Perishing legend king-34-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 34

رنگا :

چلیے آنٹی ! اگرموقع ملا تو دوبارہ ملاقات ضرور ہوگی۔

روہنی :

ٹھیک ہے بیٹا ! آتے رہنا ۔۔۔ اب تو ہمارے  سے ڈیل ہو گئی ہے آپ کی۔

رنگا :

ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔ بالکل ! آپ بڑی ہی اچھی ہو آنٹی ! آپ سے بات کرکے مجھے بہت اچھا لگا ۔

روہنی :

بالکل بیٹا ! مجھے بھی تم سے بات کرکے اچھا لگا۔

رنگا :

چلیے چلتا  ہو ں . . . .

مگر جیسے ہی وہ جانے لگا ، اسے کچھ یاد آیا۔

اور اس نے جیب سے ایک موبائل نکالا اور دنیش کو پکڑا  دیا ،

رنگا :

سر ! آپ موبائل کار میں ہی بھول گئے تھے۔ یہ رہا آپ کا  فون ۔۔۔چلتا  ہوں۔

اور وہ مسکراتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا۔

باہر نکلتے ہی وہی گاڑی آئی ، اس میں وہ بیٹھا اور وہاں سے رفو چکر ہو گئے سبھی۔

ادھر اس کے جانے كے بعد روہنی نے گیٹ بند کیا ،

روہنی :

کتنا  ایماندار لڑکا  تھا۔۔ہے  نا ؟ ؟ چاہتا تو وہ فون رکھ سکتا تھا ۔۔۔ مگر اس نے لوٹا  دیا۔

مگر دنیش کی جیسی بولتی ہی بند تھی۔ اسے جیسے صدمہ سا  لگ گیا تھا۔

روہنی :

آپ سن رہے ہو ؟ کہاں کھو گئے آپ ؟

اور روہنی كے اسے ہلاتے ہی دنیش پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ بیچاری روہنی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اچانک سے دنیش کو کیا  ہو گیا۔

وہ ٹینشن میں آ گئی ، مگر دنیش تو بس روتا جا رہا تھا ۔

پھر اچانک ہی اٹھ كے اس نے روہنی کو اس کے کندھوں سے پکڑا اور سب کچھ بتایا ، جسے سن کر بیچاری روہنی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ اس کے آنسوں بھی بہانا شروع  ہو گئے ۔

جس لڑکے کو وہ اتنا اچھا سمجھ رہی تھی ابھی کچھ دیر پہلے ، وہی ان کی بربادی کا  سامان تھا۔ اوپر سے وہ خود شاباشی دے رہی تھی اسے ۔۔۔۔

یہ جانتے ہی روہنی كے پیروں تلے جیسے زمین کھسک گئی۔۔۔ نجانے کتنی باتیں کر لی ہونگی اس نے اس لڑکے سے ۔۔۔

وہ کہتے ہے  نا  ، کہ انسان کی شکل پہ کبھی نہیں جانا  چاہیے۔

روہنی نے روتے ہوئے پولیس کو کال کرنے كے لیے کہا ، جو  دنیش نے کیا۔

دنیش نے ساری بات پولیس کو جیسے کی تیسے بتا  دی۔

کچھ دیر میں ہی پولیس آئی ، ساری باتیں انہوں نے سنی اور اپنی رائے بھی دی۔

اب چونکہ یہ کڈنیپنگ یا  لائف ایٹ اسٹیک کیس نہیں تھا  اسلئے دنیش کو پولیس نے صبح  اپنی  ایف۔آئی۔ آر  درج کرنے کو کہا۔

فی الحال كے لیے تو دنیش سیف تھا ۔ اُس پہ کوئی بھی حملہ نہیں ہوا تھا۔

اور اگلے ہی دن دنیش نے بالکل ویسا ہی کیا۔ مگر کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ اس کی امید جیسے اب مر چکی تھی۔

اور آج یہی دن تھا جب اس نے راگنی کو فون کرکے بتایا تھا۔ نجانے آگے کیا ہونے والا تھا۔۔۔ اس کی آخری امید اب بس اس کا داماد  ہی تھا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسی دن نندنی كے گھر میں الگ سین چل رہا تھا ۔

