Perishing legend king-31-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 31

بھومیکا :

موم ! کیا ہم جو کر رہے ہیں  وہ سہی ہے ؟

عورت :

سہی  ؟ کیوں نہیں ! ؟

بھومیکا :

ان کا ۔۔۔ان کا اپنا بیٹا گھر سے نکال دیا گیا اور ۔۔۔۔۔۔

عورت ( سرپرائزڈ ) :

بھومی ! ؟ ؟ کیا تم اس کے بارے میں سوچ رہی  ہو اب ؟ کہیں ہمدردی تو نہیں ہونے لگی تمہیں اس سے ؟

بھومیکا ( سوچتے ہوئے ) :

موم ! پہلے نہیں ہوتی تھی۔ مگر آج کل پتہ نہیں کیوں ، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے۔ مجھے اندر سے کچھ سہی نہیں  لگ  رہا۔

شویتا :

مگر ایسا کیوں بھومی  بیٹا ؟ ہم اتنا آگے آ چکے ہیں۔۔۔ اور پہلے کبھی تو تمہارے من میں اس کے لیے ایسا کچھ نہیں آیا نا ؟ پھر یہ اچانک سے کیوں ؟

بھومیکا :

شاید اسلئے موم ، کیونکہ کبھی بھی اس نے ہمارے ساتھ غلط رویہ اختیار نہیں کیا۔ وہ جیسا بھی تھا ، کم سے کم اس نے ہمارے بیچ میں کبھی خلل نہیں ڈالی۔  نہ ہی ہم اس سے بات کرتے تھے اور نہ  ہی اسے کبھی اپنا  مانتے تھے۔ مگر ان سب كے باوجود ، اس نے کبھی ان باتوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ اور اسلئے  اب جب اسے گھر سے نکال دیا گیا ہے،  وہ میرے سپنوں میں آتا ہے موم۔ اس کا چہرہ میرے سپنوں میں دکھتا ہے۔ اور مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے ہی اسے گھر سے نکلوایا ہے ۔

شویتا :

تو بھول جا بیٹی ان سب باتوں کو ۔۔۔وہ تو اب جا چکا ہے ۔ اب وہ جہاں بھی ہو ، اپنا جیون جیسے اسے جینا ہے جی لے گا۔ مگر ہمیں ہمارے بارے میں سوچنا ہو گا ۔ کیونکہ تم اور میں ، بس ہم دونوں ہی ہیں ایک دوسرے كے لیے۔

بھومیکا :

آئی نو موم ۔۔۔اٹس جسٹ !

شویتا :

اپنے آپ کو کام میں مصروف رکھا کرو ۔ اوکے ؟

بھومیکا :

جی !

شویتا ( اسمائیلز ) :

ہممم ! چلو ! اب چلتے ہے۔

یہ رات تو سبھی كے لیے جیسے تیسے گزر گئی۔ مگر آنے والا وقت نجانے سب کی زندگی میں کیا لانے والا تھا۔ جو بھی ہونے والا تھا ، اتنا تو طے تھا کہ ویر كے لیے آنے والا وقت سنگھرش سے بھرپور ہونے والا تھا۔

دو دن گزر چکے تھے۔۔۔  اور ان دو دنوں میں ویر کی لائف میں جو بھی بدلاؤ آیا تھا وہ تھا پوائنٹس بڑھانے كے بعد اس کا جسمانی بدلاؤ۔

نندنی كے ساتھ بھی اب اس کی اچھے سے جمنے لگی تھی۔۔۔ نندنی بھی ویر کو جیسے اب اپنے ہی پریوار کا فرد سمجھنے لگی تھی۔ وہ اس کے ساتھ شاپنگ پر جاتی ، کبھی کوئی بھی سامان لینا ہوتا  وہ اور ویر ساتھ ساتھ جاتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے۔

ویر كے آنے سے بھلے ہی اس کے کھانے پینے کا خرچہ بڑھ گیا تھا  مگر ویر اس کی بہت مدد بھی کر دیتا  تھا۔ یہ بات نندنی کو خود بھی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے اوپر سے جیسے کام کا  لوڈ کم سا  ہو گیا تھا ۔

