Princess Became a Prostitute -46- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 46

میں نے ریشماں کو جب رات کو اپنے ساتھ سونے کا کہا تو اس نے کہا وہ جہانگیر سے پوچھے گی،میں سمجھ گئی کہ وہ ایسا کیوں بول رہی ہے،میں ہنس دی اور کہا اچھا پوچھ لینا،اگر اس نے انکار کردیا تو میرے پاس لے آنا میں خود بات کروں گی،ریشماں اور اس کے بھائی گلو کی شادی ایک ساتھ ہی گزشتہ سال ہوئی تھی،لیکن ابھی دونوں کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی،اور نہ ہی اسکے کوئی آثار دکھائی دے رہے تھے،ریشماں شام کو گھر کے کام کرکے چلی گئی کہ وہ جہانگیر سے پوچھ کر بتاتی ہے،رات کے کھانے کے وقت جب ریشماں آئی تو اس کے ساتھ جہانگیر بھی تھا،ریشماں نے مجھے کہا بی بی جی وہ جہانگیرخود آیا ہے آپ سے بات کرنے،میں نے اس کو اندر بلایا اور ریشماں کے سامنے اس سے بات کی،بی بی جی ہم آپ کے گھر کے نمک خوار ہیں،جو حکم کریں بجا لائیں گے،لیکن آپ مالک ہیں،ہم نوکر،بھلا مالک اور نوکر کیسے ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہ سکتے ہیں،آپ بات کو سمجھیں،ریشماں آپ کے ساتھ رات کو نہیں رک سکتی روزانہ،جہانگیر نے میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہا،دیکھو جہانگیر انسان سب برابر ہیں،کوئی چھوٹا بڑا نہیں،ریشماں میری بڑی بہن کی جگہ ہے،اور رہی بات تمھاری کہ روزانہ تو جب تم چاہو رات کو ریشماں سے مل سکتے ہو،مجھے کوئی اعتراض نہیں،لیکن اب رات کو ریشماں یہاں ہی رکے گی،یہ میرا حکم ہے،اس پر جہانگیر نے ریشماں کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کر گردن جھکا کر کہنے لگا،جیسے آپ کا حکم بی بی جی،میں نے جہانگیر کے سامنے ریشماں کو کہا کہ میرے بیڈ روم سے میرا سامان اماں والے بیڈ روم میں منتقل کردو،اور میرا بیڈ روم آج سے تمھارا ہوا،یہ سن کر جہانگیر کے چہرے پر خوشی سی چھا گئی اور اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا بی بی جی سلامت رہیں،پھر جہانگیر چلا گیا،اور ریشماں نے میرا سامان اماں کے بیڈ روم میں منتقل کردیا،رات کا کھانا ہم دونوں نے ایک ساتھ کھایا،پھر باتیں کرتے رہے،ریشماں ایک بھری پری عورت تھی،قد مناسب تھا،رنگت بھی گندی تھی،ممے 38کے اورچوٹر باہر کو نکلے ہوئے تھے،مجموعی طور پر ایک سیکسی اور ہنس مکھ عورت تھی،رشتے میں وہ جہانگیر کی خالہ زاد بھی تھی،اب رات کو بھی ریشماں نے میرے ساتھ سونا شروع کردیا،وہ میرے ساتھ ہی بیڈ پر سو جایا کرتی تھی،کچھ دن میں ریشماں میرے ساتھ کافی کھل گئی اور مجھے اُس نے بتایا کہ وہ جہانگیر کے ساتھ کیسے سیکس کرتی ہے،اماں کے جانے کے بعد اب جا کر مجھے ان باتوں میں دوبارہ دلچسپی پیدا ہونے لگی تھی،وہ بھی ریشماں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے،لیکن ابھی تک میں نے نہ تو ریشماں کو اور نہ ہی ریشماں نے مجھے چھوا تھا،بس ہماری جو بھی بات چیت ہوتی وہ باتوں کی حد تک تھی،کچھ دن بعد ریشماں کو پیریڈزآنے لگے،جب وہ پیریڈز سے فارغ ہوئی تو اس نے مجھ سے اجازت مانگی،کچھ دن جہانگیر کے پاس جانے کی،میں سمجھ گئی اسکی پھدی کولن چاہیے،میں نے اس رات پہلی بار اس کی پھدی پر پیار سے تھپڑ مارتے ہوئے کہا،اس کو جہانگیر کے لوڑے کی ضرورت ہے،تو وہ ہنس دی،اور بولی بی بی جی آپ بھی نہ سمجھا کریں،ہم میاں بیوی ہیں،جہانگیر کو بھی میری ضرورت ہے،میں نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں،اسی لئے تو اس دن تم لوگوں کو اپنا والا بیڈروم دے دیا تھا،جاؤ موج کرو،میری بات سن کر ریشماں شرما گئی،پھر دوسرے دن رات کے کھانے کے بعد جہانگیر سیدھا حویلی آگیا،ریشماں نے را ت کا کھانا میرے ساتھ نہیں کھایا۔بلکہ وہ اپنا ااور جہانگیر کا کھانا لے کر بیڈ روم چلی گئی میں بھی اپنے کمرے میں آگئی،جہاں کبھی اماں ابا سوتے تھے،اب وہاں میں ریشماں کے ساتھ سوتی تھی،اور آج توریشماں بھی نہیں تھی،تو مجھے اکیلا پن محسوس ہو رہا تھا۔اماں کے جانے کے بعد شرفو کا بھی حویلی میں اب آنا جانا نہ ہونے کے برابر تھا،میں آدھی رات تک کروٹیں بدلتی رہی اور نجانے کیا کچھ سوچتی رہی،پھر خیال آیا،اب جہانگیر اور ریشماں کا سیکس پروگرام ختم ہو چکا ہوگا،کیونکہ اس بیڈروم میں دیکھنے کی کوئی جاہ نہیں تھی،بس ایک کھڑکی تھی جو پیچھے باغ میں کھلتی تھی،لیکن رات کو کون جائے وہاں دیکھنے،بس یہ سب سوچ کر ہی میری پھدی نے آنسو بہانے شروع کردئیے،اور کافی عرصے بعد میں نے انگلی سے پانی نکال کر پھدی کو ٹھنڈا کیا،لیکن جس پھدی کو اتنے لوڑے مل چکے ہوں وہ انگلی سے کہاں ٹھنڈی ہوتی ہے،مجھے فائز سے لے کر انکل جمال اور عامر سے لے کر کامران تک سب یا د آئے،دلچاہ رہا تھا کہ کوئی تو آجائے جس سے پھدی کو ٹھنڈا کرواسکوں،خیر کسی نہ کسی طرح نیند آگئی،اور میں سو گئی،دوسرے دن ریشماں بہت کھلی کھلی لگ رہی تھی،جہانگیر صبح سویرے ہی ڈیرے پر چلا گیا تھا،میں نے ناشتے کے دوران ریشماں کو چھیڑتے ہوئے پوچھا،ہاں بھئی سناؤ کیسی گزری رات،جہانگیر نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا،تو اس پر ریشماں نے شرما کر کہا،بی بی جی آپ بھی نہ،میں نے کہا میں بھی نہ کیا،بھئی وہ تمھارا شوہر ہے،اس میں کیا برائی ہے،اور دوسری بات اب تو جہانگیر خوش ہے نہ تمھارے میرے ساتھ سونے پر،تو ریشماں نے کہا جی بہت خوش ہے،میں نے کہا خوش کیوں نہ ہو گا،آخر اس کو تمھاری پھدی جو مل رہی ہے،اس پر ریشماں شرما گئی اور برتن اُٹھا کر کچن میں چلی گئی،میں نے سوچا چلو ذرا باغ کا چکر لگاؤں،اور دیکھوں کیا ہورہا ہے،کیونکہ سردی ختم ہو چکی تھی اور بہار کی آمد تھی تو شرفو نئے پھول پودے لگا رہا تھا۔میں باہر نکلی تو دیکھا شرفو دھوتی پہنے دیوار کی طرف منہ کئے جھک کر کیاریاں بنا رہا ہے،جب میں نے غور کیا تو پیچھے سے شرفو کی دھوتی سے اس کا لن لٹکا ہوا صاف نظر آرہا تھا،بہت دنوں بعد لن دیکھ کر میری پھدی گیلی ہونے لگی،زیادہ قریب جا کر دیکھا تو مرجھائی حالت میں بھی شرفو کا لن کافی بڑا اور موٹا لگ رہا تھا،شرفو کا لن دیکھ کر مجھے اماں یاد آگئی جو اس لن کے مزے لیتی تھی،پھر شرفو سیدھا ہوا،او رپیچھے مڑا تو اس کی نظر مجھ پر پڑی،ارے بی بی جی آپ،آؤ آؤشرفو نے مجھے دیکھ کر کہا،میں نے پوچھا شرفو بابا کیا لگا رہے ہوکیاریوں میں تو شرفو بولا،بی بی جی نئے پھول پودے لگا رہا ہوں،میں نے گھوم پھر کر پورے لان کا جائزہ لیا،اور شرفو کو کچھ ہدایات دیں،مجھے یہ سب کرنا بہت اچھا لگ رہا تھا،کچھ دیر بعد میں اندر آگئی اور پھر گھر کے کاموں کی نگرانی کی،دن کے کھانے پر آج فائق بھائی بھی تھے،میں نے اُن کو ریشماں کے اپنے ساتھ سونے اور جہانگیر کے بارے میں بتایا تو انھوں نے صرف اتنا کہا ٹھیک ہے جیسا تمہیں مناسب لگے،کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتانا،فائق بھائی شروع سے کم گو تھے،اور میرے ساتھ بھی وہ کم ہی بات کرتے تھے،اُن کو گھر کے کاموں سے کوئی خاص لگاؤ بھی نہیں تھا،بس خرچہ جتنا مانگو دے دیا کرتے تھے۔گھر میں کیا ہورہا ہے کون آرہا ہے کون جارہا ہے اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں تھی،وہ کھانے کی میز پر بھی ہفتوں بعد نظر آتے تھے،پہلے تو اماں گھر کے سارے معاملات چلاتی تھی اب یہ سب مجھے دیکھنا پڑتا تھا،رات کو آج پھر جہانگیر آیا اور ریشماں نے اس کے ساتھ رات گزاری،دوسرے دن ریشماں کی حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی،اُسے چلنے میں بہت دقت ہو رہی تھی،اور وہ ٹانگیں گھول کر چل رہی تھی،میں سمجھ گئی کہ رات کو جہانگیر نے ریشماں کی گانڈ بھی ماری ہے،میں نے ریشماں سے پوچھا تو اُس نے میرے خیال کی تصدیق کرد ی،کہ رات جہانگیر نے اُ س گانڈ پھاڑ دی ہے،میں نے پوچھا کیا پہلے کبھی نہیں تم گانڈ مروائی تو ریشماں نے کہا بی بی جی مجھے بہت ڈر لگتا تھا،لیکن رات جہانگیر نے زبردستی میری گانڈ پھاڑدی،وہ تو شادی کے بعد سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا لیکن میں ٹالتی رہی،لیکن کل رات تو جہانگیر نے کوئی لحاظ نہیں کیا اور زیردستی اپنا لوڑا میری گانڈ میں گھسا دیا،میں نے کہا،کیا جہانگیر کا بہت بڑا ہے تو اس پر ریشماں نے کہا کچھ بڑا،نہ پوچھو،گدھے کا لگتا ہے مجھے تو اتنا موٹا اتنا لمبا اُف میں تو سہاگ رات کو بس ایک ہی بار لے پائی پھر ایک ہفتہ جہانگیر سے دور رہی،پتہ نہیں کیا کھا کر اتنا بڑا اور موٹا کر لیا ہے اس نے اپنالن،ریشماں کے منہ سے یہ سب سن کر نیچے میری پھدی نے لن لن پکارنا شروع کردیا اور پانی چھوڑنے لگی،میرا بھی دل کیا کہ جہانگیر کے لوڑے سے اپنی گانڈ اور پھدی کی کھجلی ختم کرواؤں،میں نے ریشماں کو کہا،یار تیرے تو مزے ہیں پھر،جو اتنا مست لوڑا ہے تیرے شوہر کے پاس،دل کھول کر چدوایا کر،بی بی جی وہ سب تو ٹھیک ہے کسے دل نہیں کرتا،لیکن کیا کروں جہانگیر کا لوڑا انسان کا نہیں گدھے کا ہے،اور اوپر سے وہ چودتا بھی جانوروں کی طرح ہے،مجھے مارتا بھی ہے ساتھ ساتھ،اب کیا بتاؤں آپ کو،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page