Perishing legend king-88-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 88

دیوالی کی اِس رات میں ہر جگہ خوشیوں کا ماحول تھا۔ اور اِس  وقت اسی شہر كے ایک بڑے سے گھر میں ایک عورت بے حد ہی خوبصورت سی ساڑھی پہنے، تھال لیے، اپنے گھر میں جگہ جگہ دیئے رکھ رہی تھی۔


ہونٹوں پہ مسکان سجائے وہ گنگناتی ہوئی چراغوں سے اپنے گھر کو روشن کر رہی تھی۔تبھی اس کے پیچھے سے ایک کمرے سے بہت ہی خوبصورت سی لڑکی ، بڑی ہی دلکش سی ڈریس پہنے باہر آئی اور بولی،


موم ؟ ؟ ٹیرس پہ رکھ دیئے آپ نے دیئے ؟


عورت :

نہیں بیٹا ! تم رکھ آؤ ۔۔۔میں نیچے رکھ رہی ہوں۔


لڑکی :

اوکے !

اور اتنا بول کر وہ ایکدم سےاوپر چلی گئی اور کچھ دیر میں ہی دیئے رکھ كے نیچے بھی آ گئی۔

 
لڑکی

ہووہ ! ! نجانے کتنے دنوں بَعْد آج اتنا فری ٹائم ملا ہے فیسٹیول سیلیبریٹ کرنے کا ، ہے نا  موم؟ ورنہ ایسا  ٹائیٹ اور بزی شیڈول تھا  اپنا۔


عورت :

ایکدم سہی کہا تم نے بیٹا۔


لڑکی :

اچھا چلو ! موم ! آؤ باہر چل كے تھوڑے پٹاخے پھوڑتےہیں۔میں نے کچھ خریدے   ہیں۔

 
عورت :

کیا تو بھی یہ لے كے بیٹھ گئی ؟ اب اس میں میری کیا ضرورت ! ؟


لڑکی :

واہ ! ایک تو سال میں ایک بار دیوالی آتی ہےاور اب اس میں بھی پٹاخے نہ پھوڑیں؟  اور آپ نہیں چلوگی تو کیا میں اکیلی  بیوقوفوں ٹائپ پھولجڑی  لیے  گھوموں  گی  کیا ؟


عورت ( سائس ) :

اچھا بابا !چل ! تو ماننے والی تو ہے نہیں ؟


لڑکی :

وہی ! ہی ہی ~ تو پہلے ہی آ جاتی۔۔۔


عورت :

ہاں ہاں میری ماں۔۔۔ اب چل!

 
اور دونوں ماں بیٹی نکل كے گھر كے باہر آ گئی جہاں کالونی كے سبھی لوگ بڑے ہی دھوم دھام سے دیوالی منا  رہے تھے۔  بڑے  جہاں کھڑے ہو کر بات کر رہے تھے، ایک دوسرے کو  مبارکباد  دے رہے تھے تو وہیں بچے پٹاخے پھوڑتےہوئے اپنے ہی آنند میں ڈوبے ہوئے تھے۔


ادھر وہ لڑکی بھی پھولجڑی  جلاتے ہوئے جلا كے اپنی ماں کو بھی آگے آکے  پٹاخے پھوڑنے  كے لیے منا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ آس پڑوس کی لڑکیوں سے باتیں بھی کر رہی تھی۔


پر اس کی ماں یعنی کہ وہ عورت ایک مسکان لیے بس پیچھے کھڑی ہوکر ہی سب دیکھ رہی تھی۔ زمین اور انار سے نکلنے والی چمکتی ہوئی چنگاریاں اس کی آنکھوں میں جھلک رہی تھیں۔ حالانکہ نگاہیں صرف وہیں مرکوز تھیں۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔

 
اس کے اندرونی دماغ کا مرکز کہیں اور تھا۔


اور دھیرے دھیرے اس کے ہونٹوں سے وہ مسکان اپنے آپ غائب ہو گئی۔


’ 21 
سال ہوگئے۔۔۔ نہ جانے۔۔۔

جب اس لڑکی نے کچھ لمحے بَعْد پلٹ كے اپنی ماں کو دیکھا تو اسے ایک پل نہیں لگا یہ جاننے میں کہ اس کی ماں کسی چیز کو لیکر پریشان ہے۔


وہ ترنت سب کچھ چھوڑ کراپنی ماں كے پاس آئی اور بولی،


آپ پریشان لگ رہی ہو
موم! ”



عورت

ہااااہ ہ ؟ نہیں ! کچھ بھی تو نہیں!؟

لڑکی ( فرونس ) :

