Perishing legend king-251-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 251

کمال آگے تھا اور گرتے وقت وہ بچ گیا۔ پر ماہرہ اور علیزے نہیں۔ کمال آدھا ہوا میں نیچے لٹکا ہوا تھا۔ اور اس نے ایک ہاتھ سے ماہرہ کو تھامے ہوئے تھا۔ اور دوسرے سے۔۔۔میری علیزے کو۔۔۔

مااااں۔۔۔ پپپاپااا جیی ~”علیزے چلائی

علیزےےےے ! ! ! ! ! ” میں اپنے گھٹنوں پر گر پڑا

” پپ-پاپااا ~ ” ماہرہ آنسو بہاتی ہوئی جیسے ہی نیچے کی طرف کھائی میں دیکھنے لگی۔ وہ بے ہوش ہو گئی۔

” وجججغغہ ! ! ! ! ” کمال بولنے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس کا پُورا چہرہ لال ہوا جا رہا تھا۔

اس کے دونوں بازؤں میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ  وہ ایک بار میں دونوں کو اوپر کھینچ سکے۔  کیوں کہ ، وہ خود بھی آدھا لٹکا ہوا تھا۔
 
“نن-ناہی ~ ” میرے شریر میں رونگٹے  کھڑے ہو گئے۔ میری بچی ! ! !

م-میں میں . . . کیا کروں ؟ ؟ کیا کروں ؟ ؟ کیا کر سکتا تھا میں ؟ پل ٹوٹ چکا تھا ۔دوسری طرف کیسے جاتا ؟ نہیں ! ! !

کک-کمااااال ! ! ! ! ! اوپر . . . اوپر  کھینچو . . . جلدی . . . میری بچی کو۔۔۔ ماہرہ کو . . . جلدی ! ! ! ! ” میں بس چلا ہی سکتا تھا۔

اپنا پُورا گلا پھاڑ كے میں چلاتا رہا ۔ اپنے آپ آنسو بہنے لگے میری آنکھوں سے۔ ایسا لگ رہا تھا کسی بھی وقت بےہوش ہو جاؤنگا۔ میری بچی ! ! ! علیزے ! ! !

وقت  ، ریت کی طرح پھسلتا جا رہا تھا۔ اور  ویسے ہی کمال كے ہاتھوں سے ماہرہ اور علیزے بھی۔۔۔

” ن-ناحیی ! ! ! کماااال ! ! ! ان دونوں کو اوپر کھینچ حرام خور۔۔۔ کیا کر رہا ہے  تووو؟؟؟ ” میں اِس بار غصے میں چلایا۔

اور تبھی۔۔۔۔

ہو ؟ ؟ ؟ یہ کمال کیا بول رہا ہے ؟ نہیں !!!  نن-نہیں ! ! ! نہیییں “

دوسری طرف سے کمال نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور وہ کچھ بول رہا تھا۔ بہت دھیرے سے۔۔۔

پر جیسے میں اس کے چہرےکی  تاثرات اور اس کی حرکت سے پڑھ پا رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔

” مم-مجھے معاف کر دینا یشفنت ! ! ! “

نہیں ! ! ! یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کمال ایسے وقت پر مذاق کیوں کر رہا ہے ؟ یہ پاگل ہے کیا؟ اسے تو دونوں بچیوں کو اوپر کھینچنا چاہیے۔یہ-ییہ میری طرف دیکھ كے رَو کیوں رہا ہے ؟ ی-ییہ پاگل ہو گیا ہے

 کمال کا تو نہیں پتہ۔۔۔ پر میں ضرور پاگل ہو رہا تھا۔ میرا دماغ کام کرنا بند کرنے لگا تھا۔
اور تبھی۔۔۔۔

ااییررررررغغغغہہہہہ
ہووو ! ! ! ! “

ایک گونج پورے جنگل میں پھیل گئی۔ آس پاس كے پنچی پیڑوں  سے اُڑ كے بھاگ گئے۔میرے شریر سے جیسے جان نکل چکی تھی۔
ختم ! سب کچھ ختم ! ! !

میں اندر سے مر چکا تھا۔ اور میں وہی آنکھیں کھولے بس گھٹنوں كے بل بیٹھا رہا۔ کمال کیا بول رہا تھا مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔

میری بچی علیزے ! ! ! !

کمال نے اپنا  ہاتھ . . . جو اسے پکڑے ہوئے تھا۔۔۔

چھوڑ دیا تھا۔۔۔

علیزے کی چیخ ۔۔۔وہ آخری چیخ تھی۔۔۔
کمال ! ! ! ! اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے ماہرہ  کو پکڑا اور دونوں ہاتھ سے پکڑ کراسے اوپر کھینچا۔اپنی پیٹھ پر بٹھاتے ہوئے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے نکل گیا۔

میں . . . مجھے پتہ نہیں ،  یہ کیا  ہوگیا تھا مجھے، ایسا لگ رہا تھا میں سب کچھ کھو چکا ہوں۔ میں زندہ بھی نہیں ہوں مردہ لاش بن چکا تھا جیسے میں۔
علیزے . . . علیزے . . . میری بچی . . . گئی ! ! ! ککھائی میں۔۔۔

