کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ
منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ اس طرح کی کہانیاں آپ بیتیاں اور داستانین صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی تفریح فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے دھرایا جارہا ہے کہ یہ کہانی بھی صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔
تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
Perishing legend king-150-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-149-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-148-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-147-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-146-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-145-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025
منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 145
پہلا جنوری۔۔۔۔۔۔
نیو ایئر ز ایوننگ۔۔
ممبئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بڑی سی ہوٹل كے کوریڈور میں ایک آدمی تیز قدموں كے ساتھ چلتا ہوا جا رہا تھا۔
اس کے پیچھے کئی سارے ہٹے کٹے آدمی چل رہے تھے۔
کچھ کی جیبوں میں تو گنز بھی تھیں اور سبھی دیکھنے میں اتنے بھیانک کہ مانو ابھی پکڑ كے زندہ مار دینگے۔
پر اِس وقت وہ سبھی اپنے باس کو فولو کر رہے تھے جو اِس وقت تیز قدموں كے ساتھ ہوٹل کی لفٹ کی طرف جا رہا تھا۔
اور یہ اور کوئی نہیں اروند ٹاکر ہی تھا۔
” کام ہوا ۔۔۔۔! ؟؟؟ “
اس نے تیز آواز میں پوچھا۔
راجا : سب ریڈی ہے۔ بس اس کے آنے کی دیر ہے۔
اروند ٹاکر : گڈ !!! سب کچھ فٹافٹ ہونا چاہیے۔ مجھے ممبئی چھوڑے سالوں ہو چکے ہیں اور آتَش اب ہے نہیں تو پولیس گانڈوپن ضرور دکھائیں گے۔ ساری گاڑی ریڈی رکھنا اور ‘سی سی ٹی وی’ سارے بند کروا دیئے ہے نا ؟
راجا : آس پاس كے سبھی بند ہے۔
اروند ٹاکر ( اسمائیلز ) : گڈ ! آج نئے سال میں نیا دھماکہ ہو گا۔۔۔
راجا : بس اس کے آنے کی دیری ہے ۔ اور بس پھر ۔۔۔۔۔۔۔
اروند ٹاکر : ہممم ~ ہمیں جلد نکلنا ہوگا۔ آتَش كے ریسورسز اور مین پاور کو کل ہِیڈآؤٹ پر جمع کرواؤ۔ پولیس کو بزی رکھنے میں کام آئینگے وہ۔اتنا بڑا موقع ہاتھ سے آج چھوٹ نہیں سکتا میرے۔۔۔۔
راجا : جی سرکار دادا ۔۔۔!
اور اروند ٹاکر راجا كے ساتھ نیچے اُتَر کر اپنی گاڑی میں جا چکا تھا۔
نا جانے کس کا ویٹ کر رہے تھے یہ سبھی۔ پر اتنا تو طے تھا کہ جس کا بھی انتظار ہو رہا تھا ۔ وہ ان سبھی كے لیے بہت ضروری تھا۔
٭٭٭٭٭
ممبئی كے ہی اِس شہر میں ایک الگ قسم ہوٹل میں اِس وقت نیو ایئر کی پارٹی چل رہی تھی۔
اور پارٹی تو ابھی سہی سے شروع ہو رہی تھی۔ 8 بج چکے تھے ۔
پر۔۔۔۔۔۔
اس ہوٹل سے ہی ایک بھرے جسم کی اور بےحد ہی خوبصورت سی لڑکی ایک بلیک ڈریس میں باہر آئی اور اپنی گاڑی کی طرف گانڈ مٹکاکےجانے لگی۔
پر ابھی وہ گاڑی سے کچھ ہی دوری پر تھی جب۔۔۔۔۔۔
*کابوووووومممم*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اتنی تیز بلاسٹ ہوا۔۔۔۔۔
اس کی ہی کار میں ۔۔۔ جو وہاں کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
اندر موجود ڈرائیور كے چیتھڑے اُڑچکے تھے اور کار تو پوری آگ کی لپیٹ میں قید تھی، چاروں طرف دھواں ہی دھواں۔۔۔
