Perishing legend king-154-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 154

ویر : بس اتنا سمجھ لو آنیسہ کہ کسی کو بچانے گیا تھا۔ اور اسے  بچانے میں یہ حال ہو گیا ۔ ابھی كے لیے . . . اتنا ہی . ٹھیک ہے!؟

آنیسہجججی !
آنیسہ نے اپنے دماغ کی خواہش کو بجھا کر اپنے دھڑکتے دل کو اپنی طاقت سے تھوڑا سا پرسکون کیا اور بڑی محبت سے اپنے مالک کا سر اپنی آغوش میں لے لیا۔اپنی چھاتی میں جیسے سماں لینا چاہتی تھی وہ ویر کو ۔

اور ویر کو بھی یہ پل بڑا ہی مزے سے بھرپور محسوس ہو رہا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا!؟ ویر جتنی بھی عورتوں سے اب تک مِلا تھا اُن میں سے آنیسہ كے ممے اب تک سب سے بڑے اور  سفید تھے۔ ایکدم گول مٹول بھری ہوئی دودھ کے کٹورے تھے  وہ۔ بس دکھ تھا  تو اس بات  کا  کہ اُن میں کوئی دودھ نہیں تھا۔۔۔ ورنہ ویر پکے سے دن رات اپنا منہ اُن میں لگائے رہتا جب تک کہ وہ سارا کا سارا دودھ نچوڑ نہ لیتا۔

ویر جیسے آنیسہ كےآغوش میں اپنا چہرہ  مموں میں دبائے اپنی ساری تھکاؤٹ مٹا رہا تھا۔  وہ جو اتنے دنوں  سے مایوسی سےبھرا ہوا تھا ادھر اُدھر کی مارا ماری كے چلتے وہ جیسے کم ہو رہا تھا آنیسہ سے لپٹتے ہی۔

اور آنیسہ بھی کسی سدا بہار بیل کی طرح ویر سے لپٹی ہوئی تھی۔ پر اِس بات کا دھیان رکھتے ہوئے کہ ویر كے بائیں ہاتھ پر کوئی بھی زور نہ پڑے۔ اور ویر کا کھڑا لنڈ وہ اچھے سے رانوں میں لے کر سلولی سلوی  رگڑ دینے تھی۔

ویر : ہمممم ! ؟ لگتا ہے تم نے برا نہیں پہنی ! ؟

یہ سوال سنتے ہی آنیسہ ایکدم جیسے شرمندہ ہو گئی۔ اور اپنی نظریں اس نے پھیر  لی۔ صاف صاف اس کے چہرے پر لالی چائی ہوئی تھی۔

ویر : آنیسہ ! ؟؟؟

آنیسہ:(شرماتے ہوئے)  وہ . . . وہ . . . مالک ! دراصل ، بات یہ ہے کہ . . . راگنی جی اپنے سائز  کی برا لاتی ہیں اور ان کے سائز کی ہی برا تومیری بہو پریت پہنتی ہے۔  اسے تھوڑی سی بڑی پڑتی ہے پر کام چل جاتا ہے۔ جبکہ کائنات کوتو  کافی بڑی پڑتی ہے۔انہوں نے مجھے بھی کئی ساری برا اور پینٹی دی ہوئی ہیں۔پر میں ہچکچاہٹ میں ان سے یہ  نہ بولی ۔ کہ مجھے . . . مجھے ان کی برا  اور پینٹی تھوڑی چوٹی اور ٹائیٹ پڑتی ہے۔ اسلئے وہ بھی پریت اور کائنات کودی ہوئی ہیں۔پینٹی تو پریت اور کائنات کو فٹ آتی ہیں جبکہ برا راگنی  سائز والی پریت کو بس  کام دے دیتی ہیں۔

ویر نے ایک نظر آنیسہ کو دیکھا اور پھر اس کےمموں کو۔ اور واقعی،  ان آنیسہ کے مموں کو قید کرنے كے لیے راگنی کی برا تو کیا نندنی کی برا بھی کام نہیں آنے والی تھی۔

کیونکہ  ویر ان سب سے فیمیلیر تھا۔ اگر آنیسہ كے بَعْد کسی كے  ممے  بڑے تھے تو وہ نندنی كے ہی تھے ۔ بٹ دین آگین ، اس نے نندنی کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔پر پھر بھی نظریں تو چلی ہی جاتی ہیں اور  ویر  کواِس بات کا اندازہ   تب ہو چکا تھا جب نندنی کی برا  گھر کے باتھ روم میں لٹک رہی تھی۔تو ویر نےاسے اتار کر اپنے  ہاتھوں میں  الٹ پلٹ کر چیک  کیا تھا۔

