Perishing legend king-38-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 38

نندنی:

شریا! مجھے کرنا ہے۔ سب کچھ۔ اسی کے لیے تو کر رہی ہوں۔۔۔ تم بھی دیکھتی آرہی ہو تب سے۔ میں نے ایک بھی دن ایسا نہیں گنوایا ہے جدھر میں نے اپنا مقصد بھلا دیا جو۔۔۔ بتاؤ تمہیں۔۔۔

شریا :

میں جانتی ہوں لیکن۔۔۔

نندنی:

فکر مت کرو! یہ صرف بات کرنے کیلئے ہے۔ بات کرکے گھر ہی آنا ہے۔

شریا:

ٹھیک ہے!!!! میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔

نندنی:

نہیں ں ں  ں! جوہی کو کون دیکھے گا؟ وہ سکول سے گھر آئے گی تو کسی کو تو رہنا ہوگا نااا ؟

شریا:

لیکن آپ اکیلے۔۔۔

نندنی:

پرسکون ہوجاؤ! سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔

شریا :

او۔۔۔اوکے!

اور شریا مایوسی بھرا چہرہ لیے وہاں سے چلی گئی۔ یہی حال نندنی کا بھی تھا۔ شریا کے جاتے ہی اس کا چہرہ اگلے ہی پل مرجھا سا گیا اور وہ اپنے بستر پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔

نجانے کیا آندھیاں چل رہی تھی اس کے من میں۔ سوال بھی تھے، جواب بھی جنہیں وہ سلجھانا چاہتی تھی، پر ان سب کے باوجود وہ چھوٹی بہن سے سب کچھ شیئر نہیں کر پا رہی تھی۔ چھوٹی بہن کیا، سوائے خود کے وہ سب کے سامنے اپنی اصلی پریشانی کو جیسے چھپا کے رکھی ہوئی تھی۔

جو کچھ بھی تھا، اتنا تو طے تھا کہ آنے والا کل، اس کے لیے آسان نہیں ہونے والا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ادھر ویر مشن کے لیے اپنی بتائی گئی منزل پر پہنچ چکا تھا۔

وہ سنسان سی سڑک، رات کا اندھیرا اور صرف چاند کی روشنی ۔سڑک کے اِدھر اُدھر صرف پیڑ پودے، زمین پر بکھرے پتھر ،سوکھے پتے اور دھول۔ اور ساتھ ہی ساتھ پیڑ پودوں کے نزدیک سے آتی حشرات کی آواز۔ یہی منظر تھا جو ویر کو وہاں پہنچتے ہوئے سب سے پہلے دکھائی دیا۔

کچھ دیر جب وہ آگے بڑھا تو اسے کئی بلڈنگ چھوٹی تو کچھ ہلکی بڑی نظر آئیں۔

 کچھ بند ہوچکی تھیں تو کچھ پوری طرح سے ویران تھیں اور ان کی حالت کسی ویران جگہ سے کم نہیں تھی۔

بلڈنگ کے ڈھانچے ایسے ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے کہیں زمین پر ڈلے تھے تو کہیں کسی سہارے سے لٹکے ہوئے تھے۔۔۔ اندر وہ کنکریٹ سے نکلی ہوئی لوہے کی راڈز جن میں زنگ لگ چکی تھی ان کی کہانی کو بیان کر رہی تھی۔

ٹوٹے شیشے اور اوپر ٹیرس سے نیچے آتی ہوئی پیڑ پودوں کی وہ جڑیں اور لمبی لمبی شاخیں جو اس سے پہلے  ہی ڈراؤنی جگہ کو اور بھی ڈراؤنا بنا رہی تھیں۔

اگر کچھ تھا وہاں پہ سب سے زیادہ مقدار میں تو وہ تھی ہریالی۔

رات میں چاند کی روشنی میں یہ ویران بلڈنگ کیا ہی نظر آرہی تھی آس پاس کے پیڑ پودوں نے جیسے بلڈنگ کو ایک چادر کی طرح لپیٹ لیا تھا۔

ویر اس بلڈنگ کے باہر ہی تھا اور دیکھنے میں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بلڈنگ شاید پہلے کوئی فیکٹری تھی جوکہ سالوں پہلے بند پڑ چکی تھی اس کی جگہ پوری طرح سے بدتر ہوچکی تھی اور سٹرکچر جیسے پورا اجڑ چکا تھا۔

ویر باہر کھڑے بس اندر جانے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا کیونکہ ابھی ابھی کچھ دیر پہلے ہی پری نے اس کی کچھ چند شبد کہہ کے گانڈ پھٹائی تھی اور وہ شبد تھے کہ۔۔۔

اسے مارنا پڑے گا۔۔۔

‘پری تم نہیں سمجھتی! میں نے کبھی کسی کو نہیں مارا۔ یہ مذاق نہیں ہے پری!

