Perishing legend king-194-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 194

کمالز  ویلا۔۔۔۔

11 : 15  پی ایم ۔۔۔

جہاں ویر کا کوئی ٹھکانہ نہیں مل رہا تھا ڈھونڈنے پر وہیں اِس وقت ، ممبئی میں ہی کمال اپنے خود كے عالیشان ویلا میں اِس وقت نائٹ وئیر والے کپڑے پہنے اپنی ایک چیئر پر بیٹھا ہوا بُک پڑھ رہا تھا۔ جیسے اسے کوئی فکر ہی نہیں تھی۔

کافی دیر سے وہ ایسے بیٹھے ہوئے تھا جب اس کے روم کا دروازہ کھلا اور ایک لڑکا اس کمرے كے اندر داخل ہوا ۔

وہ لڑکا صرف ایک فل بلیک ٹی شرٹ اور نیچے بلو کلر جینز پہنے ہوئے تھا۔ کمال نے اپنے پیچھے سے کسی كے آنے کی آہٹ پاتے ہی بُک بند کر دی اور بنا  اس لڑکے کو دیکھے ہی پوچھا، ” کہا تھے اتنی دیر تک ؟

اس کے سوال پر لڑکے نے جواب دیا ،

” میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے آنے میں تھوڑا لیٹ ہو جائیگا

کمال : ہممم ! تھوڑا نہیں کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو تم۔۔۔۔

کمال نے سائڈ دیوار  میں لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا۔۔۔ جس میں سمے  11 :15 ہو رہا تھا۔

لڑکا  (آہ بھرتے ہوئے ) : کام تھا۔۔۔ اسلئے۔۔۔تھوڑا  لیٹ ہو گیا۔

کمال : اچھا ! ؟  ٹھیک ہے۔پر اپنے  وقت  کا دھیان رکھا کرو شمائل مجھے بار بار نہ بتانا پڑے تمہیں۔

شمائل : جی !
لیٹ آیا  لڑکا  کوئی اور نہیں، کمال کا اپنا بیٹا شمائل ہی تھا ۔ اور کمال شاید اس کے لیٹ آنے سے خوش نہیں  تھا۔

کمال : جاؤ  اب۔۔۔۔

شمائل : مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔

کمال : کیسی بات ! ؟

شمائل : آپ کو پتہ ہے دی دی كے بارے میں ؟ کچھ دیر پہلے کیا ہوا ؟

کمال : ہممم ~
شمائل : تو ؟ آپ نے کیا ایکشن لیا ؟

کمال نے اِس بار پلٹتے ہوئے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، : “تم کب سے مجھ سے سوال جواب کرنے لگے؟
شمائل ( کندھے اچکائے ) : بات میری دیدی کی ہے۔ ان کے اوپر حملہ ہوا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا ویر وہاں تھا آدر وائز۔۔۔

کمال : ہممم ! ؟ ویر۔۔۔۔ تم کیسے جانتے ہو اسے ؟ ہو؟
شمائل : میں۔۔۔۔میں اس سے مل چکا  ہوں۔

کمال : اوہ ! اور یہ بات تم نے مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھی ؟

شمائل : وہ ۔۔۔ بس چھوٹی سی ملاقات تھی۔

کمال : ہممم ~ تو ! ؟ کیا پتہ چلا اس کے بارے میں ؟

شمائل : مممطلب ؟

کمال : میرا مطلب تم اس سے ملے ہو تو اتنی دیر ملنے كے بعد کیا کچھ جان پائے اس کے بارے میں؟

شمائل : وہ ۔۔۔ آئی ڈونٹ نو  مچ۔۔۔ اتنا پتہ ہے کہ وہ ایک اچھا لڑکا ہے۔ ززززززز کالج میں پڑھتا ہے۔ ابھی ابھی خود کا فوڈ ٹرک شروع کیا ہے شاید اس نے۔  باقی مجھے اس کا فرسٹ امپریشن اچھا لگا ۔۔۔ ناٹ ٹو مینشن کہ۔۔۔ اس نے دیدی کو دو بار بچایا بھی ہے۔

کمال : ہممم ؟  دو بار ؟؟؟

شمائل : آپ کو نہیں پتہ ؟ اس ٹائم جب دیدی پر کلب میں اٹیک ہوا تھا ؟ ویر نے ہی دیدی کو وہاں سے سیفلی راگھو اینڈ جیسی سر كے پاس پہنچایا تھا۔

کمال : اُوں !
شمائل : ہممم ! اور میری ابھی راگھو سے بات ہوئی ہے ۔ اس نے بتایا مجھے کتنا کچھ ہو گیا ہے ۔ دیدی  تو واپس آ رہی ہے اس کے ساتھ پر ویر مشکل میں ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو اِس وقت کچھ کرنا چاہیے ! ؟

کمال : کیا چاہتے ہو تم ؟

شمائل : میں ۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ویر کو کسی بھی حالت میں وہاں سے بچا كے لائیں۔

