Perishing legend king-27-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 27

تیسری دکان جاکے اس نے وہاں سے بتایا گیا وہی پنک ٹیڈی لیا اور سب کچھ لے کے وہ اپنی بائیک پہ سوار ہو گیا ۔

پراگیا :

لے لیا  نا ؟

اجے :

اب اور کتنا سامان خریدو اوجی یار ؟ تینوں دوکانیں اتنی دور دور تھی۔ مگر تمہارے لیے ان دوریوں کی پرواہ نہیں کی میں نے۔

پراگیا :

اوو ! سو سویٹ ! اب سنو ۔۔۔ فوراََ ہی مجھے کالج کی پیچھے والی روڈ پر ملو۔۔۔ آئی ہیو آ سرپرائز فار  یو ۔۔۔  میں ادھر ہی ہو ۔

اجے :

واااٹ ؟ تم وہاں ؟ مگر وہاں کیوں ملنا ہے ؟ پاگل ! تمہارے گفٹس كے چکر میں 6:30 بج گئے اور تم وہاں کیا کر رہی ہو ؟ وہ روڈ سیف نہیں پراگیا !

پراگیا :

اتنی ہی پرواہ ہے میری تو پھر آؤ  نا  جلدی۔

اجے :

فائن ! میں آتا  ہوں !

میسیج بھیج اجے تیز رفتاری میں اپنی بائیک بھگاتے ہوئے کالج كے پیچھے کی سڑک پر جانے لگا۔۔۔ ایکسائٹمنٹ تو کوٹ کوٹ کر بھرتا جا  رہا  تھا  اس میں ۔۔۔۔

اور کچھ ہی سمے بعد وہ سارا سامان لے کے وہاں پہنچا  تو پھر سے اسے ایک میسیج آیا ،

پراگیا :

وہ بورڈ لگا ہے نا اا۔۔۔ ڈائیریکشن والا۔ اس کے پاس آؤ۔

اور میسیج پڑھتے ہی اجے تھوڑا آگے لگے اس بورڈ كے پاس پہنچ گیا ۔اس نے گاڑی روکی اور وہ بائیک سے اترا۔ سامان کی تھیلی اس کی بائیک كے ہینڈل پر ہی ٹانگی ہوئی تھی۔

تبھی ایک بار پھر اس کا موبائل وائیبریٹ ہوا  اور اس نے میسیج پڑھا ،

پراگیا :

یو  سی د ٹری ؟ تمہارے لیفٹ والا ؟ آئی ایم جسٹ  بھائینڈ ٹ۔

اور اتنا بول کر پراگیا نے پھر کوئی میسیج  نہ بھیجا۔

اپنے دِل کی تیز دھڑکنیں لیے اجے اس پیڑ کی طرف بڑھنے لگا ۔اور اگلے ہی پل اس کی آنکھوں میں ایک چمک آ گئی ۔ اسے پیڑ كے پیچھے سے ۔۔۔

ایک پنک کلر کی چُنری کا حصہ ہوا میں لہراتا ہوا  دکھائی دیا ۔۔۔ بھلے ہی شام كے 6 : 45 بج رہے تھے مگر  اس کے باوجود اتنا سب کچھ آرام سے دیکھا جا سکتا تھا۔

ہلکا ہلکا اندھیرا بس چھایا ہوا تھا۔ ایک امیدلیے وہ آگے بڑھا ۔۔۔ اور اس نے پیڑ كے بغل سے اپنا سَر آگے بڑھاتے ہوئے پیڑ كے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی۔

کہ تبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” سرپرائز  مادر  چود “

شڑککککککک۔۔۔۔۔۔۔

ایک  زور دار مکا اس کے جبڑےپہ کسی ٹرین کی رفتار جتنی تیزی میں آتے ہوئے پڑا اور اگلے ہی پل وہ تھوڑا  اچکتے ہوئے پیچھے کی طرف روڈ پر دھڑام  سے جا گرا ۔

کچھ سیکنڈز تک تو اسے کچھ سمجھ ہی نہ آیا ۔ پھر جیسے اسے بھیانک درد اٹھا اپنے جبڑے میں اور گال پہ ۔۔۔

اور پھر اس نے آنکھیں کھول کر اوپر نظریں کرتے ہوئے دیکھا تو پہلے تو سہی سے نظر نہ آیا۔تارے جو چھاگئے تھے آنکھوں كے سامنے وہ  زوردار مکا کھانے كے بعد۔

