Princess Became a Prostitute -11- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 11

میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی اور اپنے کپڑ ے وغیرہ اور دیگر ضروری سامان ایک بیگ میں رکھ کر بیگ اُٹھائے باہر آنے کے لئے دروازے کی طرف بڑھی،ابھی میں دروازہ کھول کر باہر نکلنے ہی لگی تھی،کہ میرے کانوں میں اماں کی آواز پڑی جو کہہ رہی تھی کہ جمالے نہ کر،ہون میرا دل نئیں کردا،جدوں دی میں رنڈی ہوئی آں،من ای مر گیا اے،ہون تے کجھ وی نیئں کرن دا دل ہوندا،اس پر انکل جمال کی آواز آئی،صائمہ توں کدوں تک اپنٹرا آپ بچاویں گی،توں ہلی جوان ایں،تیرے اندر بلدا بھانبڑ تینوں اک نہ اک دیہاڑے مجبور کردے گا،فیر کی کریں گی،میں نے ہلکا کا دروازہ کھول کر دروازے کی جھری سے باہر دیکھا تو انکل جمال اماں کو اپنی باہوں میں لئے ہوئے تھے،دونوں کی میری طر ف پیٹھ تھی،جبکہ آنٹی راشدہ بھی ایک طرف بیٹھی ان دونوں کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں،اماں اپنا آپ انکل جمال کی باہوں سے نکالنے کی کوشش کررہی تھیں،اور کہہ رہی تھیں جمالے نہ کر،کڑی اندر گئی اے،کسے ویلے وی بار آگئی تے فیر کئی ہووے گا،اس پر انکل جمال نے اماں کے ہونٹوں پر ایک کس دیا اور پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے،لیکن وہ اماں کی مسلسل منتیں کررہے تھے،کہ اماں دوبارہ ان کے ساتھ سیکس کرے،لیکن اماں انکار کئے جارہی تھی،اس پر آنٹی راشدہ بولیں،صائمہ فیر اسی تیرے ولوں نہ ہی سمجھئے،یعنی اسی تیرے کجھ وی نہیں لگتے،آنٹی کی یہ بات کام کر گئی اور اماں نے کہا،راشدہ توں کیویں سوچ لیا کہ تسی میرے کجھ و ی نیئں لگتے،خبردار جے ہون اے گل کیتی توں دوبارہ،یہ کہہ کر اماں نے یکدم آگئے ہوکر انکل جمال کے لن پر ہاتھ رکھ کر ان کے ہونٹوں پر کس کردیا،اور بولی جمالے کدوں اپنٹرے شیر نوں میری بنڈ تے پھدی د ی سیر کراویں گا،اس پر انکل جمال نے اماں کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا،کہ جب میری جان بولے،اس پر اماں نے کہا چلے فیر ٹھیک اے میں کوئی انتظام کردی آں،اماں کی بات سن کرمجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ابھی ابا کو فوت ہوئے چار دن نہیں ہوئے اور اماں جو تھوڑی دیر پہلے انکار کررہی تھی اب کیسے پھدی مروانے کے لئے رضامند ہو گئی،سچ ہی کہا ہے کسی نے پھدی اور لن کی آگ کے آگئے سب چیزیں ہیچ ہیں،یہ پھدی ہی ہے جس نے دنیا کے بڑے بڑے تخت گرا دئیے،یہ پھدی ہی ہے جو عورت کو گھر سے بازار تک لے آئی،یہ پھدی ہی ہے جو ہٹے کٹے چھ فٹ کے مر د کو گھٹنے کیا زبان اور سر بھی ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہے،یہ وہ آگ ہے جو بھڑک اٹھے تو گھروں کے گھر اور شہر کے شہر جلا کر راکھ کردیتی ہے لیکن اس کی تپش پھر بھی کم نہیں ہوتی،خیر بات ہورہی تھی۔اماں اورانکل جمال کی،جو اپنی مستیوں میں مصروف تھے،پھر آنٹی راشدہ اٹھی اور کہنے لگی میں سیما کو دیکھ کر آتی ہوں کہ وہ تیار ہوئی کہ نہیں ان کی بات سن کر میں نے دروازہ بند کردیا اور بیڈ کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی،آنٹی میرے کمرے میں آئیں اور مجھے دیکھ کر بولیں،سیما تم تیار ہو۔