کبھی تو شیئر کر لیا کرو ! ؟ ہو ! ؟ ایسی کون سی باتیں ہے جو سوچتی رہتی ہو اور خود ہی گہرے سوچوں  میں ڈوب جاتی ہو ؟ کیا آپ کو مجھ پہ ٹرسٹ نہیں ہے کیا ؟ ہاں ؟



عورت :

ایک جھپڑ لگاؤنگی ایسی باتیں بولی  دوبارہ تو۔۔۔ اپنی بیٹی پہ ٹرسٹ نہیں ہوگا تو کس پہ ہوگا بھلا ؟


لڑکی :

تو پھر بتاتی کیوں نہیں کہ کیا سوچتی رہتی ہو آپ اکثر ؟


عورت :

بس ۔ کام كے بارے میں بیٹا۔

لڑکی :

مجھے پتہ تھا آپ یہی بولوگی۔ میں چاہے جتنی بار پوچھ لوں ، آپ کا جواب یہی رہتا ہے ۔

* سائس

خیر ! اچھا ! چلیے اب۔۔۔ دیکھیے بغل والی آنٹی آپ کو پوچھ رہی ہے۔۔۔ آئی۔۔۔۔


عورت :

ہممم !

اور وہ دونوں باہر نکل کر  پڑوسیوں كے ساتھ گپ شاپ  میں گُھل مل گئیں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وہیں ممبئی میں بھی اِس وقت کچھ ایسا  ہی  ماحول تھا ۔


خوشی اور مسرت کا ماحول۔


اور یہاں بھی ایک فلیٹ كے باہر ایک عورت اپنے گھر كے  دروازے كے پاس دو دیئے رکھ رہی تھی۔


یہ کوئی اور نہیں ، نندنی ہی تھی ، جو آج لال رنگ کی ساڑھی میں اتنی دلکش اور حَسِین لگ رہی تھی کہ آس پاس کے فلیٹس میں رہنے والے بھی اسے دیکھ رہے تھے۔ 
آخری دیا/شمع  رکھ دینے کے بعد وہ اٹھی اور تھال اندر میز پر رکھ کر  وہ اپنی سینڈل پہننے لگی۔


جب اندر سے اس کی لاڈلی جوہی دوڑتی ہوئی باہر آئی۔ اس کے ننھے ہاتھوں میں ایک پیکٹ تھا جس میں کئی سارے  پٹاخے رکھےہوئے تھے۔


جوہی

مممییی !ممی ! چلو نا جلدی !
چلو ناااا۔۔۔۔


وہ ضد کرتے ہوئے نندنی كے ہاتھ پکڑ کرجب ہلانے لگی تو اندر سے شریا جلدبازی میں نکل كے آئی ،


شریا :

ارے بابا  رکو  ناا  جوہی ! چل تو رہے ہیں۔  اوہ گاڈ ! تم نے ادھر سے اُدھر کركے اتنا پسینہ نکلوا دیا میرا۔۔۔ کہی میک اپ  نہ خراب ہو جائے میرا ۔


آج شریا بھی بےحد سُندر/خوبصورت  لگ رہی تھی۔ سفید اور گولڈن کلر کی ڈریس اُس پہ اتنی زیادہ جچ رہی تھی کہ اس کی ایک ہی جھلک کافی تھی لڑکوں کو اپنے اوپر لٹو کرنے كے لیے۔۔۔

 شریا کی بات پہ دھیان دیتے ہوئے ، نندنی جو وہی بیٹھی تھی بول پڑی ،


نندنی :

ہممم ؟ اینٹی سویٹ میک اپ  بھی آتے ہےشریا۔


شریا

آئی،آئی نو ،،، وہ ،،، وہ برانڈڈ  والے تھوڑے مہنگے آتے ہیں دیدی۔


نندنی :

اوہمممیں تمہارے لیے لے  آؤنگی شریا۔۔۔۔


شریا :

نو نو  نو۔۔۔اٹس۔اٹس ٹوٹلی فائن دیدی۔

(نہیں نہیں نہیں۔۔۔ یہ۔ یہ بالکل ٹھیک ہے۔)

یہ وہی ہے جو میں ترجیح دیتی ہوں۔


نندنی :

مگر۔۔۔۔۔ ! ؟



شریا :

