Princess Became a Prostitute -18- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 18

فائز جو اماں کی بنڈ میں لن دئیے کھڑا تھا بولا،اماں نخرے تو تم ایسے کررہی ہو جیسے پہلے کبھی تم نے گانڈ نہیں مروائی،چپ کرو اور مزے لو،اس پر اماں بولی میں پہلاں بہت وار گانڈ مروائی اے لیکن تیری ورگوں کسے نے انے وا لن اندر نہیں پایا،جیویں توں ڈنگراں وانگوں انڈر واڑ دیتا اے اک ہو واری،یہ کہہ کر فائز نے اماں کی گانڈ میں اپنے لن کو آگئے پیچھے حرکت دیناشروع کردی اور اب اماں کو بھی مزہ آنے لگا اور وہ ہاں تیز تیز شاباش ایویں ای ید میری بنڈ نوں،شاباش میرا لعل پھاڑ دے میری بنڈ نوں،فائز چونکہ ابھی اتناتجربے کار نہیں تھا اور کافی دیر سے اماں کو پہلے لن کا چوپا اور بعد میں پھدی اور اب گانڈ ماررہا تھا تو اس کا بھی پانی نکلنے والا تھا،اس نے اماں کے مموں کو اپنے ہاتھ میں دبا لیا اور اپنے لن کو اماں کی گانڈ کی گہرائی میں اتار کر تیزتیز دھکے لگانے لگا،تھوڑی دیر بعد فائز نے اپنے لن کا پانی اماں کی گانڈ میں ہی نکال دیا اور اماں بھی اس کے ساتھ ہی دوبارہ فارغ ہو گئی،فائز اماں کے اُوپر ہی گر گیا اور دونوں کے جسم پسینے سے شرابور تھے اور ماں بیٹا ایک دوسرے کے اُوپر پڑے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے،پھر فائز اماں کے اُوپر سے ہٹ کر ایک طرف سیدھا لیٹ گیا اور اماں کی طرف دیکھ کر بولا،مزہ آیاگشتی کو،اماں نے جواب دیا،وے کی دساں کنا مزہ آیا اے،انہ مزہ کدی پہلاں نئی آیا،تیرے لن دا سواد وکھرا اے،پھر فائز نے پوچھا اماں تم نے سیما کو کیوں ہمارے ساتھ آنے سے منع کیا آنے ویتی اس کو بھی ہمارے درمیان کون سا پردہ،اس پر اماں نے کہا پتر میں چاندی آں کہ اج رات نوں بس اسی دوایں کھلے مزہ کری ائیے،اس لئی اُنوں منع کیتا اے،تے نالے او ہلی زیادہ عمر دی نہیں تے انوں زیادہ نہ کر،ورنہ اُدی عادت بگڑ جائے گی،توں فی الحال میرے نال مزے کر،یہ سن کر فائز کے چہرے پر تھوڑی مایوسی سی چھا گئی،اماں کی بات سن کر مجھے بھی برا لگااور اماں پر غصہ آیا،لیکن میں اس وقت بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھی،میں نے سوچا اس پر بعد میں فائز سے بات کروں گی،پھر دونوں ماں بیٹے واش روم جانے کے لئے اُٹھے تو میں نے دروازہ بند کردیا،اور اپنے کمرے میں آگئی،مجھے نہیں معلوم فائز اور اماں کی مستیاں رات کب تک چلیں کیونکہ میں اپنے بیڈ پر آئی تو مجھے نیند نے گھیر لیا،صبح میں اپنے معمول کے مطابق جاگی،ناشتے کی میز پر اماں کے ساتھ صرف فائز بیٹھا تھا،فائق بھائی بقول اماں کے صبح سحری کے بعد آکر اپنے کمرے میں سو رہے تھے،ااس کے بعد زندگی معمو ل پر آگئی ہاں اتنا فرق پڑا کہ اب جس دن فائق بھائی رات کو گھر پر نہ ہوتے تو اماں اور فائز کی رات رنگین ہو جاتی،اس دورا ن فائز نے صرف ایک بار میرے ساتھ دن کو چدائی کی وہ بھی اماں اور فائق بھائی قریب کے