Perishing legend king-48-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 48

وہ لڑکی اٹھی اور مکان مالکن کی طرف دیکھا۔

عورت:

پی لیا  اس نے؟

لڑکی:

جی  مالکن۔ تھوڑا  سا  پیا ہے۔

عورت:

تم جا سکتی ہو اب۔ اور کل کام پہ جلدی آجانا۔

لڑکی:

جی مالکن۔۔۔

کہتے ہوئے وہ لڑکی باہر چلی گئی۔ یہ لڑکی اس گھر میں کام کاج سنبھالتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ نندنی کے بچے کو کبھی کبھی دودھ پلانا بھی اس کی ذمہ داری تھی۔

اپنے پیارے سے بچے کو دیکھ کر نندنی کے آنکھوں میں آنسوں آگئے وہ اس کا چہرہ چومتے ہوئے اس کے گالوں سے اپنے گال سہلانے لگی، پچکارنے لگی۔

ایک بچہ جنم کے بعد اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے مگر یہاں اس کے بچے کو یہ سکھ بھی نصیب نہیں ہو پا رہا تھا ہسبینڈ وائف کے رشتے کے بیچ کی دراڑ کے چلتے بیچارہ اس کا بچہ اس سکھ سے بالکل محروم تھا اور ساتھ ہی ساتھ نندنی بھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کبھی نندنی نے اپنے بچے کو اپنا دودھ نہیں پلایا تھا مگر ایک ماں جو روز روز اپنے بچے کو اپنی گود میں بٹھا کے پیار سے اسے پستان سے کروا کے لوری گا کے اسے سلاتی ہے اس سکھ سے دونوں ہی نندنی اور اس کا بچہ محروم تھے۔

روتے روتے نندنی وہیں بیٹھ گئی اور اگلے ہی پل اس نے اپنے بلاؤز کو کھول کر اپنا ایک پستان باہر نکالا اور بچے کے منہ کو اس سے لگا لیا۔

جیسے ہی اس کے بچے نے اس کے پستان سے دودھ پینا شروع کیا تو کچھ دیر میں ہی اس کے پستانوں سے دودھ رسنے لگا۔۔۔ بیچاری نندنی کی آنکھوں میں آنسوں اور بھی زیادہ امنڈ آئے۔۔۔ وہ پیار سے پچکارتے ہوئے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے اپنا دودھ پلا رہی تھی مانو جیسے کوئی کبھی بھی اس سے اس کا دھرو چھین لے گا۔

سسک سسک کے روتے ہوئے چپ چاپ وہ بس اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور وہ عورت بھی چپ چاپ بیٹھے ہوئے نندنی کو گھور رہی تھی۔

جیسے ہی دھروو نے دودھ پیا کچھ پل بعد ہی اسے نیند آگئی اور وہ اپنی ماں کی گود میں ہی سوگیا اور اگلے ہی پل وہ عورت اٹھی نندنی کے پاس آئی اور اس کی گود سے دھروو کو اٹھانے لگی۔

نندنی نے اپنے ہاتھ کستے ہوئے دھروو کو پکڑا اور کچھ بولنا چاہا مگر الفاظ بیچ میں ہی کہیں اٹک کے رہ گئے اور وہ عورت نندنی سے دھروو کو چھین کے اپنے ساتھ لے کے بستر پر بیٹھ گئی۔

اپنے بلاؤز کو ٹھیک کرکے نندنی نے اپنے دونوں گالوں سے آنسو پونچھے اور اپنے بچے کے سوتے چہرے کو نہارنے میں لگ گئی۔

اس وقت دھروو کا سوتا پیارا چہرہ دیکھ کر وہ خوش تو بہت تھی مگر ساتھ ہی ساتھ ایک بہت ہی درد بھری ہتھوڑا اس کو اندر سے توڑتی جا رہی تھی۔

