Princess Became a Prostitute -58- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 58

میں نے پیشاب وغیر ہ کرکے اپنا لباس اُتارا اور وہ نائٹی پہن لی،جو آگے سے کھلی تھی اور نیچے میری تھائی تک ہی آرہی تھی،اس کے نیچے میری ٹانگیں ننگی تھیں،نائٹی سلیو لیس ہونے کی وجہ سے میرے بازو بھی کندھے سے نیچے ننگے تھے اور سامنے سے میری پینٹی اور برا صاف نظر آرہے تھے،نائٹی کے درمیان میں ایک بیلٹ لگی تھی جس سے نائٹی کو باندھ کر آگے کا جسم چھپایا جا سکتا تھا،میں نے بیلٹ باندھی اور واش روم سے باہر نکل آئی تاہم اپنے چہرے پر نقاب لگانا نہیں بھولی،باہر نکلی تو ارشاد صوفے پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا سامنے رکھی میز پر شراب کی بوتل،برف اور کچھ نمکو وغیرہ پڑے تھے،ساتھ میں دو گلاس رکھے تھے،مجھے دیکھ کر ارشاد نے کہا واہ کیا بات ہے اس نائٹی میں تو تمھارا جسم اور بھی زیادہ سیکسی لگ رہا ہے،آؤ میری رانی تمہیں جام صحت پلائیں،ایسی بات نہیں تھی کہ سگریٹ اور شراب میرے لئے نئے تھے،یا اس سے پہلے یہ سب میں نہیں پی چکی تھی،لیکن اس طرح ایک اجنبی کے ساتھ یوں شراب اور سگریٹ پینا میرے لئے مشکل ہورہا تھا،لیکن پھر خیال آیا کہ جب اس فیلڈ میں قدم رکھ ہی دیا ہے تو یہ سب تو اب کرنا ہی ہوگا میں بھی ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ساتھ صوفے پر جا بیٹھی،ارشاد نے مجھے پہلی بار چھوتے ہوئے اپنی طرف کھینچ لیا اور مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا،اب پوزیشن یہ تھی کہ میں ارشاد کی گود میں ایسے بیٹھی تھی کہ میرے جسم کا دائیں حصہ اس کے سینے سے لگا ہوا تھا اور میرا چہرہ اسکے چہرے سے ٹکرا رہا تھا،اور ارشا دکا ایک ہاتھ میرے مموں پر آگیا اور،دوسرا ہاتھ اس نے میرے گرد گھوما کر مجھے اپنی گود میں کھسا ہوا تھا،جان من اب جام بھی بنا دو یا میں خود ہی تکلیف کروں،میں نے مسکرا کراس کی جانب دیکھا،وہ سمجھ گیا،اس نے میرے ممے چھوڑ کر میز پر رکھی بوتل اٹھائی اور مجھے دی ساتھ ہی ایک گلاس بھی اپنے ہاتھ میں اٹھالیا میں نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور گلاس میں شراب ڈالنے لگی،جب آدھا گلاس بھر گیاتو اس نے کہا بس،پھر اس نے مجھے گلاس میں برف ڈالنے کو کہااور ساتھ رکھی سوڈے کی بوتل سے سوڈا بھی،میں نے گلاس میں برف ڈالی اور تھوڑا سا سوڈا ڈال کر گلاس اس کے ہاتھوں سے لے لیا اور پھر اس کو ارشاد کے ہونٹوں سے لگا دیا،ارشاد یہ دیکھ کر مسکرایا اور اپنے ہونٹ وا کردئیے،میں نے ارشاد کو شراب پلانی شروع کردی،دو گھونٹ لے کر اس نے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا اور اس کو میرے ہونٹوں کیجانب کیا،میں نے ہونٹ کھولے دئیے اور وہ مجھے شراب پلانے لگا،نیچے اب مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اس کا لوڑا انگڑائی لے کر جاگنا شروع ہوگیا ہے،میری پھدی بھی پانی چھوڑنے لگی تھی،ہم دونوں نے ایسے ہی ایک دوسرے کو شراب پلائی،اسی دوران کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی،میں