Perishing legend king-41-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 41

نہ ہی اس نے اوپر منہ کر کے راگنی کو دیکھا اور نہ ہی اس سے کچھ کہا۔

دانش ادھر ویوک کی رسیوں کو کھولنے میں لگ گیا۔

جیسے ہی سبھی ان رسیوں کی قید سے آزاد ہوئے۔ راگنی اٹھتے ہی دوڑتے ہوئے دانش کے گلے سے لگ گئی اور سسک سسک کے رونے لگی۔

یہ سب کچھ اس کے لیے بہت زیادہ تھا۔ خاص کر جب اسے آتش کا وہ طمانچہ پڑا تھا۔ اس کے بعد سے ہی راگنی میں ایک ڈر بیٹھ گیا تھا ورنہ اس کے پہلے تو وہ یہی سوچ رہی تھی کہ پولیس آ کے ان سبھی کو بچا لے گی یا یہ غنڈے زیادہ کچھ نہیں کریں گے۔

مگر جب آتش نے اپنے ہی آدمی کے پیر میں گولی چلائی اور بس۔۔۔

یہ دیکھتے ہی راگنی کو سمجھ میں آچکا تھا کہ وہ کتنی بڑی مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے۔

اور اسی مصیبت سے اسے بچانے ویر کسی سُپر مین کی طرح آیا۔ نہ صرف اس نے ان تینوں کی جان بچائی بلکہ اب ویوک کی کمپنی بھی بچ گئی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اب دانش کے کاغذ بھی وہ واپس لے سکتے تھے اور سارے ایویڈنس مٹا سکتے تھے۔

دانش اپنی بچی کو گلے سے لگائے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔آتش کا تمانچہ کھانے کے بعد بیچاری کا پورا گال لال ہو چکا تھا۔ کیسے اس کے موٹے موٹے آنسوں اس کے گالوں سے بہتے ہوئے گر رہے تھے وہ سب کچھ دیکھ پا رہا تھا۔

راگنی:

پاپا۔۔۔

دانش:

میری بچی ۔۔۔تو ٹھیک  توہے نا!؟

راگنی:

میں ٹھیک ہوں پاپا۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں نا!؟ انہوں نے آپ کے ساتھ کچھ کیا تو نہیں نا!؟ کوئی چوٹ تو نہیں آئی  نا آپ کو!؟

دانش:

میں ٹھیک ہوں میری بچی! میں ٹھیک ہوں۔۔۔ کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔۔

ویوک ادھر دونوں باپ بیٹی کو دیکھ کر اب نظریں جھکائے کھڑا تھا،  اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے وہ راگنی کا سامنا کرے، اس نے کچھ دیر پہلے جو کیا تھا اس کی وجہ سے راگنی  حد سے زیادہ خفا  ہوچکی ہوگی اس سے ، اور ویوک کو اب یہی کام کرنا تھا اسے راگنی کو منانا تھا  جیسے بھی کر کے۔۔۔

ابھی وہ کچھ کہہ پاتا کہ تبھی ویر کی آواز ان سبھی کے کانوں میں پڑی۔

ویر:

ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے۔ہمیں جلد سے جلد یہاں سے نکلنا ہوگا۔

ویر کی بات سن کر دانش نے ہاں میں سر ہلایا اور وہ فوراً ہی وہیں ٹیبل میں رکھے سارے اپنے کاغذات اور موبائل میں بنی ویڈیوز کو اٹھانے لگا۔

جب اس نے سب کچھ دیکھ لیا کہ سب صحیح ہیں، اس کے بعد اس نے ویر کو نکلنے کا اشارہ کیا۔

ویر بھی یہ جان کے حیران تھا کہ معاملہ کتنا بڑا تھا۔ یہاں وہ سوچ رہا تھا کہ صرف راگنی ہی مصیبت میں تھی۔ مگر معاملہ تو کئی گنا پیچیدہ تھا، راگنی کے ساتھ ساتھ ویوک اور دانش بھی یہیں تھے اور یہاں تک کہ دانش کی شورومز تک چھین چکے تھے۔