” کیا  ویر  ماما ! آپ سے اتنا سا بھی نہیں آتا ہے  “

جوہی ویر کی گود میں بیٹھ کراِس وقت ٹی وی میں گیم کھیل رہی تھی۔۔۔ اور وہ ویر کو بار بار ہرائے  جا رہی تھی ، یا یوں کہیے کہ ویر بار بار خود ہی  ہارتا جا رہا تھا۔

رات ہو چکی تھی اور ابھی سب کا  ڈنر ریڈی ہو رہا  تھا ، جو کہ نندنی اور شریا دونوں مل کے کچن میں تیار کر رہی تھی۔  اور ادھر ویر کی ذمہ داری تھی جوہی کو انٹر ٹین کرنا  جو کہ وہ بخوبی کر رہا تھا ۔

وہ ہنسی مذاق میں لگا ہی ہوا تھا کہ تبھی اندر اس کے من میں ایک گھنٹی بجی ،

ڈنگ ڈانگ۔۔۔۔

مشن : سیو  راگنی۔۔۔ (راگنی کو بچاؤ) !

ریوارڈز : ؟ ؟  پوائنٹس

ٹائم لیمِٹ : 4 آرز

لوکیشن : زززززززز بیسمنٹ ، نیئر ززززززز روڈ ۔۔۔

ویر حیرت سے۔۔۔۔۔۔’ ہو ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

ٹک۔۔۔ٹک۔۔۔ٹک۔۔۔

ایک آدمی کے قدموں کے چلنے کی آواز اس جگہ پر گونج رہی تھی پیروں میں ڈی اینڈ جی کے وہ کالے جینئن لیدر والے فورمل شوز جن کی قیمت لاکھ کے بھی اوپر ہوگی وہ ایسے چمک رہے تھے جیسے بس کچھ سیکنڈز پہلے ہی پالش ہو کر آئے ہوں۔ فلور پر ان جوتوں کی چلنے کی آواز صاف صاف ایک دم کڑک اور فریش سنائی دے رہی تھی اور وہ آواز پہلے سے ہی وہاں کے بھیانک ماحول کو اور بھی ہورر (خوفناک) بنا رہی تھی۔۔۔

 اس نے ایک سفید کوٹ اور سفید پینٹ پہنا ہوا تھا اندر ایک بلو شرٹ۔۔۔ کوٹ کی بریسٹ پاکٹ میں ایک گلاب کا پھول اور سر پر سفید ہیٹ۔۔۔

وہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں یوں چلتا جا رہا تھا کہ اچانک ہی وہ رکا اور۔۔۔

تھڑاخخخ۔۔۔

 ایک زوردار آواز اس فلور پر ایک سٹک کے پٹخنے سے آئی جو اس نے ہاتھوں میں جکڑ رکھی تھی۔۔۔

اور سب کچھ ایک دم سے شانت ہو گیا۔۔۔

اس نے اپنی ہاکی سٹک اٹھائی اور سامنے ماتحت کی اور اپنی سٹک تانتے ہوئے اس سے بولا۔۔۔

’’اب سمجھ آئی نا؟  کیسے کام کرتے ہیں؟‘‘

’’ججج۔۔۔ جی بھاؤ‘‘ سامنے کھڑے ایک لڑکے نے ڈرتے ہوئے کہا ۔’’کتنی بار میں نے تم سے کہا ہے رنگا!؟ یہ کام ایسے نہیں ہوتے ہمارے دیش میں اتنے چونچلے ہیں کہ ایک بار میں کوئی کام ہوتا  ہی نہیں ہے‘‘

رنگا نے اپنا سر ہلایا اور اپنے بھاؤ کی بات میں ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

آتش تمہیں کیا  لگا تھا ؟کہ تم دانش کا شوروم بس اس سے ایسے لکھوا کے لے آؤ گے سائن کروا لو گے اور شوروم میرا ہو گیا؟ارے ایسے نہیں ہوتا میرے چھلے۔ ایسے کام ہونے لگا اپنے دیش میں تو نہ جانے کہاں پہنچ جاؤں میں۔

