Perishing legend king-33-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 33

لڑکا :

بہت اچھے ! اب سن ! میں اور تو اندر جائینگے تیرے گھر میں۔۔۔سمجھا ؟  تو اپنی بیوی کو یہ بولےگا کہ میں کچھ کاغذی کام كے چلتے تیرے گھر آیا  ہوں اور اسے ذرا بھی شک نہ ہونے پائے کہ کیا چل رہا ہے۔سمجھا ؟ اگر ذرا  سی بھی مجھے بھنک ہوئی کہ تو پولیس کو کال کر رہا ہے یا کوئی اشارہ کر رہا ہے۔ تو۔۔ تُو  تو جائےگا  ہی ، تیرے ساتھ تیری بیوی بھی  جائے گی اوپر۔

دنیش :

نہیں ! نہیں ! میں۔۔۔ میں ایسا کچھ بھی نہیں کرونگا ۔

لڑکا :

بہت اچھے ! چل ، اب گاڑی اندر لے گھر میں۔۔۔ تیرے گھر كے باہر گارڈ کو بھی نہیں پتہ چلنا چاہیے سمجھا  ؟

دنیش :

ہاں ! ہاں !

دھیرے دھیرے گاڑی کو اندر کرنے كے بعد جیسے ہی لڑکا اور دنیش گاڑی سے اترے، تو گارڈ بھی تھوڑا حیران تھا۔ اتنی رات گئے ، دنیش کسی آدمی كے ساتھ کار میں  ؟  سوال تو ضرور آیا تھا اس کے من میں پر وہ جانتا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں تھا ، اور اس کے پہلے بھی کچھ کام کی وجہ سے کئی بار دنیش لوگوں كے ساتھ رات میں آ چکا ہے۔ تو گارڈ نے اپنے من سے وہ سوال اگلے ہی پل نکال دیا۔

دونوں دنیش اور وہ لڑکا اندر آئے اور جیسے ہی روہنی نے دروازہ کھولا وہ دنیش کو دیکھ كے مسکرائی مگر پھر بغل میں کھڑے لڑکے کو دیکھ كے وہ تھوڑا حیران رہ گئی۔

روہنی ( اشارہ کرتے ہوئے ) :

یہ . . . کون  ؟ ؟

دنیش :

ارے ! ہا ہا ہا ہا   یہ۔۔۔  ؟ یہ ۔۔۔  ہے ۔۔۔

لڑکا :

نمستے جی ! جی ہماری ٹائرز کی کمپنی ہے  نیو آج باس نے ڈیل کی تھی سر كے ساتھ۔ اسی كے کچھ کاغذ چاہیے تھے ، جو شاید سر لانا بھول گئے تھے ۔ اسلئے ، میں لینے آیا ہوں ان کے ساتھ ہی۔

روہنی :

اُوں ! مگر ۔۔۔ اتنی رات ۔۔۔ میں ۔۔۔

روہنی کبھی اس لڑکے کو دیکھتی تو کبھی اپنے شوہر کو ۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بھلا اتنی رات گئے کاغذ لینے کیوں آیا ہے یہ بندہ؟  کاغذ تو کل بھی لے سکتا تھا  ؟

اِس سے پہلے کہ دنیش جواب دے پاتا ، اس لڑکے نے فوراََ بول ڈالا ،

لڑکا :

آنٹی جی ! ایسا ہے کہ۔۔۔۔ کل باس لندن جا رہے ہیں۔ اور ان کے ساتھ ان کی ٹیم بھی، ضروری کام سے۔ میں تو صرف ایک ورکر ہوں وہاں پہ ۔۔۔انہوں نے کہا کہ مجھے جلد سے جلد کاغذ چاہیے کیونکہ میں یہاں پھر نیکسٹ منتھ آؤنگا۔ اور اسلئے انہوں نے مجھے بھیجا ہے ۔  اب اس میں میں کیا  ہی کروں آنٹی ؟ آپ ہی بتایئے !