” اااااارررگھہ ~ “
میری چیخ جنگل میں گونج گئی۔ میں واپس اندر کی طرف بھاگا۔ گرو جی كے پاس۔ اندر پہنچا تو۔۔۔۔
وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک شخص کا نام نشان نہیں تھا۔

’ یہ-ییہ کیا ہو گیا ؟ ؟ ؟ ؟ کک،، کہاں گئے س-سسب ؟ ؟ ؟ س-سب تو ادھر . . . ادھر ہی تھے . . . ! ! ک-کہاں گئے سب ؟ ؟ ؟ ؟

“گورروو جی ! ! ! ! ” میں چلاتا رہا۔ پر مجھے کوئی نہ ملے۔ سب كے سب غائب ہوچکے تھے۔

میں پاگل ہو رہا تھا ۔ پسینے سے پورے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ کسی بھی وقت مجھے دِل کا دورہ بھی آ سکتا تھا۔

میری بچی ! ! ! ! علیزے كے بارے میں سوچتے ہوئے میں راستہ ڈھونڈنے لگا۔ نیچے کھائی میں جانے كے لیے ۔

کہیں  نہ کہیں سے تو کوئی راستہ ملے گا ہی۔ رات ہونے کو آ گئی تھی۔

میں تلاش کرتا رہا۔ میں گرتا اور ٹکراتا رہا۔ میرے جسم پر خراشیں بکھری ہوئی تھیں۔ لیکن میں نہیں رکا۔ میں بھاگتا رہا۔

جیسے تیسے کرکے،  میں لٹک لٹک كے، جان لیوا راستوں سے نیچے پہنچا۔ اور علیزے کو ڈھونڈنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ اوپر اتنی اونچائی سے گرنے پر کیا ہوتا تھا۔ پھر بھی ، میں پرارتنا کرتا رہا۔

ہے بھگوان !  میری کچی۔۔۔

میری بچی کو بچا  لینا ۔اسے کچھ نہ  ہوا ہو،  اسے بچا لینا ،،، اسے بچا لینا ،،، اسے بچالینا ،،،
اس کی رٹ لگائے ، میں بڑھتا رہا ۔ رات ہوچکی تھی۔ ٹھیک سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اور تبھی ۔۔۔ مجھے کچھ آوازیں سنائی دی۔

*کررونننچچچ *
مووچچچچچ *
ہ-ہوہہ ؟ ؟ ” میں نے جھانک كے دور دیکھا  تو۔۔۔

میری روح کانپ گئی۔ اور میرا وشواش ، اسی پل بھگوان پر سے اٹھ گیا۔

میں کسی مُردے كی طرح وہیں جم گیا تھا۔ مجھے اتنا بڑا جھٹکا لگا تھا کہ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ میں ہوش میں کیسے تھا اب تک ؟

سامنے۔۔۔دور۔۔۔۔

جنگلی بھیڑیئے ۔۔۔و،وو ۔۔۔وہ ۔۔۔ وہ کچھ کھا رہے تھے۔

م-میری نظریں جیسے ہی نیچے گئی۔

بادومپ * * بادومپ *

میرا دِل باہر آنے کو ہو گیا۔ و-وووہ۔۔۔

علیزے ! ! !

میری آنکھوں كے سامنے میری زندگی اجڑ چکی تھی۔ میری بچی ! ! ! ! اس کی اتنی دردناک موت دیکھ کر میں پاگل ہو چلا۔

من کیا کہ ان کے بیچ جاؤ اور ان بھیڑیوں  سے لڑکر  مر جاؤ ساتھ میں۔۔۔

مم-مجھ سے کچھ بھی دیکھا نا گیا۔ میرے پیر کانپنے لگے۔ پر میں بےہوش نہیں ہوا۔ میں جانتا تھا اگر یہاں میں گرا ، تو ،،، تو گھر پر لکشمی کا کیا ہوگا ؟

میں وہاں سے بھاگا ! ! ! لکشمی ! ! ! اس کو کون سنبھالے گا؟ گرتے پڑتے چوٹ کھاتے میں جیسے تیسے پہنچا۔میں حیران تھا کہ ابھی تک زندہ  کیسے تھا ؟

میں نے دروازہ کھٹکھٹایا پر لکشمی نے نہیں کھولا۔
میں نے پھر پیٹ پیٹ كے دروازہ توڑ دیا۔ اور ٹوٹی ہی جھٹکے سے میں اندر آیا۔

پر اندر آتے ہی میرا چہرہ کسی چیز سے  ٹکرایا۔

آنکھیں کھول کر میں نے دیکھا تو۔۔۔
ہو ؟ ؟ پ-پیر ؟ ؟ ؟

میری نظریں اوپر گئی اور۔۔۔۔

’ نن-نہیں  ! نہیں ! نہیں نہیں نہیں نہیں،،،،، ناہیییییی ! ! ! ! ! ! ! ! ’

لکشمی۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔

وہ اوپر پنکھے سے لٹک رہی تھی۔

کمال كے گھر سے ۔۔۔ کسی نے ساری بات اسے بتا دی تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موڈ ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page