Princess Became a Prostitute -01- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 01

میرا نام سیما چودھری ہے،لیکن آج دنیا مجھے سیما بائی کے نا م سے جانتی ہے،سیما چودھری سے سیمابائی تک کا سفر ہی اس کہانی کا محور ہے،یہ صرف میری کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں جابہ جا ایسی کہانیاں روزانہ جنم لیتی ہیں،ان کہانیوں کے کردار آپ کے اردگرد سانس لیتے ہیں،درمیانے طبقے اورخاص طور پر ہمارے جاگیردارانہ طبقے میں ایسی ان گنت جیتی جاگتی کہانیوں کی ایک تاریخ رقم ہورہی ہے،بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمار اظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ کیا باتیں لے بیٹھی،لیکن یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے،لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن میں سار ا دوش مرد کو ہی نہیں دوں گی،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے،زیادہ تہمید نہ باندھتے ہوئے میں آپ کو کہانی کی طرف لے چلتی ہوں،اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا،نیٹ پر بہت ساری سیکس سٹوریز پڑھنے کے بعد مجھے بھی خیال آیا کہ آپ سے اپنی آپ بیتی شیئر کروں۔

میرا جنم صوبہ پنجاب کے ایک ایسے گاؤں میں ہوا جہاں جاگیرداری نظام آج بھی اپنے پورے عروج پر ہے،جاگیرداری نظام کی سیاہ کاریوں سے ہر کوئی واقف ہے،میرا باپ ایک روایتی جاگیردار تھا،ہم تین بھائی ہیں،دو بھائی اور ایک بہن،میری پیدائش سے کچھ عرصے بعد میرا چھوٹا بھائی پیدا ہوا،میرا بڑا بھائی مجھ سے پانچ سال بڑا ہے،میری ماں بھی ایک روایتی جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی،جو میرے باپ کی تایا زاد بہن تھی اور محض جائیداد خاندان سے باہر نہ جائے، میرے دادا نے اپنے بڑے بیٹے کی سب سے بڑی اور اکلوتی بیٹی کو چھوٹے بیٹے کے سب سے چھوٹے بیٹے سے بیاہ دیا،میری ماں میرے ابا سے قریب دس سال بڑی تھی،ابا کے تایا کی اور کوئی اولادنہیں ہوئی، ہمارے ہاں لڑکیوں کو صرف اس قدر تعلیم ہی دی جاتی تھی جس سے ان کو لکھنا پڑھنا آجائے،لیکن میر ی ماں اس سے بھی محروم تھی۔

میں نے جب ہوش سنبھالا،تو میرا بڑابھائی پرائمری میں پڑھتا تھا، جو کہ ہرصبح پوری آن بان کے ساتھ قریبی شہر کے بڑے سکول میں ڈرائیور کے ساتھ جاتا،جبکہ اس کے مقابلے میں مجھے گاؤں کے ہی سرکاری سکول میں داخل کروایا گیا،یہاں یہ بتاتی چلوں کہ میری ماں ایک خوبصورت اور حسین عورت تھی اور میں بھی اپنی ماں کی طرح خوبصورتی کا نمونہ تھی،میرے بڑے بھائی میں بھی میرے باپ کی طرح غرور اور اکڑ بہت تھی،اور وہ اکثر مجھے یعنی اپنی چھوٹی بہن کو بھی ڈانٹنے سے باز نہیں رہتاتھا۔

