Perishing legend king-78-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 78

آنیسہ :

اِس بات سے تو جھوٹ بھی شرما جائے۔ مالک ! ضرور کچھ بات ہے۔ مہربانی کریں مجھے بتایئے۔ کککیا۔۔۔ کیا آپ کو ابھی بھی مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے مالک ؟

ویر : (اسمائیلز)

وہ بات نہیں ہے آنیسہ۔۔۔بس ! آج میں بہت خوش ہوں۔

آنیسہ ( فرونس ) :

مگر آپ ۔۔۔۔۔۔

ویر :

میں نے کہا نا کہ۔۔۔۔۔

وہ آنیسہ کی طرف پلٹا اور آگے کچھ کہتا کہ تبھی آنیسہ كے خربوزے جو آدھے اس کے بلاؤز سے جھانک رہے تھے وہ اس کی نظر میں آ گئے۔

اور ویر نے شرماتے ہوئے منہ پھیر لیا۔ یہ وقت اس طرف دھیان دینے کا نہیں تھا۔ مگر جیسے آج اس کی نہیں چلنے والی تھی۔

آنیسہ تھی تو ایک عورت، اور وہ بھی ایکسپیرینس والی ۔ بھلا کسے نہیں بھانپتی وہ کہ اس کے مالک ابھی ابھی کیا دیکھ رہے تھے۔

اپنے ہاتھوں سے اس نے اپنے مالک كے چہرے کو اپنی طرف کیا اور بولی۔

آنیسہ :

ایسے چوری چوری کیوں دیکھنا ؟ جب آپ۔۔۔۔
کہتے ہوئے اس کے خود كے گال سرخ لال پڑگئے اور اگلے ہی پل اس نے ویر کا ہاتھ تھاما  اور اسے اٹھا كے اپنے ادھ ننگی چھاتی سے لگا  دیا۔

آنیسہ :

جب آپ انہیں جب چاہے تب تھام سکتے ہو ؟؟؟

اور بس اس کا اتنا کہنا ہی تھا کہ پتہ نہیں ویر کو کیا ہوا اچانک ہی وہ اندر سے بہت زیادہ گرمی محسوس کرنے لگا۔۔۔ جیسے مانو اُبال سا آ رہا ہو اس کے اندر ایک۔

شٹوواٹ اِز دس فیلنگ ! ؟ آئی-آئی وانٹ ہر۔۔۔ اررے ! ! پری۔
“اٹس ایکٹیوٹڈ آئی گیس”

ہو ! ؟

دی الفا ٹریٹ فنکشن۔

’ حوہ ؟ ککیا کہہ رہی ہو پری ۔۔۔

 آئی ول ایکسپلین لیٹر ماسٹر۔۔۔ ابھی اتنا سمجھ لیجیے کہ یو آر نو لنگر آ بیٹا  میل۔ اب آپ میں ایک الفا میل كے ٹریٹ آنے شروع  ہو جائینگے۔میں بعد میں سمجھاونگی۔ فی الحال۔۔۔

(سسٹم  ہیز  انٹرڈ  اِن  ٹو  دَ سلیپ موڈ )

’ پری ؟ ہو ؟ ؟ ؟ پری ی ی ! ! ؟ ؟
شیٹٹٹ’ ! ! ! !

 “مالک ! ! ! ؟ ” آنیسہ نے اس کے ہاتھوں  کو اور زورسے تھاما  مگر اس کا ایسا کرنا جیسے ویر کو اور بھڑکا رہا تھا۔

آنیسہ۔۔۔۔جاؤ پلیز ڈونٹ۔۔۔جسٹ ڈونٹ!!!۔۔۔۔

وہ کہنا تو چاہتا تھا مگر جیسے اس کے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔

اور جیسے ہی آنیسہ نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ اپنے خربوزے جیسے ممے دبوائے۔۔۔
بس۔۔۔۔

ویر اٹھا  اور آنیسہ کو اس نے دبوچتے ہوئے دروازے كے پاس ہی لگے باتھ روم كے اندر کر دیا  اور خود بھی اندر ہو گیا۔

اس نے اندر سے گیٹ بند کیا اور اس کے بعد آنیسہ كے رسیلے ہونٹوں کو اپنے منہ میں بھرنا  شروع کر دیا۔ آنیسہ اچانک ہوئے اِس وار سے تھوڑی چونکی ضرور تھی مگر آخر میں اس نے اپنے مالک کو پوری طرح سے سپردکرتے ہوئے خود کو ان کے  حوالے  چھوڑ  دیا۔

