Perishing legend king-28-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 28

اور اسے جیسے ہی یہ دھیان میں آیا کہ یہ حرکت کس کی ہوگی ، اس کا پارا چڑھ گیا۔ اپنی مٹھی کستے ہوئے وہ ویر کو یاد کرتے ہی اپنے دانٹ پیسنے  لگا ۔

آدمی :

سامان ؟ کون سا سامان ؟ یہاں کوئی سامان نہیں ملا ہے ہمیں تمہارا۔ لگتا ہے کوئی لے کے بھاگ گیا۔  

آدمی 2 :

آج  کا  زمانہ  ایسا  ہی ہے بھائی۔ وہ تو ہم لوگ تھے جو تمہیں دیکھ كے فوراََ آئے۔

اجے :

جی ! تھینک یو ! میری مدد کرنے كے لیے۔

آدمی :

کوئی بات نہیں ! سنبھل كے چلایا کرو۔

اجے :

جی !

اور اتنا بول  کر وہ دونوں آدمی اپنی بائیک پر بیٹھ کرنکل گئے۔

ادھر اجے اپنی بائیک کی طرف آیا۔ اس نے فون نکال كے دیکھا ، تو  7:30 بج  رہے تھے اور اس کا فون سائیلنٹ میں ہونے كی وجہ سے  نجانے کتنے مسڈ کالز اس کی ماں ، سُشما كے ڈالے ہوئے تھے۔

اس نے اپنی بائیک اٹھائی ، اور ایک بار پھر کراہتے ہوئے سیٹ پہ بیٹھا۔

’ یاد رکھونگا میں یہ چوزے۔ یاد رکھونگا۔ ہر ایک حساب  چکاؤ نگا ۔ ’

اپنے آپ سے من میں تہیہ کرکے وہ بائیک اٹھا كے وہاں سے نکل گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ادھر جب ویر اجے کو پیٹنےكے بعد، ہاتھوں میں سامان لیے ، راستے میں چلتے ہوئے جا رہا تھا تبھی اسے مشن کمپلیٹ کرنے كے لیے سسٹم کی طرف 30 پوائنٹس ملے تھے ۔

جو ابھی تک اس نے ایڈ نہیں کیے تھے کسی بھی اسٹیٹ میں۔

ابھی وہ راستے میں چلتے ہوئے ہی جا رہا تھا ۔ پیسے تو تھے نہیں اس کے پاس ، اور نندنی سے اس نے پیسے لیے نہیں تھے۔ نندنی نے کچھ پیسے دینے کا کہاتھا  اسے مگر اس نے یہ کہہ كے منع کر دیا ، کہ ابھی ضرورت نہیں ہے ، جب بہت ضروری ہو گا تو وہ خود مانگ لے گا۔

ویر جانتا تھا نندنی كے گھر کی حالت کیاتھی۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ نندنی پیسہ اکٹھا کر رہی ہے۔ کس چیز کےلئے؟ یہ اسے نہیں پتہ تھا۔۔۔مگر اتنا ضرور پتہ تھا اسے کہ کوئی وجہ ہے جس کے چلتے نندنی جلد سے جلد پیسہ اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔

اور شاید اسلئے وہ اپنی جاب کیسے بھی کرکے نہیں چھوڑنا چاہتی۔ اسلئے ، وہ وکاس کی حرکتوں کو برداشت کرتی رہتی ہے۔

اور یہی وجہ تھی کہ ویر نے ابھی تک نندنی سے پیسے نہیں لیے تھے۔ وہ یہاں تک آیا بھی تھا  تو  کسی بائک والے سےلفٹ لے لے كے ۔ اور ابھی بھی وہ لفٹ کا ہی انتظار کر رہا  تھا  چلتے چلتے۔

بھلے ہی ویر نے نندنی کی بات کاٹ دی تھی ، مگر نندنی نے زبردستی اسے اپنا  ایک پرانا فون پکڑا ہی دیا تھا۔۔۔ اسی فون کی مدد سے تو ویر نے اجے کو  ماموں  بنایا تھا ۔

اپنی وہی پرانی سم ڈال كے وہ اسے یوز کر رہا تھا۔ اب اس کی بات کاویہ سے بھی واٹس ایپ پر ہونے لگی تھی۔