ویر :  واقعی ! بھلا یہ کہاں ان برا میں سمانے والے ہیں ! ؟

کہتے ہوئے ویر نے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے آنیسہ کی ایک ممے پر رکھا اور اگلے ہی پل اسے قمیض میں سے کھینچ كے باہر نکال دیا۔

آنیسہ: (ہانپتی ہوئی) سسسسس . . . . . آہ  ہ   ہا  !؟؟؟

اور نوکیلے اکڑے ہوئےنپل کو دیکھ کر ویر  کےاوسان خطا ہوگئے۔ اور اس سے ذرا بھی صبر نہ ہوا تو اس نے اپنا منہ دے مارا اور بھر لیا آنیسہ کا ایک دودھ پُورا منہ میں۔ اور چوسنے لگا ایک چھوٹے بچے کی طرح۔

آنیسہ : (شرماتی ہوئی) مممالک ! ؟

ویر :  اممم۔۔۔۔

آنیسہ: (گھبراتی ہوئی)  کککوئی آ سکتا ہے!!!

آنیسہ نے ویر کے لن کو اپنے رانوں میں بہت زیادہ گرم اور جھٹکے پہ جھٹکے لئے محسوس کیا۔ تو وہ گھبرا گئی کہ کہیں اس کا مالک ابھی یہاں پر اسی حالت میں  اس کے پھدی میں گھسیڑ ہی نہ دے۔ تو اس  لئے وہ ابھی منع کر رہی تھی۔

ویر :  آہ  ہ ہ ہ  ! رائٹ !
کہتے ہوئے اس نے اپنا  منہ بےمن سے آنیسہ کے نپل سے ہٹایا۔اورجگہ کو دیکھتے ہوئے اسے پیچھے ہٹنا ہی پڑا  ورنہ اگر کوئی دیکھ لیتا تو لینے كے دینے پڑ جاتے۔

ویر : (لن کو  مسلتے اور بٹھاتے ہوئے)  ویسے۔۔۔۔۔۔۔

آنیسہ ( قمیض ٹھیک کرتے ہوئے) :  ! ؟ ؟ ؟

ویر:  اب جلدی کرو۔۔۔

آنیسہ اپنے مالک کا اشارہ سمجھ کر شرماتی ہوئی  اپنی گانڈ کو ویر کے چہرے  کیطرف کرکے شلوار  کو نیچے کردی۔ اور دونوں ہاتھوں سے اپنے بڑے بڑے چوتڑ ادھر اُدھر کرکے  ویر کے قریب  کردی۔ جس سے آنیسہ کی پھدی  کے لب اور گانڈ چھید بہت ہی خوبصورت نظارہ دے رہے تھے۔ ویر نے سر اٹھا کر اپنا چہرہ آنیسہ کی گانڈ پر دبا کر  رگڑنے لگا۔

ویر: اففففف  آنیسہ۔۔۔۔کیا آنند مل رہا ہے تیری گانڈ کا۔ کیا خوشبو ہے۔سسسس  اففففف

آنیسہ: یہ سب آپ ہی کا ہے مالک !!!

اور تبھی آنیسہ نے چوتڑوں کو چھوڑا۔۔۔جس میں ویر کا چہرہ بری طرح پھنسا۔ مگر ویر تو آنیسہ کی گانڈ خوشبو کئی بار لے کر مدہوش ہونے کا عادی ہوچکا تھا۔ اسے تو اور بھی مزہ مل رہا تھا۔

خیرچند سیکنڈ  آنیسہ کی گانڈ کا مزہ لینے کے بعد ویر نے آنیسہ کو چھوڑا اور آنیسہ  نےآگے کھسک کر شلوار اوپر  کھینچی۔

ویر : تمہاری ٹریننگ کیسی چل رہی ہے!؟ میرا مطلب ہے، بھابھی نے تمہیں کچھ شہر كے طور طریقے سکھانےشروع کیے ! ؟

آنیسہ ( خوش ہوکر ) : ارے ہاں ! مالک ! کل ہی وہ مجھے سڑکوں كے قانون كے بارے میں بتا رہی تھی ۔ کل بہت کچھ سیکھا میں نے۔ ویسے تو ہری بتی ، لال بتی یہ سب پتہ تھا مجھے۔۔۔ پر پیلی بتی كے بارے میں نہیں پتہ تھا۔ یہاں تک کہ اور بھی کتنی ساری چیزیں ہوتی ہیں۔۔۔میں تو کل حیران رہ گئی تھی یہ جان كے کہ سڑکوں كے لیے اتنے قانون موجود ہوتے ہیں۔