مجھے سکول لے جانے اور لا نے کی ذمہ داری ہمارے خاندانی نوکر جانوچاچا کے بیٹے گلو کی تھی،جو ہرروز مجھے اپنی سائیکل پر سکو ل لے جاتا،گلو ایک نوجوان تھا،جس کی عمر اس وقت شاید بیس سال یا اس سے کم ہوگی،وہ مجھے سائیکل پر  سکول لے جاتے ہوئے اکثر میری کمر پر ہاتھ پھیر دیتا،گھر میں کھانے پینے کی فروانی اور خالص خوراک کی وجہ سے میرا قد کاٹ عمر کے حساب سے باقی لڑکیوں کے مقابلے میں کافی اچھا تھا،میں چونکہ اُس وقت چھوٹی بچی تھی،ان باتوں کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھا،ہاں کبھی کبھی رات کو سوتے ہوئے کھسر پھسر کی آوازوں سے آنکھ کھل جاتی جب ابااور اماں جفت ہوتے،لیکن پھر اماں مجھے تھپکی دے کرسلا دیتی،ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ سکول جاتے گلو میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا،یہ سلسلہ میرے پرائمری پاس کرنے تک جاری رہا،اور پھر مجھے سکول سے اُٹھا دیا گیا،اب میری عمر گیارہ سال ہو چکی تھی،اور اس دوران میرا چھوٹا بھائی بھی سکول جانا شروع ہوگیاتھا۔

ایک دن کی بات ہے گرمیوں کے دن تھے،دونوں بھائی سکول گئے ہوئے تھے،اور ابا بھی کسی کام سے شہر گئے تھے،مجھے رات سے بخار آرہا تھا،لہذا میں اپنے کمرے میں ناشتہ کرکے لیٹی ہوئی تھی کہ بجلی چلی گئی،جس پر میں کمرے سے باہر آگئی،میرے کمر ے کے ساتھ امی ابو کا کمرہ تھا،مجھے پیاس لگی تو میں نے کچن میں جا کر فریج سے پانی پیا،جب پانی پی کر میں کچن سے باہر جانے لگی تو میری نظر کچن کے فر ش پر پڑی،جہاں میری امی کا 40سائز کا کالے رنگ کا برا پڑا ہوا تھا،مجھے اس وقت تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہے،یہ تو بعد میں جب میں نے اپنی چھاتیاں اُبھرنے پر امی کے کہنے پر برا پہننا شروع کیا تو پتہ چلا کہ برا کیا ہوتا ہے،خیرمیں نے وہ برا اٹھایا اور امی کے کمرے کی جانب چل دی،لیکن امی ابو کے کمرے کا دروازہ بند تھا،میں نے دروازے پر دستک دی۔

اندرسے اماں کی آواز آئی ۔۔۔کون

میں نے کہا۔۔۔ میں سیما

اماں نے پوچھا۔۔۔ کیا بات ہے؟

میں نے کہا۔۔۔ اماں آپ اپنے کپڑے کچن میں چھوڑ آئی ہیں۔وہ دینے آئی ہوں

اماں نے کہا۔۔۔میں گلو کی ما ں سے مالش کروا رہی ہوں،ابھی رکو اور میرے کونسے کپڑے کچن میں رہ گئے تھے۔

میں نے کہا۔۔۔ پتہ نہیں یہ کیا ہے دو ڈوریاں لگی ہیں دو گول کٹورے ہیں،کالے رنگ کا کپڑ اہے۔

میری بات سن کر ماں نے ایک دم دروازہ کھولا،میں نے دیکھا ماں پوری ننگی تھی اور اسکے بال بکھرے ہوئے تھے،جبکہ منہ اور سینے پر تھوک لگا ہوا تھا،ماں کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں،اورماں کا قد چونکہ لمبا چوڑا تھا میری طرح ا س لئے مجھے ماں کے عقب میں کچھ نظر نہیں آیا،میں نے اپنی ماں کو اس سے پہلے صرف رات کو ابا کے ساتھ ننگا دیکھ تھا بیڈ پر،لیکن آج پہلی بار دن کی روشنی میں ماں کو ننگا دیکھ کر میں یک دم گنگ ہو کررہ گئی، ماں نے میرے ہاتھ سے فوراً اپنا برا لیا۔