پل بھر کے لیے اپنے بیٹے کو تھامنے کا وہ سکھ جیسے اس سے جو چھین لیا گیا تھا۔

ابھی وہ دھروو کے چہرے میں کھوئی ہی ہوئی تھی کہ اس عورت کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اور وہ ہوش میں آئی۔

عورت:

اگر چپ چاپ عورت کی طرح رہتی تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ ہاں! جاؤ اندر اب۔۔۔ کمرے میں۔۔۔ وہ آتا ہی ہوگا نہا کے۔

یہ عورت اور کوئی نہیں بلکہ اس کی ساس چھایا تھی پتہ نہیں ایسا کیا ہوا تھا ان سب کے بیچ جو ایسی دراڑیں بنی ہوئی تھیں رشتوں میں۔

نندنی نہ چاہتے ہوئے بھی جیسے تیسے ہمت کرکے اٹھی اور پلٹ پلٹ کے دھروو کو دیکھتی جا رہی تھی نہ جانے کتنا اور تڑپنا پڑے گا اسے اپنے بچے کو واپس سے تھامنے کے لیے۔

وہ کمرے میں گئی جس کمرے سے وہ کچھ کچھ واقف تھی اس کمرے میں ہی تو وہ دلہن بن کے آئی تھی مگر شادی کے بعد سے ہی جیسے اس کے دکھ شروع ہو گئے تھے۔

سب کچھ پہلے کی ہی طرح لگ رہا تھا کمرے میں وہ فوٹو فریمز وہ دیوار کا رنگ وہ جگہ جگہ رکھا سامان سب کچھ ایک دم پہلے جیسا ہی تھا۔

ابھی وہ بیڈ پر بیٹھی اپنی ساڑھی کے گھیرے کو ہاتھ سے زور سے بھینچے ہوئے تھی اندر سے اس کے دل کی دھڑکن کئی دفعہ تیز ہوچکی تھی اور اگلے ہی پل۔۔۔

کلک۔۔۔۔۔

روم میں ہی موجود باتھ روم کی چٹکنی کھلنے کی آواز آئی اور نندنی کا بدن سہر اٹھا۔

اندر سے ایک آدمی صرف ایک لوور پہنے باہر کمرے میں آیا اور نندنی کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر ایک گندی سی مسکان آگئی۔

آدمی:

آگئی؟ پانچ منٹ لیٹ ہو تم۔۔۔اس نے گھڑی میں دیکھتے ہوئے کہا۔

پر نندنی کچھ نہ بولی بس شانت بیٹھی رہی جیسے ہی نندنی نے اس آدمی کو دیکھا اس کی چھاتی پر بکھرے بالوں کو دیکھ کر نندنی نے اپنی نظریں پھیر لیں۔

وہ آدمی دھیرے دھیرے نندنی کی بغل سے گزرا اور دروازے کے پاس آ کے اس نے۔۔۔

کلک۔۔۔۔۔

 دروازہ اندر سے لاک کر دیا اور اس آواز کو سنتے ہی نندنی کے کان کھڑے ہوگئے وہ اچانک ہی پیچھے پلٹی اور پایا کہ اس آدمی نے ڈور اندر سے ہی بند کر دیا ہے۔

آنکھیں پھاڑے نندنی اس کی یہ حرکت دیکھ رہی تھی اور اپنی ساڑھی کو اور زور سے اس نے بھینچ لیا۔

یہ آدمی کوئی اور نہیں اس کا ہی ہسبینڈ تھا۔۔۔راجت۔

راجت:

کیا ہوا ؟ ہا ہا ہا۔۔۔ پرائیویسی رہے اس لیے بند کیا ہوں۔ تمہیں کیا لگا؟

یہ کہتے ہوئے وہ عجیب ڈھنگ سے مسکرایا جس کے چلتے نندنی اور فکر میں آگئی۔ سہمتے ہوئے اس کی انگلیوں میں پسینہ آنے لگا اور اس کی ساڑھی کا گھیرا ہاتھ میں کسے ہونے کی وجہ سے گیلا سا پڑگیا۔