گاؤں میں ایک میت پر گئے تھے تو ہم دونوں اکیلے تھے،تو فائز نے مجھے میرے ہی کمرے میں چودا،فائز تو میری گانڈ بھی مارنے کے چکر میں تھا لیکن فائز کا لن دیکھ کر میں نے انکار کردیا،دوسرا یہ بھی ڈر تھا کہ اگر کوئی مسئلہ ہوگیا تو اماں کو کیا جواب دیں گے دونوں،میں نے فائز کو اماں والی بات بھی یاد کروائی جس پر فائز نے کہا کہ وہ اگلے ماہ کالج میں داخلہ لے رہا ہے تو وہ اب شہر میں ہاسٹل میں ہی رہے گا تو تم کبھی کبھی مجھے ملنے آجانا ڈرائیورکے ساتھ تو دونوں وہاں کھل کرمزے کریں گے،میں یہ سن کر پہلے تو پریشان ہوئی لیکن جب فائز نے مجھے شہر آکر ملنے کا کہا تو مجھے اطمینان سے ہو گیا،لیکن میں نے فائز سے پوچھا پھر اماں کا کیا ہوگا؟اس کو کون چودے گا تو فائز نے کہا کہ اماں کو چودنے میں مجھے اتنا مزہ نہیں آتا جتنا تم کو چودنے میں آتا ہے،میں اسی لئے ہاسٹل منتقل ہو رہا ہوں تاکہ اماں سے جان چھوٹ سکے،ویسے بھی اماں جمال انکل اور شرفو سیمزے کرلیتی ہے،کچھ دن بعد انکل جمال ہمارے گھر آئے،وہ اکیلے ہی آئے تھے،انھوں نے اماں کو بتایا کہ آنٹی راشدہ کو طبعیت کچھ خراب ہے اور سحرش اپنے بیٹے کی وجہ سے ساس کا خیال صحیح سے نہیں رکھ رہی تو سیما کو میرے ساتھ بھیج دو،ایک ہفتے تک میں واپس چھوڑ جاؤں گا،اماں نے کہا کیوں نہیں،ضرور اور پھر میں اور انکل جمال ان کے گھر آگئے،جہاں آنٹی راشدہ اپنے بیڈ روم میں آرام کررہی تھیں،ان کے گھٹنو ں میں ورم آگیا تھا،جس سے ان کو چلنے پھرنے اور واش روم میں جانے سے مسئلہ ہورہا تھا،آنٹی کو پیشاب کی نالی لگی ہوئی تھی اور پاخانے کے لئے بھی پاٹ رکھا تھا،آنٹی شکل سے تھوڑی کمزور لگ رہی تھی،میں نے آنٹی کا حال احوال پوچھا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گئی،انکل نے مجھے آنٹی کی دواؤں اور کھانے پینے کا سب سمجھایا،اور پیشاب وغیرہ کروانے کا طریقہ بتایا،شام ہو رہی تھی،میں نے سب کے لئے چائے بنائی جو ہم نے آنٹی کے بیڈ روم میں ہی بیٹھ کر پی،پھر انکل جما ل کسی کام سے باہر چلے گئے اور میں آنٹی کے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہی،اچانک آنٹی نے مجھ سے پوچھا،سیما تم نے عامر سے کتنی بار چدوایا ہے،میں یہ سن کر کنگ رہ گئی اور میری زبان بند ہوگئی،میں نے سر جھکالیا،اس پر آنٹی بولیں،بولو نہ شرما کیوں رہی ہو،مجھے سب پتہ ہے،اس پر میں نے آنٹی کو کہا جی ایک بار،آنٹی نے کہا اور اسکے علاوہ کسی کے ساتھ کیا،میرے دماغ میں فائز کا نام آگیا لیکن میں بولی نہیں خاموش رہی اس پر آنٹی نے کہا،کیا ہوا کوئی ہے یا نہیں یا تم بتانا نہیں چاہتی،میں نے اس پر سفید جھوٹ بول دیا اور کہا نہیں آنٹی عامر کے علاو ہ اور کوئی نہیں،اس پر آنٹی مجھے اپنے قریب کرکے کہنے لگیں،جمال کے بارے میں کیا خیال ہے؟