Princess Became a Prostitute -43- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 43

جبکہ عینی کو اب کامران نے اپنے اُوپر کرلیا تھا،اور وہ کامران کے لن پر اُچھل رہی تھی،ادھر میری پھدی اب پانی چھوڑنے پر آگئی تھی اور میں اپنی گانڈ اُٹھا اُٹھا کر جاوید کے لن کو اپنے اندر سمو نے میں لگی تھی،تیز تیز چود حرامی،بہن چود،دم لگا،یہ اتنا بڑا سانڈ پالا ہوا ہے،زور لگا آہ آہ اُف آہ جاوید آہ میں گئی اور میں نے جاوید کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور میری پھدی جاوید کے لن پر پانی چھوڑنے لگی،بس سالی گشتی ابھی تو مجھے کہہ رہی تھی دم نہیں ہے اور اب خود کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا،مجھے فارغ ہوتا دیکھ کر جاوید جس نے اپنا لن میری پھدی سے باہر نکال لیا تھا بولا،یار تیرا لوڑا ہے اتنا جاندار کہ میری بس کروا دی،ابھی میں اپنی سانس بحال ہی کررہی تھی کہ جاوید نے مجھے اُلٹا کیا اور دوبارہ بنا بتائے میری پھدی کے پانی سے لتھڑا لن میری گانڈ میں ڈال دیا،اور دھکے لگانے لگا،سانڈ جیسے لن کے ایک تیز دھکے سے میری گانڈ میں گھستے ہی مجھے دردہوا،اور میری چیخ نکل گئی،امی بچاؤ،پلیز باہر نکال لو تمھارا بہت بڑا ہے،ہائے میری گانڈ پھٹ گئی،بھائی اس کو ہٹاؤ میں نے فائز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،لیکن فائز نے بجائے میری مدد کرنے کے کہا،سیما جان برداشت کرو اور مزے لو،کچھ دیر بعد میرے ہوش جب ٹھکانے آئے تو مجھے ہلکا ہلکا مزہ آنے لگا،اور میں نے اپنی انگلی سے اپنی پھدی سہلانا شروع کردی،جس سے چند منٹ بعد میں ایک بار پھر فارغ ہوگئی،اور اس کے چند لمحوں بعد جاوید نے اپنا لن میری گانڈ سے نکال لیا اورکھڑا ہوگیا،اس دوران فائز اور کامران بھی اپنے اپنے لن پکڑے کھڑے ہوئے تھے،تینوں نے ہم لڑکیوں کو اپنی طرف رخ موڑنے کو کہا،اور فائز جا کر فریج سے آئس کریم والی ٹرے لے آیا،اورتینوں نے اپنے اپنے لن ہمارے منہ میں ڈال دئیے،اور جب تینوں فارغ ہونے لگے تو اپنے لوڑوں کا رخ آئس کریم کی ٹرے کی جانب کردیا اور تینوں نے منی آئس کریم میں گرا دی،اور ہم تینوں کو وہ آئس کریم چاٹنے کو کہا،ہم نے جب آئس کریم چاٹ لی تو پھر ہمیں ان کی لوڑے بھی چاٹ کر صاف کرنے پڑے،آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا،ہم تینوں لڑکیاں بری طرح تھک چکی تھیں،اور وہیں گدے پر اُلٹی سیدھی لیٹ گئیں،کافی دیر گزر گئی،آدھی رات کے بعد کا وقت تھا۔کہ مجھے پیشاب لگنے لگا،تو آنکھ کھل گئی،جب میں نے اُٹھ کر دیکھا تو عینی تو میرے ساتھ سو رہی تھی اور صوفے پر جاوید ننگا ہی خراٹے مار رہا تھا،لیکن سائرہ،فائزاور کامران غائب تھے،میں واش روم سے ہو کر واپس آئی تو مجھے بیڈ روم سے سسکیوں کی آواز سنائی دی،میں سمجھ گئی کہ اندر سائر ہ کامران اور فائز کے ساتھ چودائی میں مصروف ہے،میں نے بیڈروم کا درواز ہ کھولا اور اندر جھانکا تو بیڈ پر نیچے فائز لیٹا تھا اور اس کے