Perishing legend king-149-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 149

ماہرہ : ہممم ~
اور پھر راگھو دونوں مسٹر اور مسٹریس بنسال کو ان کی ہی کار کو ڈرائیو کرکے انہیں گھر کی طرف لے گیا۔ ادھر ماہرہ اب صرف  جیسی كے ساتھ ہی موجود تھی اور دونوں ہی نکلنے والے تھے جب ۔۔۔۔

جیسی : اوہہ ! مس ! میں واشروم سے ابھی آتا ہوں۔آپ کہیں جانا مت۔ ادھر ہی رکنا

ماہرہ : آر یو  اوکے جیسی؟  کافی دیر سے نوٹس کر رہی ہوں تم تِین سے چار بار واشروم کی طرف جا چکے ہو۔ اِز ایوری تھنگ آل رائٹ ؟

جیسی : ووووہ . . . پتہ نہیں مس ! شاید . . . نہیں کچھ نہیں ! میں . . . میں ابھی آتا ہوں بس یوں گیا اور یوں آیا۔

بولتے ہوئے جیسی فوراََ ہی اپنا پیٹ پکڑ كے واشروم میں جا گھسا  اور زور سے دروازہ بند کرکے ٹوائلٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔

دھتتت سالا ! ! ! کچھ گڑبڑ ہے۔ قسمیں؟؟  ایک منٹ ! ! ! ! وائن ! ! ! ! ہاں ! ! اس کی تو . . . شٹ ! ! ! ! اچھا ہوا راگھو نے نہیں لی ! مجھے جلد سے جلد اسے یہاں بلانا پڑیگا  ’
ادھر باہر ماہرہ کی کار كے اندر ہی اس کا ڈرائیور بیٹھا ہوا تھا جب اندر ہوٹل سے ایک آدمی سوٹ پہنے آیا اور ہاتھ میں ایک گفٹ تھا اس کے ایکدم چمکیلی گفٹ ریپینگ سے سجا ہوا ۔

اس نے ونڈو پر کھٹکھٹاتے ہوئے ڈرائیور سے ونڈو نیچے کروائی اور بولا۔

آدمی : یہ مس ماہرہ کا گفٹ ہے ، اسے اندر رکھ لو۔

ڈرائیورننہیں ! مس كے گفٹس ہمیشہ راگھو سر اور جیسی سر ہی لاتے ہیں۔ میں۔۔۔۔۔

آدمی : ارے ہاں بابا ! مجھے پتہ ہے ، پر ابھی وہ مس كے ساتھ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ، وہ کیا ہے نا اندر بھیڑ ہے  اور تم مجھے نہیں جانتے ؟ سوچ لو ! مس ماہرہ نے ہی بھیجا ہے مجھے یہ گفٹ رکھوانے ۔۔۔اگر میں نے واپس جا كے تمہاری شکایت کر دیا نا ، تو تمہاری نوکری گئی سمجھو

ڈرائیورنننہیں ! اچھا ٹھیک ہے ! رکھ دو ! مس کا ہی ہے نا ؟

آدمی : ہاں نا بھائی ، اب کیا لکھ كے دوں ؟

اور وہ آدمی گفٹ کو اندر رکھ کےچلا گیا۔ ڈرائیور تھوڑی کنفیوژن میں تو ضرور تھا پر جب اس نے دیکھا کہ بندہ اندر ہوٹل سے ہی آیا تھا اور سوٹ بھی پہنے ہوئے تھا اور ساتھ ہی گفٹ بہت صفائی سے پیک کیا ہوا تھا اس لیے اس نے بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔

ادھر اندر موجود ماہرہ کو کھڑے ہوئے 5 منٹ ہو چکے تھے پر ابھی تک جیسی باہر نہیں آیا تھا اور یہ سوچ کر اس نے کار میں بیٹھنے کا فیصلہ لیا۔

باہر کیا ہو رہا تھا ان باتوں سے بے خبر ادھر اندر واشروم میں بیٹھا ہوا جیسی اِس وقت راگھو کو کال لگا رہا تھا۔

* رنگ  رنگ *

راگھو : بول جیسی !
جیسی : جلد سے جلد انہیں چھوڑ كے واپس آ ، یہاں کچھ گڑبڑ ہے۔

راگھو : کک-کیسی گڑبڑ ! ؟

جیسی : میری وائن میں ڈرگ ملا ہوا تھا !

