Perishing legend king-168-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 168

پرانجل : ہممم ! دادا جی ! بھئیا کا کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی جائیداد كے بارے میں سوچ لینا چاہیے۔۔۔معاف کرنا دادا جی میں نے ڈائریکٹ کہہ دیا۔ پر بھئیا آپ کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا اِرادَہ آپ کو بس یاد دلانا ہے .۔۔۔اور لوجیکلی دیکھا جائے تو سہی بھی ہے۔ حادثہ کبھی بھی کسی كے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اسلئے سمے رہتے ادھوری کام کر لینے چاہیے۔ آف کورس ! بھلا ہمیں  جائیداد سے کوئی مطلب نہیں۔ میں تو ویسے بھی کالج میں ہوں۔ مجھے پیسوں کی لین دین كے بارے میں سمجھ نہیں آتی۔ پر آپ کی بھالائی كے لیے ہی میں یہ کہہ رہا ہوں۔ اگر  برا لگا ہو تو معاف کر دینا دادا جی !
پرانجل نے اپنی بات اتنی چالاکی سے رکھی تھی کہ اچھے سے اچھا چَتُر آدمی بھی اس کے جھانسے میں آ جائے۔ اور وہی ہوا، منورتھ فوراََ  ہی کچھ دیر سوچنے كے بَعْد بولے۔

منورتھ: بالکل بھی نہیں بچوں ! تم نے کیسے سوچ لیا کہ مجھے تمہاری باتیں بری لگیں گی۔ میں جانتا ہوں کہ تم سبھی میرا بھلا ہی چاہتے ہو۔ تبھی تو دیکھو ، دن رات میری سوا میں لگے رہتے ہو۔۔۔ہا ہا ہا~

پرانجل( اسمائیلز  ) جججی دادا جی وہی تو  ہاہاہا ~

منورتھ : ہممم ~ تم لوگوں کی بات سہی ہے۔ مجھے جلد سے جلد فیصلہ لینا ہوگا۔

پرانجل : ہاں دادا جی !

منورتھ : ہممم ~ تو ٹھیک ہے۔ میں اسی مہینے سب کچھ سوچ كے فیصلہ سناؤنگا۔ 

ویویک ( اسمائیلز ) : یہ . . . یہ آپ نے ایکدم سہی کیا دادا جی ! ہاہاہا ~
اور انہی باتوں کو یاد کرکے ، اروحی ایک گہری سوچ میں تھی۔۔۔ پر اس سے بھی زیادہ ، اسے کوئی اور بات ستا  رہی تھی۔

یا  یوں کہے کہ کوئی اور چیز ستا رہی تھی۔ جو کہ اس کے سامنے رکھی ہوئی تھی۔

وہیل چیئر کا وہی ٹوٹا ہوا پہیہ۔۔۔

جب پرانجل کالج جا چکا تھا۔ تو اروحی نے پتہ نہیں کیا سوچ كے پرانجل كے روم کی تَلاشی لی تھی ۔۔۔ پر جب اس نے تَلاشی لی تو اسے الماری میں سے یہ ملا تھا۔

اور یہ دیکھتے ہی وہ اور بھی پریشانی میں پڑچکی تھی۔ یہ  پہیہ پرانجل كے پاس کیا کر رہا تھا ؟ کیا اس نے توڑا  تھا اسلئے اس نے اسے رکھا ہوا تھا ؟ پر اگر پہیہ توڑابھی تو اسے رکھا کیوں ہوا تھا ؟ اور وہ بھی الماری میں ؟

سوچتے سوچتے اروحی بس اس پہیے کو ہی دیکھے جا رہی تھی کہ اچانک اسے کوئی غیر معمولی چیز نظر آئی۔ پہیے کی طرف ایک چھوٹا سا سوراخ تھا اور اس سے کچھ چلتے ہوئے گیئرز دکھائی دے رہے تھے۔

‘وہ کیا چیز ہے!؟’

٭٭٭٭٭٭٭

ممبئی ۔۔۔۔۔

ززززززززز ہوٹل۔۔۔

اروند ٹاکر ! جو اُس دن بھاگ نکلا تھا وہ ہوٹل میں اِس وقت سامنے دیوار پر لگی ایک بلیک اینڈ وائٹ فوٹو کو نہار رہا تھا۔