ماسٹر ! میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ آپ کو مارنا ہی ہے۔ میں بس آپ کو یہ بتا رہی ہوں کہ اب سے اگر آپ کی جان خطرے میں ہوگی اور اگر آپ کو کوئی مارنے کا ارادہ کرے یا آپ کی لائف کے لیے خطرہ ہو تو آپ کو اسے مارنا ہی پڑے گا اور میں اسی سے آپ کو یہ یقین کروا رہی ہوں کہ اگر سچویشن بنی تو آپ کو مارنا ہی پڑے گا ورنہ آپ سب کچھ کھو بیٹھو گے۔

بیچارے ویر کو کیا ہی پتہ تھا ! وہ تو جانتا ہی نہیں تھا کہ راگنی کس ٹائپ کی مصیبت میں پھنسی ہے۔ اس کے ماں باپ کے ساتھ کیا ہوا ہے اور اس وقت وہ اندر کس حال میں ہے کس کے پاس ہے؟ ان ساری باتوں سے تو ویر بالکل ہی انجان تھا۔

اسے تو بس اتنا پتہ تھا کہ راگنی کسی مصیبت میں ہے اور اسے بچانا ہے۔

‘میں۔ میں سمجھتا ہوں پری لیکن  یہ راگنی بھابھی بھلا ایسی جگہ میں کیا کر رہی ہے؟

انتظار کرو!!! مجھے مت بتاؤ۔۔۔؟ جیسے ہی اس کو اب یہاں آ کے یہ پتہ چلا اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

ہاں! آپ ٹھیک ہوسکتے ہیں ماسٹر۔ مجھے بھی یہی لگ رہا ہے اور اس لیے ہوشیار رہنے کے لیے آپ اپنا فون سائلنٹ میں کر لیجئے۔

گڈ آئیڈیا پری! میں وہی یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کیا بھول رہا ہوں۔۔۔

فون کو سائلنٹ کرکے اسے جیب میں رکھ کر ویر بلڈنگ کے نیچے بنے بیسمنٹ کی طرف بڑھا۔

اس کا دل زور سے دھڑک رہا تھا یہ انجانا ڈر تھا۔ نیچے کیا ہے!؟ کون ہے؟ کیا چیز ہے؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور اسی وجہ سے انجان چیز کا ڈر اس کے دل پر اپنا اثر دکھا رہا تھا۔

‘پری! سب ٹھیک ہو جائے گا!؟

‘میں آپ کی رہنمائی کروں گی ماسٹر۔ بس دھیرے دھیرے آگے بڑھیے دھیان رہے نیچے ایک دم دیکھ کے چلنا ساتھ ہی ساتھ اپنے دائیں بائیں بھی کسی بھی چیز سے آپ ٹکراؤ مت۔ ہمیں آواز نہیں کرنی ہے۔

 ’میں یہ جانتا ہوں، لیکن مجھے یاد دلانے کا شکریہ۔۔۔

وہ جیسے ہی بلڈنگ کے نیچے جاتے اس سلوپ سے نیچے آیا تو اندر ایک ایل ای ڈی بلب جل رہا تھا اور ٹھیک سائیڈ میں ایک سکارپیو گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔

‘یہ سکار پیو یہاں کیا کر رہی ہے !؟ کہیں اسی میں راگنی بھابھی۔۔۔!؟

ہاں ماسٹر! میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ اندر صورتحال کافی گھمبھیر بھی ہو سکتی ہے۔ میں تجویز کروں گی کہ آپ ایک پوشیدہ ہتھیار ڈھونڈ لیجئے اپنا۔ جیسے کوئی راڈ وغیرہ یا کوئی سٹک۔

