Princess Became a Prostitute -35- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 35

ادھر میں اپنی چوت سہلاتے ہوئے گرم ہو کر آہیں بھر رہی تھی،آہ آہ میرے بہن چود بھائی چود میری گانڈ آہ آہ دم لگا حرامی،گشتی کے بچے،آٓہ آہ باجی سیما بہت مزہ آرہا ہے،او گانڈو اب بھی باجی بولتا ہے،بہن کے دلے،میری بات سن کر فائز ہنسا،اور بولا کیا کروں بچپن سے عادت ہے نہ،اس لئے۔آہ آہ میں گئی،اُف حرامی اب عادت بدل دے،آہ آہ سیما جان میں بھی گیا،اُف اور اسکے ساتھ ہی فائز کے لن میں میری گانڈ اور میری چوت نے میرے ہاتھوں پر پانی چھوڑ دیا،میں نڈھال ہو کر وہیں ڈھ گئی،اور فائز میرے اُوپر گر کر لمبے لمبے سانس لینے لگا،آہ آہ شاہد تیز تیز کرو،اُف آہ آہ عینی کے منہ سے آہیں نکلیں،یہ لے رنڈی آہ اُف اور شاہد نے عینی کی گانڈ کو اپنے لن سے نکلی منی سے بھر دیا،اور وہ دونوں بھی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہانپنے لگے،کچھ دیر بعد ہم دونوں لڑکیاں باری باری واش روم گئیں اور اپنی صفائی کرکے واپس آگئیں،فلم ختم ہو چکی تھی،آدھی رات کا وقت تھا،سب نے ایک ایک سگریٹ پیا،پھر شاہد مجھے لے کر دوسرے بیڈ روم میں آگیا،اور اُس نے سائیڈ ٹیبل سے کوئی گولی نکال کر کھائی، میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ بولا،یہ گولی آج رات تمہیں مزہ کروا دے گی،اُس کے بعد شاہد نے الماری سے نئی شراب کی بوتل نکالی اورسائیڈ ٹیبل پر رکھے گلاس میں شراب ڈالی،اور مجھے لے کر بیڈ پر آگیا،شاہد بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اورمیں اسکی بانہوں میں،شاہد نے گلاس میرے منہ سے لگایا اور کہا تم اپنے منہ سے مجھے پلاؤ،میں نے ایک بڑا سا گھونٹ بھرا اور شاہد نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے لگائے اور میں نے اپنے منہ میں بھری شراب کو اس کے منہ میں انڈیل دیا،پھر شاہد نے گھونٹ بھرا اور اپنے منہ کی شراب کو میرے منہ میں انڈیلنے لگا،ہم دونوں نے آدھے سے زیادہ گلاس ایسے ہی خالی کیا،پھر شاہد نے میرے مموں اورپھدی کو شراب گرا کر تر کیا اور زبان سے چوسنے لگا،مجھے تو شاہد کے ہر انداز سے سرور اور نشہ ہونے لگتا تھا،آہ میری جان میرے عاشق میرے محبوب کیا انداز ہے رتمھارا اُف میں مرگئی،چوس لو اپنی رنڈی کی جوانی کا رس،آہ آہ میں آہیں بھرنے لگی،اور شاہد کے بالوں میں میری انگلیاں چل رہی تھیں،شاہد ایک بات پوچھوں،کیا جان من شاہد نے کہا،کیا تم مجھ سے واقعی پیار کرتے ہو،یا پھر ایسے ہی میرے جسم کے بھوکے ہو،میں نے سوال کیا جو کافی دن سے میرے ذہن میں گردش کررہا تھا کیونکہ میں خود شاہد کی محبت میں مبتلا ہو چکی تھی،جان من بس کیا بتاؤں جب سے تمہیں دیکھا ہے دیوانہ ہو گیا ہوں،تم اور تمھارا جسم دونوں کمال کے ہیں،آئی لویو جان من،شاہد میرے ہونٹ چوم کر بولا،میں بھی تم سے بہت پیار کرنے لگی ہوں،تم بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہو،میں نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا،وعدہ کرو ساری عمر ایسے ہی چاہو گے اپنی جان کو،میں نے شاہد کو گالوں پر پیار دیتے ہوئے کہا،میری جان ساری عمر کس نے دیکھی،ہاں جب تک کا ہمارا ساتھ ہے،تمہیں کھل کر پیار دوں گا،شادی کر و گے مجھ سے؟