اپنے باس کی ڈانٹ سن کررنگا نے اپنا سر جھکا لیا۔۔۔

آتش۔۔۔ ’’آتش ہے میرا نام۔۔۔ کیا؟ آتش! اور تم تو جانتے ہی ہو میرے نام کا مطلب۔۔۔؟

 اس نے اپنا سر تھوڑی نیرا شا میں ہلایا اور ایک گہری لمبی سانس  لی ۔۔۔

پھر آنکھیں بند کرکے سانس چھوڑکر اس نے دوبارہ آنکھیں کھولتے ہوئے رنگا کو دیکھا جو ابھی بھی سر جھکائے کھڑا ہوا تھا۔۔۔

آتش ’’رنگا تم بھلے ہی دانش سے کاغذات بنوا کر اس سے لکھوا کے سائن کروا کے لے آئے پر ان سب کے باوجود دانش ابھی بھی چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا  وہ میرے خلاف ایف آئی آر کر سکتا تھا لو ئیر ڈھونڈ سکتا تھا مقدمہ درج کروا سکتا تھا کیا کچھ نہیں کر سکتا تھا اگر۔۔۔

 کہتے ہوئے وہ رک گیا ۔۔۔

رنگا ’’اگر ۔۔۔‘‘

اور اس کا سوال سن کرآتش مسکرایا اور اس کی مسکان کسی شیطان کے جیسی گھناؤنی  ہو رہی تھی۔

 وہ مسکان ایسی تھی جو صاف صاف اپنی جیت کو بیان کر رہی تھی۔۔۔

 آتش’’ اگر اس کی اوقات ہوتی تو۔۔۔ اور اگر اس کا پالا مجھ سے نہ پڑا ہوتا تو۔۔۔‘‘

اس کے اتنا بولنے تک رنگا بس شانت رہا نہ کچھ بولا نہ کچھ کیا۔۔۔

آتش ’’پولیس ہو چاہے وکیل ہوں چاہے نیتا ہوں یا چاہے کوئی بھی ہو اگر وہ ممبئی کے علاقوں سے بھلے بہت ہی واقف ہے تو وہ جانتا  ہی ہوگا کہ آتش کون ہے اور اس سے کیوں نہیں بھڑنا چاہیے۔۔۔‘‘

اس نے بولتے ہوئے دوبارہ ٹہلنا شروع کیا اور ایک بار پھر اس کے جوتوں کی آواز اس جگہ میں گونجنے لگی پر اس بار ساتھ ہی ساتھ اس کے بول بھی گونج رہے تھے۔۔۔

اندازہ  ہو رہا تھا کہ آتش اور اس کے ساتھی کسی غیرآبادبلڈنگ کی بیسمنٹ میں تھے جو کچھ سفید ایل ای ڈی لائٹس سے جگمگ ہوا پڑا تھا۔۔۔

رنگا ’’پربھاؤ۔۔۔ یہ  دانش تو آپ کی ایف آئی آر کرنے گیا تھا۔۔۔‘‘

آتش’’ ہممم! گیا تو تھا ۔۔۔کیوں ہے نا؟ مسٹر دانش؟ گئے تھے نا؟

آتش نے اگلے ہی پل مسکراتے ہوئے اپنا سر سائیڈ میں کرتے ہوئے دیکھا جہاں پر ایک قیدی پہلے سے ہی کرسی پر رسیوں سے بندھے ہوئے بیٹھا تھا۔۔۔

’’مممففہہ۔۔۔مممممم۔۔۔۔‘‘

وہ آدمی اور کوئی نہیں بلکہ دانش ہی تھا جس کے منہ پر اس وقت پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ بس جھٹپٹاتے ہوئے رسی سے چھوٹنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔

آتش ’’ارے رے۔۔۔ دیکھو انکل بیچارے ڈر گئے۔۔۔‘‘

دھیرے دھیرے آتش دانش کی اور بڑھا اور قریب آتے ہی اس کا جبڑا  اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔

’’ مجھے تم سے کوئی نجی دشمنی نہیں تھی پتہ۔ پر کیا ہے نہ جو راستہ میں ڈھونڈ رہا تھا وہ مجھے ملا نہیں اور جو ملا وہ تمہارے سے ہوتے ہوئے جا رہا تھا اس لیے تمہارے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے۔۔۔‘‘

’’ممممفہہہہ۔۔۔‘‘

پردانش یہ سب سن کے صرف ہلنے جلنے کا کام ہی کر سکتا تھا۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page