ہاتھ پھراتے ہوئے اس نے آنیسہ کی ساڑھی کا پلو اس کے سینے سے ہٹایا اور گردن پہ اپنے ہونٹ  رکھ کر اسے چُوسنے لگا۔

آں ں ں ! مالک ! ! ! “

سسکی لیتے ہوئے آنیسہ کی آنکھیں بند ہو گئی۔

اس کے ہاتھ اپنے مالک كے سَر كے پیچھے لپٹ گئے اور وہ اس کے بالو ں کو ہاتھ میں بھرکر سہلانے لگی، اسے اپنے سے  چپکانے  لگی۔

اور پل بھر میں ہی ویر نے اس کا بلاؤز اور برا  نکال كے اس کے خربوزے جیسے ممے کو آزاد کرکے ننگے کر دیئے۔ ان رسیلے خربوزےکو منہ میں بھرتے ہوئے اس نے بڑی ہی بےرحمی سے انہیں نچوڑنا اور چُوسنا شروع کر دیا۔ اور آنیسہ بس سسکیاں لیتی  رہی۔

ویر :

آج تمہیں ایسا چودونگا کہ تمہاری پھدی کی برسوں کی پیاس مٹ جائیگی میری آنیسہ۔۔۔۔ اففففف آنیسہ۔۔۔۔

جوش میں ویر كے منہ سے شہوت بھرے الفاظ نکلنا شروع ہوگئے۔ جو اسے خود نہیں پتہ کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

آنیسہ :

جی۔۔۔ جی مالک!

آنیسہ نے اپنے مالک كے اِس نئے روپ کو دیکھ کرحیرت انگیزی میں خود حامی بھر دی۔
اور ادھر ویر نے  نہ کچھ بولا نہ ہی کچھ سُنا ، اس نے بس آنیسہ کو نیچے بٹھایا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اپنے جینز کی بٹن کھولی، زپ اتاری اور انڈرویئر نیچے کرتے ہوئے اپنا لنڈ آنیسہ كے چہرے كے سامنے کر دیا۔ اس کا لنڈ سپرنگ کی طرح اُچلتے ہوئے ایکدم سے باہر آیا جس کی مدھم سی مہک آنیسہ کی ناک میں پڑی اور وہ پاس آتے ہوئے لنڈ کی مہک کو جی بھر كے سونگھنے لگی۔ اس کی آنکھیں بند ہوچکی تھی اور وہ اِس عجیب احساس میں ڈوبتی چلی گئی۔

ویر کا لنڈ اب کافی بڑا ہوچکا تھا۔ چند چدائیوں کے بعد اب لنڈ واضح پھول چکا تھا۔ویر اپنا  لنڈ آنیسہ كے چہرے پر دھیرے دھیرے پھرا رہا تھا۔  اس کے گالوں  پہ ، اس کے ماتھے پہ ، اس کے ہونٹوں پہ ، اس کی ناک پہ ، ہر جگہ وہ اپنا  لنڈ مَل رہا تھا جیسے مانو لنڈ سے اس کے چہرے پر پیسٹ کر رہا  ہو ۔جیسے مانو وہ  چاہ  رہا ہو کہ بس میرے خفیہ عضو  کی مہک ہی تمہارے چہرے سے آنی چاہیے۔

آنیسہ نے آنکھیں کھول کراپنے مالک كے لنڈ کو اپنے دونوں ہاتھ میں لے کے اٹھایا بالکل ویسی جیسے کوئی تالاب سے اپنے دونوں ہاتھوں میں پانی کو بھرکے اٹھاتا ہے۔
اس نے آگے بڑھ اس کے لنڈ کا وہ لال ٹوپہ اپنے ہونٹوں سے چوما ۔

* چُھو *
اور یہ احساس پاتے ہی ویر کی آنکھیں بند ہوگئی ۔۔۔آنیسہ نے آہستہ آہستہ ہر ایک جگہ پہ اپنی  پپیوں کا  وار جاری رکھا۔

ایسی کوئی جگہ نہیں بچی تھی جہاں پر اس نے اپنے ہونٹوں سے چُوما  نہ  ہو۔ کئی جگہ تو اس کے ہونٹوں کی وہ لال لپسٹک بھی لنڈ پہ چاپ چھوڑ چکی تھی۔ وہ جیسے اپنے ہونٹوں سے ثبوت چھوڑ رہی تھی کہ میں نے اپنے مالک كے لنڈ کو چُوما ہے۔