 اور غصے سے کہا۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے میں۔

میں سہم گئی ماں جیسے ہی برا لے کر کمرے کی جانب مڑی تو میں نے دیکھا کہ بیڈ پر ایک میلی سی دھوتی اور مردانہ بنیان پڑے ہیں،مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ مردانہ دھوتی تو چلو سمجھ میں آتی ہے،کیونکہ دیہات میں عورتیں بھی مردوں کی طرح دھوتی باندھتی ہیں،لیکن مردانہ بنیا ن کا کیا کام،خیر ناسمجھی کی الجھن لئے اپنے کمرے میں آگئی،تھوڑی دیر بعد گلو کی ماں میرے لئے ٹھنڈا شربت لے کر جب میرے کمرے میں آئی تو میں نے دیکھا اس نے تو شلوار قمیض پہنا ہواہے۔

میں نے ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔ ماسی تم نے کپڑے بدل لئے اور اما ں کی مالش کرکے فارغ ہوگئی ہو۔

میری بات سن کر گلو کی ما ں بولی۔۔۔ نہیں چھوٹی چوہدرانی جی،میں تو رات سے یہی کپڑے پہنے ہوئے ہو ں،اور میں تو ابھی اپنے باہر کے کام ختم کرکے آپ کے لئے شربت بنا کر لائی ہوں۔

مجھے کچھ شک ہوا کہ اماں نے جھوٹ بولا ہے،یا پھر ماسی جھوٹ بول رہی ہے،خیر جب ماسی شربت دے کر نکلی تو میں دوبارہ اپنے کمرے سے نکل کراماں کے کمرے کی طرف گئی اور جیسے ہی میں دروازے پر دستک دینے لگی تو اندر سے ایسے آواز آئی جیسے کوئی سسکیاں لے رہا ہو،میں نے دروازے سے کان لگا کر غور کیا تو یہ آواز اماں کی تھی،جو سسکیاں لے رہی تھی

ہاہاہااواوووووواف اف ہاہاہاہا تیزتیز تیز کر ظالما پھاڑ دے میری پھدی آج

اماں اس طرح  کی آوازیں نکال رہی تھی مجھے حیرت ہوئی جب ماسی کمرے سے باہر ہے تو اندر اکون ہے جبکہ ابا بھی گھر پر نہیں اتناتو مجھے پتہ تھا کہ اماں اس وقت ویسی ہی آوازیں نکال رہی ہے جیسی رات کو ابا کے ساتھ بیڈ پر ننگی لیٹ کر نکالتی ہے کیونکہ یہ سب میں بہت پہلے سے دیکھتی آرہی تھی، ابھی مجھے دروازے پر کھڑے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ کھٹکا ہو امیں دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گئی دیکھا تو ماسی جنتاں کچن سے نکلی اور سیدھا گھر سے باہر کی طرف چل دی،میں تجس کے مارے دوبارہ اماں کے کمرے کے باہر جا کر دروازے کے ساتھ کان لگا کرکھڑی ہوگئی،اب اماں کے ساتھ ساتھ ایک اور آواز بھی آرہی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

وہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ گلو کے باپ اور ماسی جنتاں کے شوہر شرفو چاچا کی تھی،اس کا مطلب اندر اماں اور شرفو۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟شرفو اور اماں۔

یعنی اماں شرفو کے ساتھ سیکس کررہی تھی،میں ان دونوں کی آواز سن کر پہلے توپریشان ہوئی،اور پھر اسی پریشانی میں یہ بھی بھول گئی کہ دروازہ کبھی بھی کھل سکتا ہے،اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا،تھوڑی دیر اندرسے دونوں کی آوازیں آنا بندہوگئیں اور پھر اچانک دروازہ کھلاتو اماں کا چہرہ نظر آیا،اماں ابھی بھی پوری ننگی تھی اور اماں کی چھاتی،پیٹ اور رانوں پر دانت کاٹے کے نشان نظر آرہے تھے،جبکہ اماں کے چہرے اور بوبس پر سفید لیس دار چیز لگی ہوئی تھی،ماتھے سے پسینہ بہہ کر چہرے پر آرہا تھا،اماں کی جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی تو اس کا رنگ فق ہو گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page