Perishing legend king-37-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 37

ساتھ ہی شریا جو اس کی مدد کرتے جا رہی تھی۔۔۔

اس نے بڑی ہی نرم آواز میں نندنی کو پکارا۔۔۔

ویر’’ میم۔۔۔!!‘‘

پر نندنی بنا پلٹے ہوئے ہی بولی ’’بس بیٹھو ویر !دس منٹ اور۔۔۔ پھر فٹافٹ سب کو تھالی لگاتی ہوں۔۔۔‘‘

پر اس کے یہ بول ویر کو جانے سے اور باندھ رہے تھے۔۔۔

مایوس ہوتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور ایک بار پھر اس نے دھیرے سے پکارا’’ میم؟!‘‘

اس بار اس کی آواز سن کر دونوں ہی نندنی اور شریا پلٹیں۔۔۔

کیونکہ اس بار۔۔۔

 اس کی آواز میں وہ الگ بات تھی۔۔۔

پکارتے وقت اس کی آواز میں وہ کملتا وہ نرم سا احساس اس بار نہ صرف نندنی کو بلکہ شریا کو بھی محسوس ہوا۔۔۔

اور دونوں ہی جب پلٹیں تو دونوں ہی حیران  رہ گئیں۔۔۔

کیونکہ ویر کا بہت ہی مایوس سا چہرہ ان کی نظروں کے سامنے تھا۔۔۔

نندنی’’ ہوں۔۔۔!؟‘‘

ویر’’ آئی ہیو ٹو گو۔۔۔ کچھ ارجنٹ کام ہے میم۔۔۔‘‘

بولتے ہوئے اس نے ایک پھیکی سی سمیل دی اس کی بات سن کر نندنی اسے کچھ دیر تک دیکھتی ہی رہی اور پھر شریا نے خاموشی توڑی۔۔۔

شریا ’’وٹ؟؟؟ اب تمہیں عین ٹائم پہ کونسا ارجنٹ کام یاد آگیا ؟کہیں پھر سے لڑکی کے چکر کاٹنے جا رہے ہو کیا ؟میں بتا رہی ہوں ہمارے گھر میں پھر سے وہ سب کر کے مت آنا۔۔۔

نندی( زور سے)’’شریاااااااا۔۔۔‘‘

شریا’’ ٹھیک تو کہا میں نے ۔اچانک کھانے کے ٹائم اسے کون سا کام یاد آگیا بھلا؟‘‘

ویر’’ اٹس ارجنٹ!‘‘

شر’’ ہا! آگیا ہوگا بابو شونا کا فون تو چل دیے۔۔۔ اب جا کے گول چھڑے اڑائیں گے۔۔۔

نندنی’’ شریاتم چپ رہو۔ اور باہر جاؤ۔۔۔‘‘

شریا ہوں کرتے ہوئے ویر کو گھورتے ہوئے باہر نکل گئی اور کچن میں صرف نندنی اور ویر ہی بچ گئے۔۔۔

نیدی نے سر جھکایا اور پلٹ کے وہ اپنے کام میں لگ گئی پھر بڑی ہی دھیمی آواز میں بولی ’’جلدی آنا۔۔۔‘‘

اور بس۔۔۔

اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ۔۔۔

 ایک بہت ہی عجیب سا دردویر کو اپنے اندر محسوس ہوا۔ نہ تو نندنی نے اس سے کچھ پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور نہ ہی اسے روکا ۔بس اتنا کہا کہ جلدی آجانا۔۔۔

پتہ نہیں ویر کو کیا ہوا کہ۔۔۔

اس کا ہاتھ اپنے آپ اچانک اٹھا اور نیدی کے کاندھے پر جا کے تھم گیا۔۔۔

اچانک ہی مانو جیسے نندنی کے دل نے ایک دھڑکن پکڑلی ہو۔۔۔

ویر کا ہاتھ اس کے کاندھے پر مہرون گاون کے اوپر آدھا رکھا ہوا تھا اس کی دو انگلیاں اور انگوٹھا اس کے ننگے کاندھے کوچھو رہا تھا۔۔۔

سکن سے سکن کامیل ہوا شاید اس لیے نندنی کے دل کی دھڑکن اچانک ہی تیز ہو گئی۔۔۔

اور اگلے ہی پل اس کے کانوں میں ویر کی آواز پڑی’’ میں پوری کوشش کروں گا میم۔ جتنی جلدی ہو سکے۔۔۔اتنی جلدی آنے کی اور جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے شریا جی کی باتوں کو اگنور کریے گا ۔۔۔اینڈ۔۔۔ اینڈ ۔۔۔تھینک یو۔۔۔‘‘