اگلے سیکنڈ ہی سبھی اس ویران بلڈنگ سے باہر نکل کر تیز تیز قدموں کے ساتھ مین روڈ کی طرف جانے لگے۔

اور کچھ ہی دیر میں وہ روڈ کے پاس آچکے تھے اب ان کی نظروں میں کچھ کچھ گاڑیاں راستے میں چلتی نظر آنے لگی تھیں۔

ابھی جو سب سے زیادہ فوقیت کا کام تھا۔ وہ تھا یہاں سے نکلنا کیونکہ کسی بھی وقت ان غنڈوں کو ہوش آسکتا تھا اور وہ ویر اور انہیں ڈھونڈنے آسکتے تھے۔۔۔ اس لیے جتنا جلدی یہاں سے نکل جائیں اتنا بہتر تھا ان کے لیے۔۔۔

کافی دیر تک وہ بھاگتے ہوئے آگے بڑھے تھے اور اب بس صرف پیدل ہی چل رہے تھے کیونکہ دانش تھک چکا تھا۔

ویر سب سے آگے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے راگنی اور باقی سب۔۔۔

اپنے قدموں کی رفتار تیز کرکے اچانک ہی راگنی ویر کی بغل سے آئی اور اس کی چال کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

راگنی :

وی۔۔۔ ویر!؟

بڑی ہی دھیمی سی آواز میں اس نے پکارا مگر ویر کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہ ملا اسے، وہ بس سامنے دیکھ کر چلتا جا رہا تھا، جیسے مانو راگنی اس کے لیے بس ہوا کے جیسی تھی۔

ہونٹ سکیڑتے ہوئے ایک بار پھر راگنی نے بے چینی بھری آواز میں پکارا۔

‘ویر!!‘‘

مگر نتیجہ!؟

 وہی۔۔۔

ویر نے ایک لفظ نہ کہا۔

ادھر ویوک اپنی بیوی کو ویر کے سائیڈ میں دیکھ کر حیران تھا۔

یہ ؟یہ اس سے کیا باتیں کر رہی ہے!؟  ڈیمٹ!  مجھے معاملہ سلجھانا ہوگا ورنہ دیر ہو جائے گی۔۔۔

اور اگلے پل ہی ویوک آگے بڑھا اور ویر کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے اسے روک لیا۔

‘چھوٹے بھائی۔۔۔‘‘

اس نے بڑے ہی بِنا احترام سے اسے پکارا اور ایسے میں ویر کو  رکنا  ہی پڑا۔

ویوک :

چھوٹے بھائی آج تم نے ہم سبھی کو بچایا ہے میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھولونگا بھائی۔۔۔

بغل میں کھڑی راگنی نے جیسے ہی یہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ویوک کتنی آسانی سے جھوٹ بول رہا تھا، مطلب ایک دم سفید جھوٹ۔۔۔

اب راگنی کو سمجھ آرہا تھا کہ اس کا شوہر کس قسم کا ایک دم نِچ اور گھٹیا انسان تھا۔

نہ صرف ویوک نے اتنے سارے منصوبے بناتے ہوئے ویر کو بھگانے میں ساتھ دیا۔ بلکہ آج اس نے اپنی ہی بیوی کی جان کی پرواہ نہ کرکے سیدھی طرح  اسے قربان  کرنے کی ٹھان بھی لی تھی اور اب وہ ویر کو اپنی میٹھی چکنی چپڑی باتوں میں پھر سے پھنسا کر  اسے بہلا  رہا تھا۔

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ایسے ہونگے۔۔۔‘ وہ من میں سوچ کر ویوک اور ویر کے بیچ میں ہی کودنا چاہتی تھی اور بتانا چاہتی تھی کہ اس کا شوہر کتنا جھوٹا اور مکار انسان ہے مگر ویر نے اس کی باتیں سنی ہی نہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی۔۔۔

اسے معلوم ہونا چاہیے۔۔۔ہونا ہی چاہیئے۔ اسے یہ پتہ چلنا ہی چاہیے کیسے بھی کرکے۔۔۔ راگنی نے جیسے ٹھان لیا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔

ویوک:

چھوٹے بھائی! میں جانتا ہوں تاؤ جی تم سے بہت ناراض ہیں اور تمہیں گھر سے نکال چکے ہیں مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں نااا کہ میں اور باقی سب تمہاری پرواہ نہیں کرتے ؟ بھلے ہی میں گھر میں آواز نہیں اٹھا سکتا بھائی۔۔۔مگر آج جو تم نے میرے لیے کیا ہے اسے میں کبھی نہیں بھولوں گا تمہیں جب بھی میری ضرورت پڑے بھائی۔۔۔بےجھجک میرے پاس آجانا اور میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ تاؤ جی کو منا کے تمہیں واپس سے گھر میں لا سکوں کیوں ہے نا  راگنی!؟

مگر راگنی اس کی بات سن کر صرف اسے دیکھتی رہی وہ کچھ نہ بولی اور جیسے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک غصہ تھا، جسے دیکھ کر ویوک عجیب طرح سے بس اپنی نظریں اِدھر اُدھر پھیرتا  رہا۔۔۔

ویر :

کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس بہت ہے۔

اتنا بول کر وہ واپس سے پلٹا اور کچھ قدم چلا ہی تھا کہ راگنی بھاگتے ہوئے اس کے پیچھے سے آئی اور اس کے ہاتھ کو تھام لیا۔

راگنی :

کیوں؟؟؟ کیوں؟؟؟ کیوں ویر!؟ کیوں بچایا تم نے ہمیں!؟

اس نے تیز آواز میں چلاتے ہوئے ویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اور فائنلی۔۔۔

ویر اس کی طرف پلٹا دونوں کی ہی اس بار نظریں ملیں اور راگنی اچانک شانت پڑ گئی اس کے ہاتھوں کی پکڑ بھی ویر کے ہاتھ پر سے ڈھیلی پڑ گئی۔

ویر:

کیوں!؟ کیونکہ اس میں میرا ہی فائدہ تھا۔صرف اپنے لئے۔۔۔

راگنی:

کیسا فائدہ ؟کیا ملا تمہیں ؟ تمہیں تو مجھے اور باقی سب کو نفرت کرنا چاہیے نا !؟پھر کیوں!؟ کیوں تم نے ایسا کیا ؟؟؟

ویر:

میں نے کہا  نااا ! صرف اپنے لئے۔۔۔

راگنی( چلاتے ہوئے):

مجھے اس پر یقین نہیں!!! مجھے نہیں۔۔۔

ویر:

تو پھر نہ کرو یقین۔۔۔اور مجھے اکیلا چھوڑ  دو۔۔۔

راگنی:

کیوں۔۔۔!؟؟؟

مگر اس بار اس کے چلاتے ہی ویر نے اپنی آنکھیں دکھاتے ہوئے اسے دیکھا جس سے بےچاری راگنی تھوڑی ڈر گئی اور اس کی آواز اچانک ہی بند ہوگئی۔

ویر :

میں پھر یہ نہیں کروں گا۔۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو۔

پتہ نہیں کیوں۔۔۔ مگر ویر کی بات سُن کر عجیب سا  درد  ہوا  اسے اندر ہی اندر ، کیسا لگے گا آپ کو جب آپ کی کوئی جان بچانے والا بندہ آپ سے ایسا کہے۔۔۔ تو یہی ہوا تھا راگنی کے ساتھ۔۔۔

اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے وہ بس ویر کو گھورے جا رہی تھی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوں بہہ رہے تھے۔ اسے اپنے سوالوں کے جواب بس چاہیے تھے پھر بھلے ہی ویر  اسے اگنور کردیتا۔ مگر اس نے کچھ بھی  نہ  بتایا۔۔۔

اور یہی سوال راگنی کو اندر ہی اندر کھائے جارہے تھے اس کی جرم کو بڑھاتے جا رہے تھے ۔۔۔اس کی سمجھ میں آ چکا تھا کہ کتنا غلط کیا تھا  اس نے ویر کے ساتھ کتنی بُری بن گئی تھی  وہ کسی کے لیے۔۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page