جب راجا نے اچانک آکر اس کا دھیان ہٹا دیا۔
راجا : آگے کیا کرنا ہے سرکار دادا ؟

اروند ٹاکر : پلان كے مطابق چلو۔۔۔

راجا : اوکے  سرکار دادا ! پر . . . کیا اس وقت وہاں سے بھاگنا سہی تھا ؟

اروند ٹاکر : اروند ٹاکر کبھی کسی سے ڈر كے نہیں بھاگتا راجا۔۔۔اُدھر سے نکلنا میری مجبوری تھی۔

راجا : ؟؟ ؟

اروند ٹاکر : کمال ہلکا آدمی نہیں ہے۔ اس وقت۔۔۔

راجا : کیا سرکار دادا ! ؟

اروند ٹاکر: اُس وقت آدمیوں  کی تعدادنہیں تھی جس کارن میں وہاں سے نکلا تھا۔

راجا : ! ؟ ؟

اروند ٹاکر : میرے آدمیوں پر وہ سنائپرز کی لیزر  لائٹ۔۔۔ باہر سے آتے وہ آدمی ۔۔۔ اور مین گیٹ كے باہر کھڑی وہ ایکسٹرا سکیورٹی اور۔۔۔۔

راجا : ہو ! ؟
اروند ٹاکر : وہ ہوا میں اُڑتا  ہیلی کاپٹر ۔۔۔ جسکی لائٹ میں نے باہر ہی دیکھ لی تھی۔ اُدھر سے نکلنا بہت ضروری تھا۔

راجا : اتنے آدمی لے کے آیا تھا وہ ! ؟

اروند ٹاکر :  کمال چھوٹا موٹا آدمی نہیں ہے،،، ممبئی میں ، ہیز اسٹرونگر دین۔۔۔ میں۔۔۔ اسلئے۔۔۔

راجا : . . . .

اروند ٹاکر :  اسلئے باہر سے آدھے لوگوں کو بلوا لو۔ تھوڑا سمے لگے گا پر اب رسک نہیں لینا ہے۔

راجا : آدھے لوگوں کو ! ؟ سرکار دادا پر۔۔۔۔

اروند ٹاکر : ہمممم ! میں جانتا ہوں تھوڑی پریشانی آئیگی۔ پر یہ ضروری ہے راجا۔ اگلی بار اس ماہرہ  کو دبوچوں گا تو سیدھا موت كے گھاٹ  اتارونگا۔۔۔ان قاتلوں کو بھی بولوا لو۔

راجا : سارے ! ؟

اروند ٹاکرنہیں 4 سے 5 کافی رہینگے۔ اور بھاری تعداد میں آدمی کام آسان کر دینگے

راجاجی !
کہتے ہوئے راجا نکل گیا۔۔۔اور رہ گیا تھا تو صرف اروند ٹاکر جو ابھی بھی اس تصویر کو دیکھ رہا تھا

اروند ٹاکر : اِس بار تو تمہارے لیے بھی سب کچھ پلینڈ ہے  ویییرر ! !

٭٭٭٭٭٭

ہاہاہاہاہا ~ آل سیٹ ! ! ! “

ویر نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔ اس کے سامنے وہی ریڈ فوڈ ٹرک ایکدم  تیار کنڈیشن میں کھڑا ہوا تھا ۔

کچھ دن گزر چکے تھے۔۔ اور ان گزرے ہوئے دنوں میں اس نے اپنا ٹرک خرید لیا تھا وہی جس کے پیچھے پری ایکدم پاگل ہوئی جا رہی تھی ۔ اور اِس وقت بھی شاید سب سے زیادہ خوش وہی تھی۔

پری: ہی ہی ہی۔۔۔۔یسسس ! لک ایٹ دیٹ ریڈ کلر۔۔۔ اٹس سو بیوٹیفُل۔۔۔ آئی لو اٹ سو مچ ! ہی ہی ہی  ~

ویر نے بھی مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔
ہممم ~ ہمم ~ اٹ ڈیفینیٹلی لوکس گڈ ! ’
شاید پری کا یہ فیوریٹ کلر تھا۔ ویر بھی اپنے اِس نئے ٹرک کو دیکھ کر خوش تھا۔ کیونکہ یہی ٹرک اب اس کی کمائی کا نیا ذریعہ جو بننے والا تھا۔