میں نے آخری پتہ پھینکتے ہوئے پوچھا،میرے شادی کے سوال پر شاہد نے وہی جواب دیا جو میں پہلے بیان کرچکی ہوں،مجھے اس جواب سے مایوسی ہوئی،اور میں سمجھ گئی کہ یہ بھی دوسروں کی طرح صرف میرے جسم کا شکاری ہے،لیکن میں جو شاہد کواپنے دل کے نہاں خانوں میں بسائے نہ جانے کون کون سے خواب بُن بیٹھی تھی،شاہدکا کورا جواب سن کر میری ساری شوخی اور ادائیں دم توڑ گئیں،مجھے اُداس دیکھا کر شاہدنے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور کہنے لگا،سیما جان یہ پیار محبت صرف کتابوں اور فلموں میں اچھا لگتا ہے،اصل حقیقت یہ ہے کہ جوانی مزے کرنے اور لٹانے کا نام ہے،چار دن کی زندگی میں دو دن کی جوانی کو شادی،بچوں اور گھر داری میں گزارنا بھی کوئی زندگی ہے،اصل زندگی تو مزے میں ہے،اس لئے مزے کرو جب تک کرسکتی ہو۔کل کس نے دیکھا،مجھے اور فائز کو دیکھو جب دل کر تا ہے کوئی نہ کوئی نئی لڑکی یا یونیورسٹی کی کوئی کلاس فیلو کو یہاں لا کر مزے کرتے ہیں،اور اب تو لڑکیاں بھی یہی کررہی ہیں،آزادی کا لطف اُٹھارہی ہیں،عینی کو دیکھو،جب موڈ ہو آجاتی ہے،اور نہ صرف ہمارے ساتھ بلکہ عینی کے اور بھی کئی بوائے فرینڈ ز ہیں جو اس کو چودتے ہیں،فائز کو دیکھا نہیں عینی کے ساتھ کتنا خوش ہوتا ہے،اس کواس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی اس کی سگی بڑی بہن ساتھ والے کمرے میں اس کے دوست کی بانہوں میں ہے اوروہ جس لڑکی کو چود رہا ہے وہ خود بھی کئی لوگوں کے ساتھ سو چکی ہے،شاہد اپنی چکی چپٖڑی باتوں سے مجھے بہلا رہا تھا،میں کچھ بھی تھی لیکن اندر سے ابھی اتنی چالاک اور ہوشیار نہ تھی،میری نظر میں مر د او عورت کی اصل زندگی شادی شدہ ہی تھی،کیونکہ یہی ازل سے معاشرے کا دستور تھا،لیکن شاہد کی باتوں سے لگ رہا تھاکہ آج کی نوجوان نسل شادی بیاہ کے بندھن سے آزاد رہ کر اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی،لڑکی ہو یا لڑکا ہر ایک سیکس کے لئے آزادی چاہتا ہے،شادی بیاہ،بچے،گھر داری اور ذمہ داری کے جھنجٹ سے آزاد ہو کر جینا چاہتا تھا،شاہد ہو یا فائز عینی ہو یا کوئی ان جیسے باقی لوگ سب اسی خیال کے حامی تھے،میں جو خواب لئے شاہد کو اپنانا چاہتی تھی وہ سب شاہد نے چکنا چور کردئیے،مجھے اُکتاہٹ سی ہونے لگی،لیکن شاہد جیسے ماہر کھلاڑی بھلا کہاں رات کو بیکار جانے دیتے،شاہد نے مجھے دوبارہ چومنا شروع کردیا،پہلے تو مجھے اُلجھن