جب فائنلی اسے سہی سے نظر آیا  تو اس نے دیکھا کہ ایک جانا پہچانا چہرہ اس کے سامنے کھڑا  ہوا تھا ۔ یہ کوئی  اور نہیں  ویر ہی تھا ۔

اس کے گلے میں ایک پنک کلر کی چُنری کسی مفلر کی طرح بندھی ہوئی تھی۔

جیسے ہی اجے نے ویر کو دیکھا اس کا غصہ ساتوی آسْمان پر پہنچ گیا۔  وہ اٹھا ۔۔۔

اجے :

ارےکمینے تو ؟ تیری یہ مجال ؟ اور غرررایا۔ مگر کوئی  فائدہ نہیں ۔۔۔

اجے کے اٹھتے ہی ایک لات ٹھیک اس کے سینے پر آکر پڑی جسے کھاتے ہی وہ ہوا میں اچھل کر پیچھے کی طرف جا گرا۔

درد میں کراہتے ہوئے اجے جیسے تیسے کھڑا ہوا مگر اِس بار تو جیسے لات اور گھونسوں کی جھاڑ  لگ چکی تھیں۔

اجے نے حملو ں کو روکنے کا بچاؤ  تو کیا مگر کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔

شڑککک۔۔۔

” یہ گھونسا۔۔۔ میری پیٹائی کروانے كے لیے”

سڑککک۔۔۔

” یہ لات ۔۔۔۔ میری بےعزتی کرنے كے لیے  “

شڑککک۔۔۔

” یہ گھونسا۔۔۔میرا مذاق بنانے كے لیے  “

ویر كے ہر  وارپر ا س کی آواز تیز ہوتی جارہی تھی۔ غصہ اس کی آواز میں صاف جھلک رہا تھا۔ اور ہر ایک وار  اس کا پوری طاقت سے بھرپور تھا۔

اجے کی حالت پیٹتے پیٹتے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ اور اگلے ہی پل وہ زمین پر گر پڑا ۔

تبھی اس کے گرتے ہی ۔۔۔۔

ویر نے اپنا پیر اٹھایا اور اس کے سر پر زور سے دباؤ بناتے ہوئے رکھا ،

” آہہہہہہہ  ااااارررےچچچھوڑ ! ! ! “

ایک تیز کرااہ  اجے كے منہ سے نکلی ۔

جوتا  اس کے سرپر ٹکائے ہوئے ویر بولا ،

” اولیلیلیلی بچے کو درد ہو رہا ہے ؟ رکو ابھی درد  کو دور کر دیتا  ہوں “

یہ وہی بول تھے جب اجے نے ٹھیک اسی طرح اسی جگہ پر اسی وقت ویر كے سر پر ایسے لات رکھ كے بولے تھے۔ اور آج وہ خود  ویر كے اپنے جوتوں كے نیچے تھا ۔

ابھی درد سے اجے چیخ ہی رہا تھا کہ تبھی اس کے منہ میں کچھ زبردستی ٹھونس دیا گیا ۔

اور جیسے اگلے ہی پل اسے اندازہ  لگ گیا کہ وہ کیا چیز تھی ۔ ایک لولی پوپ ! ! ! !

ویر :

تجھے پتہ ہے میں یہ لولی پوپ لے کے کیوں گھومتا ہوں ہمیشہ ؟ تاکہ تجھ جیسے بچے جب اچلنے لگتے ہے نا  تو ان کی عقل ٹھکانے  لگا سکوں۔ یہ وہی بول تھے ۔ اجے كے خود كے بول ۔۔۔۔

جنہیں ویر نے اپنے ذہن میں اب تک بیٹھائے ہوئے تھے ٹھیک اسی وقت پر انہیں چکانے كے لیے ۔

اور اگلے ہی پل نہ چاہتے ہوئے بھی ، درد كے مارے اور اپنی اِس حالت کی ہونے كے چلتے ، اجے كے آنسوں نکلنے لگے۔

تھوووووو۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر اچانک ہی اس کے اوپر ویر کا تھوک گرا۔

ایسے ہی اس نے ویر كے اوپر تھوکا تھا۔ یہ تو بدلہ تھا۔

ویر کا بدلہ۔۔۔۔

شاید اب اسے سمجھ آ رہا تھا کہ کبھی مار کھاتے ہوئے کیسا لگتا ہے۔

” کے ۔۔۔۔ کیسے ! ؟ “

اجے نے ویر كے پیر پکڑ کراپنی آدھ کھلی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے ۔