 کمال : بسسس ! ؟؟؟

شمائل : ہو ! ؟ ؟

کمال : تمہارے آنے سے پہلے ہی مجھے ماہرہ کا فون آیا تھا۔ اینڈ فور یور انفارمیشن مسٹر شمائل ، میں نے اس ویر كے لیے ہیلپ بھیج دی ہے۔ ہیلی  کاپٹر بھی بھیجا ہے ساتھ میں۔

شمائل ( سرپرائزڈ ) : دیٹ۔۔۔۔
کمالاگر بات ہوگئی ہو ، تو تم جا سکتے ہو۔

شمائلجججی !
شمائل سرجھکاتےہوئے واپس مڑ  کرجب جانے كے لیے ہوا تبھی ایک بار پھر کمال كے روم کا دروازہ کھلا پر اِس بار بہت ہی تیز جھٹکے كے ساتھ اور اندر جلدبازی میں کوئی داخل ہوا۔

فففادر ! ! ! ! “

شمائل دیدی ! ! !

 ماہرہ ، جو کہ راگھو  کی طرف سے مِرر گیلری سے سیفلی ریسکیو کر لی گئی تھی وہ اپنے گھر پہنچتے ہی سیدھا اپنے باپ كے روم میں گھس آئی۔

بغل میں کھڑے اپنے چھوٹے بھائی شمائل کو اس نے ایک جھلک دیکھا اور پھر واپس سے اپنے  باپ کو دیکھ  کرآگے بڑھی۔

ماہرہ : فادر ! و،و، وہ ۔۔۔ ویر ۔۔۔ ہی از ان ٹربل۔ (ویر مصیبت میں ہے)

کمال نے اپنی بیٹی كے سوال کا جواب نہیں دیا۔ وہ بس ماہرہ کو دیکھ كے کچھ محسوس کرنے  کی کوشش کر رہا تھا ۔ شاید سوچ رہا ہو گا کہ بھلا میری بیٹی ، جو اتنی بڑی کمپنی کی مالکن ہے وہ کسی ایرے گیرے سڑک چھاپ بچے كے ساتھ کب سے دوستی کرنے لگی ؟ شاید اس کے من میں خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔

کمال :  میں نے اس کے لیے ہیلپ بھیجی ہے نا بیٹا ؟

کمال کہتے ہوئے اٹھا اور اپنی بیٹی كے پاس آیا اور اسے گلے سے لگا كے دھیرے دھیرے اس کے سرپر ہاتھ پھیرنے لگا

کمال : تمہیں کچھ ہوا تو نہیں ! ؟

ماہرہ بےچاری کچھ کہہ ہی نہ  پائی ۔ایسا بہت کم ہی ہوتا تھا جب اس کے پٹا اسے اپنے گلے سے لگا كے کچھ کہتے تھے۔

ماہرہ : آئی۔۔۔۔مم میں ٹھیک ہوں بٹ ویر۔۔۔۔

کمال : ڈونٹ وری ! میں نے ہیلپ بھیجی ہے نا ؟ سب ٹھیک ہو جائیگا۔۔۔ اوکے ! ؟

ماہرہ : مم ~
کمال : چلو ! جاؤ اب تم سب اپنے اپنے کمرے میں اور ریسٹ کرو  اوکے ؟

یہ جیسے ریکویسٹ نہیں تھی بلکہ ایک آرڈر تھا۔ کمال نے نہ پھر انہیں دیکھا نہ کچھ بولا، وہ   واپس سیدھا پلٹا اور اپنے جیب سے ایک سگریٹ نکال كے اسے لائٹ کیا اور منہ میں رکھ کر ایک کاش لگاتے ہوئے وہ واپس سے اپنی کرسی پر وہی بُک لیے بیٹھ گیا۔

جیسے مانو اس کی طرف سے سب سہی تھا اور اب کچھ فالتو باتیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

ماہرہ سمیت شمائل دونوں ہی باہر نکلے تو ماہرہ بنا کچھ کہے اپنے روم میں جانے لگی۔ اس کی حالت بہت ہی ان اسٹیبل سی تھی۔ اس کے من میں بس وہی منظر بار بار چل رہا تھا جس میں ویر کی آخِری مسکان دکھائی دے رہی تھی اسے اور پھر بعد میں اس گیٹ کا بند ہو جانا۔ یہی سب سوچ سوچ كے ماہرہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ اسے خود نہیں پتہ تھا کہ اس کی حالت کیسی ہو گئی ہے۔

شمائل اپنی بڑی بہن کو دیکھ کر آج اتنا تو جان گیا تھا کہ اس کی دیدی کوئی روبوٹ نہیں ہے۔ وہ بھی ایک انسان ہے جو سب کچھ فیل کر سکتی ہے۔ دوسروں کی فکر کر سکتی ہے ، ان کی چنتا کر سکتی تھی ۔۔۔ اور شمائل کو تو جیسے بس یہی چاہیے تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page