راگھو : کیااااا ! ؟ تو . . . تو ٹھیک تو ہے نا ؟

جیسی:

 ہممم ! کونسٹی پیشن ڈرگ ! !( قبض کی دوا!!)

راگھو :

ایک منٹ ! ! ! تبھی تو . . . ؟ ؟ ؟

جیسی:  ہاں ! پہلے مجھے لگا تھا میرا ہی پیٹ خراب ہے پر نہیں۔ کسی نے میری وائن میں ڈرگ ملایا تھا۔ میں دعوی كے ساتھ کہہ سکتا ہوں  اغغغغ ! ! ! تتتو . . . تو جلد سے جلد یہاں آ ، میں واشروم میں ہوں اور مس باہر ۔۔۔ تو اس کا مطلب سمجھ رہا ہے نا ؟

راگھو : ویٹ ! تو واشروم كے اندر سے بیٹھے ہوئے مجھے کال کر رہا ہے ؟ ہا ہا ہا ~

جیسی : گانڈواوغھہ ! ہسنے کا وقت نہیں ہے۔

راگھو : رائٹہنسنے کا وقت ہی  ہے  ہاہاہا~

جیسی :اس کی تو . . . ابے سالے ! ! اغغغ ! ! ! میں سریس ہوں ! جو کوئی بھی ہے وہ یہاں پر ہوٹل میں موجود ہے ۔ اور اس کا ٹارگٹ مس ہے  اور ایسا کرنے والا ایک ہی انسان ہوسکتا ہے . . . !

راگھو: اروند ٹاکر ! ! !

جیسیرائٹ . . . ارغغغ ! ! دیکھ ! تجھے جلد سے جلد یہاں آنا ہو گا۔۔۔ میری حالت سہی نہیں ہے۔ پیٹ میں درد ہے ۔ مس باہر اکیلی ہے۔ تو سمجھ رہا ہے نا ؟

اِس بار راگھو کی بولتی بند ہو گئی۔ اسے سمجھ آ چکا تھا معاملہ گھمبیرہے۔

جیسی : تو بس جلدی۔۔۔۔۔۔

کابووووومممم *
اور تبھی ایک اتنی تیز آواز آئی کہ اندر واشروم میں بیٹھے جیسی کووائیبریشنز تک فیل ہوئے اس دھماکے كے۔

جیسی : شٹ . . . ! ! ! !

مانو جیسے اس کے چہرے سے رنگ ہی اُڑ گیا تھا

راگھو : ججیسی ! ؟ ؟ وہ آواز کیسی تھی ! ؟ اوووئے ! جیسی ! ؟

پر جیسی تو جیسے کوئی بات کا جواب دینے کی حالت میں نہیں تھا ۔ اس نے فوراََ اپنا پینٹ سہی کیا اور فون بنا کاٹے ہی جیب میں رکھا اور  واشروم کا ڈور جیسے ہی اس نے کھولنا چاہا تو پایا کہ۔۔۔۔۔

ڈور لوکڈ تھا ۔

اس کی ماں کی آنکھ۔۔۔ دھتتتت ! ! !

تھوڑ *
غصے میں اس نے زور سے ڈور کو لات ماری لیکن وہ نہ ہلی۔

تبھی اس کی نظریں اوپر کو گئی تو اس نے دیکھا اوپر اوپننگ تھی۔ یعنی کہ تھوڑا چڑھ كے وہاں سے نکلا جا سکتا تھا۔

اور یہ سوچ کر اس نے اپنا کام شروع کر دیا۔
پر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی

ماہرہ جو بم كے بلاسٹ سے  دورگر کر بے ہوش ہوچکی تھی، وہ راجا اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے ایک گاڑی میں بیٹھ چکی تھی ۔اور پلک جھپکتے ہی ان کی گاڑی وہاں سے رفو چکر ہو گئی۔۔۔بس رہ گیا تو۔۔۔

ماہرہ کی جلتی ہوئی مرسڈیز کا ڈھانچہ جس میں تیز آگ کے شعلے اپنا کام کر رہے تھے اور لوگوں کی افراتفری اور ان کا شور۔

