کیا کررہا تھا ! ؟ ان آدمیوں سے اس کا کیا لینا دینا تھا ؟

دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے کو ایسے اسکین کر رہی تھیں جیسے مانو ایک دوسرے کو لڑنے سے پہلے پہچان کرنے کی کوشش رہے ہو۔

ویرتتتم . . . ! !

آدمی : * اسمائیلز *

اس آدمی نے ویر کے جواب پر کچھ نہیں کہا اور بس مسکرا دیا۔ لیکن کسی وجہ سے اس آدمی کی مسکراہٹ ویر کے لیے اور بھی خطرے کی نشاندہی کر رہی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page