نندنی کے ہونٹ کھلے پر کوئی شبد نہ نکلے۔ ایک بار پھر اس نے کوشش کی پر پھر وہی ہوا۔۔۔

انت میں اس نے پلٹتے ہوئے کچھ کہنا چاہا پر۔۔۔

ویر سامنے نہیں تھا۔۔۔

وہ جا چکا تھا۔

اورہونٹ سیکوڑتی ہوئی وہ وہیں کھڑی رہی۔۔۔

جب تک کہ کچھ دیر بعد واپس سے کام میں نہیں لگ گئی۔۔۔

ہف۔۔۔ہفف۔۔۔

ادھر ویر سڑک پر بس بھاگتے بھاگتے خود کو ہی کوستا  جا  رہا تھا۔۔۔

کیسے وہ اچھا خاصا گھر کا ماحول بگاڑ کے آگیا۔

(ماسٹر رن!!!!)

’فک!!! آئی ایم رننگ پری۔۔۔ہیلی کاپٹر تھوڑی ہوں۔۔۔‘‘

(کاش آپ نے اپنی چستی پر دھیان دیا ہوتا۔)

’اگر میں نے سارے پوائنٹس چستی میں ڈالے ہوتے تو میں بہت تیز ہو جاتا؟‘

(بالکل بہت تیز ا!)

’او ہ  ہا ہا ہاہا۔۔۔پھر تو کوئی ٹینشن ہی نہیں رہتی۔۔۔ یوں دوڑ کے کہیں بھی پہنچ جاتا۔۔۔‘

(اتنا ایزی سمجھ رہے ہو ؟اگر صرف ایک چستی پہ دھیان دیا ہوتا تو خوب تیز بھاگ تو لیتے پر بھاگنے کے بعد جو ماس پیشیوں میں درد امنڈتا اسے کیسے برداشت کرتے؟)

’ہاوہ؟؟‘

(جتنا تیز بھاگو گے اندر کی ماس پیشیوں پر بھی اتنا ہی زیادہ پریشر پڑے گا اس کے بعد جو درد اٹھے گا اسے کیسے برداشت کرو گے ؟اسی کے لیے تو برداشت کرنے کی طاقت دی گئی ہے آپ کی برداشت کرنے کی اہلیت جس پر آپ نے شروع سے دھیان نہیں دیا۔)

’وٹ دا ہیل ؟پری! اتنے پوائنٹس اب کہاں کہاں ڈالوں۔ ویسے ہی پوائنٹس کی تنگی چل رہی ہے۔‘

(یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔)’ کیا مطلب؟‘

(کچھ بھی نہیں! ماسٹر !وہ رہا بیسمنٹ کا راستہ۔)

نہ جانے کب ویر باتوں ہی باتوں میں کبھی دوڑتے ہوئے تو کبھی کسی سے لفٹ لیتے ہوئے اپنی منزل پہ آخر پہنچ ہی گیا۔

(آر یو ریڈی ماسٹر؟)

’ہمممم!!!‘

(اپنے آپ کو سنبھالو!)

’ہممم!!!‘

(یو ہیو ٹو کل۔۔۔)’ ہاہہ؟؟؟‘

ویر کو نندنی کے گھر سے گئے ہوئے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا  رات کے   8:30 بج رہے تھے اور نندنی اِدھر جوہی اور شریا کو کھانا ڈال رہی تھی مگر اس کی خود کی تھالی ٹیبل پر کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔

شریا:

آپ نہیں کھا رہیں۔

شریا کے سوال پر نندنی نے کھانے کو بیچ میں ہی ڈالتے ہوئے اسے دیکھا اور اس کا ہاتھ اچانک رک گیا ایک لمبی سانس لیتے ہوئے وہ بولی۔

نندنی:

تھوڑی دیر ویٹ کر لیتی ہوں شاید ابھی تھوڑی دیر میں آجائے ورنہ پھر بےچارا اکیلا بیٹھ کے کھائے گا۔

شریا:

ہاں تو؟ ہی ٹوٹلی ڈیزرو دیٹ۔ نہ تو وہ بتا کے گیا ہے کہ کب آئے گا اور نہ ہی یہ بتا کے گیا ہے کہ کہاں گیا ہے؟ ارے تو پھر کہاں گیا ہوگا؟ میں سچی سے بتا رہی ہوں آپ کو۔۔۔کہ یہ گیا ہے اپنی کسی معشوقہ کے پاس اور دیکھنا وہاں ہی ہوگا۔

نندنی :

نہیں شریا! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نندنی نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ شاید اسے اپنے من میں ویر کے وہ باتیں یاد آ رہے تھے۔