ابھی وہ چلتے چلتے جا رہا تھا اور آخر کار اسے لفٹ مانگنے پر ایک بھلے آدمی نے اسے لفٹ دی اور اس نے ویر کو نندنی كے گھر سے بس کچھ دور موڑ پر چھوڑ دیا۔

یہاں سے گھر تھوڑا سا ہی دور تھا ، تو ویر کو اب کوئی ٹینشن نہیں تھی پیدل جانے میں۔ وہ نندنی کی گاڑی لیکر نہیں آیا تھا ، انفیکٹ وہ گھر میں کچھ بتا كے بھی نہیں آیا تھا اور اسلئے نندنی كے 3-4 مسڈ کالز پڑے ہوئے تھے اس کے فون میں۔

’  میم  آج پھر غصہ کریں گی لگتا  ہے ’

ظاہر سی بات ہے  ماسٹر۔۔۔  وہ آپ کی فکر کرتی ہے۔   وہ آپ کو اسپتال سے اپنے گھر لائی تھی۔۔۔ اور  وہ آپ کو خود کی ایک ذمہ داری كے روپ میں دیکھتی ہے شاید۔ اسلئے ، آپ کی ٹینشن انہیں لگی رہتی ہے۔ اوپر سے وہ ایک ماں بھی ہے تو وہ آپ کی ماں کا درد بھی سمجھ سکتی ہونگی۔

’ میری ماں ؟ ہا ہا ہا  وہ ماں جو میری گھر میں ایسی  ہو ر ہی  زیادتی دیکھتی رہی ؟  مگر کچھ نہ بولتی تھی ؟ وہ ماں ، جس نے کبھی مجھ سے پیار سے بات تک نہ کی ؟ وہ ماں ، جو مجھے گھر سے نکالے جانے پر بھی چُپ رہی ؟

وہ ماں نہیں ہے پری۔۔۔ وہ ایک انجان عورت ہے میرے لیے ’

ویر کی بات سن کرپری اس کے دِل میں اُمڈ  رہے جذبات کو محسوس کر پا رہی تھی۔

میرا مطلب آپ کی سوتیلی ماں سے نہیں تھا  ماسٹر۔۔۔ میرا مطلب آپ کی اصلی ماں سے تھا ۔

پری کی بات سن کر ویر کا ہاتھ اپنے آپ ہی اپنے گلے میں لٹکی اس لاکٹ پر چلا گیا جو اس کی اصلی ماں کی ایک آخِری نشانی تھی۔

’ کیا پتہ وہ  زندہ بھی ہے یا نہیں ! ؟ ’

ایسا بھی تو ہو سکتا ہے ناا  ماسٹر ، کہ وہ زندہ ہو اور اسی دُنیا میں کہیں پر موجود ہوآپ کے خواہشوں میں سے ایک خواہش آپ کا یہ بھی ہونا چاہیے  ماسٹر۔ اپنی اصلی ماں كے بارے میں جا ننا۔۔۔ آخر انہوں نے ہی تو آپ کو جنم دیا ہے ۔

’ تم ٹھیک کہتی ہو پری۔۔۔ میں ان کے بارے میں جاننے کی کوشش ضرور کرونگا ۔’

ہممم ! ویسےآپ پوائنٹس انویسٹ کر رہے ہو ! ؟

’ رات کو کرونگا ۔ ’

اوکے ماسٹر !

ویر ابھی چل ہی رہا تھا کہ تھوڑی دیر بعد اچانک ہی وہ چلتے چلتے زور زور سے ہنسنے لگا۔

” ہاہاہاہاہا  “

ماسٹر ؟ ؟؟

” ہاہاہاہاہاہاہاہا “

ماسٹر کیا ہوا ؟ ایسے کیوں ہنس رہے ہو ؟ رات ہو رہی ہے ، کالونی كے آس پاس كے لوگ سب آپ کو ہی دیکھ رہے ہیں۔

پری کی بات سن کر ویر نے تھوڑی دیر بعد اپنا  ہنسنا بند کیا اور پھر بولا ،

’ پری ! ! ہاہاہا ۔۔۔  مجھے دراصل یہ یاد آ گیا کہ کیسے ہم نے اجے کو چوتیا  بنایا۔  ہاہاہا ’

اُوں ! !