میں نے کہا نااا ! ؟ اٹس فائن دیدی۔

شریا اتنا بول کر اور منہ بند کر کے اپنے ہی خیالوں میں گم ہو گئی۔


“دیدی کتنی پیاری ہے۔ کتنی اچھی ہے۔ شی ناوز کہ۔۔۔ ہماری کیا کنڈیشن ہے۔ اسٹل۔۔۔وہ چاہے میری ہو یا  جوہی یا  موم ڈیڈ کی نیڈز۔۔۔۔

سبھی کی نیڈز كے بارے میں کتنا دھیان رکھتی ہے ۔کبھی وہ اپنے اوپر دھیان نہیں دیتی۔ نہ ہی سوچتی ہے اپنے بارے میں اگر میں انہیں یہ ساڑھی  دلوانے  نہ لے جاتی اور یہاں نہ ہوتی۔ تو پکے سے دیدی نے اپنے اوپر ایک روپیہ تک نہ خرچ کیا ہوتا ۔

شی۔۔۔ آئی تھنک کہ اب میں بہت اچھے سے سمجھ گئی۔ کہ کیوں  ویر یہاں سے چلا گیا

 
ادھر نندنی بھی شریا کی ہی طرح اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ اور دونوں ہی بہنیں اندر سے خود کو قصوروار سا  محسوس کر رہی تھی۔


شریا كے لیے میں اتنا بھی نہیں کر سکتی ؟  آف کورس میں کر سکتی ہوں۔ مگر ۔۔۔ میری بہن ۔۔۔ میری حالت دیکھ کر جان بوجھ كر پیچھے ہٹ رہی ہے ۔میں جانتی ہوں اسے کتنا پسند ہے میک اپ سے لے کر ڈریسز تک۔ سب کچھ برانڈڈ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ۔۔۔ وہ موبائل فون میں بس ان کی پکچرز ہی دیکھتی رہتی ہے۔ اور کبھی کبھی جب موقع ملتا ہے تب اپنے لیے کچھ خرید لیتی ہے۔ کیا میں اپنی بہن كے لیے ۔۔۔ اتنا بھی نہیں کر سکتی ؟  کیا ویر بھی۔۔۔ اسلئے یہاں سے گیا تھا ؟ ہاں! میں ہی شاید۔۔۔۔۔
میں اس قابل نہیں ہوں۔ میں ہی۔۔۔۔

وہ اپنے من سے اور سوال کرتی پر تبھی جوہی کی آواز نے دونوں بہنوں کو ہوش میں لا دیا ،


چلیے نااا مممیی ! ! !ماسسی” !
اور بس۔۔۔۔


پھر کیا تھا۔۔۔بچوں کی ضد كے آگے پیرینٹس ہار مان ہی جاتے ہے اکثر ۔


اور یہی ہوا۔۔۔ جوہی كے ساتھ دونوں شریا  اور نندنی نیچے آ گئی جہاں ان کی سوسائٹی کا کیمپس تھا۔ اور سارے فلیٹس میں رہنے والے لوگ نیچے اُتَر کر کیمپس میں ہی دیوالی کا لطف لے رہے تھے۔


نندنی بھی ایک پلر كے پاس کھڑی شریا اور جوہی كے ہنستے چہرے کو دیکھ کر اُن میں کھوئی ہوئی تھی۔


اچانک ہی اس کی نظر اپنے فون پر گئی جو اس نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا ، کیوں کہ ابھی ابھی اس کا فون وائیبریٹ ہوا تھا۔

موبائل کھولا تو میسیج  نوٹیفیشن دیکھا۔میسیج پر کلک کیا تو  اس میں لکھا  ہوا تھا۔


ہیپی  دیوالی  میم ! ! ’


اور بس۔۔۔ اس ایک میسیج کو دیکھ کر نندنی كے ہونٹوں پہ بنا  اس کے جانے ہی مسکان آ گئی ۔ اپنے فون کو کس كے بھینچ  کر اس نے ٹائپ کرنا شروع کیا۔


مگر پھر۔۔۔۔


اسے جیسے سوجھا ہی نہیں کہ کیا رپلائے دے۔ اس نے پھرسے کی بورڈ کھول کر چیٹ میں کچھ ٹائپ کرنے کا ارادہ کیا۔
مگر ۔۔۔پھر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ بھلا کیسے وہ کنورسیشن آگے بڑھائیں۔

 
انت/آخر میں اس نے ’ ہیپی دیوالی ’  لکھ كے بس سینڈ کر دیا۔

مگر سینڈ کا بٹن دباتے ہی اسے جیسے اگلے ہی پل اپنے اوپر اتنا غصہ آیا  اور خود کو بیوقوف بھی بولنے لگی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page