“میں پوری کوشش کروں گا میم۔ جتنی جلدی ہو سکے۔۔۔ اتنی جلدی آؤنگا۔۔۔ اور جیسے آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔ شریا جی کی باتوں کو اگنور کریئے گا۔ اینڈ۔۔۔اینڈ۔۔۔ تھینک یو۔

جو الفاظ ویر نے کہے تھے اس سے تو یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی ضروری کام سے ہی گیا تھا۔

شریا:

آپ کو کیسے پتہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے؟ کیا آپ دیکھنے جا رہی ہو؟ کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ اتنا کنفیڈنس کیوں ہے آپ کو؟

نندنی:

بی کاز ہی سیڈ ٹو می (کیونکہ اس نے مجھے کہا) شریا۔۔۔ وہ بس کسی ارجنٹ کام سے گیا ہے۔ آجائے گا ابھی تھوڑی دیر میں۔

 تھوڑی دیر ویٹ کر لیتی ہوں۔ تم دونوں کھاؤ نا کھانا۔

شریا:

دیکھ لینا۔۔۔آخر میں آپ کو ہی برا لگے گا، میری بات سننا ہی نہیں ہے آپ کو۔۔۔

ابھی وہ دونوں مزید باتیں کر پاتی کہ تبھی نندنی کے فون کی گھنٹی بجی اور نندنی نے فون اٹھاتے ہوئے سکرین پر نام دیکھا۔

پرانتو نام دیکھتے ہی اس کی ہونٹ فکر کے مارے سکڑ گئیں اپنی نظر اٹھاتے ہوئے اس نے ایک جھلک شریا اور جوہی کو دیکھا اور پھر اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

اندر آتے ہی اس نے کال اٹھایا اور اپنے کانوں سے لگایا۔

اور دوسری طرف سے اس کے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز آئی۔ ایک مرد کی آواز۔۔۔

نندنی:

ہ ہیل۔۔۔ ہیلو!؟

آدمی :

کل تمہیں آنا ہے۔

نندنی:(تیکھے انداز میں)

کس لیے!؟

آدمی:

بات کرنی ہے۔ ضروری بات۔

نندنی :

پر جو کچھ بھی ہے وہ۔۔۔

آدمی:

میں نے کہا نا؟ گھر پہ آنا ہے۔ دن میں۔۔۔ دو بجے تک۔۔۔

نندنی:

پر جب۔۔۔

آدمی:

ہاں یا ناں ؟؟؟

نندنی:

میں۔۔۔

آدمی( تیز آواز میں ):

میں نے پوچھا ۔۔۔ہاں یا ناں؟ آؤ گی یا نہیں؟

اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے نندنی نے اپنی مٹھی بند کی اور اس آدمی کو جواب دیا۔

نندنی:

ٹھیک ہے!! میں آؤں گی!

آدمی:

ہمممم! لیٹ مت کرنا۔۔۔

نندنی :

ہمممم۔۔۔

کال کاٹ دی گئی۔۔۔

‘کب تک؟ کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا؟؟ مجھے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پر سب کچھ جیسے۔۔۔ میں ویر کو بھی گھر سے ایسے نہیں بھیج سکتی۔

خرچہ بڑھ گیا ہے کافی لیکن ابھی تک۔۔۔ میں اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتی۔ اگر اس کا کوئی رشتہ دار آجائے تب تو کوئی بات ہی نہیں ہے۔ لیکن اس کی فیملی۔۔۔ کیسے کروں گی اتنا سب میں ؟؟

بھگوان۔۔۔

اب تو تم ہی کوئی راہ دکھاؤ۔ میں پھنس چکی ہوں اس چکر میں۔۔۔

نندنی ہاتھوں میں فون لیے اپنے من میں ہی سوچتی جا رہی تھی کہ اس کے ٹھیک پیچھے سے اچانک ہی شریا کی آواز آئی۔

‘کس کا فون تھا ؟‘‘

یہ سنتے ہی نندنی چونکتے ہوئے پیچھے پلٹی۔۔۔

نندنی:

وہ۔۔۔

بولتے وقت اس کا سر اپنے آپ نیچے جھک گیا اور شریا جیسے سمجھ گئی کہ کس کا فون تھا۔

شریا:

اس نے کیا کہا۔

نندنی (آہ بھرتے ہوئے):

کل بلایا ہے مجھے۔۔۔

شریا (حیران ہوتی ہوئی)

کس لیے؟؟

نندنی:

نہیں پتہ۔۔۔لیکن کل جا کے ہی پتہ لگے گی یہ بات۔

شریا:

اور تم نے اسے کہا کہ تم آرہی ہو؟

نندنی:

بالکل! اور کوئی راستہ ہے میرے پاس!؟

شریا:

کیوں ں ں ں  ں ں؟؟؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page