پر ساتھ ہی ساتھ اگلے ہی پل اس کے فیس کا ایکسپریشن سوفٹ ہو گیا۔ پری كے آنے سے پہلے ، وہ کہاں  پر تھا اور کن حالاتوں میں تھا اسے وہ سب جیسے یاد آنے لگا۔ وہ  کڑوی یادیں۔۔۔۔
پر آج۔۔۔۔

آج وہ بھلے ہی ایک چھوٹے سے بزنس سے شروعات کر رہا تھا ۔۔۔ پر اس کے پاس اپنا فوڈ ٹرک تھا۔ اپنا ایک کمائی کا ذریعہ۔ یہی سب سوچتے ہوئے پل بھر كے لیے اس کی آنکھیں نم ہو چلی۔

اپنی مٹھی کو کھول اس نے ایک باراپنی ہتھیلی کی لکیریں دیکھی۔

یو   ووڈ   بی   پراؤڈ ،   رائٹ ! ؟ موم ! ؟

ایک پل كے لیے اسے اپنی ماں یاد آ گئی۔

اپنی بچھڑی ہوئی ماں كے بارے میں بُھلا نہیں  تھا  وہ۔۔اور سُہانا سے اسے اطلاع ملی تھی کہ اس کی ماں ابھی مصر میں ہے۔ ظاہر ہے، آثار قدیمہ کے مقامات پر جانے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس تفتیش میں مہینے گزر جاتے ہیں۔ اور پھر یہ مصر تھا۔ تو یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ ویر کی ماں اتنا وقت کیوں لے رہی تھی۔

خیر ! جو بھی تھا ، فی الحال كے لیے تو اس کی ماں واپس انڈیا نہیں آنے والی تھی۔ ابھی کافی سمے تھا۔

تو ماں سے ملنے کی طلب کو واپس سے اندر دباتے ہوئے اس نے اپنے بغل میں دیکھا جدھر کائنات کھڑی ہوئی تھی۔

ویر کو کچھ دن پہلے ہی یہ مشن ملا تھا کہ اسے کائنات کو اپنے بزنس میں شامل کرنا ہے۔ اس کا مقصد اسے سمجھ نہیں آیا تھا پر وہ جانتا تھا کہ سسٹم جو بھی کچھ کروا رہا تھا وہ اس کے بھلے كے لیے ہی تھا پروبلی ۔

اور اسلئے ویر نے کائنات کو کنوینس کیا جوکہ اپنے آپ میں تھوڑا مشکل تھا۔

اپنی فرمائش اس نے کچھ دن پہلے رکھی تھی جب وہ سبھی ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھ كے ناشتہ کر رہے تھے۔

ویر : ہممم . . . کائنات ! ؟

کائنات جو ویر سے رتی بھر بھی بات نہیں کرتی تھی کبھی ، اس نے بریڈ کو منہ میں بھرتے ہوئے ویر کو غور  سے دیکھا پر کچھ نہ بولی ۔

ویر :  کائنات ! ؟

اس کے دو بار پکارنے كے بَعْد بھی وہ چھپ تھی اور اپنا ناشتہ کرنے میں لگی ہوئی تھی۔

فک ! شی از پسڈ  ’(‘بھاڑ میں جاؤ! وہ ناراض ہے۔’)

پری: ایز آلویز ! (ہمیشہ کی طرح!)

پر اِس بار کائنات کو بولنا پڑا۔

تھوڑ *
کیونکہ اس کے سر پر اگلے ہی پل ایک تھپڑ آکے جو پڑی۔

کائنات ( سرپرائزڈ ) :  آں ! ؟ مممااااا ! ؟ ؟ ؟ ؟

آنیسہ اس کے بغل میں بیٹھی اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہی سامنے کوئی اس کے مالک کی آواز ان سنا کر دے، بھلا وہ یہ کیسے برداشت کر سکتی تھی ؟ اوپر سے یہ تو اس کی ہی بیٹی تھی۔

آنیسہ :  کائناتی۔۔۔ ہم ۔۔۔ ویر جی تمہیں بلا رہے ہے نا ؟  جواب کیوں نہیں دے رہی ہو انہیں! ؟

اپنی ماں کی بات سن کر، کائنات جیسے اور غصے میں منہ پھولاتی ہوئی ویر کو دیکھنے لگی۔

کائنات :  کیا ہے ؟

اس نے بڑے ہی بے رخی سےپوچھا۔

تھوڑ *
اور تبھی ایک اور تھپڑ اس کے سرپر آکر پڑی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page