Perishing legend king-75-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 75

راجھستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایٹ آنیسہ ز ہوم۔

ویر :

ہممم ! تو اب بتاؤگی کہ یہ کیا چکر ہے ؟ کیوں مجھے آپ ۔۔۔۔

آنیسہ :

تم کہہ کر بلائیں مجھے مالک ۔۔۔ تم ۔۔۔ تم کہہ كے۔۔۔مہربانی کرو!

شی ۔

ویر ( آہ بھرتے ہوئے ) :

ہممم ! تو اب بتاؤگی کہ یہ سب کیا چکر ہے ؟ کیوں تم ۔۔۔ کیوں تم مجھے مالک کہہ كر بلا رہی ہو ؟

ویر کل کو ہوئی گھٹنا كے بعد من میں  ڈھیر سارے سوال لیے ہوئے تھا۔ اب چونکہ وہ دونوں کا ہی کلیئر مائنڈ تھا ، ویر نے فوراََ ہی سوال پوچھنا سہی سمجھا۔

وہ اِس وقت اسی بستر پر بیٹھا  ہوا تھا جس پہ کل رات دونوں نے ہی رنگ رلیاں منائی تھی ۔اس کے پیرو ں كے پاس اس کی رانوں پر ہاتھ رکھے آنیسہ بیٹھی ہوئی تھی جو صرف مسکرا كے ویر کو دیکھے جا رہی تھی۔

آنیسہ ( اسمائیلز ) :

یہ تو ہونا ہی تھا ایک نا ایک دن مالک !
ویر ( فرونز ) :

کیا مطلب؟

آنیسہ :

 مالک ! یہ تو ہونا  ہی تھا ۔۔۔ جس پل میں نے آپ کا سینہ دیکھا تھا۔

میرا سینہ ! ؟

سوچتے ہوئے ویر نے جیسے ہی اپنے سینے پر نظر ماری تو اسے نظر آیا ۔۔۔۔

اس کا لاکٹ۔ وہی لاکٹ جو اس کی ماں نے اسے دیا تھا۔ یہ قمیض کے باہر تھا۔

‘ہو!؟؟ تو۔۔۔ اسی لیے وہ مجھے ایسے ہی دیکھتی رہی؟ ویر نے اپنے ہاتھوں میں وہ لاکٹ پکڑا ہوا تھا جو سونے کی زنجیر سے بنا ہوا تھا اور اس میں ایک بڑا منفرد نیلا پتھر چپکا ہوا تھا۔

ویر :

تمہارا مطلب ہے یہ ؟ ؟ میرا لاکٹ ؟
آنیسہ: (سر ہلا کر)

جی مالک! صرف یہ! اور آج سے یہ آنیسہ تمہاری لونڈی ہے۔

ہو ؟ ؟ ؟ واٹ د فک ؟ ؟ ڈڈ آئی ہیئرڈ  دیٹ رائٹ  ؟ ‘( کیا میں نے یہ صحیح سنا!؟’)

پری:

 ہاہاہا  یو  ڈونٹ  ناؤ۔

یو جسٹ فاؤنڈ د ڈائیمنڈ ۔۔۔ وہ ہیرے کی انگوٹھی کچھ بھی نہیں ، اصلی ہیرا تو اب آپ کو ملا ہے ماسٹر۔ ہاہا ہا ~ ہو نیڈز آ ڈائیمنڈ رنگ ؟ وین یو کین ہیو آ سلیو ؟ ہاہاہا

(ہاہاہا کسے ہیرے کی انگوٹھی چاہیے؟ جب آپ غلام رکھ سکتے ہیں؟ ہاہاہا)

اوہ کم آن پری ! دس اِز سریس

 پری:

ہاہاہاہاہا
ویر( لاکٹ پکڑتے ہوئے)  :
اس میں ایسا کیا ہے ؟

آنیسہ ( سرپرائزڈ ) :

مالک ؟کیا آپ کو واقعی کچھ نہیں پتہ اس کے بارے میں ؟

ویر :

ہممم ؟ نہیں ! کیوں ؟

آنیسہ ویر کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے مانو کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔

آنیسہ :

مالک ؟ ؟ ؟ یا تو آپ مذاق کر رہے ہو  یا انجان بن رہے  ہو۔

ویر :

دیکھو آنیسہ ۔۔۔۔۔

آنیسہ : ( اسمائیلز )