ویر :

کیسے ؟  اٹ واز می آل الونگ یو ایڈیٹ ! وہ پراگیا نہیں ۔۔۔ میں ہی تھا۔ آئی میڈ یو آ فول ۔

اجے کو اِس بات کا پتہ ہوتے ہی اور غصہ آنے لگا ۔۔۔ کتنا  غلط تھا  وہ ۔ اتنا  بیوقوف کوئی آخر کیسے بن سکتا  تھا ؟

مگر  وہ  بنا  تھا ۔۔۔۔

اور وہ بھی ویر كے ہاتھوں، جو اس کی نظروں میں بس ایک چوزا  تھا۔

شڑککک۔۔۔۔

اور اچانک ہی ویر نے کچھ اور حملے کیے ، جس کے چلتے اجے پوری طرح بے ہوش ہو گیا۔

اسے گھسیٹ کر  ویر اس کی بائیک كے پاس لایا اور اس کی بائیک بھی گراتے ہوئے وہی اس کے قریب ڈال دی ۔ تاکہ لوگوں کو لگے کہ  وہ گرنےكے چلتے بے ہوش ہو گیا ۔

ویر نے سارا سامان اس کی بائیک سے اٹھایا اور جاتے جاتے اس نے ایک آخری بار بےہوش  ہوئے اجے پر  ڈالی ۔۔۔

” آئی پرامسڈ سم  ون۔۔۔ کہ اب سے اگر جیئونگا  تو ایک بادشاہ  کی طرح ۔۔۔ اور اگر مرونگا بھی ۔۔۔ تو بھی ایک بادشاہ کی ہی طرح ۔ “

دھیمی آواز میں وہ خود سے اتنا بول کر وہاں سے چل دیا۔

” ارررےآہ  ہ ہ ہ ہ  ! ! ! ! ” اچانک ہی اس کی ایک کرااہ  نکلی۔۔۔ویر میں جگہ جگہ درد کا احساس ہو رہا تھا ۔  اسے اپنے چہرے پر کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا۔

پلکیں جھپکیں ، اور دھیرے دھیرے اسے سامنے کا نظارہ آیا۔۔۔ دو انجان آدمی جھک كے اسے ہی دیکھ رہے تھے اور ایک ہاتھ سے بوتل لے کے پانی كے چھینٹے اس کے چہرے پر  مار  رہےتھے ۔

” ہاں ہاں اٹھ گیا ۔۔۔۔ اٹھ گیا۔ “

” اٹھا ؟  اور  ڈالو تھوڑا ۔۔۔۔”

ان کی باتیں سن کروہ لڑکا کچھ کہہ پاتا کہ تبھی ایک اور بار پانی کا چھڑکاؤ اس کے چہرے پر پڑا اور اگلے ہی پل اس نے زور سے سردائیں بائیں ہلاایا  اور انہیں روکنے كے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے۔

دونوں ہی آدمی اس کا اشارہ دیکھ کر رک گئے ۔

” ارے بھائی ! ٹھیک ہو ؟ “

اس لڑکے نے ہاں میں گردن  ہلائی اور دونوں نے اسے پکڑ كے اٹھایا۔

” کیا  نام ہے بھائی ؟ “

اُن میں سے ایک آدمی نے پوچھا تو لڑکے نے اپنا  نام  بتایا ، ” اجے ! “

آدمی :

ایسے راستے میں پڑے تھے بھئیا تم۔ نشے میں تھے کیا ؟

اجے :

نہیں ! وہ میں۔۔۔ کچھ نہیں بیلنس بگڑ گیا تھا  اسلئے گر گیا۔

آدمی :

کمال ہے بھائی ! اتنی خالی سڑک پہ بیلنس بگڑ گیا ؟ تم تو بڑے ہیوی ڈرائیور نکلے بھائی۔ کوئی کرتب ارتاب کر رہے تھے کیا بیچ راستے میں ؟

اجے :

نہیں ! وہ سامان تھا  زیادہ  اسلئے ۔۔۔

اتنا بول  کرجیسے ہی اجے نے اپنی بائیک پر نظر ڈالی اسے ایک اور جھٹکا لگا ۔ اس کا سارا سامان غائب تھا۔ وہ مہنگی چاکلیٹ کا  ڈبہ ، وہ پنک ٹیڈی ، وہ  روز ، سب کچھ غائب تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page