میں نے کہا جی آنٹی،اس پر آنٹی واپس مڑ کر کہنے لگیں چلو پھر،جیسے ہی آنٹی دروازے کے پاس پہنچیں،انھوں نے ہلکا سا دروازہ کھول کر اپنی گردن پیچھے موڑی اور اونچی آواز میں مجھ سے پوچھنے لگیں سیما تم نے اپنا سارا ضروری سامان اپنے بیگ میں رکھ لیا ہے نہ،کوئی چیز رہ تو نہیں گئی،میں نے کہا جی سب رکھ لیا ہے اس پر آنٹی نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں آگئے پیچھے چلتے باہر ہال میں آگئے،اصل میں آنٹی دروازے کے پاس جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولی تھیں تاکہ انکل اور اماں سنبھل سکیں،اور وہی ہوا جیسے ہی ہال کمرے میں داخل ہوئے تو انکل اور اماں دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو کر تھوڑے فاصلے پر بیٹھے تھے،اتنے میں دن کے کھانے کا وقت ہو گیا،سب نے کھانا کھایا اور پھر میں ان دونوں کے ساتھ عامر کے گھر آگئی،میں پہلی بار عامر کے گھر آئی تھی،جو ہماری حویلی جتنا بڑا تو نہیں تھا،لیکن پھر بھی دومنزلہ کوٹھی نما گھر تھا،جس میں نیچے کی منزل میں ایک کمرہ آنٹی راشدہ اور ایک عامر کا تھا،جب کہ ان دونوں کمروں کے ساتھ اٹیچڈ باتھ روم اور سامنے ٹی وی لاؤنج تھا،ٹی وی لاؤنج کے سامنے ایک طرف کچن اور باہر چھوٹا سا لان بنا ہوا تھا،جس کے ایک طرف گیسٹ روم تھا،اوپر کی منزل زیادہ تر بند رہتی تھی او روہاں گھر کا غیر ضروری اور فالتو سامان رکھا ہوا تھا،مجھے عامر اور سحرش کے بیڈ روم میں ایک سنگل بیڈ لگا کر دے دیا گیا،کیونکہ عامر اور سحرش کے بیڈ پر دونوں میاں بیوی سوتے تھے،سحرش کا پیٹ کافی پھولا ہوا تھا اور اس نے ایک کھلی سی قمیض پہن رکھی تھی جو اس کے گھٹنوں سے نیچے تک تھی اور لگ یہی رہ تھا کہ سحرش کے بدن پر سوائے اس ایک قمیض کے اور کوئی لباس نہیں،ان کی ڈیلیوری اسی ہفتے کسی بھی وقت متوقع تھی،دونوں میاں بیوی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے،عامر کو دیکھ کر مجھے اپنی پہلی چودائی والی رات یاد آگئی،حالات کچھ ایسے بنے کہ مجھے بعد میں چدائی تو دور کی بات اپنی پھدی میں انگلی کرنا بھی بھول گیاتھا،لیکن پتہ نہیں کیوں عامرکو دیکھ کر میری چوت میں ہلکی ہلکی خارش سی ہونے لگی اور پھدی کے آنسو بہنے لگے،باتوں کے دروان رات کے کھانے کا وقت ہو گیا اور کھانا کھا کر سب لوگ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے،رات کے دس بجے کے قریب آنٹی راشدہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور بولیں مجھے تو نیند آئی ہے،تم لوگ باتیں کرو،جاتے جاتے آنٹی راشدہ عامر کو میری طرف دیکھ کر اشارہ کرگئیں،آنٹی کے جاتے ہی سحرش بھی اپنے کمرے کی طرف جانے لگی اور عامر نے کہا چلو تمہیں کمرے میں چھوڑ آؤں،سیما تم یہاں ہی بیٹھو میں سحرش کو چھوڑ کر واپس آتا ہوں پھر تمہیں اپنا گھر دکھاؤں گا،میں نے کہا جی اچھا،عامر سحرش کو چھوڑ کر واپس آیا تو اس کا لباس بدل چکا تھا،اب وہ ایک شارٹ اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا،باہر آکر عامر نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کہا آؤ جان من تمہیں اپنا گھر دکھاؤں۔