Perishing legend king-232-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 232

راجا : جیراگھو، ادھر آؤ ! ! ! ! !

راجا نے راگھو کو زور سے چلایا تو وہ پیچھے سے آیا اور اس کے ہاتھ میں ایک جگ تھا۔

راجا اور اروند دونوں ہی باتیں کر رہے تھے۔ اور راگھو نظریں  نیچے کیے گلاس میں بیئر بھر رہا تھا۔

پر تبھی جیسے جس بات کا اسے ڈر تھا وہی ہوا ،
راجا : ہممم ؟ تم تو رائٹ ہینڈڈ تھے  نا ؟ یہ بائیں  ہاتھ سے کیوں سرو کر رہے ہو ؟

یہ سنتے ہی راگھو كے چہرے سے اس کا رنگ اُڑ گیا۔  واقعی ! راجا بہت شاطر تھا۔ ایسے ہی نہیں اس کو اپنا رائٹ ہینڈ بنا كے رکھا ہوا تھا اروند نے۔ راجا کی بات سن کر  اس بار اروند نے بھی اسے دیکھا۔ اور دونوں کی نظروں کو اپنے اوپر محسوس کر، راگھو كے پسینے  چھوٹنے لگے تھے۔

بٹ تھینکس ٹو ویر ، کہ اس نے پہلے ہی اسے اِس بارے میں آگاہ کر دیا تھا۔ سو  ہی کیم پری پیئرڈ۔  اسے پتہ تھا کہ اسے کیا بولنا تھا۔

راگھو : راجا بھائی ! جس دن ہم سبھی اس ویر کو پکڑكے لائے تھے۔اور ، پھر بَعْد میں ان کی گینگ آ گئی تھی۔ تب اڈےسے بھاگتے ٹائم میں اور میرے آدمی ان کے آدمیوں سے بِھیڑ گئے تھے۔ اور۔۔۔ اسی لڑائی میں۔۔۔یہ سب ہو گیا۔ میرا ہاتھ مڑ گیا۔

راجا : اُوں ! تو اب تک ٹریٹمنٹ کیوں نہیں لیا ؟
راگھو : جب تک اس ویر کی کھٹیا نا کھڑی کر دوں  تب تک مجھے چین نہیں آئیگا  راجا بھائی۔ اسی كی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔

اروند : ٹھیک ہے ! تم جا سکتے ہو۔

راگھو : جی دادا!

اور راگھو پیچھے جا كے کھڑا ہو گیا ۔ اروند کو پتہ نہیں کیوں ، پر کچھ ٹھیک نہیں لگا۔

اروند : راجا ! ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔۔۔ جلد ہی۔

راجا : کہیے دادا !

اروند : وہ جگہ۔۔۔۔

اروند نے سیدھا راجا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ راجا بس دو  لفظ سنتے ہی حیران رہ چکا تھا۔

راجا : کیا وہیں  پر . . . ! ؟

اروند : ہاں وہیں  پر۔۔۔۔

راجا : سمجھ گیا دادا ! پر آپ وہاں پر سارا انتظام کروگے کیسے ؟ اس لڑکی کو . . . ! ؟

اروند : پلان ایسا ہے کہ۔۔۔۔۔

اروند اپنی ساری باتیں رکھتا جا رہا تھا پر اسے نہیں پتہ تھا کہ راگھو وہیں پیچھے کھڑا ہوا کیا کچھ نہیں کر رہا تھا۔

اروند اپنے جیون کال میں اتنی ڈیتھس کو اسکیپ کیا ہوا تھا(اپنی زندگی میں  اتنی ہلاکتوں سے بچ گیا تھا) کہ اسے خطرے کا اندازہ ہو جاتا تھا۔ ایسے ہی نہیں وہ اتنے سال تک زندہ تھا۔ اتنے بڑے خطروں سے لڑنے كے باوجود وہ ہر بار زندہ بچ جاتا تھا۔کیونکہ اسے ایکسپیرینس تھا ۔وہ خطرے کو بھانپ لیتا تھا۔

آج بھی راجا سے باتیں کرتے ہوئے ، اسے کچھ عجیب لگا۔ تو اس نے فوراََ ہی کہا،

اروند : راجا ! !

راجا : جی دادا !

اروند : اِس راگھو کو باہر جانے کو کہو۔

راجاراگھو ! ! ! باہر جاؤ!

راگھو : جی راجا بھائی !

وہ بنا کچھ کہے باہر نکل گیا۔ جیسے اسے جو چاہیے تھا ، وہ اسے مل چکا تھا۔ اس کے چہرے پر اک قاتل مسکان تھی۔

راجا : کیا ہوا دادا ؟ کچھ بات ہے کیا ؟

اروند : نہیں ! یہ راگھو۔۔۔

راجاراگھو اپنا ہی آدمی ہے دادا سرکار۔۔۔ آتَش بھاؤ  كے انڈر ہی وہ سالوں سے کام کرتا آیا ہے وہ غداری نہیں کرے گا ، جہاں تک مجھے لگتا ہے۔ پر کیا آپ کو کچھ ڈاؤبٹ ہے ؟

اروند : ہممم ! اِس راگھو کی پوری جانکاری لو۔ موبائل فون سے لے کے سب کچھ۔ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔

راجا : جیسا آپ کہے !