میں نے حیران کن نظروں سے آنٹی کو دیکھا تووہ بولیں،سیما یار جمال تم پر مر مٹا ہے خاص طور پر تمھارے موٹے چوتڑوں پر،وہ تمھاری گانڈ مارنا چاہتا ہے،یہ سن کر میری آنکھوں کے سامنے انکل جمال کے لن کا اماں اور آنٹی جمال کے ساتھ ہونے والی چدائی کا منظر آگیا جب انکل نے دونوں کی گانڈ ماری تھی،میں جھرجھری لے کررہ گئی،جس کو آنٹی نے بھی محسوس کرلیا،اور کہنے لگیں،کیا عامر نے تمھاری گانڈ بھی ماری تھی یا ابھی تک کنواری گانڈ لئے پھر رہی ہو،اس پر میں نے انکار میں سر ہلا دیا تو آنٹی خوش ہو گئیں اور بولیں واہ پھر تو آج رات جمال کے مزے،میں ڈر رہی تھی،لیکن آنٹی نے مجھے حوصلہ دیا اور کہا،کہ کچھ نہیں ہوتا،بس پہلی با ر پھدی پھٹنے جتنا درد ہوگا،اور جمال بہت پیار اور آرام سے کرے گا،فکر نہ کرو،میں ہوں نہ تمھارے پاس،ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ انکل جمال بھی آگئے،وہ میرا اور اپنارات کا کھانا لے آئے تھے،آنٹی آج کل پرہیزی کھانا کھاتی تھیں،پھر سب نے ملکر رات کا کھانا کھایا،کھانے کے بعد میں نے آنٹی کو دوا دی اور ان کو پیشاب پاخانہ وغیرہ کروا کر فارغ ہوئی پھر کھانے کے برتن دھونے کچن میں چلی گئی،جب میں کمرے میں واپس آئی تو دروازے کے پاس میرے کانوں میں انکل جمال کی آواز پڑی جو آنٹی سے پوچھ رہے تھے کہ تم نے سیما سے بات کی،میں رک گئی،اور ان کی باتیں سننے لگی،جس پر آنٹی نے کہا ہاں اس کو میں نے راضی کرلیا ہے لیکن تم آرام سے کرنا کیونکہ اس کی بنڈ ابھی کنواری ہے اورتمھارا لن پورا کھمبا،یہ سن کر جمال انکل ہنسے اور بولے فکر نہ کرو میری گشتی بہن تم اپنا بتاؤ جب پہلی بار تمھاری گانڈ ماری تھی تو تمہیں کتنا درد ہوا تھا،اس پر آنٹی راشدہ نے جواب دیا،ہاں مجھے پتہ ہے مرچیں بھر دی تھیں اندر،یہ سن کر انکل جمال زور زور سے ہنسنے لگے،میں بھی اسی دوران اندر داخل ہوگئی،میں نے انجان بنتے ہوئے پوچھا انکل کیا بات ہے کیوں اتنا ہنس رہے ہو،یہ سن کر انکل جمال تو کچھ نہیں بولے البتہ راشدہ آنٹی بولیں،سیما انکل تمھاری وجہ سے ہنس رہے ہیں،میں نے کہا میری وجہ سے کیوں،کیا ہواایسا،اس پر آنٹی نے کہا وہ بات جو شام میں تمھارے ساتھ میں نے کی اس پر ہنسی آرہی ہے جمال کو،یہ سن کر میں نے شرمندہ سا ہو کر اپنا سر جھکالیا،انکل جمال میرے قریب آئے اور میری ٹھوڑی پر اپنی انگلی رکھ میرا چہرہ اُوپر اُٹھا کر بولے اوہو میری جان شرماتی بھی ہے،میں نے کہا انکل چھوڑیں نا، نہ کریں مجھے شرم آرہی ہے آنٹی راشدہ کیا سوچیں گی،اس پر آنٹی راشدہ نے کہا لو میں نے کیاسوچنا ہے،یہ تم دونوں کا آپس کا معاملہ ہے خود ہی طے کرلو،آنٹی کی بات سن کر انکل میرا چہرہ چھوڑ کر میرا ہاتھ پکڑے سامنے رکھے صوفے پر لے گئے اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا،مجھے راشدہ آنٹی کے سامنے جھجھک آرہی تھی اور اسی لئے میں نے انکل کی گود سے نکلنے کی ناکام سی کوشش کی لیکن انکل جما ل کے دونوں ہاتھ میرے پیٹ پر قینچی مار چکے تھے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page