روہنی :

اوہ ! اچھا  !  نننہی  نہیں۔۔۔ سہی بات ہے۔  سنیے ! اب جو بھی کاغذ ہیں ، انہیں دے  دو ۔

دنیش :

ہاں ! ہاں ! میں  وہ ۔۔۔۔

اور روہنی نے ہٹتے ہوئے اندر آنے كے لیے راستہ دیا۔ وہ لڑکا اندر آکے صوفے پر بیٹھ گیا ، اور دنیش ٹھیک اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ بار بار وہ اپنی شرٹ کی آستین سے بس اپنا  پسینہ پونچھے جا رہا تھا۔

ایک غلط قدم اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی بِیوی بھی موت كے گھاٹ اُتار دی جائیگی۔

لڑکا :

آنٹی پانی ملے گا کیا ؟

روہنی :

ہو ؟  ہاں بیٹا ! میں لاتی ہو ں۔

جیسے ہی روہنی اندر گئی ، وہ لڑکا صوفے سے کود كے اٹھا اور اپنا  ریوالور شرٹ كے نیچے سے نکال کر سیدھے دنیش كے ماتھے پر ٹکا دیا ،

لڑکا :

سن بے ! اندر جا ، اور اپنے دونوں شوورومز كے کاغذات لے کے باہر آ ۔سمجھا ؟ ایک صاف صفحہ لیں اور اس میں اچھے سے لکھ کہ تو اپنے ہوش و حواس میں یہ دونوں شوروم آتَش کھنا كے نام کر رہا ہے ! سمجھا ؟ اس میں لکھ ۔۔۔ کہ میرے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی ہے ، یہ میں اپنی مرضی سے انہیں سونپ رہا  ہوں۔ سمجھا ؟ جتنے بھی پیپر ہیں۔ سب لاؤ اور جہاں جہاں سائن لگنے ہیں ، سب میں سائن کر سمجھا  ؟ اگر ایک بھی غلطی مجھے بعد میں ملی تو تیری بِیوی گئی۔

دنیش :

نہیں ! نہیں ! روہنی۔۔۔ روہنی کو کچھ مت کرنا ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں لاتا  ہوں۔

دنیش تیز قدموں كے ساتھ جیسے ہی اندر گیا،  روہنی پانی لے کے کچن سے باہر نکلی ،

روہنی :

ارے ! ؟ یہ کہاں گئے ؟

لڑکا :

آنٹی جی ! وہ پیپرز لینے گئے  ہیں۔

روہنی :

اچھا ! یہ لو  بیٹا  پانی !

لڑکا :

ہاں آنٹی !

روہنی :

ویسے کیا نام  ہے آپ کابیٹا ؟

لڑکا :

میں ! ؟ جی میرا  نام رنگا ہے ۔

اس کا نام سن کر روہنی تھوڑا سوچ میں پڑ جاتی ہے۔ یہ نام تو بڑا ہی عجیب سا تھا۔ خاص کر اس آدمی كے لیے جو ایک کمپنی میں کام کر رہا  ہو۔

رنگا :

ہاہاہا ۔۔۔دراصل ، بات یہ ہے کہ مجھے بچپن سے ہی رنگوں کا خوب شوق تھا ، تو ماں باپ نے نام رنگا رکھ دیا ، پھر تو گلی محلے میں یہی نام سے میں فیمس ہو گیا۔

روہنی :

اوہ ! اچھا ! ؟

رنگا :

ہاں آنٹی ! میرے باس اکثر کہتے ہیں کہ۔۔۔کام کرو تو اتنا بڑا کرو کہ نام اپنے آپ  ہو جائے ۔

روہنی :

اوہ ! بہت ہی اچھے خیالات ہیں بیٹا آپ کے باس كے تو ۔۔۔ تب تو کوئی جانی معنی ہستی ہی  ہونگے ۔

رنگا :

ہاہاہا۔۔۔ بالکل بالکل ۔۔۔ بہت بڑے آدمی ہیں  وہ آنٹی ، بہت سٹریک ہے۔ زیادہ غصہ آتا ہے تو سیدھا  اڑا  ڈالتے ہیں۔

روہنی :

ہو ؟

رنگا :

ن،، ن،، نوکری سے ۔۔۔۔  نوکری سے اڑا  دیتے ہیں۔

روہنی :