ویر ( اسمائیلز ) : ہاہاہا ~ بس تم سب کچھ سیکھتی جاؤ۔

آنیسہ : وہ۔۔۔۔

ویر : کہو  نا ! ؟

آنیسہ : سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ مالک ! میں یہ کبھی نہیں بھولونگی ۔۔۔مجھ جیسی عورت کو سب سے پہلے آپ نے اپنایا ۔ اورمجھے اس دلدل سے باہر نکالا اور ایک رہنے كے لیے چھت دی ۔میرے پریوار کو بھی ساتھ میں رکھا۔ اور اب  یہ. . . یہ جو آپ نے مجھے نئی چیزیں سیکھنے کا موقع دیا ۔۔۔ پر ، میرا سوال ہے آپ سے۔ کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں! ؟ ظاہر ہے کہ کچھ شاید اور بھی وجوہات ہیں!؟

ویر : ہممم ! تم نے سہی سمجھا۔ اگر ایسا کہوں کہ کچھ میرا بھی  مطلب ہے۔ تو کیا تم ناراض ہو جاوگی ! ؟

آنیسہ ( ناں  میں سرہلاتے ہوئے ) : بالکل بھی نہیں ! بلکہ مجھے تو خوشی ہوگی کہ میں اپنے مالک كے لیے کام آ سکی ۔صرف جسمانی روپ سے ہی نہیں ، میں اپنے مالک کی ہر طریقے سے سیوا کر سکتی ہوں۔ کہیے مالک ! مجھے کیا کرنا ہے ! ؟

ویر ( اسمائیلز ) : ابھی تو کچھ نہیں آنیسہ۔۔۔ بس ، جتنا ہو سکے اتنا سیکھو۔اتنا جانو ، نئی چیزوں كے بارے میں۔۔۔ ہر چیز۔۔۔چاہے وہ سڑکوں كے نیم ہو یا پولیس، کورٹ،  کچہری كے۔۔۔ چاہے وہ موبائل فونز ہو یا لیپ ٹاپ۔ سب كے بارے میں جتنا ہو سکتا ہے اتنا جانو

آنیسہ ( سرپرائزڈ ) ای،،،، اتنا سب کچھ ! ؟ مجھے  وقت لگ جائیگا مالک !

ویر ( اسمائیلز ) : ابھی تمہارے پاس ہے وقت۔۔۔لو  وقت ! مجھے یقین ہے تم کر لو گی!

آنیسہ: (شرماتے ہوئے) اتنا بھروسہ ہے آپ کو مجھ پہ ! ؟

ویر : آف کورس ! تم میری ہو۔۔۔اور اپنے لوگوں کو میں پہچانتا ہوں اچھے سے .

آنیسہ ( اسمائیلز)جججی ! مگر پھر ! ؟

ویر ( اسمائیلز ) : پھر وقت آنے پر میں بتا دونگا کیا کرنا ہے۔ اوکے ! ؟ فی الحال شاید تمہیں اب جانا پڑیگا۔ لگتا ہے کوئی آنے والا ہے۔

ویر نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ دروازے كے گلاس كے باہر کسی كے کھڑے ہونے کی دھندلی سی سایہ نظر آ رہی تھی۔

اور بالکل ، اگلے ہی پل دروازہ کھلا اور وہ جس سے ملنے کی ویر کو خود بھی طلب لگی ہوئی تھی وہ حاضر ہوا۔

نندنی ! ! !

دروازہ کھولتے  ہی دونوں ہی ویر اور نندنی کی نظریں آپس میں جا ٹکرائی۔  اور  مانو پل بھر كے لیے وقت سا تھم گیا۔

ویر كے ہونٹ ہلکےسے کھل اٹھے۔ پر وہ ایکدم خاموش ہی رہا ۔ یہی حال کچھ نندنی کا بھی تھا۔ پر ویر سے نظریں ہٹاتے ہوئے اس نے پھر آنیسہ کو دیکھا جو بات کو سمجھتے ہوئے ہاں میں سر ہلائی اور باہر جانے لگی۔

آنیسہ كے جاتے ہی نندنی نے دروازے کو  بند کردیا اور آہستہ آہستہ وہ ویر كے قریب آئی ۔اس کی نظریں  ویر پر نہ ہوکر نیچے تھی۔ اور ادھر ویر صرف  اپنی میم کو اپنے پاس آتا دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page