اور اسی كے ساتھ اروند نے وہ میٹنگ وہی ختم کر دی۔ آج اسے کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اور اسلئے اس نے راجا کو بھی اس راگھو کی انفارمیشن نکالنے کا کام سونپ دیا۔

پر کس جگہ کی بات کر رہے تھے یہ راجا اور اروند ؟ ہو نا ہو ، اروند کچھ بڑا ہی سوچ كے آگے بڑھ رہا تھا ۔ کچھ ایسا جو اِس بار اسے اس کے مقصد تک پہنچا سکتا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭
راگنیز۔۔۔۔۔۔

آج ! آج میں نے اپنے جیون کا ایک بہت ہی اہم فیصلہ لیا تھا۔ ویویک سے طلاق !

میں ہر رات جاگتی اور میرے خیالوں میں وہ منظر منڈلاتا رہتا  تھا۔

” ممجھے چھوڑ دو۔۔۔ مجھے مت  مارو ! “

ویویک كے وہ الفاظ جو اس نے اس غنڈے سے کہے تھے جب اس غنڈے نے یہ پوچھا تھا کہ کس کی جان لوں ؟  تو ویویک میرا  اپنا شوہر اپنی جان کی بھیک مانگ رہا تھا۔ بنا  میری کوئی پرواہ  کیے۔

کیا کچھ نہیں کیا تھا میں نے اس کے لیے ؟ اس سے پیار کیا۔ اس کے کہنے ہی پہ میں دو سال تک رُکی رہی ہماری شادی كے لیے۔ میرے ڈیڈ  ٹی . ویز  كے شورومز كے مالک تھے تو میں نے اس کی آٹوموبائل کی کمپنی میں کتنی مدد کروائی تھی  ان سے۔۔۔

آف کورس میں یہ سب باتوں کو گنتی تھوڑی تھی۔ کیونکہ میں سب کچھ ہمارے لیے ہی تو کر رہی تھی۔ شادی ہوئے ابھی ہمیں کچھ ہی مہینے تو ہوئے تھے۔ اس کے کہنے پر میں ابھی ماں بھی نہیں بنی تھی۔

کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ ابھی ہم لائف کو اور انجوائے کرے تھوڑا۔ اور میں بھی مان  گئی تھی۔

اسے چاہیے تھی پراپرٹی۔ تو دیور پرانجال  كے ساتھ مل کر وہ دونوں کچھ کھچڑی پکاتے رہتے تھے اور مجھے بِنا بتائے ہی ہر بار پلان میں شامل کر لیتے تھے۔ میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ یہ جو بھی میٹر ہے جلد ہی نپٹ جائیگا اور میں اپنا پیارا جیون اس کے  ساتھ شروع کروں گی۔

ویر ! میرا دیور ! اس کے خلاف ہی ہم سب سازشیں کرتے تھے۔ میں تو بس نام كے لیے ان کے پلان میں ہوا کرتی تھی۔ مجھے تو سب کچھ اکثر بَعْد میں پتہ چلتا تھا کہ یہ سب آخر کرتے کیا تھے۔ شروع میں مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید ویر واقعی ایک بےوقوف انسان ہے۔ پر میں غلط تھی۔

اس رات جب میں نے ساری امید چھوڑ دی تھی۔ اس رات وُہی ویر کسی فرشتے کی طرح مجھے بچانے آیا تھا۔ میں ۔۔۔ جو اس کے خلاف رہتی تھی۔ مجھے بچانے آیا تھا  وہ۔ اس رات مجھے پتہ لگ چکا تھا کہ ایک سچا اصلی انسان کیسا ہوتا ہے۔  وہ تھا  ویر ! ویویک نہیں ! ویویک نے تو میرے دِل کو چور چور کركے رکھ دیا تھا۔ سارے ارمان میرے، میرے سپنے ، سب کچھ ایک ہی جھٹکے میں اس نے بکھركے رکھ دیئے تھے۔

اور میں کٹ پتلی کی طرح اس کے ہاتھوں میں ناچتی رہی۔ کاش مجھے یہ باتیں پہلے سمجھ آجاتی۔۔۔خیر ! غلطی تو انسان سے ہی ہوتی ہے نا ؟ مجھ سے بھی ہوئی۔ اور اب میں اسے ٹھیک کروں گی۔

آج میں نے نہ صرف وکیل کو بلایا بلکہ میں اپنے والدین کو ساتھ لے کر ویر اور باقی سب کے ساتھ سیدھا  ویویک کے گھر گئی۔

یہ سن کر ان کے گھر والے کافی دیر تک مجھے قائل کرتے رہے۔ میری ماں اور والد صاحب بہت معاون ہیں۔ اس نے سارا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا تھا۔ آج وہ  ویویک کبھی غصے میں مجھ پر چلا رہا تھا، تو کبھی روتے ہوئے گڑگڑاتا رہا۔ پر میں ٹس سے مس نہ ہوئی۔سالا ایسے انسان پہ کیسے بھروسہ کر سکتی تھی میں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page