اور آس پاس افراتفری۔۔۔۔۔
لوگ چیختے ہوئے وہاں سے دور بھاگنے لگے۔
تو وہیں وہ لڑکی جو کار کی طرف جا رہی تھی وہ بلاسٹ كے ہوا سے تھوڑا سا دور جا گِری اور بے ہوش ہو گئی۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ وہاں كے لوگوں کو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا اچانک سے۔۔۔۔
کچھ دیر پہلے ۔۔۔۔۔
ویر اِس وقت اسی جگہ میں موجود تھا۔ راگنی نے اسے کچھ سامان لانے بھیجا ہوا تھا۔آج نیو ایئر اِسْپیشَل ڈنر بننے والا تھا۔
پر۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی دکان كے اندر جانے ہی والا تھا جب اچانک سے اسے یہ سنائی دیا۔
* کابوووووومممم *
اور اگلے ہی پل اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
’ واٹ دی . . . ! ؟ واٹ واز دیٹ ! ؟ کہیں آس پاس سے ہی آئی ہے آواز’
پری:وی مسٹ چیک دیٹ آؤٹ۔
اور وہ بائیک پر بیٹھنے ہی والا تھا جب اس کا فون بج اٹھا۔
’ ہو ! ؟ کاویہ ؟ ’
ویر : ہیلو ؟ ؟؟
دوسری سائڈ سے کاویہ کی زور زور سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔
ویر : ہ،ہ، ہیلو ؟ کاویہ کیا ہوا ؟ بول نا کچھ ! ؟ رو کیوں رہی ہے ؟
کاویہ کی سسکنے کی آواز ویر کو اور بھی گھبراہٹ میں ڈالتے جا رہی تھی۔
کاویہ:(روتے ہوئے) بھئیاااا . . . .
*دل کی تیز دھڑکیں *
ویر : کاویہ رو مت، بول جلدی . . . کیا ہوا؟
کاویہ : دادا جی . . . سیڑھیوں سے گر گئے۔ ہم سبھی اسپتال میں ہیں۔
*دل کی تیز دھڑکیں *
آپ جلدی سے آ جاؤ۔
اور مانو یہ خبر سنتے ہی ویر کو سانپ سونگھ گیا۔
کاویہ : ہم سبھی تھوڑا دور ہیں۔ کیوں کہ یہ مندر میں ہی ہوا۔
*دل کی تیز دھڑکیں *
تو جو اسپتال اچھا نزدیک ملا وہیں آ گئے ہم۔ آپ جلدی آ جاؤ بھئیا
*دل کی تیز دھڑکیں *
ویر : مممیں ابھی آرہا ہوں کاویہ، ڈونٹ وری!
اس نے کال کاٹا اور جیسے ہی بائیک اسٹارٹ کی تب۔۔۔۔۔۔۔
* ڈنگ ڈانگ*
مشن : ریسکیو ماہرہ فرام د ہِڈ آؤٹ(ماہرہ کو ٹھکانے سے بچانا۔
ریوارڈز/انعامات : ؟ ؟ ؟ پوائنٹس
مشن فیلیر پینلٹی (مشن کی ناکامی کی سزا) :
پوائنٹس: 5000
ٹائم لیمِٹ/ وقت کی حد: 2 ڈیز/ 2 دن۔
اور یہ پڑھتے ہی اس کی آنکھیں پھیلتی چلی گئی ۔۔۔۔ ’
شیٹٹٹٹٹ ! ! ! ’
٭٭٭٭٭٭٭
آج نئے سال کا پہلا دن تھا۔ ایک شبھ دن۔ سب کچھ کتنا اچھے سے گزر رہا تھا ۔ آج ہمارا پریوار کافی سالوں كے بعد ادھر ہماری کول دیوی كے مندر میں درشن کرنے آیا تھا۔
شروعات سے ہی مجھے پوجا پاتھ میں اتنی دلچسپی نہیں رہی ، پر آج واقعی سب كے ساتھ مل کے سمے گزارنے میں میرا من خوش ہو گیا تھا ۔ یہ سب کی مجھے کتنی ضرورت تھی ، یہ آج مجھے اور اچھے سے سمجھ میں آنے لگا تھا۔
ہم سب ابھی یہی تھے ، بس لوٹنے کی ہی دیر تھی۔ میں بیٹھی ہوئی سوچ ہی رہی تھی کہ سب اکٹھا ہوئے اور ہم سب لوٹے ۔ایک اچھے نئے سال کی شروعات كے بعد ایک اچھی صبح کی رات۔ پر شاید یہ ہونا دیوی کو منظور نہیں تھا۔
جب اچانک۔۔۔۔۔
” دااداا جیییی ! ! ! ! ! ! “
” اااا “
پاس میں ہی موجود اوپر مندر کی سیڑھیوں سے کچھ آوازیں آئی۔
جیسے ہی میری نظریں اس شور کی طرف گئی۔
تو سامنے کا نظارہ دیکھ کرمیری روح کانپ گئی۔
دادا جی ! مندر کی سیڑھیوں سے لوڑھکتے ہوئے نیچے گرتے جا رہے تھے ۔ ان کے پیچھے ان کی وہیل چیئر بھی گرتی ہوئی بس نیچے کی طرف آتی جا رہی تھی۔ اور مجھے جو سنائی دے رہا تھا وہ تھا شور ۔۔۔ دادا جی کی درد بھری چیخ ، پرانجل کا بےبسی سے چلانا اور اس وہیل چیئر کی گرنے کی آواز جو سیڑھیوں سے بس ٹکراتی جا رہی تھی۔