ویر نے بڑے ہی پیار سے آنیسہ كے سَر پر ہاتھ پھیرا  جیسے مانو وہ اس کی کوئی پالتو بلی ہو۔۔۔ اور ہر بار کی طرح اپنے سر پر ہاتھ کو محسوس کرتے ہی اس کا بدن سحر اٹھا۔ یہ نجانے آج کل اس کے مالک کی نئی عادت بن گئی تھی۔ جب بھی وہ ان سے چپکتی یا ان کے لنڈکو چستی تو ہمیشہ اس کے مالک اس کے سرپر ہاتھ پھیرتے اور نجانے کیوں ۔۔۔۔ ایک سائرن سی دوڑ جاتی تھی آنیسہ كے بدن میں۔

اپنی زبان نکالتے ہوئےآنیسہ نے اپنے  مالک كے ٹٹوں کو چاٹنا شروع کیا۔ ہر بار زبان پھیراتے ہی اس کے ٹٹےبھی اوپر کی طرف اٹھ جاتے اور زبان سے الگ ہوتے ہی وہ نیچے گر جاتے ۔

کبھی وہ انہیں منہ میں بھرتی تو کبھی  پپیاں دیتی۔۔۔ تو کبھی منہ میں بھر كے ہی انہیں چُوستی  اور زبان پھیراتی، اس کی زبان ایکدم گرم تھی اور یہ حرکت ویر کو ساتوی آسْمان پر پہنچا رہی تھی۔

اس گرم گرم گیلی زبان كے  عجیب احساس میں ویر کھویا ہوا تھا۔

اگلے ہی پل آنیسہ نے لنڈ کو اپنے منہ میں بھر لیا اور شروع ہو گئی ویر کی بلو جاب۔
زڑپ  *  * زڑپ  *

شڑپ * * شڑپ*

 کی آوازوں سے آنیسہ کا منہ تیزی سے آگے پیچھے ہو رہا تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ ویر کی پھدیڑوں پر باندھے ہوئے تھے اور اسے سہلا رہے تھے۔ اور ایک ہاتھ کی انگلی سے ویر کی گانڈ چھید  چھیڑ رہی تھی۔

اور ویر بس  ایک عجیب سا مزے میں ڈوبا ہوا،   پیار سے آنیسہ کا سَر سہلائے جا رہا تھا۔ جیسے جیسے وہ سہلاتا ، آنیسہ ا مممم امممم کرکے اپنی آنکھیں بند کر لیتی۔

دیکھتے ہی دیکھتے دونوں كے ہی جسم سے کپڑے اُتَر چکے تھے اور ویر نے کپڑے جہاں صاف جگہ ملی وہی ٹانگ دیئے۔

آنیسہ نیچے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ کراپنے مالک كے لنڈ کی خدمت اپنے منہ سے کر رہی تھی۔  اپنے مالک كے لنڈ کو وہ اپنے زبان سے نہلا رہی تھی ، اسے گیلا کر رہی تھی، چاٹ كے وہ لنڈ کو  صاف کر رہی تھی۔

ویر ( اسمائیلز ) :

کیسا ہے مزہ ! ؟

ویر كے سوال پر آنیسہ نے اپنی نظریں اوپر کی اور بولی ،

آنیسہ

بہت خوب مالک ! میرا بس چلے تو میں اسے اپنے منہ میں ہی رکھے رہو  مالک۔۔۔۔

اممممواہ ہ ہ  *

کہتے ہوئے اس نے ویر کا ٹوپہ زور سے چوسا۔

ویر (تیز سانسیں لیتے ہوئے ) :

میرا بھی من کرے تو میں تمہارے اندر ہی اسے رکھوں۔

اپنا انگوٹھا اس نے آنیسہ كے گلابی ہونٹوں پر پھیرا اور تیز سانسیں لیکر پوچھا،

کیا ہو تم میری آنیسہ ! ؟

آنیسہ جیسے جانتی تھی۔ وہ آج اپنی مالک کی اِس عجیب سوال کا اندازہ لگا  چکی تھی۔ وہ کھڑی ہوئی اور ناگن حالت میں ہی اپنے مالک كے قریب آئی۔  ویر كے سینے میں ایک ہاتھ رکھ کراور دوسرا ہاتھ اس کے لمبے اوزار  پر لے جاتے ہوئے ، وہ اپنے دودھ کے خربوزے اس کی چھاتی پر  ٹکاتے ہوئے کان  كے  قریب  منہ کرکے  بولی،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page