’ تھینکس ٹو یو ! وہ لڑکیوں والے ڈائلاگ مجھے سجیسٹ کرنے كے لیے۔ وہ چوتیا مجھے سچ میں لڑکی سمجھ رہا تھا  ہاہاہا ۔

 کیا کیا خواب سجا رہا ہو گا من میں ہا ہا ہا

سوچ رہا ہو گا آج مال ملے گا مگر ملا کیا ؟ پیٹائی! ہی ہی ! ’

اس میں تھینکس کیسا ؟ یہ تو میرے لیے بائیں  ہاتھ کا کھیل تھا ۔

’ ویسے ! تم نے کہا تھا تم جینڈیرلیس ہو۔ پھر اتنی اچھی طرح لڑکیوں كے ڈائیلاگ کیسے سجیسٹ کیے تم نے مجھے ؟ ’

آئی ’ ایم ناٹ جینڈیرلیس۔ آئی ’ ایم آ گرل  ماسٹر ۔

’ واٹٹٹٹٹ ؟ ؟ مگر ۔۔۔ مگر تم نے تو ۔۔۔ ’

میں نے تب جھوٹ بولا تھا۔

’ واٹ د  فک ؟ ؟ ؟ ؟  مگر کیوں ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ’

ایسے ہی۔۔۔تب میرا من نہیں تھا  سچ بتانے  کا ۔

’ یہ کیا بات ہوئی ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ مگر تم تو ایک سسٹم ہو اور پھر ۔۔۔ سسٹم کا جینڈر کیسے ہوسکتا ہے ؟ آئی مِین ۔۔۔ ’

آپ اِس سے زیادہ جاننے كے لئے ابھی کوالیفائیڈ نہیں ہو  ماسٹر ۔

’ جتنا میں نے سوچا تھا ،  یہ سسٹم اس سے بھی زیادہ پیچیدہ  نکلا۔ ’ اس نے من میں خود سے سوچا۔

یس ! میں سمجھنے میں کمپلی کیٹڈ ہوں۔

’ شٹ ! آئی فارگوٹ کہ تم میری من کی ہر ایک بات سن سکتی ہو’

ہممم ! اسلئے ، میرے بارے میں کوئی بری بات نہیں بولنے کا  ماسٹر ۔

’ جیسا آپ کہو میری پیاری پری ! میری کیوٹی پری ! میری ۔۔۔۔ ’

بس بس ماسٹر ! اتنی مکھن بھی نہیں لگانا ہے۔

’ پری ! ! ! ’

ہممم ؟

’ تھینک یو ! ’ ویر نے اِس بار بڑی ہی سوفٹ سی آواز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ اور اس کے یوں بولنے پر پری ایکدم شانت سی پڑ گئی۔

کچھ دیر بعد پھر اس کی آواز ویر كے من میں آئی ،

کس لیے  ماسٹر ! ؟

’ فور ہیلپنگ می آؤٹ ، پری ! کل کلب میں جاکے تمہارے کہنے پر میں نے وہ کسس کری تھی ان ڈرنک لڑکیوں كے ساتھ ، انٹری بھی تم نے کروائی تھی بَڑی ہی چاپلوسی سے۔۔۔ مجھے شروع میں وہ سب بالکل اچھا  تو نہیں لگا تھا مگر اسی كی وجہ مجھے پوائنٹس ملے تھے۔ اور میں اپنی اسٹرینتھ بڑھا  پایا۔  ورنہ میں یہ مشن کبھی نہیں کر پاتا ،  اینڈ آئی  وِد   ہیو  لوسٹ  یو’

اٹس اوکے ماسٹر ! یو ڈونٹ ہیو ٹو بی سو ایموشنل۔

ویر مسکرایا اور یوں باتوں ہی باتوں میں وہ گھر پہنچ  چکا تھا۔

اوپر فلور پر آتے ہی جیسے ہی اس نے گھر كے باہر سے ڈور بیل بجائی ، گیٹ نندنی نے ہی کھولا۔اور ویر کو دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

اور کیوں نا پھٹی رہ جائیں گی ؟

ویر كے گلے میں اس کی چُنری جو بندھی ہوئی تھی۔

نندنی :

ویر ؟

ویر :

آئی  ایم سوری میم ! میں بتا كے نہیں گیا آپ سے۔۔۔ دراصل ،  کام  ہی  ایسا  تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page