ویر :

؟ ؟ ؟

آنیسہ :

مجھے اچھا لگا آپ نے آخر کار مجھے میرے نام سے بلایا ۔۔۔ اور میرا یہ خواہش ہے کہ۔۔۔ آگے بھی ۔۔۔ آگے بھی مالک۔۔

ایسے ہی مجھے بلائیں۔

ویر :

ہممم ! ہاں ! تو دیکھو آنیسہ،،،، میں واقعی کچھ بھی نہیں جانتا ہوں۔ تم کیا کہہ رہی ہو میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا ہے۔

آنیسہ :

مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے ! ؟ ہو ! ؟ ؟ ذرا رکیے مالک ۔۔۔۔۔

وہ حیرت سے کچھ سوچتی ہے اور پھر ویر کی طرف دیکھتی ہے۔

آنیسہ :

یہ آپ کو کس نے دیا ؟ آپ کے پاس یہ کیسے آیا ؟

ویر :

ہممم ؟ یہ ! ؟ یہ میری ماں نے مجھے جنم كے وقت پہنایا تھا۔

آنیسہ ( شوکڈ ) :

آپ کی ماں نے ! ؟

ویر ( فرونز ) :

ہممم ! تم۔۔۔ کیا تم کچھ جانتی ہو ؟

آنیسہ :

آپ کی ۔۔۔۔ آپ کی ماں کا نام کیا ہے؟

ویر

 بھاوانہ !
آنیسہ یہ سنتے ہی فوراََ کھڑی ہو گئی ہے اور منہ پھاڑے ویر کو دیکھنے لگی ۔

وہ حیران نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔

آنیسہ

بھاوانہ !؟
دیئر ز سمتھنگ رونگ( ! ’ ‘کچھ گڑبڑ ہے!’)
پری:

 آسک ہر ایوری پوسیبل ڈیٹیل ماسٹر ! سمتھنگ اِس فیشی ! ! !( اس سے ہر ممکن تفصیل سے پوچھیں! کچھ گڑبڑ ہے!!!)

’ یااااااہ ! ! ’

 ویر ( فرونز ) :

تم ! کچھ ضرور جانتی ہو۔۔۔ ہے نا ! ؟
اگلے ہی لمحے ویر کھڑا ہوا، اندر سے دروازہ کنڈی لگا کر لاک کر دیا۔

ویر :

جواب دو!!!

آنیسہ  ہاں میں سر ہلائی اور تیز قدموں كے ساتھ الماری کی طرف بڑھی ، اسے کھولا تو چند لمحوں میں ایک چابی ڈھونڈ كے لائی۔

اس کے بعد وہ نیچے جھکی اور اسی بستر كے نیچے سے اس نے ایک صندوق سے ڈبہ  نکالا۔

آنیسہ کی ہر ایک حرکت ویر دیکھ رہا تھا اور اس کا دِل زور سے دھڑک رہا تھا ۔

 ضرور ،،، ضرور کچھ نہ کچھ اسے پتہ چلنے والا تھا جس کی وجہ سےاسے شاید جھٹکے بھی لگ سکتے تھے۔

اندر ڈبےمیں سے اس نے ایک تصویر نکالی جو فوٹو فریم میں سجی ہوئی تھی اور ویر کی طرف بڑھائی۔
؟؟؟؟ ؟

 
سوالیہ نظریں لیے جیسے ہی اس نے وہ فوٹو دیکھی ۔۔۔۔


اسے دکھائی دیا کہ ایک بے حد ہی شاندار سا محل یا حویلی کہہ لو جو کافی بڑی تھی اور پھولوں سے سجی ہوئی تھی۔

کوئی بھی انسان نہیں تھا فوٹو میں۔ صرف ایک محل جتنی بڑی حویلی ہی تھی۔

ویر ( فرونز ) :

اس کا مطلب کیا ہے ! ؟

آنیسہ :

مالک ! میں آپ کو زیادہ کچھ نہیں بتا سکتی ۔ صرف اتنا ہی بتا سکتی ہوں کہ ۔۔۔۔

میں اور میرا خاندان، میرے آباؤ اجداد  سے لیکر بنیادی طور پر۔۔۔ اس حویلی میں رہنے والے لوگوں کی خدمت کے لیے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ابھی تک درست پیشین گوئیاں کرنا  ناممکن ہے۔