‘ہاں! میں سمجھ گیا۔۔۔

اپنے قدم دھیرے دھیرے بڑھاتے ہوئے ویر زمین پر اِدھر اُدھر اپنی نظر گھمانے لگا کہ کہیں سے بس کچھ ایسا مل جائے جو اس کی ایمرجنسی کے وقت کم سے کم حفاظت کرنے کے کام آسکے۔

نیچے اتنے پتھر اور بلڈنگ کے ٹوٹے ہوئے حصے پڑے ہوئے تھے کہ دیکھ کر ہی اس کی گانڈ پھٹ رہی تھی کہ کہیں یہ ڈھانچہ گر ہی نہ جائے۔

جیسے تیسے کچھ سیکنڈز کی مشقت  کے بعد اسے جو چاہیے تھا وہ آخر کار اسے مل ہی گیا۔

ایک چھوٹی زنگ لگی ہوئی راڈ جو کہ وہیں سائیڈ میں پتھروں کے نیچے پڑی ہوئی تھی۔

اپنی شرٹ کو اٹھا کے ویر نے اس راڈ کو اپنی پیٹھ کی طرف لے جاتے ہوئے پینٹ میں اڑسا اور شرٹ واپس گراتے ہوئے اسے ڈھک لیا۔۔۔ کم سے کم اس کے پاس اب کچھ تو تھا وہ خالی ہاتھ نہیں تھا۔

اور سکارپیو کے آگے بیٹھتے ہی اس کی نظر دروازے پر گئی جو ایک دم سامنے تھا۔ وہ لوہے کا ہلکا بوسیدہ  دروازہ جسے دیکھ کے ہی ویر بتا سکتا تھا کہ اس کو اگر کھولا تو یہ پکے سے چوں چاں کی آواز کرنے والا تھا۔

ایک دم دھیرے سے کھول کے پہلے اندر نظر ماریے ماسٹر۔

ہممم!!!‘

پری کی بات سن کر ویر نے بالکل ویسا ہی کیا اور جیسے ہی اس کے ہاتھ دروازے پر لگے اور اس نے دروازہ کھولا وہ چوں چاں کی آوازیں کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ سنتے ہی اس کی گانڈ ہی پھٹی، اسے لگا جیسے وہ گیا کیونکہ اگلے ہی پل ایک آواز اندر سے آئی۔

‘کون ہے ؟؟؟‘‘

ایک آدمی کی آواز اندر سے ایسے گونجی کہ ویر کے ہاتھ جو دروازے پر تھے وہ اتنی تیزی سے ہٹے اور اگلے ہی پل وہ پیچھے ہٹا اور دروازے کے سائیڈ کی دیوار کے پیچھے چھپ گیا۔

اور تبھی کسی کے قدموں کی آواز آنے لگی جو ٹھیک اس کی طرف ہی بڑھ رہی تھی۔

سکرنچ۔۔۔سکرنچ۔۔۔سکرنچ

زمین پر پڑے کچرے، پتھر پہ چلتے ان قدموں کی آواز بڑی ہی زور سے آرہی تھی۔

جیسے جیسے وہ قدم آگے بڑھ رہے تھے ویر دیوار سے اپنی پیٹھ لگائے اپنے دل کی دھڑکنوں کو کنٹرول میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں تھا کہ قدموں کے ساتھ ساتھ اس کے دل کی دھڑکنیں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔

ماسٹر۔۔۔

پری نے چنتا بھری آواز میں اسے پکارا،کیونکہ وہ محسوس کر پا رہی تھی۔ ویر کی دھڑکنیں بہت تیز جو ہو گئی تھیں۔

ایک غلط قدم اور کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

ویر اتنا تو بھانپ گیا تھا کہ اندر سے جو بھی آ رہا تھا وہ اس کا خیرخواہ یا دوست تو قطعی نہیں تھا اور جس حساب سے اس نے اندر سے آواز دی اور اب آگے بڑھ رہا تھا ویر جانتا تھا کہ وہ آدمی اسے دیکھتے سے ہی کیا کرنے والا تھا اور بس اسی حملے کی جوابی کاروائی کرنے کے لیے ویر خود کو تیار کر رہا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page