Perishing legend king-249-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 249

 میں جذباتی ہو گیا۔ اور میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اور گرو جی کے ساتھ وقت گزارا۔ جیسے میں اس سے بات کر رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں نیا علم حاصل کر رہا ہوں۔

میں نے اس کا مشورہ مان لیا اور وہاں سے چلا گیا۔ اور مجھے گھر پہنچنے میں پورا دن لگا۔
میں نے ان کی  فیس میں جتنا میں دے سکتا تھا اتنا دے دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پیسوں کا ایک روپیہ نہیں لیتے۔ جوکہ سچ تھا۔ سارے پیسے ان غریب اناتھ بچوں کی دیکھ بال  اور کھانے پینے میں جاتے تھے۔ اور اسی میں وہ سبھی بھی کھاتے تھے اور اپنا جیون جیتے تھے۔

میں نے گروجی کی بات مان لی، میں نے وہی کیا۔ کاروبار پر توجہ دی۔ اور ایک چمتکار/معجزہ ہوا۔ میرا کاروبار جو تقریباً ٹھپ ہو چکا تھا، اس کا آغاز بہت اچھا ہوا۔ فروخت چار گنا بڑھ گئی تھی۔

اور تبھی ، ایک دن۔۔۔۔

جب میں اپنی گودام سے شٹر بند کر باہر نکلا تبھی ایک CIELO میرے پاس آکر رکی۔

میں بس اسے ہی دیکھتا رہا ۔ کم سے کم 5-6 لاکھ کی تو ہوگی ہی۔۔۔ اور تبھی شیشہ نیچے ہوا اور میں اندر کیا دیکھتا ہوں ؟ ؟

ارررے ؟ ؟ ؟ ؟ ک-کمال؟ ؟ ؟ تم ؟ ؟ ؟
کمال ! میرے اسکول میں ساتھ میں پڑھا ہوا تھا۔ ہم اسکول ختم ہونے كے بَعْد سے بہت ہی کم ملتے تھے۔ اس کی اپنی الگ دُنیا تھی۔ اس کا کاروبار اتنا بڑا تھا کہ کہنے كے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔

اندر سوٹ پہنے بیٹھا ہوا تھا وہ ۔کتنا بڑا آدمی بن چکا تھا وہ ۔آج تک میں اس کے بنگلےكے اندر بھی نہیں گیا تھا کبھی۔ بس باہر سے دیکھا ہوا تھا۔

ہے  یشفنت ! ! ! ” وہ مسکرایا اور بولا ، ” کافی دنوں بَعْد مل رہے ہیں ہم ۔ کیسا چل رہا ہے کاروبار ؟

اس نے اندر سے ہی پوچھا۔ میں نے برا نہیں مانا ۔وہ مجھ سے بات کر رہا تھا اتنا سب ہونے كے باوجود ، وہی کافی تھا۔ کم سے کم وہ مجھے پہچاننے سے کترا تو نہیں رہا تھا ۔ورنہ آج کل كے رئیس لوگ اپنے ہی کل کو بھول جاتے تھے۔

کاروبار میں ایکدم سے منافع دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سب کچھ گرو جی کی  چمتکار سے  ہوئی ہے ! ” میں نے کہا۔

گرو جی ؟

ہاں ! گرو جی ! بہت ہی سادہ پرہیزگار ہے۔۔۔عظیم شخصیت۔۔۔ اور یوں چمتکار کرتے ہیں وہ ۔۔۔میرا   کاروبار رکا ہوا تھا۔ ان کے ایک چمکار سے سب کچھ جیسے بَدَل گیا۔ ہا ہا” 

میری بات سن کر میں نے پل بھر كے لیے اس کی آنکھوں میں چمک دیکھی

تو . . . یہ . . . یہ کہا ں رہتے ہیں گرو جی ؟ کہاں ملیں گے ؟ کیا نام ہے ان کا ؟
میں بتا نہیں سکتا ۔ تمہیں خود جانا پڑےگا کمال  ان سے ملنے۔۔۔ اگر ملنا ہے تو۔۔ کیا بات ہے ؟ کیا تمہیں بھی کوئی پریشانی ہے کیا؟ مجھے تو نہیں لگتا تم کسی پریشانی میں ہونگے۔بھگوان کا دیا سب کچھ ہے تمہارے پاس

 ” نن-نہیں ! مجھے . . . دراصل ! مجھے اپنی بیٹی كے بارے میں . . . اس کا مستقبل جاننا تھا

 “اُوں ! مطلب ماہرہ بِیٹیا كے بارے میں ؟ ارے یہ کام تو گرو جی سیکنڈوں میں کرتے ہیں  “
سچ میں ؟

