Perishing legend king-218-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 218

اس کے گھنے بال ، ابھی بھی پانی سے ہلکی بھیگے ہوئے تھے اور کھلے ہوئے تھے۔ کیوں کہ وہ ویویک كے ساتھ اُس کے گھر پہ نہیں رہتی تھی۔ اب تو اسے سارے کپڑے پہننے کی چھوٹ تھی۔ وہ ٹوپ بھی پہنتی تھی، ساڑھی بھی، کُرتا سوٹ شلوار،پجامہ سب کچھ۔

اور آج راگنی ایک پنک اور بلیک کلر کمبینشن کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس میں وہ حُسْن کی دیوی لگ رہی تھی۔ یہ کہنا کہ ویر راگنی سے اٹریکٹ نہیں تھا جب سے وہ گھر میں آئی تھی تو یہ غلط تھا ۔ جب سے ویویک کی شادی ہوئی تھی ، ویر ہمیشہ سے راگنی كے سنگ باتیں کرنا چاہتا تھا۔

کون نہیں چاہے گا کہ آپ کے ساتھ ایک خوبصورت بھابھی ہو جو آپ سے باتیں کرے ؟ پر راگنی اس سمے ویر کو لِفٹ نہیں دیتی تھی ۔اور آج دیکھو ، آج قسمت ایسی تھی ویر کی ، کہ وہ راگنی كے سنگ رہ رہا تھا ، راگنی خود اس سے کُھل كے باتیں کرتی تھی، یہاں تک کہ اس کی بےحد پرواہ اور اس کا خیال بھی رکھتی تھی۔ شاید اسلئے وقت کو سب سے طاقتوار مانا گیا ہے۔

لیکن راگنی كے من میں ادھر جیسے ابھی بھی کچھ بے چینی تھی۔

راگنی : ویر ؟

ویر : ہممم ؟

راگنی : تتتم ۔۔۔ تم نے سچ میں معاف کر دیا ہے نا مجھے؟ میں تم سے بات بھی نہیں کرتی تھی پہلے۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے ہم دونوں کی بیچ صلح ہو گئی۔ دوریاں ہٹ گئی۔ پر ،،، پر کہیں تم یہ تو نہیں سوچتے نا کہ تمہاری یہ بھابھی ، موقع دیکھ كے پلٹ گئی اور اب تمہارے سنگ اچھے سے پیش آنے لگی۔  کہیں تم ایسا تو نہیں سوچتے نا ؟ بولو ؟

راگنی کی ان سیکیورٹی،  ویر دیکھ پا رہا تھا ۔ وہ دیکھ پا رہا تھا کہ  راگنی اِس بات کو لیکر بے حد  پریشان تھی۔ تو اس نے فوراََ ہی جواب دیا۔

ویر : بھابھیاگر ایسی بات ہوتی تو میں آپ سے کبھی اتنا فرینڈلی ہوکے پیش آتا ہی نہیں۔ اسلئے آپ یہ بات من سے نکال دیجیئے ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ اور ویسےبھی ، آپ کا کوئی زیادہ دوش تھا بھی نہیں۔ میرے دماغ میں ان لوگوں كے نام اچھے سے موجود ہیں جن کا سب سے زیادہ قصور تھا۔

ویر کی کہی گئی بات سے راگنی مسکرائی اور ایک چین کی سانس لی۔ وہ شیشے كے سامنے جاکے کھڑی ہوئی اور نظریں جھکاتی ہوئی بولی ،

راگنی : تمہاری یہی بات تو مجھے سب سے اچھی لگتی ہے ویر۔ اور۔۔۔ کہیں تمہیں برا تو نہیں لگتا  نا ؟ میری باتوں کا ؟ میری حرکتوں کا ؟ میں نے آج سب کے سامنے تمہارے کان کھینچے ، تم سے باتیں پوچھیں،  کہیں تم برا تو نہیں مانتے نا ؟

وہ ویر کا جواب سننے كے لیے انتظار کر ہی رہی تھی کہ جب اچانک ہی اسے اپنے ننگے پیٹ پر کسی کا ہاتھ محسوس ہوا ۔

” ہااااہہہہہ ! ؟

زور سے سسکتی ہوئی  راگنی نے جیسے ہی شیشے میں دیکھا  تو پایا کہ  ویر اس کے  ٹھیک پیچھے تھا اور اپنی ٹھوڑی کو اس کے کاندھے پر رکھ کر اسے پیچھے سے اپنی طرف کھیچ لیا، اور ایسا کرتے ہی ویر کو راگنی  کے باہر کو نکلے ہوئے چوتڑ اپنے رانوں سے ٹچ صاف محسوس ہوا۔ لیکن ویر نے ابھی ایسا ویسا کچھ سوچا  نہیں تھا۔

دس . . . دس . . . ! آہ ! ’

بیچاری راگنی کھلی آنکھوں سے آئینے میں دیکھ رہی تھی، جس میں وہ اپنی تصویر تو دیکھ  ہی رہی تھی، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی کمر سے چپکے ہوئے  ویر کی تصویر بھی دیکھ  رہی تھی۔