راجت اس کے پاس آیا اور پھر اس نے بیڈ پہ ایک ٹی شرٹ اٹھا کے پہن لی وہ بغل میں بیٹھا اور نندنی کو دیکھا۔

راجت :

ڈر لگ رہا ہے؟

مگر نندنی کچھ نہ بولی۔۔۔

راجت:

میں نے پوچھا ڈر لگ رہا ہے؟

نندنی نے اس بار سہمتے ہوئے نہ میں سر ہلا دیا۔

راجت (مسکرایا ):

اوہ! تو ڈر نہیں لگتا تمہیں مجھ سے؟ پھر کیا پرابلم ہے میرے ساتھ رہنے میں ہاں؟

نندنی:

مم۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے کس لیے بلایا ہے یہاں؟

راجت:

ہممم! دیکھو! میں جانتا ہوں تم کبھی کامیاب نہیں ہو پاؤگی۔ سیدھے طریقے سے مان جاؤ ایک عورت کی طرح میرے گھر میں رہو اور سب کچھ۔۔۔

نندنی( چلاتے ہوئے ):

عورت کی طرح؟؟ یا  غلام کی طرح؟؟؟

وہ تیز آواز میں چلائی اور راجت کو گھورنے لگی اس کے بول میں نجانے کتنے دنوں کا غصہ بھرا پڑا تھا جو اب باہر آرہا تھا۔

راجت:

غلام؟ نہیں! کون سے غلام کو اس کا مالک اتنی ساری چیزیں لا کے دیتا ہے؟ غلام کا مطلب بھی پتہ ہے  تمہیں؟ غلام کی طرح رکھتا تو زندہ بھی نہ بچتی تم۔۔۔ اس لیے۔۔۔

نندنی( چیخی ):

میں نہیں چاہتی۔۔۔

راجت ایک آہ بھرتے ہوئے بستر سے اٹھا اور بغل میں لگے کلپ بورڈ کے اوپر رکھی کینڈلز کے پاس سے لائٹر اٹھایا۔۔۔

فلک۔۔۔  فلک۔۔۔

لائٹر کو جلاتے ہوئے وہ کینڈلز کو جلانے لگا وہ وہیں رکھی ہوئی تھیں اور یہ دیکھتے ہی مانو جیسے نندنی کو سانپ سونگھ گیا۔

اس کا دل زوروں سے دھک دھک کرنے لگا اتنا ڈر شاید ہی اسے کبھی لگا ہوگا۔

اپنی دونوں ہتھیلی کو مٹھی بنا کے اس نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اسے زور سے بھینچ لیا۔

راجت نے جیسے ہی نندنی کا یہ ری ایکشن دیکھا اس کے ہونٹوں پہ ایک قاتل مسکان پھیل گئی۔

راجت:

گیٹنگ پی ٹی ایس ڈی ؟ ہوں ؟ہاہاہاہاہا۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اس کے پاس آگے بڑھا اور نندنی سرکتے ہوئے تھوڑا پیچھے ہوگئی اس کا سینہ تیز سانسوں کے چلتے زور سے اوپر نیچے ہو رہا تھا۔

راجت:

دیکھو میں چاہوں تو ابھی اسی وقت تمہیں تمہاری اوقات دکھا دوں مگر میں نے تمہیں ایک موقع دیا۔ کیوں؟

کیونکہ مجھے پتہ ہے۔۔۔تم سے کچھ نہیں ہونے والا اور آخر میں جب تم گڑگڑاؤ گی میرے سامنے پھر واپس سے پہلے کی طرح رہو گی وہ دیکھنے لائق ہوگا۔۔۔۔ ہے کہ نہیں۔۔۔؟

اور وہ نندنی کی طرف پھر سے بڑھنے لگتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page