 “ہاں ہاں ! میں نے خود آنکھوں سے دیکھا ہے کمال ! تم میرے ساتھ پڑھے لکھے ہو اسلئے تم سے یہ بات شیئرکر دیا ۔ ورنہ، گروجی كے کارناموں کی باتیں بہت ہی کم لوگ بتاتے ہیں۔ کیوں کہ ، گرو جی نے منع کركے رکھا ہوا ہے۔ انہیں شہری ہوا پسند نہیں۔ اسلئے وہ ان سب سے دور  رہتے ہیں
اُوں ! ” وہ کچھ دیر سوچا اور پھر بولا ، ” کیا تم مجھے ان گرو جی سے ملوانے لے چلوگے ؟ بدلے میں میری طرف سے ایک آفَر ہے تمہارے لیے

 ” ہو ؟

تم میرے دوست ہو یشفنت ہم دونوں پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تمہارے من میں بھی آگے بڑھنے کی خواہش ہوگی۔ اپنا  کاروبار بڑا کرنے کی ؟

اس نے مجھ سے پوچھا۔ اور پھرسے بولا،
میں کیا کہتا ہوں ؟ میں نے حال ہی میں ایک فیکٹری خریدی ہے۔ وہ فیکٹری قرض كے مارے بند ہوگئی تھی۔ میں اپنا پیسہ  لگاونگا اور کپڑے كے لیے مشینز لگوا دونگا۔ تم یہ جو تھوک میں دوکانوں میں کپڑے بھیجتے ہو۔ اِس سے اچھا یہ نہیں کہ تم خود کی ایک پہچان بناؤ ؟  ایک برانڈ ! ! ! پھر تم ایسے میں کچھ دوکانوں میں نہیں ،  بلکہ الگ الگ شہروں میں اپنے کپڑے بھیج پاؤگے۔ کیا کہتے ہو ؟  اس میں سے 30 فیصد میرا۔۔۔ باقی پُورا 70  فیصد تمہارا رہےگا۔ اور جو انویسٹمنٹ میں ابھی کرونگا۔ اسے تم آہستہ آہستہ چکا دینا۔ کوئی بیاج/سود نہیں لونگا

 کمال  کا دیا گیا آفَر سن کرمیں تو ٹھٹھک کر رہ گیا تھا،گرو جی سے ایک بار مل كے ہی آیا تھا اور کرشمہ دیکھو، کمال خود آکے مجھے آفَر دے رہا تھا ۔

ہاہاہا ~ کک-کیو نہیں ؟ بب-بلکل ! مجھے منظور ہے کمال ! اور تمہیں گرو جی سے ملنا ہے نا ؟ تم چلو میرے ساتھ۔

میں اسی ہفتے کو نکلنے والا ہوں ،  اپنی  بیٹیا علیزے کو لیکر۔۔۔ بولو ؟ کیا تم چلوگے ؟
تو ٹھیک ہے۔ تو میری بیٹی ماہرہ . . . کیا اسے بھی لے کے چلنا ہوگا ؟

بالکل ! اور چنتا مت کرو ۔ علیزے بھی رہےگی تو ماہرہ بیٹی بور نہیں ہوگی۔ہا ہا ~ “
وہ مسکرایا، میرا ہاتھ ملایا اور اس نے مجھے ہفتےکو اپنے گھر پر بلایا ساتھ چلنے كے لیے۔
آج میں خوشی سے پھولے نہیں سماں رہا تھا۔ ایک كے بَعْد ایک خوشخبری مجھے ملتی ہی جا رہی تھی۔ اور جلد ہی ایک اور ملنے والی تھی شاید۔۔۔ میری بچی علیزے پھرسے سہی ڈھنگ سے چلنے والی تھی۔

میں گھر پہنچا اور جاتے ہی میں نے لکشمی کو پکڑ كے اسے گول گول گھمانےلگا۔

ہا ہا ہا ہا ~ “

ارے ارے ؟ ؟ یہ . . . یہ کیا کر رہے ہو آپ ؟ میں گر جاؤں گی۔ اور کیا ہوا ؟ کچھ بتائیے تو سہی ؟

جیسے ہی میں نے لکشمی کو ساری بات بتائی وہ بھی خوشی میں میرے ساتھ جھومنے لگی۔ ہمارا  پریوار اب سے بس خوشحال جیون جینے والا تھا۔ میں ، لکشمی اور علیزے !

لکشمی میری سب کچھ تھی۔ اور علیزے بھی، یہ دونوں ہی میری جان تھیں۔ ایک كے بنا بھی میں جی نہیں سکتا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے ، ہفتہ آیا  اور میں علیزے کو لے کے نکل گیا۔ کمال كے گھر  پہنچتے ہی میں تو دنگ رہ گیا۔ جتنا بنگلہ باہر سے سمپل دکھتا تھا ۔ اندر سے تو اور ہی غذب کا تھا۔
صوفے پر بیٹھے تھے میں اور علیزے اور پھر۔۔۔
کمال ، ایک شرٹ پینٹ میں باہر آیا اور اس کی بیٹی ماہرہ ایک پیاری سی فروک پہنے۔

تھوڑی بہت باتیں ہوئی اور پھر کمال نے انوپم ، جو اس کے گھر میں کام کرتا تھا اسے کچھ سمجھایا کام كے بارے میں اور ہم سبھی نکل پڑے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page