عامر کے میرا ہاتھ پکڑنے اور جان من کہنے سے میرے اندر سنسنی سے پھیل گئی،عامر میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لان میں لے آیا،باہر ہلکی ہلکی لائٹس جل رہی تھیں۔عامر نے مجھے پہلے مجھے نیچے کو پورا پورشن گھوما کر دکھایا اور پھر مجھے اوپر کی منزل پر لے آیا اور ایک کمرے کادروازہ کھولا،اندر اندھیرا تھا،عامر نے لائٹ آن کی تو اندر ایک بیڈ رکھا ہوا تھا،اور سائیڈ پر باتھ روم بنا تھا،اندر آتے ہی عامر نے دروازہ لاک کردیااور مجھے پیچھے سے جھپی ڈال لی،عامر کے ہاتھ میرے مموں اور ہونٹ میری گردن کو ناپ رہے تھے،عامر کے ہونٹوں کو لمس اپنی گردن اور ہاتھ اپنے مموں پر محسوس کرتے ہی میری پھد ی نے صدائے احتجاج بلند کردیا،اورلگی آنسو بہانے۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں ان دنوں پیریڈ سے تھی اور چدائی نہیں کرسکتی تھی،لیکن اتنے دنوں بعد ایک مرد کی چھونے سے میری حالت بری ہورہی تھی۔دل تو چاہ رہا تھا کہ عامر کا پورا لن اپنی پھدی میں سما لوں،لیکن ہائے رے مجبوری،عامر دیوانہ وار میری گردن چومے جارہا تھا،نیچے سے اس کا لن جو کھڑا ہو چکا تھا میری چوتڑوں میں گھسے جارہا تھا،عامر نے نیچے ہاتھ کرکے میری قمیض اوپر کی اور میرے ممے برا سے باہر نکال کر انھیں دبانا شروع کردیا،پیریڈ کی وجہ سے میں عامر کر چدائی سے روکنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ عامر کا ایک ہاتھ میری چوت تک پہنچ گیا۔لیکن جیسے ہی اس کا سامنا میری نرم وملائم کومل سی پھدی کی بجائے پیڈ سے ہوا تو وہ یکدم مجھے چھوڑ کر ایسے پیچھے ہوا جیسے اس کو گیارہ ہزار کے وی کا کرنٹ لگا گیا ہو،اورمجھے اپنی طرف گھوما کر بولا،یہ کیا جان من تم نے بتایا ہی نہیں کہ تمھارے پیریڈ ز چل رہے ہیں،عامر کی بات سن کر میں ہنس دی اور بولی آپ نے پوچھنے کا موقع ہی کب دیا جو میں بتاتی،آ پ نے تو کمرے میں گھستے ساتھ ہی حملہ کردیا،عامر برا سا منہ بنا کر بولا میں نے تو سوچا تھا تم آگئی ہو تو مزے کریں گے مل کر،بہت دن سے جوان پھدی نہیں ملی،سحرش کو چود نہیں سکتا اس حالت میں،اور اب نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی،عامر کی بات سن کر میں نے کہا بس عامر دو دن صبر کرلیں پھر جتنا چاہے مزے کرلینا،اس پر عامر نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب میں اس کا کیا کروں،یہ کہہ کر اس نے اپنے کھڑے لن کی طرف اشارہ کیا جو عامر کے شارٹ پر تمبو بنا ہوا تھا،میں نے عامر کے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس کو شارٹ کے اوپر سے ہی سہلانے لگی،لیکن عامر نے کہا ایسے نہیں اس کو منہ میں لے کر ٹھنڈا کرو،یہ کہہ کر عامر نے اپنا لن شارٹ سے باہر نکال لیا اور مجھے گھٹنوں کے بل زمین پر بٹھا کر اپنا لن میرے منہ میں دے دیا،اور لگا میری منہ چدائی کرنے،کچھ لحموں بعد عامر نے اپنا پانی میرے منہ میں ہی نکال دیا،جس کو میں کچھ توپی گئی اور باقی کا باتھ روم جاکر صفائی کرکے باہر آگئی،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page