ارشاد کی گودسے اٹھنے لگی لیکن اس نے ہاتھ کا دباؤ ڈال کر مجھے اٹھنے سے روک دیا،اور بولاآجاؤ،دروازہ کھلا اور وہی ملازم ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لے کر اندر داخل ہوا،میں اسی دوران ارشاد کی گود میں ہی بیٹھی ہوئی تھی،مجھے ملازم کے سامنے شرمندگی ہورہی تھی،ایسے اس کے مالک کی گود میں بیٹھنے پر لیکن مجبور تھی،ملازم نے کھانے کاسامان میز پر لا کر رکھ دیا اور ایک نظر میری جانب ڈال کر ایک طرف ہو کر کھڑا ہوگیا،ٹھیک ہے تم جاؤ،ارشاد نے کہا،پھرملازم باہر چلا گیا،پھر ارشاد نے مجھے اپنی گود میں ہی بٹھائے کھانا شروع کرنا کا کہا،کھانے میں مٹن کڑاہی،کباب،نان اور کھیر تھی،جو یقینا کسی قریبی ہوٹل سے منگوایا گیاتھا،میں نے کباب اٹھا کر ارشاد کے ہونٹوں کی جانب بڑھایا تو اس نے بجائے کھانے کے کباب کو اپنے ہونٹوں اور دانتوں کے درمیان دبا لیا اور اپنے ہاتھ کو میرے سر کے پیچھے رکھ کر آگئے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کیجانب کئے،میں سمجھ گئی یہ کیا چاہتا ہے،میں نے بھی اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں میں دبے کباب سے لگا دئیے اور آدھا کباب کھانے لگی جبکہ باقی آدھا ارشاد نے کھا لیا،اور میرے ہونٹ چوم لئے،اف کیا بتاؤں ہلکی پھلکی مستیوں سے میری چوت پانی بہائے جارہی تھی اور نیچے ارشاد کا لوڑا بھی فل کھڑا ہوچکا تھا،جو چڈے کے اندر ہی کافی موٹا او ر بڑا لگ رہا تھا،انہی مستیوں کے بیچ ہم نے کھانا ختم کیا،پھر ایک جام شراب کا پیا،جب ارشاد کھانے کے بعد سگریٹ پینے لگا تو میں نے اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر خود جلائی اور پہلے ایک دو کش لے کرسگریٹ کو اس کے ہونٹوں سے لگا دیااور وہ بھی ایسے ہی سگریٹ پینے لگا،آہستہ آہستہ میری جھجک دور ہوتی جارہی تھی اور میں کھل کر انجوائے کرنے لگی تھی،ارشاد نے اب مجھے کھڑا کیا،اور بولنے لگا،چلو باہر ذرا سی واک کرکے آتے ہیں،پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا،جہاں وہی ملازم کچن کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا،ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس آیا تو ارشاد نے اسکو کیا کہ کھانے کے برتن اٹھادے،وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا اورہم دونوں فارم میں گھومنے لگے،جگہ جگہ لائٹس لگی ہونے کی وجہ سے بہت روشنی تھی اور ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی،اپنی عمر سے کئی گنا دوگنے سانڈ جیسے مرد کے ساتھ جو میرے لئے اجنبی تھا،کے ساتھ یوں اس کے فارم ہاؤس میں گھومتے مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا،میں جو ایک جاگیردار گھرانے کی اکلوتی لڑکی تھی محض اپنے جسم کی آگ اور شوق کے طور پراس کھیل میں شامل ہو چکی تھی،نجانے میرا انجام کیاہونا تھا،لیکن فی الحال میں یہ سب بھول کر ان لمحات کو انجوائے کررہی تھی،مزے کی بات ہے کہ ابھی تک میرے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا تھا،ارشاد بھی خاموش تھا بس ہم دونوں ہاتھوں میں ہاتھ دئیے کسی پریمی جوڑے کی طرح فارم ہاؤس گھوم رہے تھے،پورا فارم ہاؤس گھومنے کے بعد ارشاد نے مجھے ایک لکڑی کی کرسی پر جو کہ وہاں رکھی ہوئی تھیں پر بیٹھنے کو کہا،جیسے ہی میں بیٹھنے لگی تو ارشاد نے مجھے ایک بار پھر سے اپنی گود میں بٹھا لیا،لیکن اس بار میرا پورا سینہ اس کے سینے سے لگا ہوا تھا اور میری ٹانگیں اس کی ٹانگوں کے اوپر دائیں بائیں کو کر کرسی کی سائیڈوں سے نکلی ہوئی تھیں،ارشاد کا لوڑا جو واک کے دوران بیٹھ چکا تھا ایک بار پھر سے پھن اٹھانے لگا تھا اور میری چوت بھی اپنے آنسو بہا نے لگی،ارشاد نے اپنے ہاتھ سے میری نائٹی کی بیلٹ کھول جس سے میرا آگئے کا پورا جسم ننگا ہو گیا اور میری برا اور پینٹی جو پہلے اتنی نمایاں نہیں ہورہی تھیں اب صاف نظر آنے لگ گئیں تھیں،یوں کھلے میں یہ سب کرتے میں ایک بار پھر سے جھجک ہونے لگی،اور میں نے نائٹی کی بیلٹ پکڑ کر باندھنا چاہی لیکن ارشاد نے میری ایک نہ چلنے دی اور میرے چوٹر وں کو اوپر اٹھا کر نیچے پھنسی ہوئی میری نائٹی کو نکال کر ایک طرف نیچے گھاس پر پھینک دیا،اب میں اس کے سامنے صرف پینٹی اور برا تھی،ارشاد نے دیر نہ کرتے ہوئے میرے ساتھ کے پیچھے ہاتھ رکھ کر میرے ہونٹ اپنے ہونٹو ں کے ساتھ جوڑے اور کسنگ کرنے لگا،میں بھی یوں کھلے میں یہ سب کرنے کی جھجک بھلا کر اس کا ساتھ دینے لگی اور اپنے ہونٹ کھول دئیے ارشاد کی زبان میں میرے میں گھس گئی اور میں اس کی زبان چوسنے لگی،پھر میں نے بھی اپنی زبان کو اس کے منہ میں ڈال دیا،جس کو وہ چوسنے لگا ہم لو گ ایسے ہی کسنگ کرتے رہے پھر ارشاد نے ہاتھ میری کمر پر لے جا کر میری برا کا ہک کھول دیا اوربرا کو میرے جسم سے الگ کرکے نائٹی کے اوپر پھینک دیا،میرے ممے آزاد کرتے ہی ارشاد نے مجھے کھڑا کیا اور اپنا منہ میرے مموں کی جانب لا کر ان کو چومنے لگا۔کبھی ایک مما تو کبھی دوسرا ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ پینٹی کے اوپر سے ہی میری چوت کو سہلانے لگا،جیسے ہی ارشاد کاکی انگلیاں میری پھدی پر چلنا شروع ہوئیں میں نے بھی اپنا ہاتھ آگئے کرکے چڈے کے اوپر تمبو بنے اس کے لوڑے کو پکڑ لیا،اور مٹھ مارنے لگی،میرا ایسے کرنے پر ارشاد تو گویا جھوم ہی اُٹھا،اور اس نے میرا نپل منہ سے نکال کر کہا،میری رانی کو مزہ آرہا ہے،میں نے اپنا سراثبات میں ہلا دیا،اسکو باہر نکال کر پیار کر و،میں نے ارشاد کے چڈے کا ناڑا کھولا تو ارشاد نے خود ہی اوپر اٹھ کر اپنا چڈا اتار کر نیچے پھینک دیا،اب ارشاد پورا ننگا تھا،اف میں مر گئی،ارشاد کا لن تھا یا کسی گھوڑے کا لوڑا،اسی کی طرح کالا موٹا اور لمبا،کم از کم زیادہ نہیں تو ایک فٹ کے قریب تو ہوگا ہی،اور موٹا بھی چار انچ سے کم نہیں تھا،جیسا لوڑا تھا ویسی ہی ٹوپی جس کو ٹوپا کہنا زیادہ مناسب ہوگا،ایک دم پھولی ہوئی کسی ناگ کے پھن کی طرح گرم لوڑا،میں نے دل ہی دل میں سوچا،سیما آج تو تیری چوت اور گانڈ کا ستیاناس ہونے والاہے،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page