اُوپر سائرہ تھی جبکہ سائرہ کے پیچھے بیڈ کے نیچے کامران کھڑا تھا،سائرہ کی پھدی میں فائز جبکہ گانڈ میں کامران کا لن تھا،ان سب کی نظر مجھ پر پڑی تو کامران نے مجھے بھی اندر آنے کو کہا،میں بھی اندر چلی گئی،فائز نے مجھے سائرہ کے منہ کی طرف آنے کو کہااور جب میں سائرہ کے منہ کے پاس گئی تو فائز نے سائر ہ کو میری پھدی چاٹنے کو کہا،سائرہ نے زبان باہر نکالی اور میری پھدی کو چاٹنے لگی،میں گرم ہونے لگی،اور ایک ہاتھ سائرہ کے سر پر رکھ کر اُسے اپنی پھد ی پر دبانے لگی،آہ آہ سائرہ چاٹ لے،اُف اندر تک ڈالو اپنی زبان آہ آہ او آہ او میں گئی آہ کے ساتھ میں نے سائرہ کے منہ پر پانی چھوڑ دیا،میرا کچھ پانی سائر ہ کے منہ سے ہوتا ہوا نیچے فائز کے چہرے پر گرنے لگا،،جب میں نے اپنی پھدی کو پیچھے کیا تو فائز نے سائرہ کو پہلے تو اس کا منہ چاٹنے کو کہا پھر جب سائر ہ نے فائز کا منہ چاٹ لیا تو فائز نے سائرہ کو نیچے جھکا کر اس کے ہونٹ اور زبان چوسنا شروع کردئیے،میں گو کہ سائرہ کی زبان چسائی سے فارغ ہو چکی تھی،لیکن ان تینوں کی چدائی دیکھ کر مجھے بھی لن لینے کا دل کررہا تھا،کچھ دیر بعد سائرہ کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا،تو ان دونوں نے سائرہ کو ہٹا کر مجھے درمیان میں اس کی جگہ کردیا او ر فائز کا لن میری پھدی اور کامران کا گانڈ میں گھس گیا،دس منٹ کی زبردست چودائی کے بعد دونوں نے ایک بار پھر مجھے فارغ کروا دیا اور اپنے لوڑوں کا پانی میرے اور سائرہ کے منہ میں گرا دیا،اس وقت صبح کے 4بجے سے اُوپر کا وقت ہو چکا تھا،کامران نے فائز کو اشارہ کیا تو وہ سائرہ کو لے کر باہر لاؤنج میں چلا گیا جبکہ مجھے کامران نے اپنی باہوں میں بھر لیا،اور میرے ساتھ مستیاں کرنے لگا،میں نے کہا کیوں دل نہیں بھرا اپنی اور دوست کی بہن چود کر کیا جو پھر سے شروع ہوگئے،تو کامران نے کہا یار تم چیز ہی ایسی ہو دل نہیں بھرتا،میں نے کہا اچھا جی،مطلب مکھن لگا کر ایک بار پھر چودنا چاہتے ہو،اس پر کامران نے اپنے لن کو میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا جان من مکھن میں نے لگا رہا،بلکہ مکھن تو اس میں سے نکلتا ہے،میں نے شرارت میں آکر کامران کے لن کو زور سے دبا دیا،اوہوبہن کی لوڑی کیا کرتی ہے،مارنا کا ارادہ ہے کیا،پیار سے دبا ؤ نا،میں نے کہامیری چیز ہے جیسے مرضی دباؤں،اس پر کامران نے کہا تمھاری چیز ہے وہ تم لے لو اور مجھے میری چیز دے دو،یہ کہہ کر اس نے میری پھدی کو مسلنا شروع کردیا،میں اس کی باتوں اور حرکتوں سے ایک بار پھر گرم ہو گئی اور اُٹھ کر کامران کا لوڑا منہ میں بھر کر چوسنے لگی،ساتھ ساتھ کامران کے موٹے ٹٹے بھی چوسے،اور پھر کامران کے اُوپر آکر اپنی پھدی میں اس کے لوڑے کو سمو کر اچھلنے لگی،کامران بھی نیچے سے اُٹھ اُٹھ کر دھکے لگا رہا تھا،پھر اس نے مجھے اُٹھنے کا کہا،میں نے پوچھا کیوں تو کہنا لگا بتاتا ہوں،کامران نے مجھے ایک طرف کیا اور بیڈ کی دراز سے کنڈوم نکالا