سی ہوئی اور میں نے شاہد کو روکنا چاہا،لیکن جب اس کی زبان میری پھدی کو چھونے لگی تو میں بھی گرم ہو کر ساری باتیں بھول کر مستی میں گم ہو کر آہیں بھرنے اور شاہد کا سر اپنی رانوں میں دبانے لگی،آہ آہ شاہد اُف چوس لو آہ اُف شاہدنے اپنی زبان میں پھدی میں داخل کرکے زبان چدائی شروع کردی،جس سے میں مزے کی انتہا کو پہنچ کر اپنی گانڈ کو اُٹھا کر اس کے منہ پر دبانے لگی،اور آہ آہ شاہد کے ساتھ جھڑ گئی،شاہد نے میری پھدی کا رس چوس کر ساری پھدی کو صاف کردیا،اور اُٹھ کر ایک گھونٹ شراب کا بھرا اور پھرا دوبارہ شراب سے گلاس کو آدھا بھر کر اپنا لن اُ س میں ڈال دیا اور باہر نکال کر لن کو میرے ہونٹوں پر مارنے لگا میں نے منہ کھول دیا اور شاہد کاشراب سے لتھڑا ہوا لوڑا چوسنے لگی،اب شاہد ہر تھوڑی دیر بعد اپنا لن میری پھدی سے باہر نکال کر شراب کے گلاس میں ڈبوتا اور پھر لن کو میرے منہ میں ڈال دیتا،جس سے مجھے شراب اور لن دونوں کا سواد مل رہا تھا،کچھ دیر بعد شاہد نے اپنے لن کو میری پھدی پر سیٹ کیا اور ایک دھکے سے اندر ڈال دیا،آہ شاہد آہستہ کرو جان،اُف تمھارا سانڈ میری پھدی چیر دیتا ہے، شاہد نے دھکے لگانے شروع کردئیے،اور میں بھی چوتڑ اُٹھا اُٹھا کر اس کا ساتھ دینے لگی،آہ آہ گانڈ و چود سالے حرامی،چود کتے،کیا گدھے کے لوڑے جیسا سانڈ لن ہے تیرا،دم لگا،تیز تیز کر،آہ آہ اُف چود سالے اُف آہ میں گئی تیز تیز کرو بھر دو میری پھدی کو آہ آہ کیا مزہ دیتے ہو،جانو تیز میں گئی آہ کے ساتھ میں نے شاہد کوزور سے جکڑ لیا اور میری پھدی پانی چھوڑنے لگی،شاہد کا لن بھی میری پھدی کا گرم پانی نہ سہہ سکا اور وہ بھی میرے اندر ہی ڈسچارج ہو گیا،شاہد کی ایک بات جس سے مجھے بہت خطرہ تھا اوہ یہ تھی کہ شاہد میری پھدی میں ہی فارغ ہوجاتا تھا ا،ورکنڈوم بھی استعمال نہیں کرتا تھا،جس کا میں نے شاہد نے اُس رات ذکر بھی کیا تو وہ بولا مجھے کنڈوم سے مزہ نہیں آتا اور جب تک اند ر منی نہ نکالوں لگتا ہے مٹھ ماری ہے،پھدی نہیں،کچھ دیر ایسے ہی شاہد میرے اُوپر پڑا رہا،پھر اُس نے اُٹھ کر اپنا مرجھایا ہوا لن دوبارہ شراب کے گلاس میں ڈبویا اوردوبارہ لن کو باہر نکال کر میرے منہ میں دے کر بولا،چل رنڈی صاف کر اس کو لن پر میری اور شاہد کی منی کے ساتھ ساتھ اب شراب بھی لگی ہوئی تھی،میں نے چوس چوس کر لن کو صاف کردیا،پھر شاہد نے گلا س میں بچی ہوئی شراب بھی مجھے پلا دی،مجھے اب کچھ کچھ نشہ سے ہونے لگا تھا،میں نے شاہد کو کہا اب اور نہ پلانا میں سہہ نہیں سکوں گی،شاہد تم بار بار میری پھدی کے اندر فارغ ہوتے ہو،اور کنڈوم بھی نہیں پہنتے،اگر کچھ ہوگیا تو۔۔۔؟؟؟ میرا کیا ہوگا،اس پر شاہد نے کہا جان مین میں ہوں نہ ڈر کس بات کا،میرے ہوتے پریشان نہ ہوا کرو،بس مزے کرو،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page