اچھا ! کافی ہی سٹریک ہے بیٹا  اور تھوڑا سٹریک ہونا ضروری بھی ہے ویسے۔میں نے ان کو بھی بولا ہے کہ ان کے اسٹاف میں بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو کام چور ہیں۔ یہ میری بات سنتے ہی نہیں۔

رنگا :

اب سب سنیں گے آنٹی۔ اور  ویسےبھی۔۔۔اب سر كے بس میں نہیں ہوگا  کچھ ۔۔۔

روہنی :

ہممم ؟

رنگا :

کچھ لوگ سدھرتے نہیں ہیں نا آنٹی ! تو اب سر كے بس میں نہیں ہے انہیں سدھارنا ۔۔۔ بس ، ایسے لوگوں کو سیدھا  اڑا  دو ۔۔۔ میرا مطلب ہے نوکری سے ہٹا دو ۔

روہنی :

ہممم ! سہی کہا  بیٹا  تم نے۔

ان کی باتیں چل ہی رہی تھی کہ دنیش کاغذ لیتے ہوئے باہر آیا۔ وہ چاہتا تو اندر سے پولیس کو کال کر سکتا تھا مگر اس نے رسک نہ لیا۔۔۔ کیونکہ باہر وہ لڑکا اس کی بیوی كے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ انجام کیا ہوسکتاتھا ، اس کا  وہ اندازہ بھی نہیں لگانا  چاہتا تھا ۔

صوفے پر بیٹھتےہوئے دنیش اپنے کانپتےہوئے ہاتھوں سے شوروم کی ساری ملکیت کسی انجان آدمی كے ہاتھ دینے جا رہا تھا۔

جس آدمی کو وہ جانتا بھی نہیں تھا ،  نہ کبھی اس نے اس آدمی کو دیکھا،  نہ  اس کے بارے میں سنا ، وہ آدمی راتوں رات اس کے دونوں شوورومز کا مالک بننے جا  رہا تھا۔

روہنی :

آپ کے ہاتھ کیوں کانپ رہے ہیں ؟

رنگا :

آنٹی انہیں ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ کار چلاتے وقت ونڈو کھول كے رکھے تھے۔ میں نے سمجھایا بھی تھا مگر سر ہے کہ سنے ہی نہیں۔

روہنی :

کیااا ؟ ؟  ٹھنڈ لگ گئی ؟ میں نے کتنی بار کہا ہے کہ ونڈو ہمیشہ بند رکھا کرو ۔ کیا پتہ کس ٹائپ کا آدمی کب آکے کیا کر دے ۔

رنگا :

ہا ہا ہا ہا ۔۔۔ آنٹی آپ کی بات سے پوری طرح میں سہمت ہوں۔

روہنی :

دیکھا نا آپ نے  ؟ اب یہ کام کر لیجیے پھر سیدھا آرام کرنا  اب۔۔۔ اور کل جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔صحت سب سے پہلے ہے۔

رنگا :

بالکل ! اب تو انہیں ویسے بھی گھر میں رہنا پڑیگا ۔

روہنی :

ہممم ؟

رنگا :

مطلب جب تک سر کی طبیعت ٹھیک نہ ہوجائے ، آنٹی آپ بالکل بھی نکلنے مت دینا۔

روہنی :

ہاں ! تم سہی کہتے ہو ۔

ادھر دنیش کو اس لڑکے کی ڈبل میننگ چاپلوسی پر اتنا تیز غصہ آ رہا تھا مگر حالات كے مارے وہ مجبور تھا۔ روہنی کو وہ چاہ كر بھی کچھ بتا نہیں سکتا تھا۔ وہ تو ساری باتوں سے انجان تھی۔ وہ تو صرف اس کی چنتا  ہی کر رہی تھی۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔

کاش اس نے ونڈو کا گلاس بند کیا ہوتا  تو یہ سب  نہ  ہوتا۔

مگر اب گزری غلطی كے بارے میں سوچنے سے کیا فائدہ ؟ اب تو جو ہو گیا وہ ہو گیا۔ اب اِس سچویشن سے باہر سیفلی کیسے آیا جائے ، یہی دنیش کی اولین ترجیح تھی۔

کچھ ہی منٹ كے اندر سارا  امپورٹنٹ کام ختم ہوا  اور رنگا مسکراتے ہوئے باہر جانے لگا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page