اور مجھے لن پر چڑھانے کو کہا،میں نے اس کے لن پر کنڈوم چڑھایا اور پھر کامران نے مجھے گھوڑی بنا کر چودائی کی،اور چونکہ وہ کنڈوم پہنے ہوئے تھا تو میرے اندر ہی فارغ ہو گیا،ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہوئے،کامران میرے اُوپر سے ہٹ کر ایک طرف ہوا اور اپنا کنڈوم نکال کر بیڈ کے پاس نیچے فرش پر پھینک دیا،اور مجھے گلے لگا کر سو گیا،میری بھی آنکھ لگ گئی،دوسرے دن میں جاگی تو دیکھا کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا،میں ایسے ہی ننگی اُٹھ کر باہر لاؤنج میں آئی تو دیکھا،سب لوگ صوفے پر بیٹھے تھے،سب نہا دھو کر تیار ہو چکے تھے،سوائے میرے،مجھے دیکھ کر فائز نے کہا،سیما تم بھی نہا لو،پھر ناشتہ کرتے ہیں میں واش روم چلی گئی،اور نہا دھو کر باہر آکر اپنے کپڑے پہنے،فائز نے ناشتے منگوا لیا تھا،ناشتے کے بعد وہ سب چلے گئے،آج اتوار تھا تو فائزکی چھٹی تھی،فائز مجھے لے کر ہاسٹل آگیا،جہاں سے میں فائق بھائی جو صبح سے شہرآئے تھے،کے ساتھ شام کو گھر آگئی،گھر آکر اماں نے پوچھا کہ کیا ہوا ڈاکٹر کا تو میں نے بتایا سب،یہ شہر سے واپس آنے کے تیسرے دن کی بات ہے،مجھے کمر درد شروع ہوا اور ساتھ طبعیت بھی بوجھل سے ہو گئی،میں سمجھ گئی کہ پیریڈز شروع ہونے والے ہیں،میں نے اماں کو بتایا تو وہ بھی مطمئن ہوگئی،اس بار مجھے چونکہ روٹین سے ہٹ کر پیریڈز شروع ہوئے تھے تو اس لئے ان کا آغاز بجائیصبح یا رات کے شام کو ہوا،اور اس بار میرا خون بھی معمول سے زیادہ نکلا،کافی دن ہو گئے تھے،جمال انکل،راشدہ آنٹی،عامر اور سحر ش سے ملے،ایک دن میں نے اماں سے ذکر کیا تو اماں میری بات سن کر مسکرائی اور کہنے لگی،لگدا اے تیری پھدی نوں لن چاہی دا اے،ایسے لئی یاد پی کردی اے انہاں نوں،میں نے کہا اما ں وہ تو ہو گا جب ملیں گے،تم سناؤ کوئی ملاقات ہوئی جمال انکل سے،تو اماں بولی ہاں آیا سی دو دن پہلاں،جدوں توں شہر گئی سیں،میں نے کہا اس کا مطلب اماں تم نے مزے کئے میرے پیچھے،اس پر اماں نے مجھے ہلکی سے دھپ مارتے ہوئے کہا،میں مزے کیتے نے تے توں کیڑا شہر جا کے اپنڑی پھدی تے بنڈ نوں جندرا لایا سی،مینوں سارا پتہ اے،فائز نے مینوں فون کرکے دسیا سی،میں نے کہا اماں ویسا شہر کا اپنا مزہ ہے،کیوں نہ ہم بھی وہیں منتقل ہو جائیں،فائز کو بھی سہولت ہو جائے گی اپنے گھر کی،اماں بولی،کہندی تے توں ٹھیک ایں،پر فائق نیئں منے گا،دوجی گل اے وے کہ اتھے ساڈی جاگیرداری اے،ایس لائی نہیں جا سکدے،ہاں اک گل ہو سکدی اے کہ توں تے فائز شہر گھر لیہ لوؤ،میں تے فائق اتھے ای رہندے آں،اماں کی بات سن کر میں خوش ہو گئی،اماں نے ایک تیر سے دو شکا ر کرنا چاہے تھے،مجھے شہر منتقل کرکے وہ یہاں اکیلے مزے کرنا چاہتی تھی،اور دوسرا جاگیرداری پر قابو بھی رکھنا چاہتی تھی،لیکن اس کے لئے فائق بھائی کو راضی کرنا ضروری تھا،خیر دودن بعد اماں نے بتایا کہ فائق مان گیا ہے،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page