٭٭٭٭٭
وہیں یہاں اسپتال میں بھی کچھ سہی نہیں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ دادا جی کو چوٹ ضرور آئی تھی پر کوئی کریٹیکل چوٹ نہیں تھی۔

اب چونکہ ان کی ایج كے حساب سے زیادہ اسٹرونگ میڈیکشنز نہیں دے سکتے اسلئے ڈاکٹرز نے سلو پروسیس کو اپنایا ۔۔۔ ویسے ہی دادا جی اِس وقت کمزوری کی مراحل میں تھے۔

تو ان کا  ڈوز بھی لائٹ رکھا گیا تھا ۔۔۔اس میں ٹائم زیادہ لگنے والا تھا پر یہی سب سے سہی راستہ تھا۔

ان کے ماتھے اور گھٹنوں پر چوٹ زیادہ تھی۔ اسلئے زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہی ان کی بیسٹ میڈیسن تھا۔

اروحی ادھر بیٹھی ہوئی سوچ رہی تھی کہ ویر کب تک آئیگا؟ کیونکہ کاویہ کو اس سے بات کیے کافی  وقت ہو چکا تھا۔

‘شاید وہ صبح آئے گا!؟

اس نے ویر كے بارے میں سوچنا بند کیا اور اپنے آس پاس موجود سبھی لوگوں کو دیکھا اور ان کی باتیں سننے لگی۔

کرونیش : میرے خیال سے ، بچوں کو اب گھر بھیج دینا چاہیے  اور لیڈیز لوگوں کو بھی۔ ہم مرد لوگ یہاں رہ لینگے ! کیوں بھئیا ! ؟

بریجیش : ہمممشویتا ، تم بھومیکا کو لے کے گھر چلی جاؤ۔

شویتا :پر . . . ! ؟

بریجیش : ہم ہے نا ادھر۔۔۔ رات بھر ہم رہ لینگے یہاں  اور صبح ہم سب فریش ہونے جائینگے تو تم میں سے کوئی بھی یہاں آ جانا تب تک كے لیے۔

شویتا : ٹھ-ٹھیک ہے !
بریجیش:  کاویہ ، اروحی ،  ویویک ، پرانجل اور سومیترا  آپ بھی،  آپ سب گھر جائیے ۔  میں اور کرونیش ہے یہاں پر۔ رات بھر ہم دیکھ لینگے۔

کاویہ : نہیں ! میں دادا جی کو ایسے اکیلے چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔

کرونیش : بیٹا تاؤجی سہی کہہ رہے ہیں۔۔۔ پہلے اپنی صحت دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اور ہم تو ہے نا یہاں پر ! ؟

کاویہ : نہیں میں نہیں جاؤں گی !

اروحی : میں بھی نہیں!

بریجیش :؟ ؟ ؟

پرانجل : اور میں بھی نہیں پاپا !

کرونیش : بیٹا ! ضد نہیں کرتے!

ویویککاویہ اور پرانجل تم دونوں چھوٹے جاؤ۔ میں اور اروحی یہاں پاپا اور تاؤجی كے ساتھ رُکیں گے۔

پرانجل :پر بھئیا . . . ! ؟

ویویک : میں نے کہا نا !

پرانجلفائن !
کاویہ : بھئیا مجھے بھی رکنا ہے۔

ویویک : صبح کاویہ ! صبح ! صبح فریش ہوکے آنا  پھر جتنی دیر رکنا ہو  یہاں رکنا ۔۔۔ اب رات بھی کافی ہو رہی ہے ۔ جاؤ ! سویرے سے وہاں مندر کی بھاگ دوڑ میں تھک گئی ہوگی۔

چلیے آپ سب۔۔۔ میں ڈرائیورز کو بول دیتا ہوں

اور نا چاہتے ہوئے بھی ویویک  نےسبھی کو گاڑی میں بیٹھا کر انہیں روانہ کروا  دیا۔

کار میں بیٹھی اِس سمے شویتا اپنا انگوٹھا دانتوں تلے دبائے  پریشانی  میں تھی۔

کہ کیسے ! ؟ یہ سب کیسے ہو گیا ! ؟ دادا جی كے ساتھ آج سال كے پہلے ہی دن ! ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page