جوہی كے ساتھ بھی ویر کی اچھی دوستی ہوچکی تھی۔۔۔ ویر ٹائم ٹو ٹائم جوہی كے ساتھ کھیلتا  تو کبھی اسے پڑھاتا ، اس کے آنے كے بعد سے ہی نندنی كے گھر کا  ماحول ایکدم خوشنما  سا  ہو گیا تھا۔

چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ گھر میں اب بات چیت ہوا کرتی تھی۔ بوریت نام کی تو جیسے کوئی چیز ہی نہیں تھی اب نندنی كے گھر میں۔ نہ ہی اسے اب اتنا اکیلا پن محسوس ہوتا  تھا۔

بس اگر کچھ بچا تھا تو وہ تھا ویر اور شریا کا ایک دوسرے کو جواب دینا چھوڑنا۔

دونوں ہی بس ایک دوسرے كے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ کہیں شریا  ویر کی ٹانگ کھینچتی تو کہیں  ویر شریا کی۔ اور ان دونوں کا یوں جھگڑنا بھی کہیں  نا کہیں نندنی کو اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ دونوں ضدی بھائی بہن ہے جو بس ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے  رہتے  ہیں۔

نندنی نے اپنے گھر میں بھی یہ بات بتا كے رکھی ہوئی تھی کہ اس کے ساتھ اس کا ایک اسٹوڈنٹ بھی رہ رہا ہے۔ ہلانکہ، شروع  وقت میں اس کے گھروالوں نے اس  بات پر تنقید ضرور کی تھی کہ ایک نوجوان لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنا سہی نہیں ہے مگر جیسے جیسے کچھ دن گزرے اور نندنی نے روز کی ڈیلی رپورٹ اپنے گھروالوں کو دی ،  تو  ان کا  ڈر بھی اندر سے کم ہو گیا اور ویر پہ ان کا  اعتباربھی کئی حد تک بڑھ گیا تھا۔

بھلے ہی ویر کی زندگی یہاں پہلے سے کافی بہتر ہو چکی تھی مگر یہی بات ویر كے گھر  والوں كے لیے کہنا تھوڑا مشکل تھا۔

ویر كے بنگلے میں اِس وقت ایک بے حد ہی خوبصورت عورت سامنے شیشے میں دیکھ  کراپنے بال بنا رہی تھی۔اس کی خوبصورتی ایک الگ ہی روپ دکھائی دے رہی تھی۔ اپنی گھنے  زلفوں میں وہ اِس طرح اپنے ہاتھ چلا رہی تھی جیسے مانو وہ زلف نہیں ، پانی کی لہر ہو ۔۔۔ اس کے تیکھے نین ایسے نظر آ رہے تھے کہ کسی کو بھی نشیلا  بنا  دے ۔ اس کی ایک جھلک اچھے سے اچھے آدمی کو بھی  مدہوش کر دے ۔

اور یہ کوئی اور نہیں ، ویر كے بڑے بھائی کی بیوی ، یعنی کہ اس کی بھابی  راگنی تھی۔

راگنی اپنے آپ کو سجاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھی اور وہ باہر نکلنے ہی والی تھی کہ تبھی اس کا  بیڈ پر رکھا  فون بجا اٹھا۔

رنگ رنگ۔۔۔۔

آگے بڑھتی ہوئی  راگنی نے اپنا فون اٹھایا اور اسکرین پہ پاپا لکھا دیکھتے ہی اس کے چہرے پہ مسکان آ گئی۔

اس نے فون اٹھا كے اپنے کان سے لگایا مگر کچھ سیکنڈ بعد ہی اس کی وہ مسکان اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اور چہرے پہ بس شکن ، ٹینشن اور ڈر سا چھا گیا۔

جیسے ہی اس نے فون اٹھا كے ہیلو بولا تبھی دوسری طرف سے آواز آئی ،

” بیٹا ! ! ! سب کچھ لٹ گیا ، برباد ہو گیا۔ لٹ گیا  بیٹا  میں “

اپنے پاپا کی ایسی آواز سن  کرراگنی کی روح  تک کانپ گئی۔ اس کے پاپا  دنیش کی ایسی آواز شاید ہی پہلے راگنی نے کبھی سنی ہو۔

راگنی ( گھبراتی ہوئی ) :

پاپا ! ! ! کیا کہہ رہے ہو آپ ؟ کیا ہوا ؟ بتایئے ! !