ویر كے ہاتھ کا ٹچ اپنے ناگن پیٹ پر پاتے ہی راگنی کی سانسیں تیز ہو چکی تھیں۔ ویر کی ہتھیلی ویویک کی ہتھیلی سی کئی گنا  الگ تھی۔ یا یوں  کہے کہ بہتر تھی ۔راگنی کو گرم سا احساس ہو رہا تھا اپنے پیٹ پر۔۔۔

اتنی لڑائیوں کا سامنا کرنے کے بعد ویر کے ہاتھ پہلے کی طرح نرم نہیں رہے۔ ان پر کچھ ہلکی خراشیں تھیں، مجموعی طور پر ان کی جلد سخت اور ٹھوڑی کھردری تھی۔ لیکن یہ کھردری سی جلد راگنی کو آج ایک حفاظتی اور مردانہ احساس دے رہی تھی،  ایسا احساس جو  وویک اسے کبھی نہیں دے سکا تھا۔

نا چاہتے ہوئے بھی ، راگنی کا من ڈول رہا تھا آج۔ وہ اپنی سانسیں قابو میں ہی نہیں کر پارہی تھی۔ ایسا کچھ تو اس نے آج تک فیل نہیں کیا تھا۔

ویر کے ہاتھ کا لمس اسے اس رات کی یاد دلا رہا تھا  جب ویر اسے بچانے آیا تھا۔ صرف اس کی ہتھیلی کا ہلکا لمس ہی راگنی کو محفوظ ترین احساس فراہم کر رہا تھا۔ جیسے مانو دنیا میں اس سے زیادہ محفوظ کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔

ویر تو انجانے میں ایسا کر رہا تھا۔ وہ صرف راگنی کو تسلی دینا چاہتا تھا کہ اسے اس کی باتوں سے برا نہیں لگتا۔ حالانکہ راگنی کے چوتڑوں کا لمس  اس نے اپنے رانوں پہ صاف محسوس کیا  تھامگر اس کے دل میں ایسا ویسا کوئی خیال نہیں ابھرا تھا۔

لیکن اس کے بعد راگنی کی سانسیں بے قابو ہو گئیں جب ویر نے اچانک۔۔۔

* ااامممم چھو~ *

راگنی كے گال کو چوم لیا ۔

” آااااہہہ ! “

راگنی ہڑبڑاتےہوئے پلٹی اور ویر کو دیکھ  کر وہ فٹافٹ وہاں سے اپنے سرخ لال گال لیتے ہوئے نکل كے بھاگ گئی۔

ہممم ؟

ویر بیچارا  بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ اسے اِس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ راگنی اپنے من میں اِس وقت کیا کیا سوچ رہی تھی اس کو لیکر۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭
اسپتال۔۔۔۔

“دیکھو! ہم نے ایکسرے کرایا ہے۔ یہ ہم آپ کی بھلائی کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس کا درست ہونا ناممکن ہے۔ آپ ضرور سنیں اور…”

نہیں ! ! ! ! ! “

تھوڑ *
” !
؟ ؟ ؟

اس وقت ایک بہت ذہین ڈاکٹر اپنے سامنے کھڑے شخص کو اپنی بات سمجھا رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی سامنے کھڑے شخص نے اس کی بات سنی تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کی ٹیبل پر پٹخ دیئے۔

جی ہاں ! یہ شخص اور کوئی نہیں ، راگھوہی تھا جو  کل ویر كے ہاتھوں اپنا دایاں ہاتھ کھو بیٹھا تھا۔ کیوں کہ اس کا وہ ہاتھ اب کسی کام کا نہیں تھا۔

یہ چوتھا جانا مانا ڈاکٹر تھا شہر کا جسے آج راگھواپنا ہاتھ دکھانے آیا تھا۔ پر یہاں بھی وہی جواب ملا اسے۔۔۔

اس کا غصہ ساتوی آسْمان پر تھا۔

راگھو : بیوقوفوں ! ! ! کاہے  کا  ڈاکٹر ہو سالوں ؟ ایک ہاتھ بھی پہلے جیسا نہیں کر سکتے ؟ نہیں کروانی مجھے کوئی سرجری ۔۔۔ مجھے میرا یہی ہاتھ چاہئیے سمجھے ! ؟ ؟ ؟ کوئی ارٹیفیشیل ہاتھ نہیں ! !

ڈاکٹر : دیکھیےی-ییہ امپوسیبل ہے۔ یہ بیونڈ ریپئیر ہے۔ یہ مرمت سے باہر ہے۔ میں آپ کی بھلائی كے لیے ہی۔۔۔

اِس سے پہلے کہ ڈاکٹر کچھ کہہ پاتا، راگھو نے اس کی کالر پکڑ کر  اسے اس کی چیئر سے اٹھایا اور اونچی آواز میں چلایا ،

راگھو : دیکھ بہن چود ! ! ! تو کچھ بھی کر ، جسے بھی بلانا ہے بُلا پر میرا یہ ہاتھ ٹھیک کر۔۔۔ سمجھا ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page