ویر :

کون ہے یہ لوگ ؟ اور یہ حویلی ؟

آنیسہ :

میں نہیں بتا سکتی۔ مجھے معاف کیجیے۔ میں پرعزم ہوں۔ بس اتنا جان لیں کہ میں اور ہمارے آباؤ اجداد اس حویلی کے لوگوں کے خادم تھے اور ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔

ویر :

مگر تم نے ابھی ابھی کہا کہ تم میری داسی۔۔۔۔؟ویٹ ! ! ہو ؟ ؟ جیسے  اسے ریلائیز ہوا ۔۔۔۔

آنیسہ: ( اسمائیلز )

ویر :

اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ۔۔۔ میں اِس حویلی سے ہوں۔۔۔ جوکہ بالکل بھی سچ نہیں ہے ۔

آنیسہ :

یہ جو آپ کے گلے میں ٹانگا ہوا ہے نا ؟ ؟

ویر :

ہمممم !
آنیسہ :

یہ میں نے اِس حویلی میں رہنے والے لوگوں كے پاس دیکھا تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ یہ ان کا بیش قیمتی گہنا تھا۔

ویر : ( سرپرائزڈ)

اگر اِس حساب سے چلے تو ۔۔۔ ڈوزنٹ دیٹ مینز کہ میری ماں۔۔۔۔

وہ اِس حویلی كے لوگوں میں سے ایک تھی ؟
آنیسہ :

(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ویر :

یہ لوگ کہاں ہے ابھی ؟یہ حویلی کدھر ہے؟
آنیسہ :

میں نہیں بتا سکتی  مالک ! میں وچن کرچکی ہوں۔

ویر

اس پر لعنت ! ! ! تو ۔۔۔تو یہ تو بتا سکتی ہو نااا  کہ تمہیں یہ وچن کس نے دیا ؟

آنیسہ:

میری نانی نے ۔۔۔۔

ویر :

نانی ؟  اوکے ! ! گڈ ! تو چلو ۔۔۔کہا ں ہے وہ ؟ ممجھے ان سے ملنا ہے۔

آنیسہ :

معاف کیجیے مگر ۔۔۔۔ وہ اب اِس دُنیا میں نہیں ہے مالک ! ’ 

فکککککک ! ! ! !

دیئر ز سمتھنگ رونگ ! ! اگر آنیسہ کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کا پریوار ان حویلی كے لوگوں کی خدمت کرتا تھا  تو یہاں تو وہ میری سوا کر رہی ہے۔۔۔ صرف میری  لاکٹ دیکھنے كے بعد۔ کیونکہ اس کے حساب سے یہ لاکٹ ان حویلی كے لوگوں کا بیش قیمتی گہنا تھا ۔ تو پھر موم كے پاس کیسے آیا  یہ لاکٹ ؟  ڈڈ شی سٹول اٹ ؟ نو آئی ڈونٹ تھنک سو۔( کیا اس نے چوری کی؟ نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا۔) اس کا مطلب تو بس اسی طرف جا رہا ہے کہ موم ان حویلی والے لوگوں كے بیچ کی ایک عورت تھی۔ یا  پھر انہوں نے موم کو یہ گہنا دیا  ہو ؟ مگر وہ اتنا بیش قیمتی گہنا کیوں دینگے بھلا ؟ اررررررح ! ! ! ’

ویر نے کھجاتے ہوئے اپنے بال نوچے اتنے سارے سوال اُمڈ رہے تھے کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے؟

پری:

فکر نہ کرو! یہ کافی الجھی ہوئی گتھی ہے۔ کم از کم آپ کو اپنی ماں کے بارے میں کچھ معلومات ملی۔

’ یاااااہ نو ویٹ ۔۔۔۔۔۔

کچھ سوچتے ہوئے وہ فوراََ ہی پلٹا اور آنیسہ سے پوچھا ،

تو کیا تم میری ماں کو جانتی ہو ؟ بھاوانہ؟ ”

آنیسہ نے ویر کو دیکھا اورپھر نہ میں سر ہلا دی۔”

آنیسہ :

نہیں مالک ! ! میں انہیں نہیں جانتی ۔

ویر ( فرونز ) :

مگر تمہارے تاثرات تو کچھ اور ہی تھے جب تم نے میرے منہ سے ان کا نام سنا تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page