دنیش :

بیٹی ! ! ! سب کچھ برباد ہو گیا میری بچی ! ! سب کچھ برباد ہو گیا۔

اور دنیش کی اچانک رونے کی آواز راگنی کو سنائی دینے لگی۔

بے چینی میں وہ اٹھی اور روم میں ارد گرد گھومنے لگی ،

راگنی :

پاپا ! آپ ڈرئیےمت ۔۔۔پلیز بتائیے مجھے ! سب کچھ ٹھیک تو ہے نا  ؟

اس کے بعد دنیش اپنی بات  بتانے لگتا ہے اپنی بچی راگنی کو ۔۔۔ جسے سن كے راگنی كے خود كے ہوش اُڑ جاتے ہیں۔ وہ  بُت بن کے بس کھڑی اپنے پاپا کی بات سنتی رہتی ہے مگر جیسے اس کا دھیان کہیں  اور ہی تھا۔ جیسے مانو  صدمہ سا  لگ گیا  ہو  اسے۔

راگنی :

نہیں ! ! یہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ ایسا کیسے بھلا ؟ آپ نے پولیس میں۔۔۔  ؟

دنیش :

بیٹا ! کیا کہونگا  پولیس میں  ؟  پولیس ثبوت مانگتی ہے  اور کچھ نہیں دیکھتی۔ میں نے انہیں سچ بتایا ہے مگر وہ تو جیسے میری بات سننے  کوتیار ہی نہیں ہے بیٹی۔سب کچھ چلا گیا  بیٹا  سب کچھ ۔۔۔۔۔۔

راگنی :

ایسے کیسے  پاپا ۔۔۔ ایسے تھوڑی۔۔۔ میں۔۔۔آپ آپ ۔۔۔۔ ہاں ! ہم شہر كے  بڑے وکیل کو ہئیر کرینگے۔۔۔ بھلا ایسے کیسے پولیس ہماری بات نہیں مانےگی ؟ ہم ایف، آئی، آر کرینگے پاپا ۔  جانچ پڑتال میں سب کچھ باہر نکل آئیگا دیکھنا۔۔۔ اور آخر ہمت کیسے ہوئی پولیس کی ہمیں اگنور کرنے کی ؟

دنیش :

نہیں بیٹا ! کچھ نہیں ہو سکتا  اب ۔میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی نجانے کتنے شہر كے جانے مانے لائیرز لوگوں سے بات کی۔ سبھی پیچھے ہٹ گئے بیٹی۔۔۔ جیسے مانو وہ جانتے ہو کہ ان کا جیتنا  ناممکن ہے ۔  وہ لوگ بڑے ہی خطرناک ہیں بیٹا۔۔۔ اب تو اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ  ویویک ہی ہے ۔۔۔ ذرا  بولو بیٹی۔۔۔۔ اس کی اچھی پکڑ ہے اور پہچان بھی۔

راگنی :

اتنا سب کچھ ہو گیا پاپا اور یہ بات آپ مجھے اب  بتا  رہے ہو ؟ ؟

دنیش :

بیٹی کیا بتاتا اب !  سب کچھ اچانک جو ہوا۔۔۔۔ سب کچھ اچانک۔۔۔ پہلے جو کام سب سے ضروری تھا  وہی کیا۔ مجھے لگا تھا پولیس ہماری مدد کریگی مگر یہاں تو وہ سننے کو بھی تیار نہیں ہے۔ ویویک ہی اب کچھ کر سکتا ہے بیٹا۔۔۔ ذرا  بات کرنا  ہو سکے تو اس سے ۔۔۔۔۔۔

راگنی :

یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے پاپا ؟ بالکل ! میں۔۔۔میں ابھی جا كے ان سے بولتی۔ میں خود جاتی ہو کمپنی میں اور ان سے بات کرتی ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے ؟ آپ ۔۔۔۔ آپ بالکل ٹینشن مت لینا پاپا ۔  کچھ نہیں ہوگا  اوکے ؟ سب سہی ہو جائیگا۔ یہ ہے ناا۔۔دیکھنا ! ابھی سب ٹھیک ہوجائیگا۔ میں۔۔۔ میں ابھی جاتی ہو ں۔

اور اتنا بول کر راگنی کال کٹ کرکے فٹافٹ انہی کپڑوں میں باہر نکل کر ویویک کی کمپنی کی طرف کار نکال كے اکیلے چل نکلی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page