تبھی ان کے پیچھے سے اوپر مندر سے پرانجل گھبراتا ہوا دوڑتا ہوا نیچے آنے لگا ۔ساتھ ہی ساتھ مندر میں موجود باقی لوگ بھی ۔ان کے چہروں پر خوف صاف نظر آ رہی تھی مجھے۔
اور ہم سب جو مندر کے نیچے سٹور روم میں بیٹھے تھے، سب ایک ساتھ اٹھ کر دادا جی کی طرف بھاگے۔
میری چھوٹی بہن کاویہ ۔۔۔۔
دادا جی کی حالت دیکھ کر، اور ان کے ماتھے پر خون کو دیکھ زور زور سے رونے لگی۔
میں چُپ چاپ پیچھے کھڑی ہوئی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ پر اتنا ضرور اندازہ ہو گیا تھا مجھے کہ ۔۔۔۔
میری آنکھیں بھی نم ہو چلی تھی
تاؤجی اور میرے پاپا ، دونوں ہی بہت گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے، ان دونوں نے دادا جی کو اٹھایا اور سب سے پہلے ایک جگہ اچھے سے انہیں لیٹایا۔
ہر طرف افرا تفری سی مچی ہوئی تھی۔ کاویہ رو رہی تھی ۔ تاؤ جی اور پاپا پرانجل سے سوالوں پہ سوال کر رہے تھے ۔ بھومیکا دیدی اور تائی جی . . . وہ بھی پریشان کن نظریں لیے باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ ویویک بھئیا اوپر مندر میں دیکھنے گئے تھے کہ تاؤجی آخر گرے کیسے ! ؟
پرانجل کا کہنا تھا کہ وہ پراشاد لے رہا تھا جب اچانک ہی اس نے پیچھے سے دادا جی کی چیخ سنی تو وہ گھبراتے ہوئے دوڑكے فوراََ ہی نیچے آیا ۔مندر كے پجاری جی کا بھی یہی کہنا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے ہی پرانجل کو پراشاد دے رہے تھے۔ جب اچانک ہی دادا جی کی وہیل چیئر سیڑھیوں سے نیچے چلی گئی۔
مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟؟؟
میں اِس سوال میں الجھی ہوئی تھی۔ آخر دادا جی کی کرسی اپنے آپ کیسے نیچے آ گئی ! ؟
میرے من میں بس سوال ہی سوال گھوم رہے تھے ۔ پہلے لگا کہ شاید پرانجل سے غلطی سے کھسک گئی ہوگی، پر پرانجل تو پجاری جی كے پاس تھا۔پھر ایک پل كے لیے میرے من میں یہ خیال بھی آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ دادا جی کو کسی نے پیچھے سے دھکا دے دیا ہو ؟ مگرپھر اگلے ہی پل یہ خیال میرے من سے نکل گیا۔
نہیں ! ایسا کون کرے گا ! ؟ گاؤں كے لوگ ہمیں بڑے ہی عزت كے ساتھ کل سے رکھے ہوئے تھے۔ ہماری ہی سیوا میں لگے تھے۔ کوئی کر ہی نہیں سکتا ایسا۔ اور کر كے ملے گا بھی کیا ؟ تو بس اب ایک ہی شک باقی تھا۔
کہ شاید دادا جی نے ہی خود غلطی سے چیئر موو کر لی ہو اور وہ نیچے کی طرف آ گرے۔ یہ پوسیبل تھا۔ پر یہ جاننے كے لیے ان کا ہوش میں آنا ضروری تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد
پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں
-
Perishing legend king-150-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-149-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-148-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-147-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-146-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025 -
Perishing legend king-145-منحوس سے بادشاہ
July 1, 2025
کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے