Princess Became a Prostitute -50- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 50

میں نے فائز سے بات کرنے کا سوچا کہ مجھے شہر جانا ہے،کیا پتہ و ہ فائق بھائی کو منا لے،انکل لوگ رات کا کھانا کھا کر چلے گئے،رات کو میں نے فائز کو اپنے پاس بلایا اور اس سے بات کی،پہلے تو وہ نہیں مانا کہ اتنی جلدی تمھارا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہے لیکن میرے اصرار پر کہ مجھے کچھ دن کے لئے ماحول میں تبدیلی چاہیے وہ مان گیا،اور کہنے لگا میں فائق بھائی سے بات کرتا ہوں،دیکھو کیا ہوتا ہے،اس رات میں نے ریشماں سے پوچھا سارا قصہ کہ میرے اغوا ء ہونے کے بعد کیا ہوا تھا،تو ریشماں نے بتایا کہ بجلی صرف ہماری حویلی کی بند ہوئی تھی وہ بھی ان اغواکاروں نے فیوز کاٹ دیا تھا،ان لوگوں نے کتوں کو بے ہوش کردینے والی دوا کھلائی تھی کھانے میں ملا کر اور حویلی کے چوکیداروں کو بھی کلوروفام سنگھا کر بے ہوش کرکے وہ اندر داخل ہوئے،مجھے اُٹھانے کے دروان انھوں نے ریشماں کو بھی رومال سنگھا کر بے ہوش کردیا تھا،ان سب کو دوسرے دن اس وقت ہوش آیا،جب فائق بھائی ڈیرے سے گھر آئے تو حویلی کا مین دروازہ صرف بھڑا ہوا تھا اور اندر سب لوگ بے ہوش تھے، انھوں نے پہلے زنان خانے میں جا کر دیکھا اور مجھے نہ پا کر سمجھ گئے کہ کیا واردات ہو چکی ہے،پھر فائق بھائی نے چوکیداروں اور ملازمین کو پانی ڈال کر ہوش دلایا،اور ریشماں نے ہوش میں آکر اندر کی ساری واردات سنائی،جبکہ باہر والوں کو صرف اتنا پتہ تھا کہ کسی نے ان کی ناک پر کوئی کپڑا یا رومال رکھا اور پھر ا ن کو ہوش نہ رہا،پھرفائز کو فون کر کے شہر سے بلایا گیا،اور پولیس کو خبر کی گئی،گاؤں کے چوکیدار سے جب پوچھا گیا تو اس نے اتنا بتایا کہ ایک بڑی سی لینڈ کروزر جس کا رنگ کالا تھا،اس رات گاؤں میں دیکھی گئی،چونکہ بارش ہو رہی تھی اس لئے ٹائروں کے نشان ملنے کا بھی کوئی امکان نہ تھا،پوری فول پروف پلاننگ کی تھی شاہد نے،اگر بائی جی میرے ابا کی احسان مند نہ ہوتی تو آج میں بازار حسن میں ایک کال گرل بن کر رہ چکی ہوتی،دوسرے دن ناشتے پر فائق بھائی سے فائز نے بات کی،تو انھوں نے منع کردیا،کہ اب یہ کہیں نہیں جائے گی،پہلے ہی بہت بدنامی ہوچکی ہے،جو لوگ حویلی سے آکر اس کو اغواء کرسکتے ہیں ان کا کیا پتہ وہ شہر سے ہی اس کوغائب کردیں،تم تو سارا دن یونیورسٹی میں ہوتے ہو،پیچھے اس کی نگرانی کون کرے گا،فائق بھائی کی بات سن کر ہم دونوں کا منہ اتر گیا،اور پھر اسی دن فائز واپس چلا گیا،اور میں حویلی کے زنان خانے میں قید ہو کر رہ گئی،دن ایسے ہی گزرنے لگے،رات کو ریشماں کے ساتھ کچھ مستی ہو جاتی تھی،ورنہ باقی زندگی بور گزر رہی تھی،ساون گزر گیا،گرمی کا موسم بھی اپنے اختتام کو تھا،فائق بھائی کی وہی پرانی روٹین جاری تھی،جہانگیرکا آنا بھی بند ہو گیا تھا کیونکہ زنان خانہ سر شام ہی بند ہو جاتا تھا،اس لئے جب ریشماں کو جہانگیر سے ملنا ہوتا تو وہ کچھ راتیں حویلی کی بجائے اپنے گھر گزارتی تھی،سردی شروع ہو چکی تھی،دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہو رہی تھیں ،فائز بھی جب سے گیا تھا واپس نہ آیا،میں نے ایک دن فائز کو فون کیا،اور ہم نے کافی دیر بات کی،فائز بھی چاہ رہا تھا کہ میں شہر آجاؤں،لیکن فائق بھائی کے آگے کون بولے،میں نے باتوں باتوں میں فائز سے عینی کا پوچھا کہنا لگا ٹھیک ہے اور تمہیں سب یاد کرتے ہیں،عینی،کامران،سائرہ اور جاوید،میں نے فائز کو کہا کہ مجھے عینی کا نمبرہی دے دو،کم از کم اس سے بات کرکے وقت گزار لیا کروں،فائز نے جھٹ سے نمبر دے دیا،پھر کچھ دیر ہم نے باتیں کیں اور اس کے بعد میں عینی کا نمبر ملایا تو اس کی امی نے اُٹھایا،وہ مجھے جانتی تھیں،سب سے پہلے انھوں نے میری اماں کی تعزیت کی اور کہنے لگیں عینی گھر پر نہیں ہے،میں تمھارا پیغام دے دوں گی،شام کو دوبارہ میں نے کال کی تو عینی نے اُٹھا لی،میری آواز سن کر بولی،کمینی کب سے تمہیں یاد کررہی ہوں،کہاں ہو آئی کیوں نہیں،اوہ ہاں تمھاری امی کا سنا تھا،بہت افسوس ہوا،پھر میں نے عینی کو ساری کہانی سنائی،میری بات سن کر وہ بولی،شاہد کے ساتھ فائز کی تو بات چیت نہیں ہوئی اس رات کے بعد،ہاں مجھ سے شاہد ملتا رہتا ہے،لیکن ابھی تک اس نے ایسی کوئی بات نہیں کی یونیورسٹی میں،پچھلے چند دنوں سے پریشان ضرور ہے،لیکن بتاتا نہیں کہ کیا پریشانی ہے،اب سمجھی ا سکو کیا پریشانی ہے،شاید اس کو اختر بائی نے ڈرا دیا ہے کہ اگر اس نے زبان کھولی تو اس کے خاندان کے پول کھول دی گی وہ،تم گکر نہ کرو،اگر ایسی ویسی کوئی بات ہوئی تو میں سنبھال لوں گی،تم یہ بتاؤ کب آرہی ہو،ہم سب تمہیں بہت یاد کررہے ہیں،میں نے اپنی مجبوری بتائی تو کہنے لگی،میں فائز سے مل کر کوئی حل نکالتی ہوں اس کا،ہم نے کافی دیر بات کی،میرے اندر کا بوجھل پن ختم ہو گیا عینی سے بات کرکے،اب کافی سرد موسم ہو چکا تھا،تو ریشماں کے ساتھ میری مستیاں خوب ہوتی تھیں،بیچ میں جب ریشماں کچھ راتیں اپنے گھر جاتی تو اکیلے میں سونا محال ہوتا میرا،میں جی بھر کر شاہد کو گالیاں دیتی کہ اگر وہ حرامی کا بچہ یہ سب نہ کرتا تو آج میں یوں اپنے ہی گھر قید نہ ہوتی،دسمبر کی چھٹیاں شروع ہوئیں تو فائز نے مجھے فون کیا،میں نے اس کو گھر آنے کا کہا تو وہ کہنے لگا میں نہیں آؤں گا میرا آخری سال ہے پڑھائی کا تو چھٹیوں میں بھی کیمپ لگے گا،اس لئے میں فائق بھائی سے کہہ کر تمہیں چھٹیوں میں بلا لیتا ہوں،میں خوش ہوگئی چلو کوئی تو اُمید بنی میرے باہر نکلنے کی،شاہد والے واقعے کو گزرے تقریباً دو ماہ ہو چکے تھے،دوسرے دن ناشتے پر فائق بھائی نے مجھے کہا کہ سیما تیار ہوجاؤ تمہیں شہر جانا ہے فائز کے پاس کچھ دن کے لئے،میں خود چھوڑ کر آؤں گا،میں نے کہا جی بھائی،پھر میں نے اپنا بیگ تیار کیا اور فائق بھائی کے ساتھ گھر سے نکلی،آج کافی دن بعد گھر کا لان دیکھا تو بہت اچھا لگا،پہلے جب بھی میں شہر جاتی تھی فائق بھائی کے ساتھ تو صر ف ایک ہی گاڑی ہوتی تھی،جس میں ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ ہم دونوں ہوتے تھے،لیکن آج ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ ایک اور جیپ بھی تھی جس میں چار گارڈ بیٹھے تھے،ہم بعد دوپہر شہر پہنچے،فائز نے جو گھر لیا تھا میں اس میں پہلی بارآئی تھی،یہ کوٹھی نما گھر تھا،جس کے پہلی منزل پر فائز نے کسی فیملی کو کرائے پر رکھا ہوا تھا،بوڑھے میاں بیوی تھے جن کے بچے ملک سے باہر تھے۔اپنی ایک ادھیڑ عمر ملازمہ کے ساتھ رہتے تھے،نیچے کا پورا حصہ فائز کے زیر استعمال تھا،تین بیڈ روم،لاؤنج،ڈرائینگ روم،کچن،باتھ اور چھوٹا سا لان تھا،گھر کے میں دروازے کے پاس ایک کمرہ بنا ہوا تھا جہاں سیکیورٹی گارڈز ہر وقت موجود رہتے تھے،دروازہ کسی حویلی کی بڑی سی پھاٹک کی طرح تھا،اور دیواریں بھی کافی اُونچی تھیں جب پر خار دار تار لگی ہوئی تھی اور رات کو ان تاروں میں کرنٹ دوڑتا تھا،بہت سخت انتظام کیا گیا تھا،فائق بھائی نے اس بار مجھے صرف دروازے پر ہی نہیں چھوڑا،بلکہ اندر آئے اور فائز کو کہا کہ اس کی حفاظت کرنا،اور کہیں بھی جاؤ تو سیکیورٹی گارڈز کو ساتھ لے جانا،او ر بھی کافی ہدایات دیں،فائز نے اس گھر میں کھانا بنانے کے لئے ایک کک رکھا ہوا تھا،جس نے ہمارے لئے کھانا بنایا،پھر فائق بھائی کھانا کھا کر چلے گئے،فائز نے مجھے سارا گھر دکھایا،اور سیکیورٹی کے متعلق بتایا،میں سفر کی وجہ سے تھک گئی تھی تو سو گئی،شام کو چائے پر فائز نے جگایا،ہم نے چائے پی،پھر فائز نے بتایاکہ اس نے عینی،کامران،سائرہ اور جاوید کو بھی آج رات دعوت دی ہے کھانے کی،میں نے کہا لیکن یہاں تو اب تمھارا کک اور سیکیورٹی گارڈز بھی ہیں،ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے کریں گے تو فائز نے بتایا کہ کک رات کا کھانا بناکر چلا جاتا ہے اور صبح ناشتے کے وقت آتا ہے،جبکہ سیکیورٹی گارڈز بھی باہر اپنے کمرے یا رات کو بلڈ نگ کے اردگرد ہوتے ہیں،اور اُوپر جو کرائے دار ہیں وہ جلدی سو جاتے ہیں،نیچے میں اکیلا ہوتا ہوں،کئی بار عینی اور سائرہ لوگ آچکے ہیں،کوئی مسئلہ نہیں یہاں،تم اچھی سے تیار ہو جاؤ،میں نے واش روم جا کر اپنی صفائی کی،اور نہا کر دوسرے کپڑے پہن لئے کیونکہ ابھی شام تھی اور کک گھر پر ہی تھا،پھر رات تک ہم لوگوں نے ٹی وی دیکھا اور رات کھا کھانا بنا کر کک چلا گیا،کک ایک ادھیڑ عمر شخص تھا،کھانا بہت اچھا بناتا تھا،رات 9بجے کے قریب سب لوگ آگئے،میں سب کے گلے ملی،کامران نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا،جبکہ عینی کو فائز اور جاوید نے سائرہ کو اپنے پہلو میں لے لیا،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page